مقتدیوں كا« ربنا ولك الحمد» جہراً كہنے كا حكم

محمد حامد مدنی افتاء

كچھ عرصے سے دیكھا جارہا كہ بعض مسجدوں میں مقتدی امام كے پیچھے «ربنا ولك الحمد» كو بلند آواز سے بولتے ہیں، حالاں كہ یہ عمل سنت نہیں ہے، ذیل میں اس كے چند دلائل پیش كیے جارہے ہیں:

(۱)تمام دعاؤں میں اصل خاموشی ہے، الا یہ كہ كسی دعا كو بآواز بلند پڑھنے كی صراحت آئی ہو۔ اللہ تعالی نے فرمایا: »ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ«(سورہ اعراف:۵۵)اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:»وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ«(سورہ اعراف:۲۰۵)اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور خوف سے اور بلند آواز کے بغیر صبح و شام یاد کر ،اور غافلوں میں سے نہ ہو۔

ان دونوں آیتوں میں مطلق دعا كو خاموشی سے پڑھنے كا حكم دیا گیا ہے جس میں نماز اور غیر نماز كی تمام دعائیں شامل ہیں، بلكہ پہلی آیت میں دعاؤں میں اعتدا یعنی زیادتی كرنے والوں كے بارے میں وارد ہوا كہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں كرتا، اور سلف نے اعتدا كی تفسیر میں دعاؤں كو بلند آواز میں پڑھنے كا بھی ذكر كیا ہے چناں چہ مشہور تابعی مفسر زید بن اسلم نے فرمایا:»كَانَ يُرَى أَنَّ الْجَهْرَ بِالدُّعَاءِ الِاعْتِدَاءُ« (تفسیر ابن ابو حاتم:5/1500، حدیث نمبر: 8598۔اس اثر كی سند حسن ہے)بلند آواز میں دعا كرنے كو اعتدا سمجھا جاتا تھا۔

معلوم ہوا كہ تمام دعائیں خاموشی كے ساتھ پڑھنی چاہیے، علامہ ابن تیمیہ نے فرمایا: ہر قسم كی دعا میں سنت یہ ہے كہ آہستہ پڑھی جائے، الا یہ كہ كوئی ایسی وجہ ہو جس كی بنا پر كسی دعا كو بآواز بلند پڑھنا مشروع ہو۔( مجموع الفتاوی:22/468)

(۲)نماز میں بھی اصل خاموشی ہے، پوری نماز آہستگی سے پڑھنی چاہیے، الا یہ كہ جہاں بلند آواز كرنے كی واضح دلیل موجود ہو۔زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی نماز میں اپنے ساتھی سے گفتگو کرلیتا تھا ، یہاں تک کہ یہ آیت اتری: »وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ«(سورہ بقرہ:۲۳۸)”اللہ کے حضور خشوع و خضوع کی حالت میں کھٹرے ہو‘‘تو ہمیں خاموش رہنے کاحکم دے دیا گیا اور گفتگوکرنے سے روک دیا گیا۔( صحیح بخاری:حدیث نمبر 1200، 4534۔ صحیح مسلم:حدیث نمبر539/1203)

اسی لیے جب بعض صحابہ نے نبی ﷺ كے پیچھے ضمہ سورہ كی تلاوت بلند آواز میں كی تو آپ ﷺ نے اس عمل سے یہ كہتے ہوئے منع كیا كہ اس سے پریشانی ہوتی ہے۔ (مسند احمد :حدیث نمبر18070۔ محققین نے اس حدیث كو صحیح قرار دیا ہے)

(۳)اس سلسلے میں اگر فقہا كے اقوال كا جائزہ لیا جائے تو اكثر فقہا دعائے قومہ كو آہستگی سے پڑھنے ہی كی طرف مائل نظر آتے ہیں، چناں چہ ابو الحسن ماوردی شافعی (ت450ھ) نے فرمایا: جب یہ ثابت ہو گیا كہ‏»سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» اور« ربنا ولك الحمد» كہنا امام اور مقتدی دونوں كے لیے مسنون ہے، تو یہ بات معلوم رہنی چاہیے كہ امام‏» سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» بلند آواز میں كہے گا،كیوں كہ یہاں ایك حالت سے دوسری حالت كی طرف منتقل ہونا ہے تو تكبیر كی طرح مقتدی كو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے، البتہ امام « ربنا ولك الحمد» آہستہ كہے گا، كیوں كہ یہ اس ركن كا ذكر ہے جیسے تسبیحات ہوتی ہیں۔لیكن مقتدی‏» سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» اور « ربنا ولك الحمد» دونوں كو آہستہ آواز میں پڑھے گا۔(الحاوی الكبیر:2/124۔ مزید دیكھیے: المجموع شرح المہذب از نووی:3/417-418)

فقہ حنفی میں صراحت كے ساتھ اس مسئلے كے تعلق سے تو مجھے كچھ نہیں ملا، البتہ ابو الحسین قدوری نے اپنی كتاب “التجرید” میں آمین كو آہستہ بولنے كے تعلق سے جو بات كہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ حنفی مذہب میں بھی دعائے قومہ كو آہستہ پڑھنے ہی كی بات ہے، چناں چہ آپ نے فرمایا: »ولأنه ذكر يفعله المأموم في مقابلة ذكر يقوله الإمام، فكان كقوله: ربنا ولك الحمد« (التجرید:2/509)چوں كہ آمین ایك ذكر ہے جسے مقتدی امام كے ذكر (یعنی ‏ سورۂ فاتحہ)كے جواب میں كہتا ہےتو آمین كو آہستہ ہی كہا جائے گا، اور اس كا حكم مقتدی كے« ربنا ولك الحمد»جیسا ہوگا، (یعنی دونوں آہستہ كہے جائیں گے)۔

فقہ حنبلی میں بھی مجھے اس مسئلے كے تعلق سے كچھ نہیں ملا، البتہ فقہ مالكی میں امام مالك كا ایك قول ملا كہ آپ نے دعائے قومہ كو جہراً كہنے كی اجازت تو دی ہے لیكن آہستہ كہنے كو افضل قرار دیا ہے، چناں چہ ابن ابو زید قیروانی نے اپنی كتاب ’النوادر والزیادات‘ میں ذكر كیا ہے كہ عبد اللہ بن وہب نے امام مالك كو فرماتے ہوئے سنا:»وأُحِبُّ للمأموم أن لا يَجْهَر بِالتَّكْبِيرِ وبـ “ربنا ولك الحمد”، ولو جَهَر بذلك جَهْرًا يُسْمِعُ مَنْ يليه فلا بأس بذلك، وتَرْكُ ذلك أَحَبُّ«مقتدی كے لیے میری پسند یہ ہے كہ وہ تكبیر اور « ربنا ولك الحمد» (النوادر والزیادات از ابن ابی زید قیروانی:1/185، نیز دیكھیے: التبصرۃ از ابو الحسن لخمی:1/279، فتح العلی المالك:1/139) كو جہراً نہ كہے،اور اگر اتنی اونچی آواز میں پڑھ لے جس سے آس پاس والوں كو سنا سكے تو كوئی حرج كی بات نہیں ہے، لیكن بلند آواز نہ كہنا ہی مجھے زیادہ محبوب ہے۔

فقہا كے ان اقوال سے پتا چلتا ہے كہ ان كے نزدیك جہراً دعائے قومہ كو پڑھنا سنت نہیں ہے، بلكہ جس طرح نماز كے تمام اذكار آہستہ پڑھے جاتے ہیں دعائے قومہ بھی آہستہ ہی پڑھی جائے گی،اور امام مالك نے جواز كی جو بات كی ہے آپ نے اس كی كوئی دلیل ذكر نہیں كی، اگر ان كی دلیلیں وہ ہیں جن كا ذكر آگے آرہاہے تو ان دلائل سے اس عمل كے جوز پر استدلال درست نہیں ہے، جیسا كہ اس كی توضیح آگے آرہی ہے۔

لیكن اس كے بر عكس كچھ لوگ اس عمل كی سنیت اور استحباب پر حد سے زیادہ مصر نظر آتے ہیں، اور اپنے موقف كو ثابت كرنے كے لیے كچھ دلائل سے استدلال بھی كرتے ہیں، ذیل میں ان دلائل كو ذكر كركے ان كی حقیقت كو اجاگر كرنے كی كوشش كی جا رہی ہے، وباللہ التوفیق:

پہلی دلیل:

اس مسئلے میں فریق مخالف كی سب سے بڑی اور مضبوط دلیل رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ كی حدیث ہے،چناں چہ یحیی بن خلاد نے روایت كی كہ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایك دن ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے جب رکوع سے سر اٹھا كر «سمع الله لمن حمده» کہا تو ایک شخص نے پیچھے سے کہا «ربنا ولك الحمد،‏‏‏‏ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه»۔ آپ ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر دریافت فرمایا: »مَنِ المُتَكَلِّمُ؟« کس نے یہ کلمات کہے ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: »رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ« میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان کلمات کو لکھنے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔( صحیح بخاری :حدیث نمبر799)

اس حدیث كو رفاعہ بن رافع سے یحیی بن خلاد كے علاوہ آپ كے بیٹے معاذ بن رفاعہ نے بھی روایت كی ہے(سنن ابو داود:حدیث نمبر773، سنن ترمذی:حدیث نمبر404، سنن نسائی:حدیث نمبر931۔ شیخ البانی نے اس حدیث كو حسن قرار دیا ہے)اور اس میں وضاحت ہے كہ «ربنا ولك الحمد،‏‏‏‏ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» كو نبی ﷺ كے پیچھے جہراً پڑھنے والے صحابی خود رفاعہ رضی اللہ عنہ تھے۔

اس حدیث سے جہراً « ربنا ولك الحمد» پڑھنے كے استحباب پر استدلال كرنا درست نہیں ہے، اس كی كئی وجوہات ہیں:

(۱) صحابی نے یہ دعا جان بوجھ كر جہراً نہیں پڑھی تھی، بلكہ چھینك آنے كی وجہ سے اچانك جہراً یہ دعا آپ كی زبان سے نكل گئی تھی، چناں چہ معاذ بن رفاعہ كی روایت میں واضح ہے كہ آپ نے چھینك آنے كی بنا پر «ربنا ولك الحمد،‏‏‏‏ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه»جہراً كہہ دیا تھا ۔بنا بریں جب حدیث میں صحابی كے جہری عمل كی ایك خاص وجہ موجود ہے تو اسے عام بنا كر ہمیشگی پر محمول كرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔

نوٹ: صحیح مسلم(حدیث نمبر600/1357)میں رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ كے واقعے كے قریب قریب انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے بھی ایك واقعہ مروی ہے، جس میں یہ ہے کہ ایک آدمی آیا اور صف میں شریک ہوا جب کہ اس کی سانس چڑھی ہوئی تھی، اس نے کہا:»الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ«” تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے، بہت زیادہ حمد ، پاک اور برکت والی حمد“۔ جب رسو ل اللہ ﷺ نےنماز پوری کرلی تو آپ نے پوچھا :»أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَاتِ؟ «”تم میں سے یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟“سب لوگوں نے ہونٹ بند رکھے۔ آپ نے دوبارہ پوچھا :»أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا «”تم میں یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ اس نے کوئی ممنوع بات نہیں کہی“۔ تب ایک شخص نے کہا: میں اس حالت میں آیا کہ میری سانس پھولی ہوئی تھی تو میں نے اس حالت میں یہ کلمات کہے۔ آپ نے فرمایا:»لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا، أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا «میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جوایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون اسے اوپر لے جاتا ہے۔

بظاہر دیكھنے میں رفاعہ اور انس رضی اللہ عنہما كی یہ دونوں حدیثیں ایك لگ رہی ہیں لیكن حقیقت یہ ہے كہ دونوں حدیثیں الگ الگ ہیں ، ان دونوں حدیثوں میں تین فرق ہیں:

پہلا فرق یہ ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ كی حدیث میں چھینك كی وجہ سے ان كلمات كو جہراً كہنے كا ذكر ہے، اور انس رضی اللہ عنہ كی حدیث میں دوڑ كر آنے كی وجہ سے سانس پھولنے كے سبب ان كلمات كو جہراً كہنے كا ذكر ہے۔

دوسرا فرق یہ ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ كی حدیث میں ركوع سے سر اٹھانے كے بعد ان كلمات كے كہنے كا ذكر ہے، اور انس رضی اللہ عنہ كی حدیث میں نماز میں داخل ہوتے ہی ان كلمات كے كہنے كا ذكر ہے۔

تیسرا فرق یہ ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ كی حدیث میں تیس سے زائد فرشتوں كا اور انس رضی اللہ عنہ كی حدیث میں صرف بارہ فرشتوں كا ذكر ہے۔

ان ہی وجوہات كی بنا پر امام قرطبی(المفھہم :2/218)، علاء الدین مغلطای(شرح سنن ابن ماجہ :ص 1367)،محمد امین ہرری(الكوكب الوہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج :8/333) اور علامہ محمد بن علی بن آدم(البحر المحيط الثجاج:13/278) ان دونوں احادیث كے الگ الگ ہونے كے قائل ہیں۔بنا بریں دونوں حدیثوں كو ایك دوسرے كی مفسر اور مبین سمجھنا اور ایك سمجھ كر ملی جلی شرح كرنا مناسب نہیں ہے۔

(۲)رفاعہ رضی اللہ عنہ كی آواز «ربنا ولك الحمد،‏‏‏‏ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» پڑھتے ہوئے صرف ایك نماز كی محض ایك ركعت میں بلند ہوئی تھی، بقیہ ركعتوں اور اس نماز كے علاوہ دیگر نمازوں میں اس دعا كو پڑھنے كا كوئی تذكرہ نہیں ہے، بنا بریں اسے سنت سمجھنا درست نہیں ہے۔

(۳)اگر دعائے قومہ كو جہراً پڑھنے كا طریقہ صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم كے یہاں رائج ہوتا تو نبی كریم ﷺ آواز بلند ہونے پر نہ تو سوال كرتے كہ كس كی آواز بلند ہوئی اور نہ ہی صحابی نبی ﷺ كے اس سوال پر خاموش رہتے۔

(۴)رفاعہ رضی اللہ عنہ كا نبی ﷺ كے سوال پر ڈرنا اور جواب نہ دینا اس بات كی واضح دلیل ہے كہ ان كو خود محسوس ہوا كہ انھوں نے جہراً دعا پڑھ كر كچھ غلطی كر دی ہے ، اس كی تائید بیہقی كی’شعب الایمان‘ (6/222، حدیث نمبر: 4073۔محقق عبد العلی نے كہا كہ اس سند كے تمام راوی ثقہ ہیں)میں موجود روایت سے ہوتی ہے، اس میں ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے كہا كہ نبی كریم ﷺ كے سوال كی وجہ سے مجھے اتنی پشیمانی ہوئی كہ میری خواہش ہوئی كہ میرا پورا مال ختم ہوجاتا اور اس نماز میں میں نبی كریم ﷺ كے ساتھ شریك نہ ہوتا۔ اس سے پتا چلتا ہے كہ دعائے قومہ كو جہراً پڑھنا صحابہ كرام كا معمول نہیں تھا۔

(۵) ایك الزامی جواب یہ بھی ہے كہ اگر اس حدیث سے «ربنا ولك الحمد،‏‏‏‏ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» كو جہراً پڑھنے پر استدلال درست ہے تو پھر دعائے ثنا كو بھی جہراً پڑھنی چاہیے، كیوں كہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا:»اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا«”اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ اور تسبیح اللہ ہی کے لیے ہے، صبح و شام۔“رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: »مَنِ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟«”فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کےرسول! میں ہوں آپ نے فرمایا:»عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ« ”مجھے ان كلمات پر بہت حیرت ہوئی، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔“ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی، اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔( صحیح مسلم:حدیث نمبر601/1358)

اس حدیث میں ہو بہو اسی اسلوب اور شكل میں جہراً دعائے ثنا پڑھنے كا ذكر ہے جس اسلوب اور شكل میں دعائے قومہ كو جہراً پڑھنے كا ذكر رفاعہ رضی اللہ عنہ كی حدیث میں ہے، تو كیا اب دعائے ثنا بھی جہراً پڑھی جائے گی؟!

(۶)اس حدیث كےتمام مشہور شارحین كی طرف میں نے رجوع كیا تو میں نے كسی بھی شارح كو اس حدیث سے دعائے قومہ كو ہمیشہ جہراً پڑھنے كے استحباب پر استدلال كرتے ہوئے نہیں دیكھا،بلكہ كچھ شارحین نے امام مالك كی طرح صرف جواز كی بات كی ہے، جیسا كہ ابن عبد البر نے فرمایا: صحابی كے فعل پر رسول اللہ ﷺ كی تعریف اور ان كے كلام كی اور اس كلام كو بلند آواز میں كہنے كی فضیلت كو صحابہ كے سامنے بیان كرنے میں اس عمل كے جواز كی واضح دلیل ہے، خواہ كرنے والا كوئی بھی ہو اور كسی بھی طرح كرے، كیوں كہ یہ اللہ كا ذكر اور اس كی تعظیم ہے، اور اس طرح كے ذكر كو نماز میں بآواز بلند اور آہستہ پڑھنا درست ہے۔ (التمہید:16/198-199)

اسی طرح كچھ شارحین نے اس حدیث كا یہ مفہوم لیا ہے كہ اگر مسجد میں افراد جماعت زیادہ ہوں تو سب تك آواز پہنچانے كے لیے مبلغ دعائے قومہ كو جہراً پڑھ سكتاہے،جیسا كہ ابن بطال نے فرمایا:»وفيه دليل على جواز رفع المذكر صوته بالتكبير والتحميد فى المساجد الكثيرة الجمع ليسمع الناس، وليس ذلك بكلام تفسد به الصلاة«۔(شرح صحیح البخاری:2/419)

اسی طرح ابن عبد البر نے فرمایا:»وفيه دليل على أنه لا بأس برفع الصوت وراء الإمام بربنا ولك الحمد لمن أراد الإسماع والإعلام للجماعة الكثيرة بقوله ذلك«۔(التمہید:16/198۔ مزید دیكھیے: اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح ازشمس الدین برماوی:4/159)

كچھ شارحین نے كہا كہ اگر ساتھ والوں كو تكلیف نہ ہو تو جہراً دعائے قومہ پڑھی جا سكتی ہے، جیسا كہ ابن حجر نے فرمایا:»واستدل به … على جواز رفع الصوت بالذكر ما لم يشوش على من معه«۔(فتح الباری:2/287۔ مزید دیكھیے: عمدۃ القاری از بدر الدین عینی:6/76)

ابن حجر كے اس قول میں دو اہم باتیں ہیں: پہلی یہ كہ آپ نے اس عمل كو جائز قرار دیا ہے مستحب اور سنت نہیں ، دوسری یہ كہ آپ نے اسے مطلقاً جائز قرار نہیں دیا ہے، بلكہ تكلیف اور شور شرابہ نہ ہونے كی شرط كے ساتھ جائز قرار دیا ہے۔ حالاں كہ جن مساجد میں یہ عمل ہوتا ہے وہاں نماز پڑھنے والے جانتے ہیں كہ كس قدر مسجد میں ہنگامہ ہوتا ہے، اسی لیے عادل بن سعد نے ابن حجر كے اس قول پر تعلیق چڑھاتے ہوئے كہا: »وهذا إذا لم يكن بصفة دائمة، وإلا حصل التشويش قطعًا «(الجامع لاحكام الصلاۃ: ص 128)یہ اسی وقت ممكن ہے جب یہ عمل ہمیشہ نہ كیا جائے، ورنہ یقیناً خلل پیدا ہوگا۔

اسی طرح ابو یحیی زكریا انصار ی نے اس حدیث سے مسجدوں میں بلند آواز سےمطلق ذكر كے جواز پر استدلال كیا ہے، چناں چہ آپ نے فرمایا:» وفي الحديث: التحميد والذكر لله، وجواز رفع الصوت بذلك في المساجد «(منحۃ الباری بشرح صحیح البخاری:2/509)اس حدیث میں اللہ كی حمد بیان كرنے اور ذكركرنے، نیز مسجدوں میں بلند آواز میں ذكر كرنے كے جواز كی دلیل ہے۔

حاصل یہ ہے كہ سلف میں سے كسی نے اس حدیث كو دعائے قومہ كے جہراً پڑھنے كی سنیت كی دلیل نہیں سمجھا ہے ، حالاں كہ سلف ہم سے زیادہ بہتر نصوص كو سمجھنے والے تھے۔

(۷)جو لوگ اس حدیث كو دعائے قومہ جہراً پڑھنے كی دلیل قطعی مانتے ہیں ان سے بڑے ادب كے ساتھ عرض ہے كہ اس حدیث میں رفاعہ رضی اللہ عنہ كی جانب سے پڑھی ہوئی دعا كو دعائے قومہ ماننے میں بھی اہل علم متفق نہیں ہیں، بلكہ جہاں كچھ اہل علم نے اسے دعائے قومہ مانا ہے وہیں كچھ اہل علم نے اسے دعائے استفتاح سمجھا ہے، چناں چہ امام ابو داود نے اس پر باب قائم كیا:»بَابُ مَا يُسْتَفْتَحُ بِهِ الصَّلَاةُ مِنَ الدُّعَاءِ« (سنن ابو داود :حدیث نمبر 773)یہ باب اس بیان میں ہے كہ كس دعا سے نماز كی ابتدا كی جائے گی۔

بلكہ كچھ اہل علم تو اس دعا كو چھینك كی دعا سمجھتے ہیں، چناں چہ امام نسائی نے اپنی دونوں سنن ’صغر ی‘(سنن نسائی:حدیث نمبر931)اور ’كبری‘(السنن الكبری:1/479) میں اس حدیث پر یہ باب قائم كیا ہے: »قول المأموم إذا عطس خلف الإمام « كہ مقتدی كواگر امام كے پیچھے چھینك آجائے تو كیا كہے؟

اسی طرح ابن حجر نے اس حدیث سے استدلال كرتے ہوئے فرمایا:»وفيه دليل على أن العاطس في الصلاة يحمد الله بغير كراهة «(فتح الباری:2/287 ۔ مزید دیكھیے: عمدۃ القاری از بدر الدین عینی: 6/76))اس میں دلیل ہے كہ نماز میں چھینكنے والا بغیر كسی كراہت اللہ كی حمد بیان كرے گا۔

اسی وجہ سے صاحب مرعاۃ عبید اللہ رحمانی مبارك پوری نے دو ٹوك الفاظ میں كہا ہےكہ مصنف (یعنی مصنف مشكاۃ المصابیح) نے اس حدیث كو ركوع كے باب میں ذكر كیا ہے تاكہ استدلال كر سكیں كہ اس حدیث میں مذكور دعا ركوع سے اٹھنے كے بعد كی دعا ہے، اور قومے كو لمبا كرنا جائز ہے، اسی طرح اس دعا كو پڑھتے ہوئے آواز بلند كرنی بھی جائز ہے جب تك كہ اپنے ساتھ والوں كو تكلیف نہ ہو۔

لیكن یہ پورا استدلال اسی حالت میں درست ہو سكتا ہے جب یہ مان لیا جائے كہ صحیح بخاری میں موجود قصہ سنن ترمذی میں موجود رفاعہ بن یحیی كے چھینك والے قصے سے الگ ہے، البتہ اگر دونوں قصوں كو ایك مانا جائے -جیسا كہ حافظ ابن حجر اور ابن بشكوال نے یقین كے ساتھ كہا ہے- تو دونوں حدیثوں میں موجود دعا چھینك كی دعا ہوگی جو اچانك ركوع سے سر اٹھاتے ہوئے پڑھی گئی، قومے كی دعا نہیں ہوگی،اور پھر حدیث اس بات كی دلیل ہوگی كہ نماز میں چھینكنے والا بغیر كسی كراہت اللہ كی حمد بیان كرے گا اور نماز میں مشغول رہنے والے پر چھینكنے والے كو جواب دینے كی ذمے داری عائد نہیں ہوگی۔(مرعاۃ المفاتیح:3/193)

اس پوری تفصیل سے ثابت ہوا كہ اہل علم رفاعہ رضی اللہ عنہ كی حدیث میں مذكور دعا كو دعائے قومہ تسلیم كرنے میں متفق نہیں ہیں، بلكہ كچھ لوگ اسے دعائے استفتاح تو كچھ چھینك كی دعا مانتے ہیں، اور مجھے آخر الذكر یعنی چھینك والی بات زیادہ درست معلوم ہو رہی ہے، اس كی ایك وجہ یہ ہے كہ راویوں كا اس دعا كی روایت میں اختلاف ہے، چناں چہ سنن ابو داود،سنن ترمذی، سنن نسائی، طبرانی كی ’المعجم الكبیر(5/41، حدیث نمبر:4532)،ابو نعیم كی معرفۃ الصحابہ(معرفۃ الصحابہ:2/1071،حدیث نمبر:2713)نیز بیہقی كی السنن الكبری(2/136، حدیث نمبر: 2611)،الدعوات الكبیر(1/342، حدیث نمبر: 249)اور شعب الایمان(6/222، حدیث نمبر: 4073)میں یہ دعا»رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ« كی بجائے »الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى« كے الفاظ كے ساتھ ہے،جس سے لگتا ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے چھینك كی دعا پڑھی تھی اور اس میں كچھ اضافہ بھی كر دیا تھا،لیكن راویوں نے اسے قومہ كی دعا سمجھ لیا، واللہ اعلم ۔

رہی بات یہ كہ نبی كریم ﷺ نے صحابی كو جہراً دعائے قومہ پڑھنے سے منع كیوں نہیں كیا؟ تو اس كا جواب یہ ہے كہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ كے سامنے جہراً پڑھنے كی وجہ بیان كر دی تھی كہ مجھے چھینك آگئی تھی اس لیے یہ دعا جہراً میری زبان سے نكل گئی۔اور چوں كہ ان كا عذر معقول تھا اس لیے نبی كریم ﷺ نے جہراً پڑھنے پر كچھ نہیں كہا، ہاں انھوں نے جو دعا پڑھی تھی وہ فضیلت والی تھی اس لیے آپ ﷺنے اس كی فضیلت كو تمام اصحاب كے سامنے بیان كر دیا۔

دوسری دلیل:

مصنف ابن ابو شیبہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كا ایك اثر ہے، چناں چہ ابو بكر ابن ابو شیبہ نے فرمایا: »نا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِـ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ«(مصنف ابن ابو شیبہ :1/223، حدیث نمبر: 2556۔اس اثر كے تمام راوی ثقہ ہیں)ہم سے معتمر نے بیان كیا، وہ ایوب سے، وہ اعرج سے روایت كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كو »اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ«پڑھنے میں آواز بلند كرتے ہوئے سنا۔

اس دلیل كا جواب یہ ہے كہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعائے قومہ كو بلند آواز میں تعلیم كی غرض سے پڑھا، جیسا كہ نبی كریم ﷺ بعض اوقات سری نمازوں میں كچھ آیتیں(دیكھیے: صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 776۔ صحیح مسلم،حدیث نمبر: 451/1013) اور جہری نماز وں میں بسملہ جہراً پڑھ دیا كرتے تھے۔اسی طرح عمر (صحیح مسلم،حدیث نمبر: 399/892۔مزید دیكھیے: الآثاراز محمد بن حسن شیبانی (1/125)اور عثمان(سنن دارقطنی:2/65، حدیث نمبر: 1154)رضی اللہ عنہما سے بغرض تعلیم دعائے استفتاح كو بلند آواز میں پڑھنا ثابت ہے۔

ابن تیمیہ نے فرمایا: جہاں تك بات ہے اذكار كو عارضی طور پر بآواز بلند پڑھنے كی، جیسےصحیح میں ہے كہ نبی ﷺ آیتوں كو جہراً پڑھتے تھے، اسی طرح ایك صحابی نے آپ كے پیچھے » رَبَّنَا وَلَك الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ «كو بلند آواز میں پڑھا ، اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے»سُبْحَانَك اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِك وَتَبَارَكَ اسْمُك وَتَعَالَى جَدُّك وَلَا إلَهَ غَيْرُك «كو بآواز بلند پڑھا،اور جیسے عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما استعاذے كو جہراً پڑھتے تھے، اور جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جنازے كی نماز جہراً پڑھائی تاكہ لوگوں كو پتا چلے كہ یہ سنت ہے۔تو كہا جا سكتا ہے جن صحابہ نے ان اذكار كو بلند آواز میں پڑھا وہ صرف اس لیے تاكہ لوگوں كو معلوم ہو جائے كہ یہ سنت ہے، اس لیے نہیں كہ ان اذكار كو بلند آواز میں پڑھنا سنت ہے۔( مجموع الفتاوی :22/420-421)

تیسری دلیل:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كی طرف منسوب ایك اور اثر ہے جسے عبد الرزاق نے اپنی کتاب ’مصنف‘(مصنف عبد الرزاق:2/167، حدیث نمبر: 2915۔ان ہی كے طریق سے امام بیہقی نے ’السنن الكبری‘:2/138، حدیث نمبر: 2615)میں روایت كی ہے، آپ نے فرمایا:»عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ وَهُوَ إِمَامٌ لِلنَّاسِ فِي الصَّلَاةِ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، يَرْفَعُ بِذَلِكَ صَوْتَهُ، وَنُتَابِعُهُ مَعًا«۔

(عبد الرزاق) ابن جریج سے، وہ اسماعیل بن امیہ سے، وہ سعید بن ابو سعید سےروایت كرتے ہیں كہ انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كو جب كہ وہ ایك نماز میں لوگوں كے امام تھے كہتے ہوئے سنا:»سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُ أَكْبَرُ «آپ ان اذكار كو بلند آواز میں كہتے تھے اور ہم آپ كے ساتھ پڑھتے تھے۔

یہ روایت ضعیف جدا ہے، كیوں كہ ا بن جریج مدلس راوی ہیں(دیكھیے: طبقات المدلسین از ابن حجر،ص: 41، ترجمہ نمبر: 83)اور یہاں “عن” كے صیغے كے ساتھ روایت كر رہے ہیں، اور ابن جریج قبیح قسم كی تدلیس كیا كرتے تھے،شیخ البانی نے ان كی تدلیس كے سلسلے میں اہل نقد كے اقوال كو ذكر كرنے كے بعد فرمایا: ان ائمہ كی باتوں سے واضح ہو جاتا ہے كہ ابن جریج كی معنعن حدیث سخت ضعیف ہوتی ہے ، اسے شاہد بھی نہیں مانا جا سكتا، كیوں كہ وہ قبیح تدلیس كرتے تھے،حتی كہ انھوں نے موضوع حدیثیں بھی روایت كی ہیں جیسا كہ امام احمد كی شہادت موجود ہے۔(جلباب المراۃ المسلمۃ ،ص: 46)

اور اگر اس حدیث كو قبول بھی كر لیا جائے تو حدیث میں مذكور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كے اس عمل كو تعلیم پر محمول كیا جائے گا، جیسا كہ پیچھے تفصیل گزری۔اور سعید بن ابو سعید مقبری كا یہ كہنا كہ ’ہم بھی ان كے ساتھ پڑھتے تھے‘ سے لازم نہیں آتا كہ وہ لوگ بھی جہراً پڑھتے تھے، بلكہ اس كا مفہوم صرف یہ ہے كہ وہ بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ كےپیچھے ان دعاؤں كو پڑھتے تھے۔

نوٹ: شیخ كفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے اس اثر كا مصدر امام بیہقی كی ’السنن الكبری‘ كو ذكر كیا ہے، جس میں اس اثركوامام عبد الرزاق سے اسحاق دبری روایت كر رہے ہیں، اور پھر اسےابن جریج كی تدلیس كے ساتھ ساتھ عبد الرزاق كے اختلاط اور اسحاق دبری كا ان سے روایت كرنے كی وجہ سے بھی معلل قرار دیا ہے، كیوں كہ اسحاق دبری كے بارے میں اہل علم نے كہا كہ انھوں نے عبد الرزاق سے اختلاط كے بعد سنا ہے اور پھر اخیر میں اسحاق دبری كے بھی متكلم فیہ ہونے كا ذكر كیا ہے۔(دیكھیے: ربنا لك الحمد آہستہ پڑھیں یا بآواز بلند؟،ص: 53-57)

اس پر عرض ہے كہ یہ اثر خود عبد الرزاق كی كتاب’مصنف‘ میں موجود ہے، اس لیے ان دو وجہوں كے ذریعے اس حدیث كو معلل نہیں كیا جا سكتا، كیوں كہ عبد الرزاق كی وہ ساری حدیثیں جو آپ كی ’مصنف‘ میں موجود ہیں محفوظ ہیں، جیسا كہ ابن حجرنے فرمایا:دبری كی حدیث میں جو مناكیر ہیں ان كا سبب یہ ہے كہ دبر ی نے عبد الرزاق سے اختلاط كے بعد سنا ہے، چناں چہ عبد الرزاق سے دبری كی جو حدیثیں عبد الرزاق كی كتابوں میں پائی جاتی ہیں تو ان میں دبری كی كوئی ذمے داری نہیں ہے، الا یہ كہ وہ تصحیف یا تحریف كر جائیں، جیسا كہ قاضی محمد بن احمد بن مفرج قرطبی نے مصنف عبد الرزاق كے ان جملوں كو اكٹھا كیا ہے جن میں دبری سے غلطی ہوئی ہے اور وہ ان میں تصحیف كے شكار ہوئے ہیں۔ہاں كلام ان احادیث پر ہے جو دبری سے عبد الرزاق كی كتابوں كے علاوہ مروی ہیں، ان ہی میں نكارت ہے، كیوں كہ انھوں نے عبد الرزاق سے ان كے اختلاط كی حالت میں سنا ہے۔( فتح المغیث :4/378)

حافظ ابن حجر كے اس كلام كی تائید امام احمد كے ایك كلام سے بھی ہوتی ہے، آپ نے»النار جبار« والی حدیث كو باطل قرار دیتے ہوئے اثرم سے پوچھا كہ اس حدیث كو عبد الرزاق سے كس نے روایت كی ہے؟ اثرم نے كہا كہ احمد بن شبویہ نے۔تو آپ نے فرمایا:ان لوگوں نے آپ كے نابینا ہونے كے بعد اس وقت سنا ہے كہ جب آپ كو لقمہ دیا جاتا تھا تو آپ قبول بھی كر لیتے تھے، اور یہ حدیث ان كی كتابوں میں بھی نہیں ہے۔(تہذیب الكمال از مزی:18/57)

امام احمد كی بات (یہ حدیث ان كی كتابوں میں بھی نہیں ہے) سے واضح ہوتا ہے كہ اگر یہ حدیث عبد الرزاق كی كتابوں میں ہوتی تو امام احمدمحض احمد بن شبویہ كے روایت كرنے كی وجہ سے اس حدیث كو باطل قرار نہ دیتے۔

خلاصہ یہ نكلا كہ جو حدیثیں مصنف عبد الرزاق میں ہیں وہ محفوظ ہیں ،خواہ عبد الرزاق سے اسے روایت كرنے والا كوئی بھی ہو۔ اس كی ایك وجہ یہ بھی ذكر كی جا سكتی ہے كہ امام عبد الرزاق كی كتاب’مصنف‘ كو ان سے روایت كرنے والے صرف اسحاق دبری اكیلے نہیں ہیں ،بلكہ ان كے علاوہ محمد بن علی نجار، محمد بن یوسف حذاقی اور محمد بن عمر سمسار (دیكھیے: مصنف عبد الرزاق:1/91۔تحقیق مركز البحوث وتقنیۃ المعلومات، دار التاصیل)وغیرہ نے بھی روایت كی ہے۔

بنا بریں اسحاق دبری اور ان كے اس اثر كو عبد الرزاق سے روایت كرنے پر كلام كرنا درست نہیں ہے ،اور شاید شیخ كفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ كو اس اثر كے مصنف عبد الرزاق میں موجود ہونے كا علم نہ ہو سكااس لیے انھوں نے اس كو بھی نقد كی وجوہات میں ذكر كردیا، واللہ اعلم۔

دعائے قومہ كو جہراً پڑھنے كی سنیت كے قائلین مذكورہ بالا دلائل سے استدلال كرتے ہیں جن كی حقیقیت آپ كے سامنے آشكار كی گئی، اسی طرح كچھ ایسے بھی دلائل ہیں جن میں جہراً پڑھنے كی صراحت نہیں ہے، اسی لیے میں نے ان كو یہاں ذكر نہیں كیا ہے، تفصیل كے لیے شیخ كفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ كی كتاب’ربنا لك الحمد آہستہ پڑھیں یا بآواز بلند؟‘ كی طرف رجوع كیا جا سكتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000