انسان فطری طور پر مال اور روپئے پیسے سے بہت محبت کرتا ہے ، لہذا زیادہ کمانے کے چکر میں وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے کمانے کا طریقہ حلال ہے بھی یا نہیں۔جبکہ بروز قیامت انسان کے قدم اس وقت تک ہل نہیں سکتے جب تک وہ ایک ایک روپئے کا حساب احکم الحاکمین رب العالمین کو نہیں دے دے گا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : … و عَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ(سنن الترمذي:۲۴۱۶)آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے :ان میں سے ایک سوال اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا۔
*چونکہ جانے انجانے میں کمائی کا ایک حرام ذریعہ ہمارے سماج اور سوسائٹی میں بھی پھیل رہا ہے ۔ جسے ہم اور آپ فکس ڈپازٹ (Fix Deposit)یا رکرنگ ڈپازٹ (Recurring Deposit) وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں ۔
فکس ڈپوزٹ کیا ہے؟
لوگوں کی نظروں میں ’کمائی‘ کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن شریعت کی نگاہ میں ’ایک سودی عمل‘ہے ۔
اس کی بہت ساری شکلیں ہیں:
مثلا:
۱۔ٹی آر ڈی (TRD) یعنی TERM DEPOSIT RECEIPT
اس میں آپ اپنے انٹرسٹ (interest) کو monthly – quarterly – half yearly – یا – yearly لے سکتے ہیں ۔
۲۔ایس ٹی پی آر (STPR) یعنیSpecial Term Deposit Receipt
اس میں آپ اپنے انٹرسٹ کو پرنسپل اماونٹ (Principle Amount) کے ساتھ ہی لے سکتے ہیں ۔
۳۔فلیکسی ایف ڈی (Flexi FD) یہ سیونگ اکاونٹ (Saving Account) کے ساتھ لنک ہوتی ہے ۔
۴۔کارپوریٹ ایف ڈی (Corporate FD) یہ عموماً کمپنیوں میں ہوتا ہے ۔
۵۔سینئر سٹیزن ایف ڈی (Senior Citizens FD) یہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لےل ہوتا ہے
۶۔ریگولر ایف ڈی (Regular FD)
۷۔این آر ای ایف ڈی (NRE FD)
۸۔این آر اوایف ڈی (NRO FD) وغیرہ ۔
*فکس ڈپازٹ ہی کی طرح رکرنگ ڈپازٹ (Recurring Deposit) ہوتا ہے ۔
دونوں میں فرق یہ ہے کہ فکس ڈپازٹ میں مکمل اماونٹ ایک ساتھ جمع کرنا ہوتا ہے جبکہ رکرنگ ڈپازٹ میں آپ اپنے مقرر اماونٹ کو تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں میں جمع کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی اسکیمیں ہیں جن میں آپ یک بارگی یا قسطوں میں متعین روپئے جمع کر کے مقررہ وقت میں اس سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
شریعت میں ان کا حکم کیا ہے؟
فکس ڈپازٹ ، رکرنگ ڈپازٹ یا ان کی طرح وہ تمام اسکیمیں جن میں مقررہ روپیہ جمع کرنے کے کچھ مدت کے بعد اس سے زائد رقم ملتا ہو، وہ واضح طور پر سودہے ۔
مثلا :اگر آپ کسی بینک میں ایک لاکھ روپیہ جمع کرتے ہیں اس کے ایک یا تین یا پانچ یا دس سال کے بعد آپ کو ایک لاکھ سے زائد رقم ملتی ہو تو آپ کے پرنسپل (اصل)اماونٹ سے جس قدر زائد روپیہ ملے گا اس کا شمار سود میں ہو گا ۔خواہ وہ زائد روپیہ ہر مہینے ملے یا ہر سال یا پھر پرنسپل اماونٹ کے ساتھ ملے ۔
نیز چاہے آپ یہ کام تجارت، لین دین اور بیع وشراء سمجھ کر کر رہے ہوں یا پھر قرض کے طور پر انجام دے رہے ہوں ۔
۱۔اگر آپ لین دین اور بیع وشراء کے طور پر یہ کام کرتے ہیں تو اس کے سود ہونے کی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ (صحيح البخاري:۲۱۷۷)سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، نیز دونوں طرف سے کوئی کمی اور زیادتی نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ ساتھ ہی دونوں طرف سے کوئی کمی اور زیادتی نہ رکھو ،اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو۔
صحیح مسلم میں اتنا اضافہ ہے:
فمَن زادَ أوِ استَزادَ فقد أربَى، الآخِذُ والمُعطي فيهِ سَوَاءٌ(صحيح مسلم :۱۵۸۴)جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو وہ سود ہے اور لینے اور دینے والے دونوں برابر ہیں۔
چونکہ لین دین میں کرنسی اور روپیہ پیسہ کا حکم وہی ہے جو سونے اور چاندی کا ہے ۔
گرچہ جنس مختلف ہے مگر تینوں (سونے، چاندی اور کرنسی) کی علت ایک ہے اور وہ ’ثمن‘ یعنی قیمت ہے۔
مطلب یہ کہ اگر آپ روپیہ دے کر روپیہ لینا چاہتے ہیں، درہم دے کر درہم لینا چاہتے ہیں، ریال دے کر ریال لینا چاہتے ہیں تو اس کے لے دو شرطیں ضروری ہیں ۔
۱۔کسی بھی طرف سے ادھار نہ ہو ۔
اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
۲۔کسی بھی طرف سے کمی یا زیادتی نہ ہو ۔
مثلا :اگر میں نے کسی بینک میں دس ہزار روپیہ دیا اور کچھ دنوں کے بعد مجھے اس دس ہزار کے بدلے دس ہزار دو سو روپیہ(۱۰۲۰۰)ملا تو دو سو روپیہ ’سود‘ہوگا ۔
لہذا جو رقم ہم بینک کے اندر فکس ڈپازٹ (Fix Deposit)، رکرنگ ڈپازٹ ( Recurring Deposit) یا کسی اور اسکیم یا نام کے تحت جمع کرتے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں جو تین فیصد، چار فیصد، پانچ فیصد، چھ فیصد یا اس سے زائد روپیہ ہر ماہ یا ہر سال یا پھر ہمارے جمع کردہ اصل اماونٹ ( پرنسپل اماونٹ) کے ساتھ ملتا ہے وہ واضح طور پر سود ہے ۔
بلکہ سود کی دونوں قسمیں ’ربا الفضل‘ اور ’ربا النسية ‘اس میں پائی جاتی ہیں ۔
ربا الفضل اور ربا النسية کسے کہتے ہیں؟
ربا الفضل ، یعنی ایک جنس کی دو اشیاء کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا ۔ جبکہ ربا النسية ، جس میں کمی بیشی تو نہ ہو مگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو ۔ (أعلام المؤقعين:۲؍۱۳۵،المغني:۱؍۴)
یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ ہر قسم کے لین دین اور بیع وشراء میں کمی وزیادتی یا کسی طرف سے ادھار سود نہیں ہے بلکہ صرف چھ چیزوں (سونا، چاندی، گیہوں، جو ،کھجور اور نمک) میں ہے جنیںں اصطلاح میں ’أموال ربوية‘ کہتے ہیں ۔ یا وہ چیزیں جن کے اندر ’اموال ربویۃ‘ کی علت موجود ہو ۔
جیسے کرنسی جو کہ اصلا ’اموال ربویۃ ‘تو نہیں ہے مگر اموال ربویہ میں سے ’سونے اور چاندی‘ کی علت موجود ہے جیسا کہ اوپر بات گزر چکی ہے ۔ لہذا کرنسی کے لین دین کا حکم بالکل وہی ہوگا جو حکم سونے اور چاندی کے لین دین کا ہوگا ۔
یہاں پر’اموال ربویۃ‘کے تعامل کے ضوابط کو ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا ۔
(۱)اگر پیسے کا لین دین اور بیع پیسے سے یا سونے کا لین دین سونے سے، یا چاندی کا لین دین چاندی سے کرنا ہے تو دو شرط کا پایا جانا ضروری ہے ۔
۱۔دونوں طرف سے برابر ہو:
اگر ایک روپیہ بھی کم یا زیادہ ہوا تو اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
مثلا :اگر دس ہزار بینک میں جمع کیا ہے تو صرف دس ہزار ہی لے سکتے ہیں ، دس سے کم یا زیادہ لینا اور دینا سود ہوگا ۔
۲۔دونوں طرف سے نقد یعنی ہاتھوں ہاتھ ہو:
لہذا اگر کسی ایک طرف سے ادھار ہوا تو اس بیع کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
نوٹ:قرض کا مسئلہ اس ضابطے میں داخل نہیں ہے ۔ کیونکہ قرض بیع نہیں ہے ۔
(۲)اگر سونے اور چاندی کا لین دین پیسے سے ہو، یا سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے خریدا یا بیچا جا رہا ہو تو صرف ایک شرط ضروری ہے کہ وہ نقد ہو ادھار نہ ہو ۔
اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
(۳)گیہوں کی بیع اور خرید وفروخت گیہوں سے ہو تو دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
۱۔برابر ہو
۲۔نقد ہو
ادھار یا کمی بیشی کی صورت میں سود ہو جائے گا ۔
(۴)گیہوں کی خرید و فروخت کھجور، جو، یا نمک سے ہو تو ایک شرط ضروری ہے کہ وہ نقد ہو ادھار نہ ہو ۔
(۵)اگر گیہوں ،کھجور، نمک، جو یا دیگر چیزوں کی خرید و فروخت پیسے کے ذریعے سے ہو تو کوئی شرط نہیں ہے جس طرح چاہو ادھار یا کمی زیادتی کر کے لین دین کر سکتے ہو۔
مزید وضاحت کے لےد ہم یہ جان لیتے ہیں کہ :
سونے، چاندی اور روپیہ میں علت ’قیمت‘ہے اور گیہوں، جو، کھجور نمک وغیرہ میں علت ’قوت یعنی طعم و خوراک‘ہے۔
لہذا اگر جنس اور علت دونوں ایک ہوں جیسے روپیہ سے روپیہ یا سونے سے سونا تو دو شرط ضروری ہے:
۱۔برابر ہونا
۲۔نقد ہونا
اگر علت ایک ہے مگر جنس الگ الگ ہے جیسے سونے سے چاندی یا پیسے سے چاندی اور سونا تو ایک شرط ضروری ہے کہ وہ نقد ہو ادھار نہ ہو ۔
اور اگر جنس اور علت دونوں مختلف ہوں جیسے روپیہ سے گیہوں یا دیگر اشیاء تو ایک بھی شرط نہیں ہے ۔
۲۔اگر آپ قرض کے طور پر یہ کام کرتے ہیں یا بینک کو دیتے ہیں تو اس کے سود ہونے کی دلیل یہ مسلمہ ضابطہ اور قاعدہ ہے:
كل قرض جر نفعًا مشروطًا فهو ربا(آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني:۱۸/۴۶۴، نیز اس مفہوم پر امت کا اجماع ہے، دیکھیں: شرح سنن أبي داود للعباد:۱۱/۱۵ ، الإجماع لابن منذر :۱/۹۵)ہر وہ قرض، جو مشروط نفع لے کر آئے وہ سود ہے۔
اس ضابطہ اور قاعدہ کے کئی ایک دلائل ہیں جن میں سے ایک صحیح بخاری کے اندر موجود ہے ۔
چنانچہ ابو بردۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور وہاں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انوہں نے کہا:
أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا، وَتَمْرًا، وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ . ثُمَّ قَالَ : إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ ؛ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ، أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ، أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا (صحيح البخاري:۳۸۱۴) آؤ تمیںٌ میں ستو اور کھجور کھلاوں گا اور تم ایک گھر میں داخل ہو گے ۔ اس کے بعد فرمایا : تمھارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمھارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمیںُ ایک تنکے یا جو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔
چونکہ بینک میں جو رقم ہم جمع کرتے ہیں وہ ’قرض‘کے قبیل سے ہے چاہے فکس ڈپازٹ کے طور پر ہو، رکرنگ ڈپازٹ کے طور پر ہو یا سیونگ اکاونٹ (Saving Account) وغیرہ کے طور پر ہو ۔
لہذا جمع کردہ رقم سے جتنا بھی زیادہ ملتا ہے وہ واضح طور پر ’سود ‘ہے ۔
کیونکہ اس میں پہلے ہی سے فکس ہوتا ہے کہ آپ کو چار یا پانچ یا چھ یا سات پرسنٹ بیاج اور انٹرسٹ ملے گا۔
سوال :
فکس ڈپازٹ، رکرنگ ڈپازٹ یا سیونگ اکاونٹ کا تعلق قرض سے ہے یا لین دین اور بیع وشراء سے؟
جواب:
سب سے پہلی بات یہ کہ فکس ڈپازٹ، رکرنگ ڈپازٹ یا ان کی طرح دیگر اسکیموں کا شمار ’سودی معاملات‘ میں ہوگا ، خواہ ان کا تعلق قرض سے ہو یا پھر لین دین اور بیع وشراء سے ۔
چونکہ معامات میں سود کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ربا الدین :قرض میں سود
۲۔ربا البيوع :بیع میں سود
۳۔ربا الشفاعة :شفاعت میں سود
لہذا فکس ڈپازٹ، رکرنگ ڈپازٹ یا ان سے ملتی جلتی دوسری اسکیموں کا تعلق ’ربا الدین‘سے ہے ۔
دوسرے لفظوں میں بینک سے ملنے والا اضافی رقم اور زیادتی کا شمار’ربا الدین‘سے ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ فکس ڈپازٹ، رکرنگ ڈپازٹ ، سیونگ اکاونٹ یا ان کی طرح دیگر اسکیموں کا شمار ’ سودی کاروبار‘ میں ہوتا ہے ۔
ساتھ ہی بینک اس زائد رقم کو بیاض اور انٹرسٹ (Interest) ہی کا نام دیتا ہے جس سے مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جاتا ہے ۔
لہذا اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا انجام بہت ہی المناک ہو سکتا ہے ۔
یہاں پر سود خوروں کے لے صرف چند وعیدوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
(۱)دنیا کے اندر سود خور سے اللہ رب العزت جنگ کا اعلان کرتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ . فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ(البقرة :۱۷۸- ۱۷۹)اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا ظهرَ الزِّنا والرِّبا في قَريةٍ؛ فقَد أحلُّوا بأنفسِهم عَذابَ اللهِ (أخرجه الطبراني:۱/ ۱۷۹، صحيح الجامع:۶۷۹) جب کسی گاؤں میں زنا اور سود پھیل جاتا ہے تو اس کے لوگ اپنے اوپر اللہ کا عذاب حلال کر لیتے ہیں۔
(۲)سود خور مرنے کے بعد انتہائی دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے ۔
جیسا کہ سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ، وَعَلَى وَسَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ : مَا هَذَا ؟ فَقَالَ : الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُ الرِّبَا (صحیح البخاری:۲۰۸۵)رات میں نے خواب دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے ، پھر دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ خون کی ایک نہر پر پہنچے ، اس نہر کے بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر تھے ، نہر میں کھڑا ہوا شخص جب باہر نکلنے کے لے کنارے کی طرف بڑھتا تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص پتھر پھینک کر اس کے منہ پر مارتا اور اسے اسی پرانی جگہ پر واپس کردیتا جہاں پر وہ پہلے کھڑا تھا،جب جب وہ کنارے آنے کی کوشش کرتا کنارے پر کھڑا شخص اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا ، میں نے اپنے ساتھی(حضرت جبرئیل علىہ السلام ) سے پوچھا :یہ شخص کون ہے؟ انھوں نے فرمایا :یہ شخص جسے آپ نے خون میں کھڑا دیکھا ہے وہ سود خور ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا۔
اسی حدیث کے دوسرے طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب برزخ یعنی قبر میں ہوگا ۔
جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں:
يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (صحيح البخاري:۱۳۸۶)اس کے ساتھ عذاب کا یہ معاملہ قیامت تک چلتا رہے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
(۳)سود کی حرمت معلوم ہونے کے بعد اگر کوئی شخص سود خوری کو ترک نہیں کرتا ہے تو اس کے لےع جہنم کی وعید ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ (البقرۃ:۲۷۵) جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ( قیامت کے دن) اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو ، یہ صرف اس وجہ سے ہوگا کیونکہ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام ۔ چنانچہ جس شخص کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت آگئی پھر اس (سود ) سے وہ باز آ گیا تو اس کے لےا وہی ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو دوبارہ اس (سود) کی طرف لوٹ آئے تو یہی جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
آپ کے تبصرے