عربی تحریر: ڈاکٹر عبد المجید منصور
ترجمہ: محمد حامد مدنی
[انٹرنیٹ پر رمضان المبارک کے متعلق کچھ تلاش کرتے ہوئے almoslim.net پر امام کو لقمہ دینے کے آداب سے متعلق ڈاکٹر عبد المجید منصور کی ایک بہترین تحریر نظر آئی، جس میں ان آداب کو ذکر کیا گیا ہے جن کا خیال رکھنا لقمہ دینے والے مقتدیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بے ضابطگی سے لقمہ دینے کی وجہ سے کئی مسجدوں میں اختلاف اور لڑائی کی بھی نوبت آگئی، مگر وہ تحریر عربی زبان میں تھی، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کا اردو ترجمہ کرنا بہتر ہوگا، اللہ کی توفیق سے یہ ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ قارئین کی آسانی کے لیے اس میں ذیلی عناوین بھی لگا دیے گئے ہیں۔ (مترجم)]
لقمہ دینے کی تعریف:
نماز میں امام کی غلطی کی اصلاح، دوران قرأت بھولنے پر اسے یاد دہانی کرانے یا خاموش ہونے پر اس کی رہنمائی کرنے کو “الفتح علی الإمام” کہا جاتا ہے اور اسے “اطعام الإمام”(یعنی لقمہ دینا) بھی کہا جاتا ہے۔
لقمہ دینے کا حکم:
علما کے صحیح قول کے مطابق فرض اور نفل دونوں میں یہ عمل سنت ہے۔ عثمان، علی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے اس کا جواز منقول ہے۔ امام عطاء، حسن بصری، ابن سیرین اور دیگر سلف صالحین کا بھی یہی موقف ہے۔
جب کہ ابن مسعود، شریح، شعبی اور امام ثوری نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ابن حزم کے نزدیک یہ نماز کو باطل کر دیتا ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ بلا ضرورت کلام شمار ہوتا ہے۔
(احادیث میں لقمہ دینے کا تذکرہ)
امام ابو داود نے اپنی “سنن” میں ایک باب قائم کیا ہے: (باب الْفَتْحِ عَلَى الإِمَامِ فِى الصَّلَاةِ) “نماز میں امام کو لقمہ دینے کا باب”۔ پھر آپ نے اس میں مسور بن یزید المالکی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ: “میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز میں قرأت کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے ایک آیت چھوڑ دی، تو ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ نے فلاں آیت چھوڑ دی۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «هَلاَّ أَذْكَرْتَنِيهَا» ‘تم نے مجھے کیوں نہیں یاد دلایا؟'” (صحیح ابن خزیمہ، حسنہ الألبانی)
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ نماز میں قرأت کی، تو کچھ التباس ہوا۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: “کیا آپ ہمارے ساتھ موجود تھے؟” انھوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: “پھر آپ نے مجھے لقمہ کیوں نہیں دیا؟” (صحیح ابن حبان)
امام بیہقی نے نافع سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: “میں نماز میں ابن عمرؓ کو تلقین کرتا، لیکن وہ کچھ نہیں کہتے تھے۔”
اسی طرح امام عبدالرزاق نے عن معمر، عن ایوب، عن نافع کی سند سے روایت کی ہے کہ “ابن عمرؓ نے مغرب کی نماز پڑھائی، جب انھوں نے {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} پڑھا، تو بار بار ‘بسم الله الرحمن الرحيم’ دہرانے لگے۔ میں نے کہا: ‘(إذا زلزلت)’، تو انھوں نے وہی پڑھا۔ جب نماز مکمل کی تو مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔”
ثابت بنانی نے فرمایا کہ انس رضی اللہ عنہ جب نماز میں ہوتے تو ان کے پیچھے ایک غلام مصحف لے کر کھڑا ہوتا، پھر وہ اگر کسی آیت میں الجھ جاتے تو غلام آپ کی تصحیح کر دیتا۔
اسی طرح علیؓ نے فرمایا: “سنت میں سے ہے کہ اگر امام تم سے تصحیح طلب کرے تو تم اس کی تصحیح کردو۔”راوی نے کہا کہ میں نے ابو عبدالرحمن السلمی سے پوچھا: “امام کا تصحیح طلب کرنا (استطعام الإمام) کیا ہے؟” آپ نے جواب دیا: “جب وہ خاموش ہو جائے۔”
اس باب میں دیگر احادیث اور آثار بھی ہیں، لیکن وہ ضعف سے خالی نہیں۔
کیا لقمہ دینا واجب ہے؟
میرے علم کے مطابق ائمہ میں سے کسی نے لقمہ دینے کو واجب قرار نہیں دیا ہے، سوائے سورۂ فاتحہ کے، سورۂ فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت میں لقمہ دینے کا وجوب کسی سے منقول نہیں ہے۔ جیسا کہ مرداوی رحمہ اللہ نے “الإنصاف” میں فرمایا:”فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت میں امام کو لقمہ دینا واجب نہیں ہے، اس پر کوئی اختلاف نہیں جسے میں جانتا ہوں۔”
تحریر لکھنے کا سبب:
بعض مساجد میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ منفی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے کچھ مقتدی بغیر ضرورت جلد بازی اور فوضوی انداز میں امام کو لقمہ دیتے ہیں، جو امام ابو حنیفہ و ابن حزم کے قول کے مطابق بعض اوقات ان کی نماز کو باطل کر دیتا ہے اور امام کے لیے باعثِ اذیت بنتا ہے۔ اس لاعلمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع پر عوام میں شعور کم ہے اور دینی دروس میں اس کا ذکر کم ہوتا ہے۔
لہٰذا مجھے مناسب معلوم ہوا کہ میں اپنے مقتدی بھائیوں کو بتلاؤں کہ اس تعلق سے ائمہ حضرات کے دلوں میں کیا چلتا ہے اور وہ مقتدیوں میں لقمہ دینے کے تعلق سے کن آداب کو دیکھنا چاہتے ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ باری تعالی ان کلمات کو نفع بخش بنائے۔
لقمہ دینے کے آداب:
(۱)اخلاص:
امام کو لقمہ دینے کا مقصد محض اللہ کی رضا ہونی چاہیے، نہ کہ ریاکاری، دکھاوا یا اپنے حافظے کی برتری ثابت کرنا۔ اگر نیت درست ہو تو یہ فرق نہیں پڑے گا کہ وہ لقمہ دے یا کوئی اور۔
(۲)نرمی اور شفقت:
لقمہ نرمی اور شفقت سے دینا چاہیے، کیوں کہ لقمہ دینا امام کی مدد کرنا ہے، نہ کہ اسے ادب سکھانا۔ اس لیے لقمہ دینے کے نام پر دل کی بھڑاس نکالنے، بدلہ لینے اور حساب برابر کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے، جیسا کہ بعض مقتدی لوگوں کے سامنے امام کو رسوا کرنے کے لیے ایسا کرتے نظر آتے ہیں۔
(۳) امام کی طرف سے متعین فرد ہی لقمہ دے
اکثر مساجد میں امام اپنے پیچھے کسی خاص شخص (جیسے مؤذن) وغیرہ کو لقمہ دینے کے لیے متعین کردیتے ہیں۔ ایسی صورت میں دوسروں کو آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے ان کی نمازوں میں نقص اور خلل پیدا ہو سکتا ہے، یا بعض ائمہ کے مطابق نماز ہی باطل ہوسکتی ہے۔
(۴) قریب ترین مقتدی لقمہ دے
اگر کسی کو مقرر نہ کیا گیا ہو، تو امام کے قریب کھڑے شخص کو تصحیح کرنی چاہیے۔ مسجد میں کنارے کی طرف یا آخری صفوں میں کھڑے مقتدیوں کو اس معاملے میں بے جا مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
(۵) جب امام دور ہو یا آواز سنائی نہ دے
دوری کی وجہ سے، یا آوازوں کے اختلاط کی بنا پر، یا لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اگر آپ کو غالب گمان ہو کہ امام آپ کی تصحیح نہیں سن سکے گا، تو ایسی صورت میں تصحیح نہ کریں، کیوں کہ امام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ آپ خود کو لوگوں کے سامنے مشقت میں ڈال دیں گے۔
(۶)مسجد کے انتہائی کنارے یا بالائی منزل میں موجود مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینا مناسب نہیں ہے، خاص طور پر جب امام نچلی منزل میں ہو، جیسا کہ حرمین شریفین یا بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے آدمی خودپسندی، ریاکاری یا لوگوں کی غیبت کا شکار ہو سکتا ہے۔
(۷) ضرورت سے زیادہ لوگوں کا ایک ساتھ تصحیح کرنا
اگر امام کو لقمہ دینے والے بہت زیادہ ہوں تو اس سے امام کے لیے الجھن اور آوازوں کے اختلاط کی وجہ سے پریشانی پیدا ہو سکتی ہے، جس کی بنا پر وہ کسی کی تصحیح کو واضح طور پر سن نہیں پائے گا۔ اس لیے مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ امام کے مقرر کردہ یا سب سے زیادہ یاد رکھنے والے شخص پر اعتماد کریں۔
اسی بنا پر امام کو لقمہ دینے میں ایثار (دوسرے کو موقع دینا) مستحب ہے اور اس میں مقابلہ کرنا ناپسندیدہ ہے، اگرچہ اصل میں امام کو لقمہ دینا سنت اور باعثِ قربت ہے، لیکن اس معاملے میں مقابلہ کرنے سے بے ترتیبی، خلل اور انتشار پیدا ہوتا ہے، اس لیے دوسروں کو ترجیح دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
البتہ امام کے قریب ہونا، پہلی صف میں جگہ لینا یا اسی طرح کے دیگر امور میں مقابلہ کرنا تعارض اور انتشار پیدا نہیں کرتا، اس لیے ان میں ایثار ضروری نہیں۔ یہی نکتہ ان لوگوں کے لیے ایک جواب ہے جو عبادات اور طاعات میں ایثار کو ناپسند کرتے ہیں۔
(۸)امام کو موقع دینا:
امام کو خود اپنی غلطی درست کرنے کا موقع دینا چاہیے اور لقمہ دینے میں جلد بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ عموماً ماہر اور پختہ حافظ امام اپنی غلطی کو خود ہی فوری طور پر پہچان لیتا ہے، لہٰذا فوری لقمہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اسی لیے احناف نے کہا ہے: “مقتدی کو فوراً امام کو لقمہ نہیں دینا چاہیے، ممکن ہے کہ امام کو فوراً یاد آجائے اور اس صورت میں مقتدی کی قرأت بلا ضرورت شمار ہوگی۔”
(۹)متوازن آواز میں تصحیح
نرمی، سکون اور مناسب آواز کے ساتھ لقمہ دینا ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ آواز بہت بلند، سخت یا اچانک ہو، جس سے امام گھبرا جائے یا اس کی توجہ منتشر ہو جائے۔
(۱۰)صحیح وقت کا انتخاب
عین قرأت کے دوران امام کو لقمہ دینا اکثر غیر مؤثر ہوتا ہے اور وہ اسے سن بھی نہیں پاتا۔ اسی لیے بہت سے ائمہ پسند کرتے ہیں کہ لقمہ دینے والا ایسے وقت کا انتخاب کرے جب امام سانس لینے کے لیے توقف کرے، کیوں کہ قرأت کے دوران امام کی توجہ اگلی آیات پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ لقمہ سننے سے قاصر رہ سکتا ہے۔
(۱۱)الفاظ کے انتخاب میں حکمت:
بہت سے ائمہ کے نزدیک لقمہ دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر امام کسی لفظ میں غلطی کرے تو مقتدی اسے وہ الفاظ دہرا کر سنائے جو اس غلطی سے پہلے آئے تھے، تاکہ امام خود ہی اپنی غلطی کو پہچان کر درست کر لے۔
مثال کے طور پر، اگر امام سورۂ اعراف میں یہ پڑھے: “يأتوك بكل سحّار عليم” تو لقمہ دینے والا صرف “يأتوك بكل” کہہ کر رک جائے۔ اگر امام خود ہی غلطی درست کر لے تو ٹھیک، ورنہ دوسری بار پورا صحیح لفظ بتائے۔
اسی اصول کو آیات کے آخر میں آنے والے الفاظ پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے، جیسے اگر امام “غفوراً رحیماً” یا “عليماً حكيماً” میں غلطی کرے تو لقمہ دینے والا صرف “وكان الله” کہہ کر رک جائے، تاکہ امام خود تصحیح کر سکے۔
(۱۲)بار بار غلطیوں پر نرمی:
اگر ایک ہی رکعت میں امام سے بار بار غلطیاں ہو رہی ہوں اور وہ ان کی وجہ سے الجھن اور پریشانی کا شکار ہو جائے تو ایسی صورت میں ہر چھوٹی غلطی پر گرفت نہ کرنا بہتر ہے، جیسے حرکات (زیر، زبر، پیش) یا حروف (واو، فاء وغیرہ) کی معمولی غلطیاں۔
ایسی غلطیوں کو نظر انداز کر دینا زیادہ مناسب ہے، خاص طور پر جب امام پہلے ہی دباؤ میں ہو۔ کیوں کہ اصل میں امام کو لقمہ دینا واجب نہیں، سوائے سورۂ فاتحہ میں غلطی کے، جس پر تمام علما کا اتفاق ہے، واللہ اعلم۔
(۱۳)معنوی غلطی پر ہر حال میں تصحیح:
وہ سنگین غلطی جو معنی کو بدل دے، ہر حال میں اس پر لقمہ دینا ضروری ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی امام بھول کر سورۂ ابراہیم میں یہ پڑھ لے:”وارزقني وبني أن نعبد الأصنام” (یعنی: اے اللہ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت کرنے کی توفیق دے)
تو یہ ایک شدید معنوی تبدیلی ہے، کیوں کہ اصل الفاظ ہیں: “واجنبني وبني أن نعبد الأصنام” (یعنی: مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچا)
اسی طرح اگر کوئی امام یہ پڑھ لے:
“وكلم اللهَ موسى تكليماً” (اللہ کو مفعول بنا دیا)
(جب کہ درست قرأت ہے:
“وكلم اللهُ موسى تكليماً” (اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا)، تو یہاں بھی لقمہ دینا ضروری ہوگا، کیوں کہ اس سے عقیدہ ہی بدل سکتا ہے)
(۱۴)شک کی حالت میں تصحیح نہ کی جائے:
مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینا اسی وقت جائز ہے جب وہ یقین کے ساتھ امام کی غلطی اور اپنی تصحیح کی درستی کو جانتا ہو۔ اگر مقتدی کو امام کی غلطی پر شک ہو تو اسے لقمہ دینے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے، خاص طور پر جب وہ حافظِ قرآن نہ ہو۔
بہت سے مقتدی قرآنی آیات میں موجود متشابہات کی بنا پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور امام کی تصحیح میں خود غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
“إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا…”
یہ آیت سورۂ فصلت اور سورۂ الأحقاف دونوں میں آئی ہے، لیکن “ثُمَّ اسْتَقَامُوا” کے بعد دونوں سورتوں میں الفاظ کا تسلسل مختلف ہے۔ اگر کوئی غیر حافظ مقتدی جلد بازی میں یہ سمجھے کہ امام غلط پڑھ رہا ہے اور اس کی تصحیح کر دے، جب کہ حقیقت میں امام کسی اور سورت کی تلاوت کر رہا ہو، تو یہ بڑی غلطی ہوگی۔
اسی لیے جو شخص قرآن کا مکمل اور پختہ حافظ نہ ہو، اسے محض اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے امام کو لقمہ دینے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے تاکہ کسی بے بنیاد تصحیح کی وجہ سے امام کی قرأت میں خلل نہ آئے۔
(۱۵)رکوع میں جانے کے بعد تصحیح کی ضرورت نہیں:
اگر قرأت کے آخر میں غلطی ہو اور امام رکوع میں داخل ہو چکا ہو تو اس وقت لقمہ دینا مناسب نہیں، کیوں کہ امام کے لیے رکوع سے واپس آ کر تصحیح کرنا مشکل ہوتا ہے، جب کہ رکوع رکن ہے اور غلطی کی تصحیح سنت ہے۔ لیکن اگر امام نے رکوع شروع نہ کیا ہو تو ایسی صورت میں لقمہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ موقع میسر ہو اور غالب گمان ہو کہ امام لقمہ قبول کر لے گا۔
یہ مسئلہ اجتہادی اور ہر حالت کے مطابق قابلِ غور ہے، اس میں کوئی قطعی نص موجود نہیں۔ تاہم، امام کو لقمہ دینا ایک نازک معاملہ ہے اور بغیر یقینی علم کے ایسا کرنا اللہ پر جرأت کے مترادف ہے، جسے صرف کمزور ایمان والا یا اپنی خواہشات کا پیروکار ہی اختیار کرے گا۔ ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
یہ وہ آداب ہیں جو ائمہ مساجد کے خیالات میں گردش کرتے ہیں اور وہ انھیں مقتدیوں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم کسی آئندہ مضمون میں – ان شاء اللہ – اس بارے میں گفتگو کریں گے کہ (امام) کو قرأت میں غلطی ہونے پر اور لقمہ دیے جانے کی صورت میں کیا آداب ملحوظ رکھنے چاہییں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
) نوٹ: اصل عربی تحریر پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں: https://almoslim.net/node/280076)
آپ کے تبصرے