پوری کتاب کے اسلوب میں یکسانیت: حافظ ابن حجر کی تصنیفات کی ایک بڑی خوبی

فاروق عبداللہ نراین پوری تعارف و تبصرہ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تصنیفات میں ایک اہم خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ ضخیم سے ضخیم کتاب میں انھوں نے شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی طریقہ اور اسلوب اختیار کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ شروع میں بہت زیادہ کسی چیز پر زور ہو اور بعد میں وہ چیز مفقود ہوگئی ہو۔
بطور مثال فتح الباری کو ہی لیں۔ یہ ان کی سب سے اہم اور ضخیم کتاب ہے۔ اس کی تالیف میں (مقدمہ اور شرح ملا کر) انھوں نے تقریبا 38 سال کا طویل عرصہ لگایا ہے۔ لیکن اتنی طویل مدت تک کام کرنے کے باوجود شروع سے لے کر آخر تک تقریبا منہج ایک ہی ہے۔ بلکہ پہلے پہل انھوں نے بہت مفصل انداز میں اس کی شرح شروع کی تھی، لیکن جب لگا کہ اس طرز پر اسے مکمل کرنا آسان نہ ہوگا تو اپنا اسلوب بدلا اور متوسط انداز میں اسے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ بعض جگہوں پر انھوں نے اپنی اس مُطَوَّل شرح کا حوالہ بھی دیا ہے۔
اسی زمانہ میں علامہ عینی بھی بخاری کی شرح لکھ رہے تھے۔ عمدۃ القاری کے نام سے 25 جلدوں میں ان کی شرح مطبوع ہے۔ اس میں انھوں نے شروع کی تقریبا دو جلدوں میں لغوی اور بلاغی مباحث کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے۔ لیکن بعد کی جلدوں میں یہ چیز مفقود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حافظ ابن حجر سے کسی نے بیان کیا کہ علامہ عینی لغوی مباحث کا بہت مفصل انداز میں ذکر کر رہے ہیں، تو آپ نے کہا تھا کہ علامہ رکن الدین کی جس شرحِ بخاری سے وہ نقل کر رہے ہیں مجھے پہلے ہی وہ کتاب ملی ہوئی ہے لیکن وہ کتاب مکمل نہیں ہے، صرف شروع کا تھوڑا سا حصہ انھوں نے شرح کیا ہے، لہذا بعد میں اسی اسلوب پر پوری کتاب کی شرح لکھنا مشکل کام ہے، اس لیے میں نے قصدا یہ اسلوب نہیں اپنایا ہے۔ (إرشاد الساري للقسطلاني: 1/43، والضوء اللامع لأهل القرن التاسع للسخاوي: 10/134، وكشف الظنون لحاجي خليفة: 1/549)
اور ہوا بھی یہی ہے۔ جہاں تک علامہ رکن الدین نے شرح کی تھی وہاں تک تو علامہ عینی نے خوب لغوی اور بلاغی مباحث پر بحث کی ہے، لیکن دو جلدوں کے بعد جہاں ان کی شرح ختم ہوئی ہے علامہ عینی کا یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: “لم يتكلم البدر العيني بعد تلك القطعة بشيءٍ من ذلك”۔ (ارشاد الساری: 1/43)
اور علامہ سخاوی فرماتے ہیں: “إنه بعدها لم يتكلم بكلمة واحدة في ذلك”۔ (لضوء اللامع لأهل القرن التاسع: 10/134)
اور شیخ عبد الکریم الخضیر اپنے ایک درس میں فرماتے ہیں: “ما يتعلق بغرائب اللغة من النقول وما يتعلق به البيان والبديع وغير ذلك لما انتهى شرح ركن الدين انتهى العيني من ذلك”.
حافظ ابن حجر کی شرح کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ انھوں نے شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی اسلوب کی پابندی کی ہے۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
جنھوں نے تفسیر بیضاوی پڑھی ہے انھیں اندازہ ہوگا کہ کیسے علامہ بیضاوی نے شروع میں انتہائی تفصیل سے کام لیا ہے اور جیسے جیسے کتاب آگے بڑھی ہے اسلوب میں تبدیلی آتی چلی گئی ہے۔ یہاں تک کہ شروع اور آخر کے اسلوب میں بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے۔
تفسیر جلالین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلوب میں عدم توازن اور سستی کے ڈر سے علامہ جلال الدین محلی نے جب اس کی تفسیر شروع کی تو سورہ فاتحہ سے نہ شروع کرکے سورہ کہف سے اس کی ابتدا کی۔ کیونکہ اس وقت میرے کام کی چونکہ یہ شروعات ہوگی اس لیے میرے اندر نشاط ہوگا، جوش وجذبہ ہوگا۔ اور جب ختم کرکے پھر سورہ فاتحہ سے شروع کروں گا تو چونکہ یہ قرآن کا ابتدائی حصہ ہوگا تو پھر ایک نیا جوش اور ولولہ ہوگا، اس طرح پوری کتاب کے اسلوب میں ایک طرح کا توازن برقرار رہے گا۔
لیکن قدر اللہ وما شاء فعل، سورہ فاتحہ کی تفسیر کے بعد ان کی وفات ہوگئی۔ بعد میں اس کا آدھا حصہ علامہ جلال الدین سیوطی نے مکمل کیا۔ اس لیے اسے تفسیر جلالین کہا جاتا ہے اور اس کے شروع میں سورہ فاتحہ کی تفسیر نہیں ہے، یہ سب سے آخر میں ہے۔
تو پوری کتاب میں اسلوب کا یکساں ہونا اس کی بہت بڑی خوبی ہے۔ اور حافظ ابن حجر کی تصنیفات میں یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس لیے آج کل کے مصنفین اور باحثین کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔

آپ کے تبصرے

3000