اپنے آپ سے لڑنے کا ہنر

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تعلیم و تربیت

کہا جاتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے ایک انسان کو تین بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے روٹی، کپڑا اور مکان۔
لیکن بات جب حقیقی زندگی اور بھرپور زندگی جینے کی ہو تو ایک انسان کی ضرورتیں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں، ان تین جسمانی ضرورتوں کے علاوہ – جنھیں بنیادی ضرورت کہا جاتا ہے – دیگر روحانی و معنوی ضرورتیں زیادہ اہم ہوجاتی ہیں۔
زندگی انفرادی ہو کہ اجتماعی، سماجی ہو کہ معاشی و معاشرتی، جب ایک کامیاب زندگی کا خواب دیکھا جائے تو اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایک انسان کو جن ہتھیاروں سے لیس ہونے اور جن صلاحیتوں سے خود کو آراستہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک اہم صلاحیت ہے اپنے آپ سے لڑنے کا ہنر اور فن۔
اپنے آپ سے لڑنے کے اس ہنر کا خاصہ و خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کے اپنے نفس میں ایک عدالت قائم ہے جہاں اسے خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑتا ہے اور انفرادی یا معاشرتی زندگی کے مختلف میدان و معاملات میں خود کے صحیح کردار کو متعین کرنے کے سلسلے میں فیصلے لینے پڑتے ہیں۔
ایک عام انسان کے لیے یہ فیصلہ بہت آسان ہوتا ہے۔
جو من میں سمایا وہی کر گزرا۔
جدھر سینگ سمائے دوڑ پڑا۔
دل نے جو چاہا وہی مقصودِ نظر بن گیا۔
دماغ نے جو سجھایا وہی عین تقاضہ حکمت قرار پایا۔
لیکن ایک باشعور انسان اور ایمانی زندگی جینے والے مسلمان کے لیے فیصلہ لینے کا یہ معاملہ بسا اوقات کسی معرکہ سے کم نہیں ہوتا۔
طرح طرح کے خیالات، ترغیبات اور ترجیحات۔
نفع و نقصان کے الگ الگ زاویے۔
صحیح و غلط کے ان گنت پیمانے۔
سماج میں ایک ہی حقیقت سے متعلق پائے جانے والے متعدد و متضاد تصورات، جن میں سے ایک کی رعایت کرے تو دس کی مخالفت لازم آئے۔
دل و دماغ کے دو متضاد رخ اور ان کی باہم کشمکش۔۔۔۔
مفادات کا جنگل۔۔۔
مصلحتوں کا چنگل۔۔۔
سب سے بڑھ کر انسان کا خود غرض نفس۔۔۔
ان سب کے بیچ شرعا و عقلا ایک صحیح موقف کی تلاش و جستجو اور اس کے ادراک کے ساتھ ہی اس کو مضبوطی سے تھام لینے اور اس پر ڈٹے رہنے کا فریضہ نبھانا واقعتا ایک معرکہ ہے۔
اس چکر میں نہ جانے ایک انسان پر کیا کچھ گزرتی ہے اور کن کن وادیوں سے ہوکر اسے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اکثر منزل کی جستجو سے زیادہ سفر مشکل ہوجاتا ہے۔
تاہم اسی دورانِ سفر انسان کو خود سے اور خود کے وقتی اور مادی مفادات سے لڑنے کا ہنر آنا چاہیے۔
یہیں سے ایک انسان کے عظیم انسان بننے کا سفر شروع ہوتا ہے، یہیں سے ایک عام انسان کے ایک اچھے اور کامیاب مسلمان بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔
شرعا اور عقلا طے پائے صحیح اور غلط کے پیمانے پر کھرا اترنے کے لیے خود سے لڑنا اور خود کے مفادات سے جنگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
کتنے ایسے جی دار ہیں جو اپنے مد مقابل کو منٹوں میں چت کردیتے ہیں، اپنے حریف کو لمحوں میں دھول چٹادیتے ہیں مگر خود سے لڑنے کا مقام آئے تو اکثر خود سے ہار جاتے ہیں۔۔۔
کبھی حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔۔۔
کبھی دل ہار جاتے ہیں۔۔۔۔۔
کبھی خود سے آنکھیں چرالیتے ہیں۔۔۔
کبھی اپنے ضمیر کو تھپکی دے کر سلادیتے ہیں۔۔۔
کبھی سماج کے خود ساختہ اصولوں اور پیمانوں کے چکر میں خود چکر کھانے لگتے ہیں۔۔۔
اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ خود سے لڑنے کا حوصلہ نہیں جٹا پاتے مگر جیتنے کی آرزو بھی شدید ہوتی ہے تو ایسے میں نفس ایک نئی راہ دکھلاتا ہے۔ انسان پھر جیت کا ایک نیا پیمانہ طے کرلیتا ہے، خودساختہ پیمانہ، خود کا ایک سانچہ تراش لیتا ہے جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو۔
حق وہی جو میری زبانِ حق ترجمان سے نکلے
عدل وہی جو میرے حکیمانہ فرمان پر پورا اترے
اور اس نئے خودساختہ پیمانے یا سانچے کی مدد سے خود کو کامیاب بھی قرار دے لیتا ہے گویا۔ ع
رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
یہ زندگی کا ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم اکثر ایسے ہی خودساختہ پیمانوں کے بل پر “جیتتے” ہیں اور جیت کے اسی دھوکے میں جیتے اور مسلسل ہارتے چلے جاتے ہیں۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود کی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک انسان کے لیے خود کو اپنے آپ سے لڑنے کا ہنر سکھلانا شیرخوار بچے سے دودھ چھڑانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے مگر ایک کامیاب اور حقیقت پسندانہ زندگی جینے کے لیے یہ پہل ضروری ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت اور جہاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا: (ابدأ بنفسك فجاهدها) آغاز اپنے نفس سے کرو، خود سے لڑو۔ (مسند أبودواد طیالسی)
انسانی زندگی میں یہ فن اور ہنر بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان کی خود سے جیت دوسروں کے دل و دماغ کو جیتنے کی پہلی سیڑھی اور معرکہ حیات میں انتہائی کارآمد ہتھیار ہے جس سے ہر انسان کو لیس ہونا چاہیے۔
اپنے آپ سے لڑنے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے، خود کو ہرا کر خود جیت جانے کا ایک عجیب لطف ہے، ایک اندرونی دنیا ہے جس میں ہار جیت کا یہ سلسلہ ایک الگ حیویت اور زندگی کا احساس جگاتا ہے، یہ اسی قدر حیرت انگیز اور پر لطف ہے جس قدر سمندر کی تاحدِ نظر پھیلی آبی سطح سے زیادہ درونِ سمندر کی دنیا، جہاں ایک نیا جہاں آباد ہوتا ہے اور ایک الگ ہی سماں بندھا رہتا ہے۔ جو اس قدر خوبصورت ہے کہ ایک غوطہ خور بارہا جان لیوا خطرات سے دوچار ہونے کے باوجود غوطہ خوری سے باز نہیں آتا۔
یہی حقیقی زندگی ہے، کشمکش سے بھری یہی اندرونی زندگی جینے کا نام بھرپور زندگی ہے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
سمیر احمد

استاد محترم کے مضمون پر تبصرہ کرنے سے زیادہ بہتر ہیکہ سنجیدگی سے اس پر غور کریں اور نفس کے سدھار کی پہل کریں..جزاکم اللہ خیرا شیخنا

ارشادالحق روشاد

فونٹ چینج کر دیا گیا؟؟
پہلے جس فونٹ میں تھا وہ خوبصورت جاذبِ نظر اور زیادہ واضح تھا۔۔۔

rasheedsalafi321@gmail.com

ماشاءاللہ
شیخ بہت عمدہ تحریر ہے بہت ہی بامقصد،ایک بہت کار آمد چیز کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے آپ نے،خود سے لڑنے کے داؤ پیچ سکھائے ہیں،زندگی کے ایک اہم معرکے کیلئے اصول وضابطے بیان فرمایے ہیں۔

عاصم أفضال

جزاکم اللہ خیرا
تجربات و مشاہدات پر مبنی سبق آموز تحریر، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے آمین