بارِ امیدِ فصل ہے دہقاں لیے ہوئے

فیضان اسعد شعروسخن

ہر چہرہ دیکھتا ہوں میں ارماں لیے ہوئے

گم ہو گیا ہوں شہر میں پہچاں لیے ہوئے


دل کا تھا حکم ہاتھ نے تلوار چھوڑ دی

قاتل کھڑا تھا خنجرِ مژگاں لیے ہوئے


مشکل ترین سارے سوالات حل کیے

مشکل میں پڑ گیا ہوں میں آساں لیے ہوئے


بزمِ رقیب میں یہ لگائی گئی ہے شرط

ملنا ہے سب سے چہرۂ خنداں لیے ہوئے


کیسے بلندیاں ہوں تمھارے نصیب میں

پھرتے ہو تم تو حیطۂ امکاں لیے ہوئے


شاید کرم ہو فرمانرواؤں کا ایک دن

بارِ امیدِ فصل ہے دہقاں لیے ہوئے


کیا کم تھے دوستا! یہ رقیبانِ شہر سب

آمد ہوئی تمھاری دل و جاں لیے ہوئے


جینا اگر ہے لازمی اے مورِ ناتواں

پھرنا ہے در بہ در غمِ دوراں لیے ہوئے


امید ہے کہ پوری ہو اسعؔد کی داستاں

نکلا ہے راہِ عشق میں عنواں لیے ہوئے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
معین الحق

زندہ کلام