فقراء اور مساکین کے حقوق

اشفاق سجاد سلفی عبادات

الحمد للہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء والمرسلین، نبینا محمد، وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین، ومن تبعہم بإحسان إلیٰ یوم الدین، أما بعد:
انسانی فلاح ونجات کے لیے رب ذوالجلال کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبِ اسلام جس طرح اللہ رب العالمین کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کی تاکید کرتا ہے، اسی طرح بندوں کے حقوق وواجبات کی ادائیگی پر بھی بے تحاشا زور دیتا ہے۔ دنیا میں بہت سے مذاہب اور ادیان اور اُن کے پیروکار پائے جاتے ہیں، مگر اُن ادیان ومذاہب کی تعلیمات کے مطالعہ سے واضح ہوگا کہ کسی بھی دین ومذہب اسلام کی طرح محروم ومجبور، بے یار ومددگار، بے سہارا وپسماندہ طبقات اور فقراء ومساکین کی کفالت وسرپرستی پر زور نہیں دیتا۔ قرآنِ کریم کو، جو سرچشمہ اسلام اور کتابِ رشد وہدایت ہے، پڑھ جائیے، درجنوں ایسی آیتیں ملیں گی، جن میں کسی نہ کسی حوالے سے فقراء ومساکین اور معاشرے کے دیگر محروم اور بے یار ومددگار طبقات کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کی امداد کرنے اور اُن کے کام آنے پر برانگیختہ کیا گیا ہے، تعاون وامداد کرنے پر جنت کی بشارت اور نہ کرنے پر عذاب وجہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔اسی طرح قرآنِ کریم کی شرح وتفسیر رسولِ اکرم ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کر جائیے، سیکڑوں ایسی حدیثیں نگاہوں سے گزریں گی، جن میں کمزور طبقات کے حقوق کی ادائیگی کی ایسی ایسی تعلیمات وتاکیدات ملیں گی کہ انسانی عقل ودماغ حیران رہ جائے گا۔
مذہبِ اسلام نے جن کمزور طبقات کے حقوق کی ادائیگی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، اُن میں فقراء اور مساکین بھی ہیں۔
فقراء ومساکین کا معنٰی ومفہوم:
فقراء سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کے پاس اپنی معیشت اور گزر بسر کو قائم وباقی رکھنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، اور اُن میں کمانے کی ہمت وطاقت بھی نہیں ہوتی یاانھیں گزر بسر کے لیے کچھ مال ملتا ہے، تو وہ نہایت معمولی اور ناکافی ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا تحل الصدقۃ لغني ولا لذي مرۃ سوي(صدقہ کسی دولت مند یا ایسے شحص کے لیے حلال نہیں ہے، جو مالدار، طاقتور اور صحیح سالم ہو) [ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۶۳۴، ترمذی، حدیث نمبر: ۶۵۲]
اور عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نےانھیں خبر دی کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا، تو آپ نےانھیں اپنی نظروں سے خوب جانچا اورانھیں بڑا تندرست وتوانا پایا، آپ نے فرمایا:
إن شئتما أعطیتکما ولا حظ فیہا لغني ولا لقوي مکتسب(اگر تم چاہو تو میں تمھیں دیئے دیتا ہوں، مگر اس میں کسی مالدار اور طاقت ور کے لیے جو خود کما سکتا ہو، کوئی حصہ نہیں ہے) [ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۶۳۳]
اور مساکین کی اقتصادی حالت فقراء سے بہتر ہوتی ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں، جنھیں مالی آمدنی تو ہو، لیکن اس سے اُس کا گزارا بڑی مشکل وتنگی سے ہو پاتا ہو، یا جس کے پاس مال ومتاع کفایت وگزر بسر سے نصف یا اس سے کچھ زیادہ موجود ہو، مگر اس سے اُن کی پوری کفالت نہ ہو پاتی ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
لیس المسکین بہذا الطواف الذي یطوف علی الناس، فتردہ اللقمۃ واللقمتان، والتمرۃ والتمرتان، قالوا: فما المسکین؟ یا رسول اللہ! قال: الذي لایجد غنی یغنیہ، ولا یفطن لہ، فیتصدق علیہ، ولا یسأل الناس شیئا (مسکین وہ نہیں ہے، جو لوگوں کے پاس چکر لگائے اور اسے ایک یا دو لقمے یا ایک یا دو کھجوریں لوٹا دیں، تو صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر مسکین کون ہے؟، آپ نے فرمایا: وہ جس کے پاس دولت نہ ہو، جو اس کی ضرورت کے لیے کافی ہو، اور نہ اس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ یہ ضرورت مند ہے، تا کہ اسے صدقہ دیا جا سکے، اور نہ وہ خود ہی لوگوں سے کوئی سوال کرے) [بخاری، حدیث نمبر: ۱۴۷۹، مسلم، حدیث نمبر: ۱۰۳۹]
فقراء اور مساکین کا درجہ ومقام:
مالداروں کے درمیان رہ رہے غریبوں اور مسکینوں کو افسردگی کی زندگی نہیں گزارنی چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ آدمی آج مالدار ہے، تو کوئی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ مالدار ہی رہے، اور کوئی غریب ومفلس ہے، تو وہ ہمیشہ غریب ومفلس ہی رہے، بلکہ {وتلک الأیام نداولہا بین الناس} (اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں) [سورہ آلِ عمران: ۱۴۰] کے تحت مالداری اور غربت بھی لوگوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے، اور ہم اس الٰہی قانون کا مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ گرچہ وہ دنیا والوں کی نظر ونگاہ میں غریب ومفلس ہیں، مگر خالقِ کائنات کے نزدیک اُن کا درجہ ومقام بہت بلند ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
یدخل الفقراء الجنۃ قبل الأغنیاء(فقراء اور مساکین جنت جانے میں مالداروں پر سبقت لے جائیں گے) [ترمذی، حدیث نمبر: ۲۳۵۳]
اور عبداللہ بن عباس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں اکثریت فقراء ومساکین کی تھی، اور جہنم میں نظر دوڑائی تو وہاں والوں میں اکثریت عورتوں کی تھی۔[بخاری مع الفتح، حدیث نمبر: ۶۴۴۹]
امام نووی نے اپنی شاندار کتاب ’’ریاض الصالحین‘‘ میں ایک باب ’’کمزو، فقیر اور گمنام مسلمانوں کی فضیلت‘‘ قائم کیا ہے، اور اس کے تحت فقراء ومساکین کی فضیلت میں بخاری ومسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ ابوالعباس سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ’’ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا، تو آپ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے فرمایا، تیری اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟، اس نے کہا، معزز لوگوں میں سے ہے، اللہ کی قسم، یہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں پیغامِ نکاح دے تو اس کا نکاح کر دیا جائے، اور اگر (کسی کی) سفارش کرے تو سفارش قبول کی جائے۔ رسول اکرم ﷺ (یہ جواب سن کر) خاموش رہے۔ پھر ایک اور آدمی (وہاں سے) گزرا، رسول اکرم ﷺ نے اس سے پھر پوچھا، اس کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟، اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! اس شخص کا تعلق فقراء مسلمین میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس کی بات سنی نہ جائے، (اس کی یہ بات سن کر) رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، یہ فقیر، پہلے شخص جیسے دنیا بھر کے آدمیوں سے بہتر ہے‘‘ (بخاری ومسلم) [ریاض الصالحین، حدیث نمبر: ۲۵۵]
ایک روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’جنت اور جہنم میں جھگڑا ہوا۔ جہنم نے کہا، میرے اندر سرکش اور متکبر انسان ہوں گے، اور جنت نے کہا، میرے اندر کمزور اور مسکین لوگ ہوں گے، پس اللہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا، (جنت سے کہا) تو جنت ، میری رحمت ہے، تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں گا رحم کروں گا، (اور جہنم سے کہا)، تو جہنم میرا عذاب ہے، میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا، تم دونوں کا بھرنا میری ذمہ داری ہے‘‘ (مسلم) [ریاض الصالحین، حدیث نمبر: ۲۵۶]
فقراء ومساکین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم:
غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنے، اُن کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور اُن کے ساتھ بہتر سلوک ومعاملات کرنے کا امر اس قدر اہم ہے کہ اس کی تاکید کا ذکر سابقہ شریعتوں میں بھی ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ بنی اسرائیل کو جن باتوں کی سخت تاکید فرمائی تھی اور اُن سے جن چیزوں کو بجا لانے کا عہد وپیمان لیا تھا، اُن میں فقراء ومساکین کے ساتھ حسنِ سلوک بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وإذ أخذنا میثاق بني إسرائیل لا تعبدون إلا اللہ، وبالوالدین إحسانا، وذي القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وقولوا للناس حسنا، وأقیموا الصلاۃ وآتوا الزکاۃ، ثم تولیتم إلا قلیلا منکم وأنتم معرضون (اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروگے، اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کروگے، اور رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی (اچھا سلوک کروگے) اور لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو، اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو، پھر کچھ افراد کے سوا، تم سب نے منہ پھیرتے ہوئے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا) [سورہ بقرہ: ۸۳]
مفسرینِ قرآنِ کریم نے لکھا ہے کہ ’’یہاں نبی کریم ﷺ کے زمانے کے یہودیوں کو وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں، جن کا اللہ نے اُن کے آباء واجداد کو حکم دیا تھا، اور جن کے کرنے کے لیے اُن سے عہد وپیمان لیا تھا، لیکن وہ ایسی سخت دل قوم تھی کہ اس نے کبھی بھی کسی عہد وپیمان کا خیال نہ رکھا، اور سوائے چند لوگوں کے پوری قوم نے بد عہدی کی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی کام کا حکم دینا اس کی ضد سے ممانعت کو شامل ہوتا ہے، جب والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا گیا تو گویا اس کی ضد ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کیا گیا جو جرمِ عظیم ہے، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک چھوڑ دینے سے بھی منع کیا گیا جو حرام ہے، اور یہی بات رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں بھی کہی جائے گی، کہ ان کے ساتھ بد سلوکی جرم اور ترکِ حسنِ سلوک حرام ہے‘‘ [تیسیرالرحمن لبیان القرآن: ۵۰]
یوں تو سابقہ شریعتوں کے جن احکامات کو اسلام نے باقی رکھا ہے، اُن پر عمل کرنا واجب ہے، اور عمل سے پہلوتہی اختیار کرنا جرم اور حرام ہے۔ اس اعتبار سے آیتِ مذکورہ میں جن باتوں کا ذکر ہے، وہ ہمارے لیے بھی ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین إحسانا وبذي القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذي القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت أیمانکم إن اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا(اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ، اور والدین کے ساتھ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا) [سورہ نساء: ۳۶]
تواضع وخاکساری:
انسانی معاشرہ میں رہ رہے کمزور طبقات بالخصوص فقراء ومساکین کے ساتھ تواضع وخاکساری سے پیش آنا، اُن کے ساتھ نشست وبرخاست رکھنا، اُن کی دعوت میں شریک ہونا اورانھیں اپنی دعوت میں شریک کرنا اور اُن کو کھانا کھلانا اُن کا عظیم حق ہے، جس پر اجرِ عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغداوۃ والعشي یریدون وجہہ ولا تعد عیناک عنہم، ترید زینۃ الحیاۃ الدنیا، ولا تطع من أغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ وکان أمرہ فرطا(اور جو لوگ صبح وشام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے رہتے ہیں، اُن کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھے ، اور دنیاوی زندگی کی زیب وزینت کی خواہش میں آپ کی آنکھیں اُن سے پھر نہ جائیں، اور آپ اس آدمی کی پیروی نہ کیجےے، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے، اور جو اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے، اور جس کی نا فرمانی کا معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے) [سورہ کہف: ۲۸]
ابن جریر نے روایت کی ہے کہ اہلِ جاہ ومرتبہ کفار نے نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ غریب ونادار مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تا کہ وہ لوگ آپ کی مجلس میں شریک ہوں اور آپ کی باتیں سنیں، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ ایسا نہ کریں، بلکہ غریب مسلمانوں کا خیال کریں اورانھیں اپنی مجلس سے نہ نکالیں! [تیسیرالرحمن لبیان القرآن: ۸۴۱]
کھانا کھلانا:
اہلِ ثروت لوگوں پر فقراء ومساکین کے یوں تو بہت سارے حقوق ہیں، جن میں سے ایک اہم حق اُن کو کھانا کھلانا بھی ہے، اور جو لوگ کھانا کھلانے کی ذمہ داری ادا کریں گے، وہ جنت کے حق دار ہوں گے، اور جو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے، اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سخت ترین وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الماعون میں فرماتا ہے:
أ رأیت الذي یکذب بالدین، فذلک الذي یدع الیتیم ولا یحض علی طعام المسکین(اے میرے نبی! کیا آپ نے اس آدمی کو دیکھا جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتا ہے، پس یہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا ہے) [سورہ ماعون: ۱۔۳]
غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا متقی اور پرہیزگار بندوں کا ایک وصف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما وأسیرا(وہ لوگ اپنے لیے کھانے کی ضرورت ہوتے ہوئے، اسے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں) اور اس عظیم کام کو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، جیسا کہ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إنما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکورا(ہم تمھیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں، اور نہ کوئی کلمہ شکر) [سورہ دہر: ۹]
آج بہت سے لوگوں سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ غرباء ومساکین پر خرچ کیجےی، اورانھیں کھلائیے پلائیے، اس پر بہت بڑا اجر ہے، تو کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم کیوں جائیں ان کو کھلانے پلانے اور اُن پر خرچ کرنے،انھیں تو اللہ تعالیٰ نے محروم کیا ہے۔ واضح رہے کہ ایسا کرنا گویا سخت عذاب کو دعوت دینا اور جہنم میں جانے کا سامان تیار کرنا ہے، اور یہ یہودیوں اور کفار ومشرکین کا فعل وکردار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وإذا قیل لہم أنفقوا مما رزقکم اللہ قال الذین کفروا للذین آمنوا أ نطعم من لو یشاء اللہ أطعمہ، إن أنتم إلا في ضلال مبین(اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تمھیں جو روزی دی ہے، اس میں سے خرچ کرو، تو اہل کفر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھلائیں، جسے اگر اللہ چاہتا تو ضرور کھلاتا، تم لوگ تو کھلی گمراہی میں پڑے ہو) [سورہ یٰس: ۴۷]
فقراء ومساکین کی ضرورتوں کی تکمیل اولین ضرورت:
بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کوئی آدمی کسی غریب ومفلس شخص اور اس کے اہل وعیال کی کفالت کر رہا ہوتا ہے، اور کسی دن اس کی طرف سے یا اس کے اہل وعیال میں سے کسی کی طرف سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے، تو وہ آدمی کفالت بند کر دیتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ولا یاتل أولوا الفضل منکم والسعۃ أن یؤتوا أولي القربیٰ والمساکین والمہاجرین في سبیل اللہ، ولیعفوا ولیصفحوا، ألا تحبون أن یغفر اللہ لکم، واللہ غفور رحیم(اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ حیثیت ہیں، وہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھا لیں، بلکہ معاف کر دیں اور در گزر کر دیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں معاف کر دے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے) [سورہ نور: ۲۲]
بخاری ومسلم، ترمذی، احمد اور طبری وغیرہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ’’واقعہ افک‘‘ سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے، جس میں آتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ مسطح بن اثاثہ کی کفالت کرتے تھے، جو ان کے خالہ زاد بھائی تھے، جب انھوں نے ’’واقعہ افک‘‘ کے موقع سے افترا پردازوں کی ہاں میں ہاں ملایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت آ گئی،تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ اب وہ مسطح کی کفالت نہیں کریں گے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اسے سنا تو کہا اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کر دے، اور دوبارہ مسطح کی کفالت جاری کر دی [بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۱]
فقراء ومساکین کی امداد کرنا سچے مومن کی علامت:
قرآن کریم میں ایک سچے اور پکے مومن کی علامت مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بتلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لیس البر أن تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخر والملائکۃ والکتاب والنبیین وآتي المال علی حبہ ذوي القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل، والسائلین وفي الرقاب ۔۔۔۔۔۔۔ أولئک الذین صدقوا وأولئک ہم المتقون(حقیقی معنوں میں نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق ومغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ آدمی اللہ، یوم آخرت، فرشتوں، قرآن کریم، اور تمام انبیاء پر ایمان لائے، اور اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں، اور غلاموں کو آزاد کرانے پر خرچ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں) [سورہ بقرہ: ۱۷۷]
فقراء ومساکین کی مالی امداد:
اسلام کی آمد سے قبل مختلف انسانی معاشروں اور اکثر وبیشتر تہذیبوں میں فقراء ومساکین کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، حقیر، مفلس، مجبور، اور قابل نفرت جانا جاتا تھا۔ پسماندہ طبقات کے ساتھ یہ برتاؤ وسلوک عرب میں بھی عام تھا، غریب ومسکین ہونا ایک طرح سے گالی اور ایک ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا پوری زندگی ملتی رہتی تھی، کوئی سماج کے اس قسم کے لوگوں کے سر پر دستِ شفقت ومہربانی رکھنے والا نہ تھا۔ ایسے ماحول میں اللہ رب العالمین نے رسولِ اکرم ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ پر کتابِ ہدایت (قرآن کریم) نازل فرمائی، جس کو پڑھ پڑھ کر رسولِ اکرم ﷺ نے لوگوں کو سنانا شروع کیا اور سماج کے کمزور طبقات کو اوپر اٹھایا، اُن پر ہو رہے مظالم وزیادتیوں پر سخت وعیدیں سنائیں، اور اُن پر خرچ کرنے اور اُن کی مالی امداد وتعاون کرنے پر جنت وانعام کی بشارت سنائی۔ اس قسم کی متعدد آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔ سورہ معارج میں غریبوں اور مسکینوں کے لیے اپنے اموال وجائداد میں حصہ مقرر کرنے اور ان کا مالی تعاون کرنے پر جنت میں عزت واکرام سے رہنے کی یوں بشارت آئی ہے:
والذین في أموالہم حق معلوم، للسائل والمحروم ۔۔۔۔۔۔۔۔ أولئک في جنات مکرمون(اور جن کے مال میں مانگنے والے اور مال سے محروم لوگوں کے لیے حق وحصہ معلوم ومقرر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی لوگ جنتوں میں معزز ومکرم رہیں گے) [سورہ معارج: ۲۴ و۲۵ و۳۵]
مسکین اہلِ قرابت، صدقات کے پہلے مستحق ہیں:
زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کے وقت آدمی کو چاہیے کہ اپنے مسکین قرابت داروں کا سب سے پہلے خیال کرے، کیوں کہ یہ لوگ صدقات کے اولین مستحق ہیں، اور حقوق العباد میں قرابت دار والدین کے بعد دوسرے نمبر پر آتے ہیں، اور اُن پر خرچ کرنے کا ثواب دو گنا ملتا ہے، ایک صلہ رحمی کا، اور دوسرا صدقہ وخیرات کرنے کا۔ اس سلسلے میں کئی حدیثیں وارد ہیں، جن میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ ’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: وہ دینار جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، اور وہ دینار جو غلام آزاد کرانے میں خرچ کیا جائے، اور وہ دینار جو کسی مسکین پر صدقہ کیا جائے، اور وہ دینار جو اپنے گھر والوں پر خرچ کیا جائے، اُن میں سب سے زیادہ اجر وثواب اس دینار کا ہے، جو آدمی اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے‘‘ [مسلم، حدیث نمبر: ۹۹۵]
مسکین اہلِ قرابت پر خرچ کرنے اورانھیں صدقات وخیرات میں خیال رکھنے کے اسی ثواب کے پیشِ نظر مذہبِ اسلام اُن کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إن اللہ یأمر بالعدل والإحسان وإیتائي ذی القربیٰ وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغي یعظکم لعلکم تذکرون(بے شک اللہ انصاف ، احسان اور رشتہ داروں کو (مالی) تعاون دینے کاحکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ افعال اور سرکشی سے روکتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تا کہ تم اسے قبول کر لو) [سورہ نحل: ۹۰]
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وآت ذا القربیٰ حقہ(اور رشتے داروں کا حق ادا کرتے رہو) [سورہ بنی اسرائیل: ۲۶]
پھل اور کاشت کاٹنے کے دن غریبوں کو دینا:
اللہ رب العالمین نے زمینی پیداوار میں زکاۃ واجب قرار دی ہے۔ عشر یعنی دسواں حصہ اگر زمین بارش سے سیراب ہوتی ہو، یا نصف عشر یعنی بیسواں حصہ اگر کنویں یا نہر وغیرہ کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو، اور مصارفِ زکاۃ میں فقراء اور مساکین ہیں، جن کو دینا ہی دینا ہے، پھر بھی اگر پھل توڑنے کے دن یا کسی خاص کاشت کاٹنے کے دن غرباء اور مساکین وہاں حاضر ہو جائیں، تو اُن کو کچھ دے دینے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وہو الذي أنشأ جنات معروشات وغیر معروشات والنخل والزرع مختلفا أکلہ والزیتون والرمان متشابہا وغیر متشابہ، کلوا من ثمرہ إذا أثمر وآتوا حقہ یوم حصادہ(اور وہی ہے، جس نے چھپروں پر چڑھائے اور بے چڑھائے ہوئے باغات پیدا کیے ہیں، اور کھجوروں کے درخت اور کھیتیاں پیدا کی ہیں، جن کے دانے اور پھل مختلف قسم کے ہوتے ہیں، اور زیتون اور انار پیدا کیے ہیں، جن میں سے بعض ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں، اور بعض مشابہ نہیں ہوتے، جب اُن کے پھل تیار ہو جائیں تو کھاؤ، اور اُن کے کاٹنے کے دن اُن میں جو حق واجب ہے، دیا کرو) [سورہ انعام: ۱۴۱]
بعض مفسرین، جیسے امام عطاء اور حسن بصری ہیں، کے نزدیک اس آیت میں واجب حق دینے کا جو حکم آیا ہے، اس سے مراد زکاۃ نہیں، بلکہ کاٹنے کے وقت جو لوگ آ جائیں،انھیں کچھ دینا ہے۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ یہ سورت مکی ہے، اور زکاۃ مدینہ میں فرض ہوئی تھی۔
تقسیمِ میراث کے موقع پر غرباء ومساکین کا خیال رکھنا:
اسلام عام حالات میں انسانوں کو اس بات کا حکم دیتا ہی ہے کہ صدقات وخیرات کرتے وقت اور اموالِ زکوٰۃ کی تقسیم کرنے کے موقع پر غریبوں او رمسکینوں کا خاص خیال رکھیں، اور اُن کی بہر صورت امداد وتعاون کریں، مگر اموالِ میراث کی تقسیم کے موقع پر بھی اس قسم کے لوگوں کا خیال رکھنے کا خاص حکم دیتا ہے کہ جب وراثت کا مال وارثین میں تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں، اور یتیم اور غریب لوگ آ جائیں، تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور اُن کا دل رکھنے کے لیےانھیں کچھ مال دے دینا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وإذا حضر القسمۃ أولوا القربیٰ والیتامیٰ والمساکین فارزقوہم منہ وقولوا لہم قولاً معروفاً(اور اگر تقسیمِ میراث کے وقت رشتہ دار، ایتام اور مساکین موجود ہوں، توانھیں بھی اس میں سے کچھ دو، اور اُن سے نرمی سے بات کرو) [سورہ نساء: ۸]
فقراء ومساکین کو بن مانگے دینا:
عام طور پر لوگ ایسے ضرورت مندوں کو دینے کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو دروازے دروازے پر پہنچتے ہیں، اور دستِ سوال دراز کرتے ہیں اور لوگوں کے پاس اپنی ضرورتیں رکھتے ہیں، حالاں کہ قرآنِ کریم نے چہروں کو دیکھ اور پڑھ کر ایسے غرباء ومساکین کو دینے کا حکم دیا ہے، جو لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا:
وما تنفقوا من خیر فلأنفسکم وما تنفقون إلا ابتغاء وجہ اللہ وما تنفقوا من خیر یوف إلیکم، وأنتم لا تظلمون، للفقراء الذین أحصروا في سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً في الأرض یحسبہم الجاہل أغنیاء من التعفف، تعرفہم بسیماہم، لا یسئلون الناس إلحافاً، وما تنفقوا من خیر فإن اللہ بہ علیم، الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سرا وعلانیۃ فلہم أجرہم عند ربہم، ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون(اور تم جو بھی کوئی اچھی چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ کروگے، تو اس کا فائدہ خود تمھیں ہی پہنچے گا، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو، صرف اللہ کی رضا کے لیے کرو، اور تم جو بھی کوئی اچھی چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ کروگے، اس کا پورا پورا بدلہ تمھیں دیا جائے گا، اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، صدقہ اُن فقراء کے لیے ہے، جو اللہ کی راہ میں بند ہو گئے، زمین میں (طلب رزق کے لیے) چل پھر نہیں سکتے، نا واقف لوگ اُن کے سوال نہ کرنے کی وجہ سےانھیں مالدار سمجھتے ہیں، آپ انھیں اُن کے چہروں سے پہچان لیں گے، وہ لوگوں سے سوال کرنے میں الحاح سے کام نہیں لیتے، اور تم جو بھی کوئی اچھی چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ کروگے، تو اللہ بے شک اسے جانتا ہے،جو لوگ اپنے اموال رات میں، اور دن میں خفیہ طور پر، اور دکھلا کر خرچ کرتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ثابت ہے، اور اُن پر نہ خوف طاری ہوگا، اور نہ انھیں کوئی غم لاحق ہوگا) [سورہ بقرہ: ۲۷۲۔۲۷۴]
ان آیاتِ کریمہ کی تفسیر وتفہیم کرتے ہوئے فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی؍ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ بیان کرتا ہے کہ کون لوگ مستحق ہیں کہ اُن پر خرچ کیا جائے، چنانچہ اُن کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں:(۱) فقر اور تنگ دستی (۲) جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں، جہاد وغیرہ کے لیے وقف ہو چکے ہیں، وہ اس کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں(۳) رزق کی تلاش وجستجو کے لیے سفر کے قابل نہ ہوں (۴) نادان لوگ اُن کی بے سوالی کی وجہ سےانھیں مالدار خیال کرتے ہیں (حالاں کہ وہ ضرورت مند ہو اور وہ مخلصانہ صبر اور سوال سے بچنے کی خاطر کسی سے مانگتا نہ ہو)، (۵) سمجھ دار لوگ اُن کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے پہچان لیں گے(۶) لوگوں سے اصرار کے ساتھ نہیں مانگتے، بلکہ اگر حالات انھیں سوال کرنے پر مجبور کر دیں، تب بھی اُن کے سوال میں اصرار اور چمٹ جانے کی کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنی ان صفات کی وجہ سے صدقات دیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ [تفسیر السعدی: ۱؍ ۳۲۳]
فضول خرچی کی بجائے مسکینوں کو دینا:
انسان کے پاس جب دولت ہوتی ہے، تو وہ فضول خرچی کرنے اور لا یعنی چیزوں میں اپنی دولت وثروت کو لٹانے میں کوئی دریغ نہیں کرتا، جب کہ اسلام اس سے منع کرتا ہے۔ آدمی کے پاس جس قدر دولت جمع ہوتی ہے، اسی قدر اس کے مال میں غریبوں اور مسکینوں کا حق بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وفي أموالہم حق للسائل والمحروم(اور اُن کے مال میں مانگنے والے اور نعمتِ دنیا سے محروم کا حق ہے) [سورہ ذاریات: ۱۹]
اس لیے مذہبِ اسلام کا نظریہ ہے کہ فضول خرچی کی بجائے ضرورت مندوں اور فقراء ومساکین پر خرچ کیا جائے، اور عقوبت وعذابِ الٰہی سے بچ کر اجر وثواب کا مستحق بنے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وآت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا(اور آپ رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کیجیے اور فضول خرچی نہ کیجیے) [سورہ بنی اسرائیل: ۲۶]
ایسا کرنے پر رب ذوالجلال کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور ایسا کرنے والے لوگ دنیا وآخرت میں فائز المرام ہوں گے، جیسا کہ سورہ روم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل، ذلک خیر للذین یریدون وجہ اللہ، وأولئک ہم المفلحون(پس آپ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دیجیے، یہ کام ان کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں، اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں) [سورہ روم: ۳۸]
غریبوں کی شادی کرا دینا:
کمزور طبقات کے لوگوں میں غربت وافلاس کی وجہ سے شادیاں نہیں ہو پاتی ہیں، کہیں ایسا ہوتا ہے کہ مرد غریب ہوتا ہے اور اس کے پاس مہر دینے اور طعام ورہائش کا انتظام کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ شادی نہیں کر پاتا ہے، اور کہیں ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کے گارجین غریب ومفلس ہوتے ہیں، مہنگائی کے اس دور میں اور رسمِ جہیز کے اس زمانے میں وہ اپنی جوان لڑکیوں کی شادیاں نہیں کر پاتے ہیں۔ ایسے میں مالداروں اور حیثیت والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریب مردوں کی شادی کرا دیں، اور غریب لڑکیوں کی شادی کے اسباب ومتاع کی فراہمی کر دیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وأنکحوا الأیامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وإمائکم، إن یکونوا فقراء یغنیہم اللہ من فضلہ، واللہ واسع علیم(اور تم اپنے بے نکاح مردوں، عورتوں کے نکاح کر دو، اور (اُن کے بھی) جو تمھارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں، اگر وہ فقیر ہوں گے، تو اللہ اپنے فضل سےانھیں غنی کر دے گا، اور اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے) [سورہ نور: ۳۲]
آیت میں مذکور ’’أیامیٰ‘‘، یہ ’’أیم‘‘ کی جمع ہے، اور ’’أیم‘‘ اس عورت کو کہا جاتا ہے، جس کا شوہر نہ ہو، اور اُس مرد کو کہا جاتا ہے، جس کی بیوی نہ ہو، شادی کرنے کے بعد جدائی اختیار کی ہو، یا شادی کی ہی نہ ہو۔
حدیثِ رسول ﷺ میں شادی کرانے کا ایک عجیب وغریب واقعہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس شخص کی بھی شادی کرا دی تھی، جس کے پاس ایک چادر کے سوا اور کچھ نہ تھا، اور اسے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی میسر نہ آ سکی تھی، اس کے باوجود آپ نے ایک عورت کے ساتھ اس کی شادی کرا دی اور اس کا مہر یہ مقرر کیا کہ اسے جتنا قرآنِ کریم یاد ہے، وہ اپنی بیوی کو بھی سکھا دے۔ [دیکھیں: بخاری، حدیث نمبر: ۵۰۳۰، مسلم، حدیث نمبر: ۱۴۲۵]
شادی ہو جائے گی، بعد میں اللہ تعالیٰ اسبابِ معیشت ومعاش کا انتظام فرما دے گا۔ چاہے اللہ اس کی ازدواجی زندگی میں اس قدر برکت عطا کر دے گا کہ وہ خوش حال زندگی گزارنے لگے گا، یا اللہ تعالیٰ اور کہیں سے روزی کے ذرائع پیدا کر دے گا۔
فقراء ومساکین کو قرض دینا:
قرض دینا کارِ ثواب ہے، مگر ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ آدمی صرف مالداروں ہی کو اس بنا پر قرض دینے کا اہتمام کرے کہ وہ جب چاہیں گے، ادا کر دیں گے، بلکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کو بھی قرض دیا جائے، اور محض اس بنیاد پر کہ وہ غریب ومسکین ہیں، وہ کہاں سے ادائیگی کر پائیں گے،انھیں قرض دینے سے گریز اور اجتناب کیا جائے، صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں اگر قرض لینے والا بد حال اور تنگ دست ہو، اور اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہوں تو اسے سہولت دی جائے، بلکہ اسے معاف کر دے تو یہ بہت بہتر کام ہے، کیوں کہ اس طرح کرنے سے دنیا میں لوگ اس کی تعریف کریں گے، اور آخرت میں اس کا اچھا بدلہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وإن کان ذو عسرۃ فنظرۃ إلی میسرۃ، وأن تصدقوا خیرا لکم إن کنتم تعلمون(اور اگر قرض دار تنگ دست ہو تو سہولت ہونے تک اُسے مہلت دی جائے، اور تمھاراانھیں معاف کر دینا، اگر تم سمجھتے ہو تو تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے) [سورہ بقرہ: ۲۸۰]
قرض دار اگر تنک دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینے یا پورا قرض ہی معاف کر دینے کی حدیث میں بھی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی تکلیفوں سے نجات دے، تو وہ کسی مفلس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔‘‘ [مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۶۳]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سایے میں جگہ مرحمت فرمائے گا، جب کہ (اس دن) اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ [ترمذی، حدیث نمبر: ۱۳۱۰]
ڈانٹ ڈپٹ اور احسان جتلانے کی ممانعت:
اللہ رب العالمین نے قرآنِ کریم میں جگہ جگہ فقراء ومساکین اور محتاجوں وغرباء کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے، اور ان سے سختی اور تکبر کے ساتھ بات کرنے، درشت لب ولہجہ اختیار کرنے اورانھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وأما السائل فلا تنہر(اور مانگنے والے کو نہ جھڑکیے) [سورہ ضحی: ۱۰]
یعنی اگرانھیں منع بھی کرنا ہو تو جھڑکنے کی بجائے پیار ومحبت کے ساتھ منع کیا جائے۔ غریب، مسکین اور محتاج کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرنا رب کریم کو سخت نا پسند ہے۔
بہت سے لوگ غرباء ومساکین کے ساتھ امداد وتعاون تو کرتے ہیں، مگر موقع بموقع احسان جتلاتے رہتے ہیں، یہ چیز بھی رب کریم کو نا پسند ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان موجود ہے:
یا أیہا الذین آمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والأذی(اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو) [سورہ بقرہ: ۲۶۴]
صحیح مسلم میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمی سے نہ بات کرے گا، اور نہ اُن کی طرف دیکھے گا، اور نہ انھیں پاک کرے گا، اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہوگا: احسان جتلانے والا، اپنی لنگی یا پائجامہ ٹخنے سے نیچے پہننے والا، اور اپنا سامانِ تجارت جھوٹی قسم کے ذریعہ بیچنے والا۔‘‘ [مسلم، حدیث نمبر: ۱۰۶]
فقراء ومساکین کے اموال وجائداد کا تحفظ:
عام طور پر اسلامی تعلیمات سے محروم یا عصبیت زدہ معاشرے میں یہ چیز دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ فقراء ومساکین کے معاملات جب مالداروں اور حیثیت وطاقت والوں کے ساتھ ہوتے ہیں، تو لوگ مالداروں اور حیثیت وطاقت والوں کا ساتھ دینے لگتے ہیں، چاہے وہ ظالم ہوں یا مظلوم، مگر اسلام میں یہ روا نہیں ہے، بلکہ اسلام کسی بھی صورت میں انصاف کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ قوت وطاقت والوں کے ذریعے غریبوں اور مسکینوں کے اموال وجائداد چھن جانے کے خدشات نظر آ رہے ہوں، تو بہرصورت اُن کی جائداد واموال کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس سلسلے میں سورہ کہف کی وہ آیت ہماری آنکھوں کو کھول دیتی ہے، جس میں خضر علیہ السلام کے ہاتھوں سے موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں کشتی کو عیب دار بنانے کاتذکرہ ہے، اور پھر کشتی کو پھاڑنے کے راز کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أما السفینۃ فکانت لمساکین یعملون في البحر فأردت أن أعیبہا وکان ورائہم ملک یأخذ کل سفینۃ غصبا(بہر حال وہ کشتی کچھ غریب لوگوں کی تھی، جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے، میں نے اس میں عیب پیدا کر دینا چاہا، اس لیے کہ ان کے علاقے کے بعد ایک بادشاہ تھا، جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی لے لیتا تھا) [سورہ کہف: ۷۹]
حافظ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’اس آیت میں یہ وضاحت ہے اس کام کی جسے سمجھنے میں موسیٰ علیہ السلام کو مشکل پیش آئی اور انھوں نے ظاہر حال کے مطابق اس پر اعتراض کر دیا تھا، جب کہ اس کی باطنی حکمت کو اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام پر ظاہر کر دیا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کی باطنی حکمت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کشتی کو اس لیے پھاڑا تھا کہ ان کا ایک ایسے ظالم بادشاہ کے پاس سے گزر ہونے والا تھا ’’جو ہر ایک عمدہ اور اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا‘‘، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، تا کہ عیب کی وجہ سے ظالم بادشاہ کے چھننے سے اسے بچا سکوں اور کشتی کے غریب مالکان اس سے فائدہ اٹھا سکیں، جن کے پاس گزر بسر کے لیے اس کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر: ۳؍ ۷۹۱]
فقراء ومساکین کی امداد کی مدات:
اللہ رب العالمین نے اپنے کسی بھی بندے کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا ہے۔ ہر ایک کے لیے اس نے ایسے اسباب وذرائع اور وسائل مہیا کر دیے ہیں کہ اس کے کمزور سے کمزور بندے، فقراء ومساکین اور مفلس ونادار سب آسانی کے ساتھ روئے زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے شب وروز اور لیل ونہار شائستگی اور شگفتگی کے ساتھ گزار سکیں۔ ایک غریب ومفلس انسان کو سال بھر امداد وتعاون کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، اللہ رب العالمین نے اس حساب سے اُن کی امداد کی کچھ مدات مقرر کی ہیں، جیسے زکوٰۃ، مالِ غنیمت، فَی، وقف، ہدی واضاحی، صدقہ فطر،کفارات اور فدیہ وغیرہ۔
(۱)زکوٰۃ:قرآنِ کریم میں زکوٰۃ کے آٹھ (۸) مصارف بیان کیے گئے ہیں، کہ یہ آٹھ جگہیں ہیں، جہاں مسلمان اپنی زکوٰۃ کی رقم خرچ کر سکتا ہے۔ اُن آٹھ قسم کے لوگوں میں ایک نمبر پر فقراء کا، اور دوسرے نمبر پر مساکین کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إنما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفي الرقاب والغارمین وفي سبیل اللہ وابن السبیل، فریضۃ من اللہ، واللہ علیم حکیم(بے شک اموالِ صدقہ فقیروں، مسکینوں، زکوٰۃ اکٹھا کرنے والوں، اور اُن کے لیے ہیں جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے، قرض داروں کا قرض چکانے کے لیے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا،بڑی حکمتوں والا ہے) [سورہ توبہ: ۶۰]
(۲)مالِ غنیمت: ’’غنیمت‘‘ سے مراد وہ مال ہے، جو کافروں سے جنگ کرنے کے بعد ہاتھ آئے۔ اس مال کو جن لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم حکومت کو دیا گیا ہے، اُن میں سے مسکین اور محتاج بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
واعلموا أنما غنمتم من شیء فأن للہ خمسہ وللرسول ولذي القربیٰ والمساکین وابن السبیل(اور جان لو کہ تمھیں جو کچھ بھی مالِ غنیمت ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے، اور (رسول کے) رشتہ داروں ، اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا) [سورہ انفال: ۴۱]
(۳) مالِ فَی: ’’فَی‘‘ اس مال کو کہتے ہیں، جو بغیر جنگ کے حاصل ہو، جیسے وہ مال جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مصالحت کے نتیجہ میں حاصل ہو، یا کوئی ذمی مال چھوڑ کر مر جائے، اور اس کا کوئی وارث نہ ہو، اور وہ مال جو جزیہ اور خراج کے طور پر حاصل ہو۔
مالِ فَی میں جن لوگوں کا حق بتایا گیا ہے، اُن میں فقراء اور مساکین شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ما أفاء اللہ علی رسولہ من أہل القری فللہ وللرسول ولذي القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل کی لا یکون دولۃ بین الأغنیاء منکم وما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا، واتقوا اللہ إن اللہ شدید العقاب، للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیارہم وأموالہم یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا وینصرون اللہ ورسولہ أولئک ہم الصادقون(اللہ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے جو مال دلوایا، تو وہ اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے، اور رشتہ داروں کے لیے، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تا کہ وہ مال تمھارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گھومتا رہ جائے، اور رسول تمھیں جو دیں اسے لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں اُس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے، وہ مال اُن فقیر مہاجرین کے لیے ہے، جو اپنے گھروں اور مال ودولت سے نکال دیے گئے، وہ لوگ اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کے طلب گار تھے، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے تھے، وہی لوگ سچے تھے) [سورہ حشر: ۷۔۸]
(۴) وقف:اپنے مال میں سے کچھ مال دائمی خیرات کے لیے خاص کر دینا وقف کہلاتا ہے۔ اس میں بھی غرباء، فقراء اور مساکین کا حق ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی، وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں جو زمین ملی ہے، اس سے بڑھ کر نفیس وعمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر چاہو تو اس کا اصل اپنے قبضے میں رکھو اور (اس کا نفع) صدقہ کر دو‘‘۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے (بطور وقف) صدقہ کر دیا کہ اسے بیچا نہیں جائے گا، ہبہ نہیں کیا جائے گا، نہ وراثت میں تقسیم ہوگا، انھوں نے اسے فقراء، قرابت داروں، غلاموں کے آزاد کرانے، مہماتِ جہاد، مسافروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کر دیا، اور فرمایا کہ جو اس کا منتظم ہو، اس پر کوئی پابندی نہیں، وہ اس میں سے معروف انداز میں کھا بھی سکتا ہے اور کھلا بھی سکتا ہے، بشرطیکہ مال جمع کرنے والا نہ ہو۔‘‘ [بخاری، حدیث نمبر: ۲۷۳۷، مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۳۲]
(۵) صدقہ فطر: ماہِ رمضان المبارک میں ادا ہونے والے صدقہ فطر میں بھی غرباء اور مساکین کا حق بتلایا گیا ہے، بلکہ اس کا ایک ہی مصرف بتایا گیا ہے، اور وہ مساکین وغرباء ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مساکین کی تخصیص آئی ہے، فرمایا: ’’وطعمۃ للمساکین‘‘ (یہ مساکین کی خوراک ہے) [مستدرک حاکم: ۱؍ ۴۰۹]
(۶) ہدی وقربانی: جو جانور، جیسے اونٹ، گائے وغیرہ حرمِ مکی کی طرف بھیجا جائے، اور وہیں ذبح کیا جائے اسے ’’ہدی‘‘ کہتے ہیں، اس کا نام ’’ہدی‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔
ہدی وقربانی میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت کے مصارف میں فقراء اور مساکین کا بطورِ خاص ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ قربانی کرنے اور فقراء ومساکین کو اس کا گوشت کھلانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
ویذکروا اسم اللہ في أیام معلومات علیٰ ما رزقہم من بہیمۃ الأنعام، فکلوا منہا وأطعموا البائس الفقیر(اور چند متعین دنوں میں، ان چوپایوں کو اللہ کے نام سے ذبح کریں، جو اللہ نے بطور روزی انھیں دیا ہے، پس تم لوگ اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ) [سورہ حج: ۲۸]
مسلمانوں کو چاہیے کہ قربانی میں ایسا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کریں، جس سے فقراء ومساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ ڈاکٹر صالح فوزان سب سے افضل قربانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’سب سے افضل قربانی اونٹ کی قربانی ہے، پھر گائے کی بشرط کہ اکیلے شخص کی طرف سے ہو، کیوں کہ یہ جانور قیمت کے لحاظ سے مہنگے ہوتے ہیں، نیز ان میں فقراء ومساکین کا فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے‘‘ [الملخص الفقہی: ۱؍ ۴۴۹]
(۷) کفارات:کفارات کی کئی قسمیں ہیں، جیسے قسم کا کفارہ، روزے کی حالت میں جماع کر لینے کاکفارہ وغیرہ۔ تمام قسم کے کفارات میں غرباء ومساکین کا حق ہے۔ یہاں بغرضِ اختصار صرف مذکورہ دو ہی چیزوں ، اور ان کے مستحقین میں غرباء ومساکین کی شمولیت کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
قسم کا کفارہ:قسم کے کفارہ اور اس کے مصارف کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العالمین فرماتا ہے:
لایؤاخذکم اللہ باللغو في أیمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الأیمان، فکفارتہ إطعام عشرۃ مساکین من أوسط ما تطعمون أہلیکم أو کسوتہم أو تحریر رقبۃ، فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ أیام، ذلک کفارۃ أیمانکم إذا حلفتم(اللہ تعالیٰ تمھاری بے مقصد قسموں پر تمھارا مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن جن قسموں کے مطابق تمھارا ارادہ پختہ ہوگا، ان پر تمھارا مواخذہ کرے گا، پس ایسی قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، ویسا ہی مناسب کھانا جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو، یاانھیں پہننے کے کپڑے دینا ہے، یا ایک گردن (غلام یا لونڈی) آزاد کرنا ہے، اور جسے اُن میں سے کوئی میسر نہ ہو، وہ تین دن روزے رکھے گا، اگر تم قسم کھا لو تو یہ تمھاری قسموں کاکفارہ ہے) [سورہ مائدہ: ۸۹]
جماع کا کفارہ:
حالتِ صوم میں جان بوجھ کر جماع کر لینے پر جو کفارہ واجب ہوتا ہے، اس میں بھی مساکین وغرباء کا حق ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘، اس نے کہا: میں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی ہے، جب کہ میں روزے سے تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو کوئی گردن (غلام یا لونڈی) ایسی پاتا ہے کہ اسے آزاد کر دے؟‘‘، اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا اتنی طاقت ہے کہ دو مہینے متواتر روزے رکھ سکے؟‘‘، اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا اتنی ہمت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے؟‘‘، وہ بولا: نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہ نبی ﷺ کے پاس ٹھہرا رہا، ابھی ہم اسی حال میں تھے کہ آپ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا، اس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘، اس نے کہا: میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ لو اور صدقہ کر دو‘‘، وہ کہنے لگا: کیا اپنے سے زیادہ محتاجوں پر، اے اللہ کے رسول!، اللہ کی قسم! ان دو پتھریلے محلوں کے درمیان میرے گھر والوں سے بڑھ کر اور کوئی گھر فقیر نہیں ہے۔ یہ بات سن کر نبی ﷺ کو ہنسی آ گئی حتیٰ کہ آپ کے نوکیلے دانت نظر آنے لگے، پھر آپ نے فرمایا: ’’اسے اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔‘‘ [بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۳۶، مسلم، حدیث نمبر: ۱۱۱۱]
(۸)فدیہ:ایسا شخص، جو بوڑھا ہو اور وہ روزہ رکھ سکتا ہو اور نہ ہی بعد میں اس کی قضا کر سکتا ہو، تو اس کے اوپر فدیہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:
وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین(اور جنھیں روزے رکھنے میں مشقت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں) [سورہ بقرہ: ۱۸۴]
امام بخاری نے (وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ ’’یہ آیت منسوخ نہیں ہے، بلکہ یہ حکم بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے، جو روزے نہیں رکھ سکتے، کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور (یطیقونہ) کا معنیٰ یہ بتایا ہے کہ جو لوگ عمر فانی کو پہنچ جانے کی وجہ سے روزے کی شدت برداشت نہیں کر سکتے، وہ افطار کر لیں، اور روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں!‘‘ [بخاری، حدیث نمبر: ۴۵۰۵]
فقراء ومساکین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کا انجام:
مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نےانھیں جس قدر مالی وسعت وطاقت دی ہو، اس کے مطابق وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کریں، اور اُن سے بے توجہی برتنے سے حتی الامکان پرہیز کریں، اس لیے کہ غریبوں اور مسکینوں سے بے توجہی برتنا اور اُن کی مدد نہ کرنا نہ صرف یہ کہ آخرت کے عذاب کا باعث ہے، بلکہ انسان کی زندگی میں بھی اس کے برے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ رب العالمین اپنے ایسے بندوں سے اپنی عطا کردہ نعمتیں چھین لیتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے سورہ قلم [آیت نمبر: ۱۷ تا ۳۳] میں ’’اصحاب الجنہ‘‘ (باغ والے ) کی ایک داستان بیان کی ہے، جن کے باپ غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھتا تھا، اور باغ کا خرچ اور اپنے بال بچوں کا خرچ رکھ کر باقی غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتا تھا، ا س کے انتقال کے بعد بیٹوں نے کہا کہ ہمارا باپ تو بے وقوف تھا، جو اتنی بڑی رقم غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتا تھا، اور انھوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ وہ صبح سویرے جا کر کسی آدمی کے جاگنے سے پہلے ا س کے پھل کاٹ لیں گے، تا کہ کوئی فقیر ومسکین آ کر اُن سے صدقہ وخیرات نہ مانگے، وہ اس گمان میں مبتلا ہو گئے کہ اب اس کے پھل کا حصول یقینی ہو گیا ہے، کوئی چیز اس راہ میں حائل نہیں ہے، اور بھول گئے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر وہ کسی چیز پر قادر نہیں ہیں، انھوں نے ان شاء اللہ نہیں کہا کہ اگر اللہ چاہے گا تو ہم اپنے باغ کا پھل کاٹ لیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب رات ہی میں اس باغ پر نازل ہوا، اور سارا باغ جل کر اندھیری رات کی طرح کالا اور خاکستر ہو گیا، اور کچھ بھی باقی نہ رہا۔ [تیسیرالرحمن لبیان القرآن: ۱۶۲۶]
قرآنِ کریم نے مشکلات ومصائب نازل ہونے اور فقر وتنگ دستی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب غریبوں اور مسکینوں کی امداد نہ کرنا بیان کیا ہے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے:
وأما إذا ما ابتلاہ فقدر علیہ رزقہ، فیقول ربي أہانن، کلا بل لا تکرمون الیتیم، ولا تحاضون علی طعام المسکین، وتأکلون التراث أکلا لما، وتحبون المال حبا جما(اور جب انسان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تو اس کی روزی اس پر تنگ کر دیتا ہے، تو وہ کہتا ہے، میرے رب نے مجھے ذلیل ورسوا کر دیا ہے، ہر گز نہیں، بلکہ تم یتیم کی قدر نہیں کرتے ہو، اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے ہو، اور وراثت کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو، اور تم لوگ مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو) [سورہ فجر: ۱۶۔۲۰]
اور غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کے حقوق ادا نہ کرنا جہنم میں جانے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ سورہ ’’الحاقہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے جہنم میں جانے اور طرح طرح کے عذاب سے دوچار ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا بتلایاہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
ولا یحض علی طعام المسکین(اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا تھا) [سورہ الحاقہ: ۳۴]
اور سورہ ’’المدثر‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کیا ہے کہ جنتی جب جہنمی سے جہنم میں جانے کی وجہ دریافت کریں گے، تو جہنمی لوگ اس کے چار اسباب کا ذکر کریں گے، جن میں سے ایک سبب ’’مسکینوں کو کھانا نہ کھلانا‘‘ بھی بتلائیں گے، {ولم نک نطعم المسکین} (اور مسکین کو ہم لوگ کھانا نہیں کھلاتے تھے) [سورہ المدثر: ۴۴]
اللہ رب العالمین تمام مسلمانوں کو فقراء اور مساکین کے حقوق کی ادائیگی کرنے کی توفیق دے، آمین!

آپ کے تبصرے

3000