یہ ان دنو ں کی بات ہے جب بغرض تعلیم میں دہلی میں مقیم تھا اور انیی ایام میں ضیغم اسلام نازش جماعت مولانا عبد الصمد رحمانی پر لکھا گیا مقالہ زیر ترتیب تھا ۔اس پرکام کرتے ہوئے جماعتی وغیر جماعتی رسائل وجرائد اور مختلف جامعات کی لائبریریوں میں جا کر مولانا پر مواد جمع کرنے کی کو شش میں تھا کہ اسی درمیان مولانا داؤ د راز کے زیر ادارت نکلنے والاجریدہ نو رالایمان دستیاب ہوا، اس میں مولانا رحمانی کے سانحہ ارتحال پر علامہ داؤد راز نے کئی تعزیتی پیغام شامل اشاعت کےس تھے اور انوس ں نے جریدے میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ مولانا رحمانی کی نماز جنازہ خود انواں نے پڑھائی تھی۔ نماز جنازہ میں شریک ہونے والے جماعتی ،غیر جماعتی علماء ودانشوران کا بھی ذکر خیر تھااور ان کے اسماء بھی حوالہ ٔ قرطاس تھے۔ ان نامو ں میں ایک نام مو لانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی کا بھی تھا۔ دہلی میں قیام کے دوران میں مولانا اخلاق حسین قاسمی کے متعلق اور ان کی رہائش گاہ کا پتہ کیاتو معلوم ہو اکہ مولانا فصیل بند شہر دہلی کے لال کنو اں نامی علاقہ میں رہائش پذیر ہیں۔
میں نے فوراً مولانا قاسمی سے ملا قات کا ارادہ کرلیا اور خوش قسمتی سے مولانا محترم سے ملاقات بھی ہو گئی۔ پھر ان سے اپناتعارف کرایا اور آنے کا مدعا بیان کیا اور کہا کہ مولانا عبدالصمد رحمانی ؒ پر ایک گراں قدر مفصل مقالہ زیر ترتیب ہے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان پر اپنے تاثرات قلم بند کردیں۔ مولانا قاسمی نے میری تمام باتیں بغور سنیں غمگین سےہوگئے اور کہا کہ آپ نے مولانا کی یاد تازہ کردی۔ ساتھ ہی انون ں نے کہا کہ کبھی مولانا عبدالصمد رحمانی سے ملاقات کے لیے میں ان کے پاس پھاٹک حبش خاں مدرسہ سبل السلام مسجد محتسب جاتا اور کبھی وہ میرے پاس تشریف لاتے تھے اور اکثر ہماری ملاقات مولانا داؤد راز کی مسجد اہل حدیث گلی شاہ تارا اجمیری گیٹ میں ہوتی تھی۔جب مو لانا راز ؒ کی بات شروع ہوئی تو مولانا اخلاق حسین قاسمی اور زیادہ آب دیدہ ہوگئے۔ اور بڑی دیر تک ماضی کے جھرو کے سے مولانا رازؒ کی خوبیاں ،ان کے اخلاق،نرم گفتاری،ملنساری،بلند ہمتی اور ان کی بہت سی باتیں کرتے رہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا مولانا عبدالصمد رحمانی اور مولانا داؤد رازؒ کے انتقال کے بعد مجھے ایسے ذی حشم اور باوقار لوگ نہ مل سکے ۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا میں دیو بندی مکتب فکر سے تھا اور میرے یہ دونوں بھائی سلفی مکتب فکرسے تھے لیکن تمام اختلافات کے باوجود ہم میں بغض ،کینہ اور مسلکی عصبیت نہ تھی۔ وہ کہتے ہیں مولانا عبدالصمد رحمانی نہایت باوقار شخصیت کے مالک تھے اور جب تقریر کرتے تو کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور قرآن وسنت کی روشنی میں حق بات کہتےتھے اور مولانا داؤ د راز بھی حق گو اور حق شناس تھے اور مسلکی تعصب سے پاک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تینو ں کی علمی مجلس جمتی تھی اور خوشگوار ماحول میں اپنی اپنی باتیں رکھتے تھے۔
مولانا قاسمی نے کہا کہ مو لانا عبدالصمد رحمانی پر مقالہ لکھ کر آپ نےان کو زندہ جاوید کردیاہے ، اسی طرح اگر مولانا داؤ د راز پر بھی جماعت اہل حدیث یا آپ کا م کریں تو یہ آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ہو گا۔ اور ان کی دینی ،جماعتی خدمات بھی تاریخی ریکارڈ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گی وگرنہ ان بزرگوں کی تصنیفی ودینی وجماعتی خدمات بھی بہت ہیں اور انیی کے ذریعہ علمی دنیا ان کی قدر شناس ہے اور یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ تاہم جماعت اہل حدیث کے دیگر علماء کی طرح یہ بھی قصۂ پارینہ نہ بن جائیں اور آنے والی نسلیں ان سے ناواقف رہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہم تینوں کی علمی مجلس مولانا داؤ د رازکی مسجد اہل حدیث گلی شاہ تارا ہی میں لگتی تھی، انور ں نے ایک تاریخی واقعہ بیان کیا کہ ایک طرف مولانا داؤ د راز مناظربے مثال فاتح قادیان شیر پنجاب مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی پر حواشی چڑھا رہے تھے اور میں شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کی تفسیر وترجمہ معانی القرآن ’مو ضح القرآن‘ پر کام کررہا تھا ۔اس مو قع پر بھی مختلف مسائل پر باہم خوشگوار ماحول میں بحث کرتے اور ہمارے چہرے شکن آلودہ نہ ہوتے۔
دیکھاجائے تو مولانا راز اور مولانا قاسمی اپنے اپنے حلقے اور جماعت میں ایک بیش قیمت علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں اور یہ ان بزرگوں کے لیے تو شہ آخرت اور صدقہ جاریہ ہے۔
مولانا قاسمی نے ایک او ر بات کی طرف اشارہ کیا، آپ نے فرمایا مولانا داؤ د راز ؒ اور مولانا عبدالصمد رحمانی میں بہت محبت تھی۔ مولانا عبدالصمد رحمانی مولانا دأو د رازؒ کابہت احترام کرتے تھے یہی وجہ ہےکہ مولانا عبدالصمد رحمانی کا عین شباب میں جب انتقال ہو ا تو مولانا داؤ د رازؒ اس اچانک حادثے پر بہت افسردہ اور غمگین ہوگئے تھے اور انوی ں نے مولانا کے انتقال پر فرمایا کہ ’آپ اتنی جلدی کیوں چلے گئے جماعت وقوم کے لیےآپ کو اور بھی بہت کچھ کرنا تھا۔‘
طلاق کے مو ضوع پر مولانا داؤ د ؒ رازنے آپ کا ایک مفصل مقالہ بعنوان ’تطلیقات ثلاثہ قرآن وحدیث کی روشنی میں‘مترجم بخاری جلد نمبر ۷میں شامل کیاہے، مولانا رازؒ اس مقالہ پر مولانارحمانی ؒ کےبے حد ممنو ن ومشکور تھے۔
اس سے ایک نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ ان اللہ والوں میں کتنی محبت تھی، اور نہ کبیروصغیر میں تنگ نظری تھی اور نہ علمی برتری کا زعم تھا نہ علاقائی اور مسلکی عصبیت تھی۔ اگر انیںر یہ محسوس ہوتا کہ میرے چھوٹے میں قابلیت ہےتو اس کا اعتراف کرتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے اور وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے فکر مند رہاکر تے تھے ان کی پوشیدہ ، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی انتھک کو شش کرتے۔
لیکن آج کے اس پر فتن دور میں جہاں بغض ،حسد،کینہ جن کا شمار عام فکری روحانی بیماری میں ہو تا ہے وہ ان سنیئر اشخا ص میں اکثر پایا جاتا ہے ۔آج ایک استاد، ایک سنیئر ساتھی جو عمر تجربہ میں ۳۰۔۴۰ سال بڑا ہے اگر اس سے ۳۰۔۴۰ سا ل کم عمر کا نو جوان ،نئی نسل کا قلم کار صحافی اگر کچھ لکھنے کے جدوجہد میں ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔ اس طرح سے مستقبل کا قلم کار صحافی،مدرس اپنے سنیئرحاسدین کی حسداور جلن سے جل کر خاک ہو جاتا ہے۔
آپ کے تبصرے