کیا دوران نماز جسم سے خون بہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟

فاروق عبداللہ نراین پوری افتاء

وضو کرنے کے بعد اگر کسی کے جسم سے خون نکلے تو اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ٹوٹتا اس بارے میں علما کے مابین اختلاف ہے۔
اسی طرح اگر نماز کی حالت میں کسی کے جسم سے خون نکلے تو اس کی نماز ہوگی یا باطل ہو جائے گی اس بارے میں بھی علما کے مابین اختلاف ہے۔
راجح یہ ہے کہ پیشاب یا پاخانے کے راستے سے خون نکلے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور نماز بھی باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر جسم کے کسی دوسرے حصے سے خون نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اور نہ نماز باطل ہوتی ہے۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نیزہ مارے جانے کے بعد فجر کی جو نماز ادا کی تھی اس کے متعلق وارد ہے کہ آپ کے زخم سے بہت تیز خون بہہ رہا تھا۔ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “فصلى وجرحه يثعب دما”۔ [مصنف عبد الرزاق الصنعاني: 1/150]
قاضی عیاض “یثعب” کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: أي: يتفجر (خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے)۔ [مشارق الانوار: 1/132]
یعنی بہت تیز خون بہہ رہا تھا۔
اس سے پتہ چلا کہ جسم سے خون بہنے سے نہ وضو ٹوٹتا ہے اور نہ نماز باطل ہوتی ہے، چاہے فوارے کی شکل میں ہی کیوں نہ خون نکلے۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ آتا ہے کہ وہ خون جسم پر بھی لگتا ہے اور کپڑے پر بھی، تو کیا اس سے جسم اور کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں؟
تو اس بارے میں بھی علما کا اختلاف ہے کہ انسان کا خون پاک ہے یا ناپاک۔
بعض علما نے اس خون کی نجاست پر اجماع کا دعوی کیا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ صرف حیض کے خون کی نجاست پر علما کا اجماع ہے، حیض کے علاوہ دوسرے خون کی نجاست پر نہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: شیخ سلیمان العلوان حفظہ اللہ کا یو ٹیوب پر درج ذیل درس:
https://www.youtube.com/watch?v=snz2YHVFoug)
استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: “والذي ظهر لي والله أعلم أنه ليس في المسألة إجماع، بل العلماء مختلفون في نجاسته”.
(مجھے جہاں تک معلوم ہوا – حالانکہ اللہ زیادہ جانتا ہے – وہ یہ کہ اس مسئلہ میں کوئی اجماع نہیں ہے، بلکہ علما اس کی نجاست کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں)
(درج ذیل لنک پر کلک کرکے شیخ کی بات سنی جا سکتی ہے:
https://www.youtube.com/watch?v=z0NroqdizXE )
اس دعوائے اجماع کی نفی میں شیخ اسلام منصور عبدالحمید نے ایک گراں قدر مقالہ بعنوان “حكم نجاسة دم الآدمي عدا الحيض والنفاس والرد على دعوى الإجماع على نجاسته” تحریر فرمایا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی اجماع نہیں ہے، بلکہ یہ علما کے مابین ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا خون پاک ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
علامہ صدیق حسن خان، علامہ شوکانی، علامہ البانی، علامہ ابن عثیمین وغیرہ محققین نے اس کے پاک ہونے کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ [دیکھیں: الدرر البہیہ والروضۃ النديۃ: 1/115، والدراري المضيہ: 1/32، وتمام المنہ في التعليق على فقہ السنہ:ص52، والشرح الممتع 1/443]
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “الذي يقول بطهارة دم الآدمي قوله قويٌّ جداً؛ لأنَّ النَّصَّ والقياس يدُلاّن عليه”
(جو انسان کے خون کو پاک کہتا ہے اس کا قول بہت قوی ہے، کیونکہ نص اور قیاس دونوں اسی پر دلالت کرتے ہیں) [الشرح الممتع على زاد المستقنع: 1/443]
نیز اس خون کے ناپاک ہونے کی کوئی صحیح صریح دلیل بھی نہیں ملتی۔
استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: “لا أعلم دليلا صحيحا صريحا واضحا في نجاسة هذا الدم”
(میں ایسی کوئی دلیل نہیں جانتا جو اس خون کی ناپاکی پر صحیح، صریح اور واضح ہو)
اور براءت اصلیہ کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ وہ خون پاک ہے، جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی دلیل نہ مل جائے۔
جہاں تک فرمان باری تعالی “قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ” سے استدلال کی بات ہے تو وہ بھی محل نظر ہے، کیونکہ آیت مذکورہ چیزوں کی حرمت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نجاست کے بارے میں نہیں۔ اور حرمت نجاست کو مستلزم نہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس میں”فإنه رجس“ بھی کہا گیا ہے تو اس میں ”فإنه“ کا تعلق ”لحم خنزیر“ سے ہے، ”میتۃ“ یا ” دما مسفوحا“ سے نہیں، اسی لیے ضمیر مفرد مذکر ہے، اگر تینوں چیزیں شامل ہوتیں تو ”فإنها“ یا ”فإنهن“ کی ضمیر ہوتی، ”فإنه“ کی نہیں۔
المہم، چاہے اسے پاک کہا جائے یا ناپاک، اگر کسی کے جسم سے دوران نماز خون نکلے تو اس کی نماز کی صحت پر کوئی کلام نہیں۔ حتی کہ جو خون کی ناپاکی کے قائل ہیں یا جن کی طرف دعوائے اجماع کی نسبت کی جاتی ہے ان کے نزدیک بھی ایسے شخص کی نماز صحیح ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے خون کی نجاست پر اجماع کی بات کی ہے حالانکہ آپ کو جب خلق قرآن کے مسئلہ میں اذیتیں دی گئیں تو آپ نے جسم سے خون بہتے رہنے کے باوجود اسی حالت میں نماز ادا کی۔ اور اس خون کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
امام احمد فرماتے ہیں: “حضرت صَلاة الظهر, فتقدم ابنُ سَمَاعةَ فصَلّى, فلما انفتل من الصلاة, قال لى: صَليتَ والدمُ يسيل فى ثوبك؟! فقلت: قد صَلّى عُمر وجرحه يثعب دمًا”
(ظہر کی نماز کا وقت ہوا، ابن سماعہ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھ سے پوچھا: آپ کے کپڑے پر خون بہہ رہا ہے اس کے باوجود آپ نے اس حالت میں نماز پڑھ لی؟ تو میں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کے زخموں سے بھی خون بہہ رہا تھا اور انھوں نے بھی اسی حالت میں نماز ادا کی تھی)
[دیکھیں: مناقب الامام احمد لابن الجوزی: ص 444، وسیر اعلام النبلاء: 11/252]
خلاصۂ کلام یہ کہ دوران نماز جسم سے خون بہنے سے نماز کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shabir Ahmad

.app download kuv nahi hoti