اسلام میں نماز کی اہمیت ومنزلت کسی مسلم فرد بشر سے مخفی نہیں ہے، یہ دین اسلام کا سب سے مضبوط ستون ہے، اللہ کی وحدانیت اور رسول ﷺ کی رسالت کے اقرار کے بعد سب سے پہلے انسان پر یہی نماز واجب ہوتی ہے، یہی انسان کو برائی سے روکتی اور بھلائی پر ابھارتی ہے، رب دو جہاں کو یہ عبادت اتنی پسند کہ اپنے بندے کو دن رات میں پانچ مرتبہ اسے ادا کرنے کا حکم دیا اور پنج گانہ فرض نمازوں کے علاوہ سنن ونوافل کے اہتمام پر بے شمار اجر وثواب کا مژدہ جاں فزا سنایا۔
ایک مسلمان سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین نے بعض مقامات کو بعض پر فوقیت دی ہے، چنانچہ مکہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس وہ مقدس مقامات ہیں جہاں عبادتوں کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے، مکہ میں ادا کی گئی ایک نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہے، مسجد نبوی میں پڑھی گئی ایک نماز ایک ہزار نماز سے بہتر ہے اور بیت المقدس میں ادا کی گئی ایک نماز پانچ سو سے بڑھ کر ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں میں ادا کی گئی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔ (صحیح البخاری 2/60، نمبر: 1190، صحیح مسلم 2/1012، نمبر: 1394)
حضرت جابر -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں میں ادا کی گئی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں ادا کی گئی ایک نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ ( سنن ابن ماجہ 1/451، نمبر: 1406، مسنداحمد 23/ 46-14694) یہ حدیث صحیح ہے۔
مسجد نبوی کی فضیلت کے ضمن میں ایک ضعیف حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ مسجد نبوی میں بلا ناغہ چالیس نمازیں پڑھنے سے جہنم اور عذاب سے نجات مل جاتی ہے اور نفاق سے براءت کا پروانہ مل جاتا ہے۔ بر صغیر ہند وپاک کے اکثر حجاج ومعتمرین جب مسجد نبوی کی زیارت کے لیے آتے ہیں تو یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مسجد رسول ﷺ میں چالیس نمازیں پڑھنا واجب اور ضروری ہے؟ میں اس تحریر میں اسی مسئلے کی حقیقت اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اس حدیث کی تخریج: امام احمد نے مسند (20/40)، حدیث نمبر: 12583 میں اور امام طبرانی نے المعجم الاوسط (5/325)، حدیث نمبر 5444 میں عبد الرحمن بن ابی الرجال کے طریق سے، انھوں نے نبیط بن عمر سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
من صلى في مسجدي أربعين صلاة، لا يفوته صلاة، كتبت له براءة من النار، ونجاة من العذاب، وبرئ من النفاق
ترجمہ: جس نے میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کیں، ان میں سے ایک بھی نماز نہ چھوٹی؛ تو اس کے لیے جہنم سے براءت، عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بری ہو جاتا ہے۔
یہ امام احمد کے الفاظ ہیں۔
امام طبرانی نے اسے روایت کرنے کے معا بعد کہا: “لم يرو هذا الحديث عن أنس إلا نبيط بن عمر، تفرد به ابن أبي الرجال”. کہ اس حدیث کو حضرت انس سے نبیط بن عمر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا اور اسے روایت کرنے میں ابن ابی الرجال اکیلے ہیں۔
سند حدیث کا دراسہ: اس کی سند ضعیف ہے؛ اس کی علت نبیط بن عمر ہے، اس کا ذکر اس حدیث کے علاوہ کسی اور حدیث میں نہیں آیا ہے، اور کسی بھی امام جرح وتعدیل نے نہ اس کی توثیق کی ہے نہ اس پر جرح کیا ہے، ہاں ابن حبان نے اسے اپنی کتاب «الثقات» (5/ 483) میں ذکر کیا ہے اور ان ہی پر اعتماد کرتے ہوئے حسینی نے «الإكمال في ذكر من له رواية في مسند الإمام أحمد من الرجال» (ص: 432) میں اور ابن حجر نے «تعجيل المنفعة» (ص: 420) میں ذکر کیا ہے، لیکن کسی نے اس کا درجہ بیان نہیں کیا ہے۔ ایسے راوی کا شمار مجہول روات میں ہوتا ہے اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
علم حدیث کے معتبر علماء کے نزدیک ابن حبان کا ثقات میں کسی راوی کا ذکر کرنا اس کی توثیق وتعدیل نہیں ہے، کیونکہ ان کا منہج یہ ہے کہ وہ اس کتاب میں ہر اس راوی کا ذکر کرتے ہیں جس کی جرح وتعدیل کے اماموں نے تجریح نہیں کی ہو، اسی وجہ سے اساطین علم حدیث نے ابن حبان کو اس باب میں متساہل قرار دیا ہے، اور ائمہ فن کے نزدیک ایسے راوی کی حدیث قابل حجت نہیں ہوتی ہے جس کی توثیق وتجریح کسی امام نے نہیں کی ہو بلکہ اس کا شمار مجہول روات کے زمرے میں ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کے حالات نامعلوم ہیں، اس کا معیار حفظ وضبط مخفی ہے، اس کی ثقاہت ومعتبریت اوجھل ہے، ہو سکتا ہے وہ ضعف واختلاط کا شکار رہا ہو ،یا کذب بیانی میں ملوث رہا ہو۔
اس حدیث کو اہل علم کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔
1- امام البانی نے کہا “اس کی سند ضعیف ہے”۔ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (1/ 540-541) رقم: 364
2- عبد الکریم بن صنیتان عمری نے «تسہیل المناسک» (ص:112) میں اسے ضعیف کہا۔
3- ابن باز نے «فتاوی تتعلق باحکام الحج والعمرۃ والزیارۃ» (ص: 160) میں اسے ضعیف قرار دیا۔
4- عبد العزیز بن عمر الربیعان نے «البحث الامین فی حدیث الاربعین وصحیح المقال فی مسئلۃ شد الرحال» میں محمد عطیہ اور حماد انصاری پر رد کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
5- عبد اللہ بن قعود، عبد اللہ بن غدیان اور عبد الرزاق عفیفی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا،۔ دیکھئے: فتاوی اللجنہ الدائمہ (4/440) فتوی نمبر: (6353)۔
6- عبد المحسن العباد نے «فضل المدینۃ وآداب سکناہا وزیارتہا» (ص:19)میں اسے ضعیف کہا ہے۔
بعض اہل علم اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں۔ منذری (ت: 656ہجری) نے «الترغیب و الترہیب» (2/ 139)، رقم: 1832 میں کہا کہ اس کے روات صحیح کے روات ہیں، ہیثمی (ت: 807ہجری) نے «مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » (4/8) رقم: 5878 میں کہا کہ اسے احمد اور اوسط میں طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے روات ثقہ ہیں اور قسطلانی (ت: 923ہجری) نے «ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری»(2/ 344) میں کہا کہ اسے احمد نے صحیح کے روات والی سند سے روایت کیا ہے۔ منذری اور قسطلانی کا یہ کہنا کہ “اس کے روات صحیح کے روات ہیں” ایک وہم ہے، کیونکہ نبیط بن عمر صحیح کے روات میں سے نہیں ہے، بلکہ کتب ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے اس سے روایت نہیں کی ہے۔ جہاں تک ہیثمی کا یہ کہنا کہ “اس کے روات ثقہ ہیں” تو انھوں نے ابن حبان پر اعتماد کیا ہے؛ کیونکہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے اور اوپر گذر چکا ہے کہ ابن حبان متساہل ہیں۔ دیکھیے: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (1/ 540-541) رقم: 364
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے، چنانچہ زائرین مسجد نبوی کا مدینہ منورہ میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی غرض سے قیام کرنا خلاف سنت عمل ہے، امام البانی نے «مناسک الحج والعمرۃ» (ص: 59) کے اندر اس عمل کو بدعت میں شمار کیا ہے۔
اس لیے مدینہ منورہ کے زائرین کو چاہیے کہ بلا کسی تحدید اور تقیید کے ہر نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کی کوشش کریں، رب کریم کے بے پایاں فضل وکرم سے اپنے دامن مراد کو بھرنے اور اپنے دل کی کشت ویراں کو آباد کرنے کے لیے کوشاں رہیں، اس زریں موقع کے ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ سے اپنی بساط بھر خوب فائدہ اٹھائیں اور بدعات وخرافات اور شرکیات سے کلی احتراز کریں۔
وما أريد إلا الإصلاح، وما توفيقي إلا بالله، وصلى الله على نبيه محمد، وعلى آله وصحبه وسلَّم تسليمًا كثيرًا
آپ کے تبصرے