كلّكم راعٍ وكلّكم مَسْؤولٌ عن رعيَّتِه

فیروز احمد بلرام پوری معاملات

پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا، امام نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ (صحيح البخاري۔ كتاب الجمعة۔ باب الجمعة في القري والمدن: ح۸۹۳)
حدیث میں مذکور لفظ ’راعی‘کے معنی قابل اعتماد، محافظ، نگراں، ذمہ دار وغیرہ ہیں، اسی طرح راعی ہر اس شخص کو کہتے ہیں، جسے کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری عطا کی جائے اور وہ اس کی ہر ممکن حفاظت و رعایت کے ساتھ ساتھ اسے ہر قسم کے مفاسد و نقصانات سے محفوظ رکھے۔
مذکورہ بالا حدیث کی ابتدا میں حکم عام ہے، پھر خاص، پھر بیان تاکید کے لیے عام ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرمان نبویﷺ عام خاص سب کو شامل ہے، کوئی بھی مسلمان عاقل بالغ شخص حدیث کے عمومی حکم سے مستثنی نہیں ہے، تمام افراد خانہ و دیگر ذمہ داران و محافظین اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کی ادائیگی کے عقد سے مربوط ہیں، ان سے ان کی ذمہ داریوں کے بارے ميں سوال ہوگا، البتہ ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی اوروں سے قدرے مختلف ہوتی ہیں، پس جس کی ذمہ داری جس قدر اہم اور مہتم بالشان ہے، اسی کے بقدر وہ عند اللہ مسؤول و ماجور ہے، پس رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی روشنی میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ادائیگی اور مسئولیت کی فکر ہونی چاہیے، تاکہ روز قیامت ناکامی و نامرادی سے بچا جاسکے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے۔ آمین
✺ امام ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔
لفظ ’امام‘رہنما، قائد، پیشوا، سربراہ، خلیفۃ المسلمین، فوج کا کمانڈر وغیرہ کے معنی میں مستعمل ہے۔ یہ بات جاننے کی ہے کہ عہدہ و منصب رعیت و ذمہ داری رب العزت کی طرف سے عطا کردہ ہے، پس اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو سرکاری و غیر سرکاری محکموں، مسجدوں، مدرسوں، دینی و رفاہی اداروں و تنظیموں سینٹروں یا گاؤں، بستی، قصبہ، ضلع، صوبہ، ملک کا حاکم و امام یا رعیت و مسئولیت کی کسی نوعیت سے نوازا ہو، تو اس پر واجب و ضروری ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی نیز دینی و معاشی اور تمام تر ترقیاتی امور کے لیے ہر ممکن کوشاں رہے، رعایا اور ان کی تمام تر ضروریات جو اس کی ذات اور اس کی ذمہ داریوں سے ملحق ہیں، ان تمام امور میں ان کے درمیان عدل و مساوات سے کام لے اور حدیث رسولﷺ کے فرمان کے بموجب اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسؤولیت کا فکرمند رہے۔
✺ آدمی اپنی فیملی کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔
دنیا میں ذمہ دارانہ زندگی مسلمانوں کی امتیازی خصوصیت ہے، کیونکہ گھر خاندان معاشرہ سماج سوسائٹی کے لوگوں کی اصلاح میں ان کی جد وجہد کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، اگر ان میں دینی بیداری اور شرعی افہام وتفہیم کا شعور نہ ہو تو اصلاحات ناممکن ہیں، اسی اہمیت کے پیش نظر رب تعالی نے اصلاح خودی کے ساتھ ساتھ افراد خانہ و خاندان کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جنیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔‘‘(التحریم:۶)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب تمھاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انھیں اس پر (یعنی نماز چھوڑنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو۔ (سنن أبي داؤود :۴۹۵)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قانون رہا ہے کہ اس نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے اور دنیا و آخرت کی صحیح رہنمائی کے لیے مردوں میں سے ہی انبیاء علیہم السلام کو منتخب فرماکر انیںپ تاج نبوت سے سرفراز فرمایا ہے، اسی طرح کتاب وسنت میں اکثر مقامات پر صیغہ مذکر ہی سے امت کو مخاطب کیا گیا ہے، ان تمام باتوں سے مردوں کی ذمہ داریاں دو بالا ہوتی ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو بحیثیت باپ، دادا، چچا، شوہر، بھائی، بیٹا، پوتا غرضیکہ تمام رشتہ داروں اعزہ و اقارب کو اپنی ذمہ داری کی فکر ہونی چاہیے، اس لیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ضروری ہے کہ خود عملی زندگی میں کتاب و سنت کو نافذ کریں اور اپنے ماتحتوں بال بچوں کو بھی پابندئ شریعت کا حکم دیتے رہیں، ان کے لیے حلال روزی، تعلیم وتربیت، کھانے پینے، رہنے سہنے، اوڑھنے پہننے کا معقول انتظام کریں، ان کی صحت کا خیال رکھیں، وقت کی قدر و قیمت ذہن نشین کرائیں، ممکنہ حد تک ان کی آخرت کو سنوارنے میں لگے رہیں، اگرچہ اس کے لیے کتنی ہی پریشانیوں تکلیفوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، ان تمام امور کی انجام دہی کا مقصد خوشنودی رب کا حصول، اسلام و مسلمانوں کی ترقی ہو۔
✺ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔
دین اسلام مسلمان عورتوں کو وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے، جن سے دوسرے مذاہب قاصر ہیں، ساتھ ہی انھیں گھر کی چہار دیواری کے اندر چند ذمہ داریوں سے بھی نوازتا ہے، مثلا عورت پر واجب ہے کہ شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کرے، اس کو خوش رکھے، اس کی خدمت کرے، اس کی تمام جائز خواہشات و ضروریات کا خیال رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے، تو اسے فورا آنا چاہیے، اگرچہ وہ تنور پر ہو۔‘‘ (سنن ترمذی:۱۱۶۰)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میں کسی شخص کو کسی شخص کے سجدے کا حکم نہیں دے رہا ہوں، اگر میں کسی کو کسی کے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘(سنن ترمذی :۱۱۵۹۔ السلسلة الصحيحة:۳۴۹۰)
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جو عورت اس حال میں انتقال کرتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔‘‘ (رواہ الترمذی :۱۱۶۱ وقال حسن وصححه الحاكم وغيره)
اسی طرح عورت شوہر کی امانت ہے، لہذا اس کی عدم موجودگی میں عفت و عصمت پاکدامنی کا ثبوت دے، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، کسی طرح سے اس کے مقام و مرتبے پر آنچ نہ آنے دے، اپنے بچوں بچیوں کو بھی ان باتوں کی تلقین کرے، اگر شوہر کی عدم موجودگی میں عزت وآبرو کی حفاظت نہیں کرتی ہے، تو ایسی عورت اپنے شوہر کے ساتھ خیانت کرتی ہے اور بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوگی۔
عورت ایک مدرسہ کی طرح ہے اور اس کی گود میں پلنے والے بچے دینی تعلیم و تربیت کے زیر اثر جنت الفردوس کے حقدار بھی بن سکتے ہیں اور عدم تعلیم و تربیت کی پاداش میں جہنم کے عذاب کے شکار اور اس کے ایندھن بھی، کیونکہ ماں کی گود بچوں کی زندگی کی پہلی سیڑھی ہے، ان پر پہلا عکس ماں ہی کا پڑتا ہے اور بچے بہت سے عقائد و نظریات ماں ہی سے سیکھتے اور اخذ کرتے ہیں، پس اگر ماں دیندار اور دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ و مزین ہے، تو بچوں کی زندگی بدل سکتی ہے، ان کی دینی تربیت کرسکتی ہے، ان کے قلوب و اذہان کو کتاب و سنت سے ماخوذ عقائد کے نور سے منور کرستیی ہے، انھیں جنت کا راہی بنا سکتی ہے، اس لیے ماں کا صحیح العقیدہ ہونا نہایت ضروری ہے، تاکہ اپنے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی اصلاح کرتی رہے۔
اسی طرح عورت بچوں کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرے، انھیں نہلائے دھلائے، فرمان رسولﷺ کے پیش نظر انھیں پاک صاف رکھے اور پاک صاف رہنے کی تلقین کرے، انھیں نماز کا حکم دے، سردی گرمی کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لیے کھانا، پانی، کپڑا، اوڑھنا، بچھونا وغیرہ کا انتظام کرے، انھیں وقت کا پابند بنائے، بچوں کے غلط ماحول اور نشہ آور اشیاء سے بچائے، تعلیمی اوقات کے علاوہ گھر سے باہر کے اوقات پر کڑی نظر رکھے، حسب ضرورت جائز سختی و نرمی اختیار کرے، وقت پر مدرسہ پڑھنے کے لیے بھیجے، بچوں کے اسباق اور تمارین وغیرہ پر کڑی نظر رکھے۔
اسی طرح شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال کی حفاظت کرے، بلا ضرورت خرچ نہ کرے، البتہ حسب ضرورت بال بچوں کی پروش اور ان کے اخراجات کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر بھی لے سکتی ہے، لیکن بلا ضرورت فضول خرچی اور حرام کاموں کے لیے لینا کسی طرح جائز و درست نہیں ہے۔
✺ خادم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔
غلام پر آقا کی اطاعت و فرماں برداری واجب ہے، اس لیے ضروری ہےکہ وہ مالک کے مال و دولت یا کاروبار کے جس حصے پر حفاظت کے لیے مامور ہے، اس کی حفاظت و رعایت کرے، اس کی اجازت کے بغیر کسی طرح کا تصرف نہ کرے، کیونکہ وہ اس پر مامور ہونے کی وجہ سے اس کا ذمہ دار ہے اور رسول ﷺ کے فرمان کے بموجب ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال ہوگا، اس لیے کہ غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اس میں کوئی تصرف نہ کرے۔
✺ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر باپ اپنی وفات کے بعد اچھی خاصی دولت اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے، تو اس کی اولاد بجائے اس کے کہ اس کا صحیح استعمال کرے، ورثاء کے حقوق ادا کرے، باپ کے قرض کی ادائیگی کرے، صدقہ و خیرات کرے، باپ کے مال کا غلط استعمال کرنے لگتی ہے اور جس باپ نےپوری زندگی محنت و مشقت برداشت کرکے ان کی خاطر اس مقصد سے جمع کیا تھا کہ اپنی اولاد کو دنیا میں اس حال میں نہ چھوڑ کر جائے کہ ان کو فاقہ کشی اور دوسروں کے سامنے دست درازی کی نوبت آئے، وہی اولاد ان کی وفات کے بعد ان کی دولت کو آنا فانا حرام کاری میں گنوا بیٹھتی ہے اور چند ہی سالوں میں باپ کی پوری زندگی کی کمائی کا مقصد خاک میں مل جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنے والے حضرات ہوش کے ناخن لیں، کیونکہ وہ حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں اپنے باپ کے مال کے ذمہ دار ہیں اور بروز قیامت ان سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
رب تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں جاننے سمجھنے ادا کرنے کی توفیق بخشے اور بروز قیامت ناکامی و نامرادی سے بچائے اور جنت الفردوس میں داخلہ نصیب فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000