نرمی شخصیت کا حسن ہے

تسلیم حفاظ عالی معاملات

اسلام کی تمام تر تعلیمات امن وامان، صلح وآشتی،اخوت ومحبت اور رفق ونرمی کی داعی ہیں۔اس میں تشدد اور ظلم وجور کی کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالی خود رفیق ہے اور رفق ونرمی کو پسند فرماتا ہے۔نرم خوئی وخوش مزاجی گلشنِ اخلاقِ اسلامیہ کا وہ گلِ سرسبد ہے جس کی خوش بو مشام جاں کو معطر کرتی ہے اور دل ودماغ کو فرحت وتازگی بخشتی ہے۔یہ وہ وصف ہے جس سے انسان کے اخلاق وکردار میں حسن پیدا ہوتا ہے۔اس کے اندر ایسی مقناطیسی قوت ہے جو دشمن کو دوست اور بد خواہ کو خیر خواہ بنادیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کتاب وسنت کے اندر نرمی اختیار کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے اثرات وثمرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔

نبی ﷺجو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے اندر جو نرمی اور ملایمت ہے یہ اللہ تعالی کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے،اس کی وجہ سے لوگ آپ کے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں،اگر آپ کے اندر نرمی کا یہ وصفِ متاثر کن نہ ہوتا، بلکہ اس کے بر عکس آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کی بجاےآپ سے دور بھاگتے،آپ سے متاثر ہونے کی بجاے متنفر ہوتے اور پھر آپ دعوت وتبلیغ کے فریضے سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے تھے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ(آل عمران:۱۵۹)اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے،سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں، اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارداہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کریں ، بے شک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

دوسری جگہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مخاطب کرکے فرمایا: وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ(الشعراء:۲۱۵)اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہوکر تیری تابعداری کرے۔

حضرت موسی اور حضرت ہارون علیھما السلام کو جب اللہ تعالی نے فرعون جیسے متمرد وسرکش کی طرف بغرضِ دعوت بھیجا تو انھیں بھی نرم گفتاری کا حکم دیا:اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولا لَهُ قَوْلاً لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى(طہ:۴۳۔۴۴)تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ،اس نے بڑی سرکشی کی ہے۔ اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔

نرم خوئی اور نرم مزاجی بہت ہی اعلی اخلاقی وصف ہے۔خاص طور پر داعیان کے لیے اس وصف سے آراستہ ہونا از حد ضروری ہے۔اس سے کشورِ دل زیر وزبر ہوجاتے ہیں اور انسانی افکار وخیالات کی رو تبدیل ہوجاتی ہے۔اس کی اثر انگیزیوں سے متاثر ہوکربڑے بڑے بغاوت پسند اور سر کش لوگ بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی میں صالح اور خوش گوار انقلاب لے آتے ہیں۔اسی لیے آپ ﷺ جہاں بے شمار اوصاف حمیدہ کی مجسم تصویر تھے، وہیں رفق ونرمی اور شفقت ومحبت کے حسین وصف سے بطور خاص بہرہ ور تھے۔ایسے حالات جن میں عام طور پر انسان آپے سے باہرہوجاتا ہے،سخت اور درشت لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہےاوروقار وسنجیدگی کا دامن اس سے چھوٹ جاتا ہے،آپ ﷺ نے عفو در گزر اور شفقت ونرمی کابے نظیر ثبوت پیش کرکے داعیانِ دین کے لیے اسوہ اور سبق فراہم کیا ہے۔

کتبِ حدیث کے اندر نبوی رفق کی بہت ساری نصیحت آموز اورعبرت انگیز مثالیں موجود ہیں ۔ سردست تین کا ذکر پیش خدمت ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

أنَّ أعْرَابِيًّا بَالَ في المَسْجِدِ، فَثَارَ إلَيْهِ النَّاسُ ليَقَعُوا به، فَقالَ لهمْ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: دَعُوهُ، وأَهْرِيقُوا علَى بَوْلِهِ ذَنُوبًا مِن مَاءٍ -أوْ سَجْلًا مِن مَاءٍ- فإنَّما بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ ولَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ.(صحيح البخاري:۶۱۲۸)

ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا، لوگ اس کی طرف مارنے کو بڑھے،لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ ایک ڈول پانی بہادو، کیوں کہ تم آسانی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو،تنگی کرنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے ہو۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

أنَّ اليَهُودَ أتَوُا النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالوا: السَّامُ عَلَيْكَ، قَالَ: وعلَيْكُم، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: السَّامُ علَيْكُم، ولَعَنَكُمُ اللَّهُ وغَضِبَ علَيْكُم، فَقَالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: مَهْلًا يا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بالرِّفْقِ، وإيَّاكِ والعُنْفَ، أوِ الفُحْشَ، قَالَتْ: أوَلَمْ تَسْمَعْ ما قالوا؟! قَالَ: أوَلَمْ تَسْمَعِي ما قُلتُ؟ رَدَدْتُ عليهم، فيُسْتَجَابُ لي فيهم، ولَا يُسْتَجَابُ لهمْ فِيَّ.(البخاري:۶۴۰۱)

یہودی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: آپ پر موت آئے۔نبی ﷺ نے فرمایا: تم پر۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:تم پر موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت اور غضب نازل ہو۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر،عائشہ! نرم خوئی اختیار کر اور سختی اور بد کلامی سے پرہیز کر۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ یہودی کیا کہہ رہے تھے؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم نے نہیں سنا کہ میں نے انھیں کیا جواب دیا۔میں نے ان کی بات انھی پر لوٹا دی۔اور میری ان کے بدلے میں دعا قبول کی گئی اور ان کی میرے بارے میں قبول نہیں کی گئی۔

ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

إنَّ فتًى شابًّا أتى النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ائذنْ لي بالزِّنا فأقبل القومُ عليه فزجَروه وقالوا : مَهْ مَهْ فقال : ادنُهْ فدنا منه قريبًا قال : فجلس قال : أَتُحبُّه لِأُمِّكَ ؟ قال : لا واللهِ جعلني اللهُ فداءَك قال : ولا الناسُ يُحبونَه لأُمهاتِهم قال : أفتُحبُّه لابنتِك قال : لا واللهِ يا رسولَ اللهِ جعلني اللهُ فداءَك قال : ولا الناسُ يُحبونَه لبناتِهم قال : أفتُحبُّه لأُختِك قال : لا واللهِ جعلني اللهُ فداءَك قال : ولا الناسُ يُحبونَه لأَخَواتِهم قال : أَفتُحبُّه لعمَّتِك قال : لا واللهِ جعلني اللهُ فداءَكَ قال : ولا النَّاسُ يُحبُّونَه لعمَّاتِهم قال : أفتُحبُّه لخالتِك قال : لا واللهِ جعلني اللهُ فداءَكَ قال : ولا النَّاسُ يحبونَه لخالاتِهم قال : فوضع يدَه عليه وقال : اللهمَّ اغفرْ ذنبَه وطهِّرْ قلبَه وحصِّنْ فرْجَهُ فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفتُ إلى شيءٍ(السلسلة الصحيحة:۷۱۲ /۱- قال الألباني:إسناده صحيح)

ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ، اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم ،مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اللہ کی قسم!کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم!کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے،پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم!کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اللہ کی قسم!کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اوردعا کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔

مذکورہ بالا مثالوں سے ہمیں آپ ﷺ کے حکیمانہ اسلوبِ دعوت اور مشفقانہ طرزِ نصیحت کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے۔نرم خوئی نے آپ کی شخصیت کے حسن کو دو بالا کردیا تھا۔لوگ آپ کی شخصیت کے جمال وکمال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔بلا شبہ نرمی حسن کا باعث اور سختی عیب ناکی کا سبب ہے۔نرمی اور شفقت و محبت سے جو احترام ووقار حاصل ہوتا ہے،وہ انسان کے نہاں خانۂ دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور نہایت ہی پائدار ہوتا ہے۔اس میں کسی طرح کا تصنع نہیں ہوتاہے۔نرمی سے امورومعاملات اثرانگیز اورخوبصورت ہوتے ہیں اور سختی سے نفرت انگیز اور بد نما۔اسی لیے نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

عَليكِ بِالرِّفْقِ، إنَّ الرِّفْقَ لا يَكونُ في شَيءٍ إلَّا زانَهُ، ولا يُنْزَعُ مِن شَيءٍ إلَّا شانَهُ.(صحيح مسلم:۲۵۹۴)

(اے عائشہ!)نرمی اختیار کرو،اس لیے کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے،اسے خوبصورت بنادیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی اٹھالی جائے،وہ اسے عیب دار کردیتی ہے۔

دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:

يا عائِشَةُ إنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، ويُعْطِي علَى الرِّفْقِ ما لا يُعْطِي علَى العُنْفِ، وما لا يُعْطِي علَى ما سِواهُ(صحيح مسلم:۲۵۹۳)

اے عائشہ!اللہ تعالی نرمی فرمانے والا ہے،نرمی کو پسند فرماتا ہے،اور نرمی پر جتنا نوازتا ہے شدت اور اس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر اتنا نہیں نوازتا۔

اسی لیے آپ ﷺنے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے:

مَن يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الخَيْرَ(صحيح مسلم:۲۵۹۲)

جو نرمی سے محروم کردیا گیا،وہ بھلائی سے محروم کردیا گیا۔

ابو حاتم بستی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الواجب على العاقل لزوم الرِّفق في الأمور كلها، وترك العجلة والخفَّة فيها، إذ الله تعالى يحب الرِّفق في الأمور كلها، ومن منع الرِّفق منع الخير ،كما أنَّ من أعطي الرِّفق أعطي الخير، ولا يكاد المرء يتمكن من بغيته في سلوك قصده في شيء من الأشياء على حسب الذي يحب، إلا بمقارنة الرِّفق ومفارقة العجلة(روضة العقلاء لابن حبان البستي ،ص:۲۱۵)

عقل مند آدمی پر واجب ہے کہ تمام امور ومعاملات میں رفق ونرمی کو لازم پکڑے اور جلد بازی اور خفت کو ترک کردے۔اس لیے کہ اللہ تعالی تمام امور میں رفق کو پسند فرماتا ہے۔جو نرمی سے محروم کردیا گیا وہ بھلائی سے محروم کردیا گیا۔جسے نرمی عطا کی گئی وہ خیروبھلائی سے ہم کنار ہو گیا۔آدمی عجلت سے کنارہ کشی اور رفق کو اختیار کرکے ہی حسبِ منشا اپنے مطلوب تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

حروف آخریں یہ کہ رفق کمالِ ایمان اور حسنِ اسلام کی دلیل ہے۔اس سے جہاں عند اللہ محبوبیت حاصل ہوگی، وہیں یہ لوگوں کے نزدیک مقبول ہونے کا موثر ذریعہ بھی ہے۔نرمی حسنِ شخصیت، اخلاقی بلندی اور دارین میں سعادت مندی کا عنوان ہے۔اس سے روحِ محبت اور تعاون و تناصر کے پاکیزہ احساسات ارتقاپذیر ہوتے ہیں اورتشددپسندی اورستم رانی کے ناپاک جذبات معدوم ہوتے ہیں۔ اس کے اندر وہ عظیم خوبیاں ہیں جن سے سیرت وکردار کے گوشے سنورتے ہیں اور معاشرہ نکھرتا،آگے بڑھتا اوراللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کا استحقاق پیدا کرتا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں رفق ونرمی کے زیور سے آراستہ کرے اورتشدد وسختی کے وبال سے بچائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000