ترا آج اس طرح ہے کہ جواب کل نہ آئے

ابوالمرجان فیضی شعروسخن

مجھے جن کو دیکھنا تھا وہ جناب کل نہ آئے

اگر ان سے روٹھ جاؤں تب و تاب کل نہ آئے


مرے پاس زر نہ گھر ہے انھیں کیا کروں گا لا کر

برے وقت ساتھ دینا! یہ شباب کل نہ آئے


یہ رجائیت پسندی ہے قنوطیت کا چشمہ

ترا آج اس طرح ہے کہ جواب کل نہ آئے


اگر حسن با وزن تھا تو کمر نہ ہوتی نازک

یہاں عدل کوئی کردے تو حساب کل نہ آئے


سبھی بن گئے فرشتہ میں ہی ایک آدمی تھا

بنوں میں بھی گر فرشتہ تو ثواب کل نہ آئے


مری جز رسی پہ ثاقب کوئی داد دے یا نہ دے

جو حَرَف نہ میں سنبھالوں تو کتاب کل نہ آئے

آپ کے تبصرے

3000