ہر چہرہ دیکھتا ہوں میں ارماں لیے ہوئے
گم ہو گیا ہوں شہر میں پہچاں لیے ہوئے
دل کا تھا حکم ہاتھ نے تلوار چھوڑ دی
قاتل کھڑا تھا خنجرِ مژگاں لیے ہوئے
مشکل ترین سارے سوالات حل کیے
مشکل میں پڑ گیا ہوں میں آساں لیے ہوئے
بزمِ رقیب میں یہ لگائی گئی ہے شرط
ملنا ہے سب سے چہرۂ خنداں لیے ہوئے
کیسے بلندیاں ہوں تمھارے نصیب میں
پھرتے ہو تم تو حیطۂ امکاں لیے ہوئے
شاید کرم ہو فرمانرواؤں کا ایک دن
بارِ امیدِ فصل ہے دہقاں لیے ہوئے
کیا کم تھے دوستا! یہ رقیبانِ شہر سب
آمد ہوئی تمھاری دل و جاں لیے ہوئے
جینا اگر ہے لازمی اے مورِ ناتواں
پھرنا ہے در بہ در غمِ دوراں لیے ہوئے
امید ہے کہ پوری ہو اسعؔد کی داستاں
نکلا ہے راہِ عشق میں عنواں لیے ہوئے
زندہ کلام