ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن

راشد حسن مبارکپوری تعارف و تبصرہ

گزشتہ دنوں استاذ گرامی حضرت مولانا وصی اللہ عبد الحکیم مدنی حفظہ ورعاه کی طرف سے ان کی چند تالیفات موصول ہوئیں، اس توجہ کے لیے میں حضرت مولانا کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انھوں نے اس بے نوا کو اپنی توجہات میں شامل رکھا، ملنے کے بعد ہی ارادہ ہوا کہ تشکر کے طور پر حرفِ اعتراف ثبت کر دیا جائے لیکن افسوس وقت گزرتا گیا اور قدرے تاخیر بھی ہوئی ع
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
ایک مدرس کے لیے اور خصوصاً اس مدرس کے لیے جس پر نوع بہ نوع ذمہ داریاں ہوں تصنینف و تالیف کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہ اس عمل شاق کے لیے انتہائی ارتکاز اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا حفظہ اللہ کو یہ توفیق دی کہ مختلف ادارتی ذمہ داریوں اور الجھنوں کے باوجود انھوں نے اپنا علمی و تحریری سفر جاری رکھا اور متعدد علمی و قیمتی کتابیں آپ کے قلم سے نکل کر اہلِ علم سے خراج تحسین پا چکی ہیں ان میں چند ایک جو خاکسار کو موصول ہوئیں اس طرح ہیں:
۱- امام ابو عیسیٰ ترمذی اور ان کی جامع
۲- قطف الثمر فى مصطلح أهل الأثر
۳- شيعہ اور امام غائب
۴- تنویر الإيمان (سوال و جواب کتاب تقویة الإيمان)
۵- مأثور دعائیں حصہ اول
۶- مأثور دعائیں حصہ دوم
ان مذکورہ کتابوں میں اول الذکر کتاب نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی، اس کی ایک وجہ ہے اس موضوع سے طبعی مناسبت اور دوسری جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں “جامع ترمذی” خاکسار کے ہی زیرِ تدریس ہے، کہنے کو تو یہ کتاب صرف 63 صفحات پر مشتمل ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اختصار کے باوجود طلبہ علم اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم کے لیے یہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے، کتاب کے شروع میں نامور اہل علم حضرت مولانا عبد المنان سلفی مرحوم کی تقریظ بجائے خود کتاب کی اہمیت کو دوچند کرتی ہے، شروع میں امام ترمذی کے مختصر حالات درج ہیں، ساتھ ہی ان کی کتاب “جامع ترمذی” کا مختصرا تعارف ملحق ہے، پھر امام موصوف رحمہ اللہ کے رموز و اصطلاحات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ بحث کے اخیر میں مشقی سوالات بھی دیے گئے ہیں، اس طرح یہ کتاب دراصل بطور “معاون نصاب” کتاب کے طور پر تیار کی گئی ہے، لہذا طلبہ علم و شائقین علم حدیث اس سے بقدر ضرورت اچھے انداز میں استفادہ کرسکتے ہیں۔ حضرت مولانا حفظہ اللہ نے دیگر کتب ستہ کا بھی اسی انداز پر تعارف نامہ اور اس کا منہج تیار کیا ہے، اس طرح کے علمی کاموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، مزید برآں انھوں نے جس “غیر علمی” ماحول میں ہوتے ہوئے اس طرح کے علمی سفر کو جاری رکھا وہ حیرت انگیز بھی ہے قابلِ ستائش بھی۔ وگرنہ اس طرح کے احوال و ظروف میں انسان کی علمی زِندگی بجھ جاتی ہے، اور وہ بھی دیگر کی طرح تن آسانی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، مگر شیخ محترم نے اپنے عزم و حوصلے کو جوان رکھا، علمی غذا فراہم کرتے رہے، دنیائے علم و شعور اور وادی فکر و فن سے پیوستہ رہ کر کچھ نہ کچھ علمی دنیا کو تحفہ دیتے رہے، اگر حالات سازگار ہوں، معاونین ہوں، حوصلہ افزائی ہوتی ہو، علمی لیاقت بھی ہو تو کام کرنا بہت مشکل نہیں ہوتا، بس جستجو اور شوق کو مہمیز دے کر سفر جاری رکھنا ہوتا ہے لیکن اگر یہ سب چیزیں مہیا نہ ہوں تو ایک قدم بھی آگے بڑھانا جوے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا، لہٰذا قابل مبارکباد ہیں وہ اہل علم جو وسائل کی قلت کا شکوہ کیے بغیر، کسی سے صلہ کی تمنا کی چاہت کے بغیر، علمی کاموں میں مصروف ہیں اور میں ذاتی طور سے شیخ محترم کا شمار معدودے چند اہلِ علم میں کرتا ہوں۔
شیخ محترم حفظہ اللہ دنیا کی عظیم یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے “کلیة الحدیث” سے فارغ التحصیل ہیں، وہ وہاں کے علمی، حدیثی اور روحانی ماحول نے آپ کے اندر علمی جوت جگائی، بحث و تحقیق کا خصوصی ملکہ پیدا کیا اور تدریس وافادہ کا ہنر دیا، اس عظیم یونیورسٹی سے فراغت کے بعد – جس کا فیضان دنیا بھر میں عام ہے – آپ نے اپنے مادر علمی جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کو اپنے علمی جولان گاہ کے طور پر منتخب کیا، اور وہیں رہ کر حدیث و سنت و اصول کی اعلیٰ کتابیں پڑھاتے رہے، نیز “کلیة عائشہ” کو بھی مستفید فرما رہے ہیں۔
میری نظر میں مولانا کا مقام نمایاں ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدّد صفات و خصوصیات کا حامل بنایا ہے، علم و فضل اور عقل و شعور کی پختگی کے دوبدو حسن و اخلاق اور عمدہ سیرت و کردار سے فیض یاب ہیں، گزشتہ دنوں سے “جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر” کی نظامت کا بھی بوجھ ہے، جس کی وجہ سے آپ کی مصروفیات دوچند ہوگئی ہیں۔ آپ اس بندۂ خاک سے بھی مشفقانہ تعلق رکھتے ہیں، علمی کاموں کی خبرگیری اور مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں، آج کے دور میں ایسے مخلصین کہاں ملیں گے۔
آپ جس خلوص و اپنائیت اور تعلق خاطر کا مظاہرہ فرماتے ہیں کہ مجھے ندامت وشرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے، یہ دور مادیت پرستی، دنیاداری، مفاد پرستی اور ذاتی اغراض کے حصول کی خاطر حد سے آگے بڑھ جانے کا دور ہے، اہل اخلاص کی کمی ہے، حاسدین اور شر انگیز طبیعتوں کی کثرت ہے، دوسروں کی علمی قدر و قیمت ہضم کرنے والوں کا ایک جم غفیر ہے، اعتراف بالغیر سے دلوں کو انقباض ہوتا ہے، ایسے مفاد پرستانہ ماحول اور حاسدانہ ظروف میں استاذ گرامی کا وجود غنیمت ہے، ابھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمت دی ہے، حوصلہ دیا ہے، کچھ کرنے کا عزم ہے، اللہ تعالیٰ اسے جوان رکھے اور آپ سے علمی کام لیتا رہے، اس تحریر کے ذریعے شیخ گرامی اور ان تمام اہل علم کو مبارکباد اور دعائیں پیش کرتا ہوں، جو زِندگی کو کچھ اس انداز سے گزارتے ہیں:
ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
14/10/2023

آپ کے تبصرے

3000