ای ایم آئی(EMI)پر سامان خریدنے کا حکم

حسان عبدالغفار افتاء

آج دنیا نے مختلف شعبوں کی طرح خرید وفروخت اور بیع وشراء کے میدان میں بھی کافی ترقی کرلی ہے اور لین دین کے جدید طریقوں سے لوگوں کو متعارف کرایا ہے، جن میں سے ایک ’ای ایم آئی‘پر سامان خریدنا کافی مشہور اور متداول ہے ۔

ای ایم آئی(EMI)درحقیقت Easy Monthly Installmentsکا مخفف اور شارٹ فارم ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کوئی بھی سامان خریدنے کے بعد ’مکمل قیمت‘ایک ساتھ دینے کے بجائے ہر ماہ تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کر سکتے ہیں ۔

چونکہ اس کے ذریعے قیمت کی ادائیگی میں تھوڑی بہت سہولت اور مہلت مل جاتی ہے اس لیے لوگ کثرت کے ساتھ اس کا استعمال کرنے لگے ہیں ، لہذا مناسب معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں ’شرعی نقطہ نظر‘ کو بیان کر دیا جائے تاکہ غلط اور ناجائز ہونے کی صورت میں لوگ اس کے استعمال سے باز آجائیں اور صحیح اور درست ہونے کی شکل میں بلا تردد استعمال کر سکیں ۔

ای ایم آئی اصل میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ’قسطوں پر لین دین‘ کرنے کی طرح ہے ۔

اور وہ فرق یہ ہے کہ قسطوں پر لین دین میں موجودہ قیمت سے جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود اور انٹرسٹ کے نام پر نہیں بلکہ اصل قیمت کے طور پر دی جاتی ہے ۔جبکہ ای ایم آئی میں زائد رقم ’سود اور انٹرسٹ‘ کے نام پر دی جاتی ہے ، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے ۔

ای ایم آئی کی دو شکلیں ہوتی ہیں:

۱۔نو کاسٹ ای ایم آئی(No Cost EMI)

۲۔ای ایم آئی یا ’نارمل‘ای ایم آئی

نو کاسٹ ای ایم آئی پہلے صرف کریڈٹ کارڈ پر ملتا تھا مگر اب کچھ بینکوں کے ڈیبٹ کارڈپر بھی ملنے لگا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کو سامان کی اصل قیمت کے برابر ہی روپیہ ادا کرنا ہوگا، اس سے کم یا زیادہ نہیں ۔

مثال کے طور پر اگر فلپ کارٹ (Flipkart) وغیرہ پر 12000 روپئے کا موبائل یا کوئی دوسرا پروڈکٹ ہے تو نو کوسٹ ای ایم آئی میں وہ 12000 روپئے کا ہی ملے گا ، اس پر کوئی اکسٹرا چارج نہیں لگے گا ۔

چنانچہ آپ کو 12000 تین مہینہ، چھ مہینہ یا نو مہینہ میں ہر ماہ تھوڑا تھوڑا کرکے دینا ہوگا ۔

البتہ ایک قابل توجہ بات یہ ہے بظاہر تو اس میں ’سود‘نہیں دینا پڑتا ہے مگر حقیقت میں اس کے اندر بھی سود شامل ہوتا ہے ۔

وہ اس طور سے کہ نو کوسٹ ای ایم آئی پر 12000 یا جتنے کا آپ پروڈکٹ خریدتے ہیں اس پر وہ لوگ کچھ ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں جو انٹرسٹ کے برابر ہوتا ہے ، لیکن ٹوٹل قیمت 12000 روپئے سے زیادہ نہیں ہوتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ پروڈکٹ لینے کے بعد آپ کا جو Price detailsیاBillبن کر آتا ہے وہ کچھ اس انداز کا ہوتا ہے ۔

Your EMI Information:

Interest of 700 is given as no cost EMI discount.

•12000 will be blocked to your card now. It will be converted into EMI in 8 working days.

• You will pay 2000 per month for 6 months …

Price details:

Price (1 item): 12000

Delivery charges: Free

Interest (charged by bank): 700

No cost EMI Discount: 700

Amount payable: 12000

نیز اگر آپ کوئی پروڈکٹ ای ایم آئی یا نارمل ای ایم آئی پر خریدتے ہیں تو آپ کو اس پروڈکٹ کی اصل قیمت سے زیادہ دینا ہوگا ، مثلا :اگر کوئی پروڈکٹ 33000 کا ہے تو نو مہینے کے لیے نارمل ای ایم آئی کے ذریعے خریدنے کی وجہ سے اس کی قیمت تقریبا 36000 ہو سکتی ہے ۔

اس میں فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو قیمت کی ادائیگی فورا نہیں کرنی پڑے گی بلکہ ماہانہ قسطوں میں دینا ہوگا ۔

یہاں پر بھی آپ کو پروڈکٹ کی اصل قیمت سے زائد رقم کو سود (Interest) کے نام پر دینا ہوتا ہے ۔ اور وہ انٹرسٹ پلان کے اعتبار سے ہر بینک کا الگ الگ ہوتا ہے ، چنانچہ اگر آپ تین مہینے کے لیے لیتے ہیں تو %13 کے آس پاس اور اگر اٹھارہ یا چوبیس مہینے کے لیے لیتے ہیں تو %15 کے آس پاس رہتا ہے ۔

چنانچہ ای ایم آئی یا نارمل ای ایم آئی پر پروڈکٹ لینے کے بعد آپ کا جوPrice detailsیاBillبن کر آئے گا وہ کچھ اس انداز کا ہوگا ۔

Your EMI Information:

•35990 will be blocked to your card now. It will be converted into EMI in 8 working days.

•You will pay 4219 per month for 9 months (includes interest).

Price details:

Price (1 item). 35990

Delivery charges. Free

Interest (charged by bank). 1978

Amount payable: 35990

اس تفصیل کو سمجھ لینے کے بعد ہم اس مسئلہ کا شرعی حکم جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

لین دین اور بیع وشراء کے اصول وضوابط کو سامنے رکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ای ایم آئی پر سامان لینا جائز اور درست نہیں ہے ۔

چنانچہ اگر آپ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے EMI پر کوئی پروڈکٹ لیتے ہیں تو اس کے ناجائز ہونے کی کم ازکم ایک وجہ یا پھر دو وجوہات ہیں جبکہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے EMIپر کوئی پروڈکٹ لیتے ہیں تو اس کے ناجائز ہونے کی کم ازکم دو وجہ یا پھر تین وجوہات ہو سکتی ہیں ۔

اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے EMIپر کوئی پروڈکٹ لیتے ہیں تو اس کے ناجائز ہونے کی پہلی اور بنیادی وجہ ’باطل شرط ‘اور ’سودی معاہدہ‘ کا ہونا ہے ۔

اور وہ یہ کہ لین دین کے وقت آپ اس شرط پر اتفاق کرتے ہیں کہ اگر ’مقررہ مدت‘میں اماونٹ جمع نہیں کر سکے تو آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا جو آپ کے ڈیبٹ اکاؤنٹ سے کٹ جائے گا اور اگر آپ کے ڈیبٹ اکاونٹ میں پیسے نہیں ہوں گے تو دن بڑھنے کے ساتھ ساتھ پنالٹی یا جرمانے کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا جب تک آپ جمع نہیں کر دیں گے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سے پروڈکٹ کو واپس لیا جائے اور جمع کیا ہوا اماونٹ بھی واپس نہ ملے ۔

چونکہ جب کسی چیز کی قیمت طے ہوجاتی ہے تو پھر اس میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا خواہ ادائیگی مدت مقررہ پر کی جائے یا تاخیر کرکے ۔

لہذا قیمت کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جانا زمانہ جاہلیت کے سود ’إما أن تقضي وإما أن تربي‘(یا ادا کرو یا اضافہ کرو)میں داخل ہے جو سراسر ناجائز ہے۔(موطأ مالك:۱۹۶۵)

نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ(سنن ابن ماجہ:۲۵۲۱) ہر وہ شرط جو اللہ تعالی کی کتاب میں نہ ہو باطل ہے، اگرچہ ایسی سو شرطیں ہوں ۔

دوسری وجہ ’سود‘کی شمولیت ہے چاہے وہ نو کاسٹ ای ایم آئی (No Cost EMI) پر لیا گیا ہو کیونکہ اس میں بھی انٹرسٹ ہوتا ہے گرچہ انٹرسٹ کے برابر رقم ڈسکاؤنٹ ہو جانے کی وجہ سے معلوم نہیں ہوتا ہے ۔

یا پھر نارمل ای ایم آئی (Normal EMI) پر لیا گیا ہو کیونکہ اس میں زائد رقم انٹرسٹ(interest)کے نام پر دیا جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں تفصیل گزر چکی ہے ۔

دو اشکالات:

۱۔اگر کوئی شخص ’مقررہ مدت‘میں مکمل اماونٹ جمع کر دیتا ہے تو پھر اس کے درست اور جائز ہونے میں کون سی چیز مانع ہے کیونکہ ایسی صورت میں پنالٹی کے نام پر زائد رقم نہیں دینی پڑے گی ؟

جواب :پہلی بات تو یہ کہ آپ پروڈکٹ کو خریدنے سے پہلے ہی بینک کے ساتھ اس شرط پر اتفاق کرتے ہیں کہ ’مقررہ ٹائم‘پر اماونٹ جمع نہ کرنے کی صورت میں پنالٹی بھروں گا ۔

تو اس ’باطل شرط‘کی وجہ سے پورا لین دین ہی باطل ہو جاتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ شریعت جب کسی چیز کو کسی ’خدشے یا اندیشے‘کی بنا پر حرام قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ چیز اسی وقت حرام ہوگی جب وہ خدشہ یا اندیشہ پایا جائے گا اور خدشہ پائے جانے سے قبل وہ چیز حلال ہوگی۔

جیسا کہ ’نکاح شغار‘یا ’خرید وفروخت‘ کی بہت ساری قسموں کا مسئلہ ہے ۔

بلکہ خدشہ، اندیشہ یا نقصان کے امکان کی وجہ سے پورا معاملہ ہی سرے سے باطل قرار پائے گا ۔

تیسری بات یہ کہ ’انٹرسٹ‘اس میں شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھی یہ لین دین ناجائز ہو جاتا ہے ۔

چوتھی اور سب سے اہم بات یہ کہ معاملات کے حلال وحرام ہونے کا مدار درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، اور ای ایم آئی پر پروڈکٹ خریدنے والا بینک یا اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں رقم جمع نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا ۔

چنانچہ جس طرح سود کا لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ اس بنیاد پر اگر ای ایم آئی پر پروڈکٹ خریدنے والا شخص رقم مقررہ مدت میں جمع کردے تو معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے یہ لین دین ناجائز ہو جائے گا ۔

۲۔نارمل ای ایم آئی میں پروڈکٹ کی موجودہ قیمت سے کچھ زائد رقم کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جیسا کہ اوپر بات گزر چکی ہے تو کیا ایسا درست ہے؟

جواب :راجح قول کے مطابق زائد رقم دینا کسی شرعی رکاوٹ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے درست ہے بشرط یہ کہ وہ زائد رقم سود یا انٹرسٹ کے نام پر نہ ہو ۔

مثلا :آپ زیدکے پاس جاکر کہتے ہیں کہ میں آپ کی گاڑی لینا چاہتا ہوں ، زید کہتا ہے ٹھیک ہے آپ گاڑی لے سکتے ہیں لیکن اگر آپ ابھی قیمت ادا کرتے ہیں تو دولاکھ ، اور اگر ایک سال کے لیے قسطوں پر لیتے ہیں تو دو لاکھ چالیس ہزار دینے ہوں گے ۔ چنانچہ آپ اس گاڑی کو دولاکھ چالیس ہزار میں قسطوں پر لے لیتے ہیں تو یہ جائز اور درست ہے ۔

لیکن اگر زید آپ سے کہتا ہے کہ اگر آپ ابھی قیمت ادا کرتے ہیں تو دولاکھ ، اور اگر ایک سال کے لیے قسطوں پر لیتے ہیں تو دو لاکھ چالیس ہزار دینے ہوں گے ، اور اضافی چالیس ہزار سود اور انٹرسٹ کے طور پر ہوں گے تو یہ طریقہ سود کی شمولیت کی وجہ سے درست نہیں ہوگا ۔

خلاصہ یہ کہ پہلی شکل میں زائد رقم اصل قیمت کے طور پر ہے جبکہ دوسری شکل میں زائد رقم سود اور انٹرسٹ کے نام پر ہے ۔

نیز قسطوں کی ادائیگی میں نقد سے زیادہ قیمت دینے کی چند شکلیں ہو سکتی ہیں، جن میں سے بعض جائز ہیں اور بعض حرام ہیں ۔

ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔اگر کوئی شخص سونا یا چاندی خریدنا چاہتا ہے جس کی موجودہ قیمت ایک لاکھ ہے لیکن وہ شخص اسے نارمل ای ایم آئی پر ایک لاکھ تیس ہزار میں یا نو کاسٹ ای ایم آئی پر ایک ہی لاکھ میں خرید رہا ہے تو یہ حرام ہے ۔

کیونکہ یہاں پر ایک شرعی رکاوٹ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ سونے اور چاندی کو ایک ہی مجلس میں ہاتھوں ہاتھ لینا اور دینا ضروری ہے، اگر کسی بھی جانب سے ادھار ہوتا ہے تو اس کا شمار سود میں ہوگا ۔ (صحيح البخاری:۲۱۷۷۔۲۱۷۴)

۲۔ایک شخص کہتا ہے کہ میں یہ گاڑی یا زمین قسطوں پر دو لاکھ میں فروخت کروں گا اگر آپ قیمت کو ایک سال میں ادا کریں گے ۔

اور اگر دو سال میں ادا کریں گے تو اڑھائی لاکھ میں ۔

اور اگر تین سال میں ادا کریں گے تو تین لاکھ میں ۔

چنانچہ خریدنے والا اس پر راضی ہو جاتا ہے اور اسی پر بیع ہو جاتی ہے ۔

تو یہ بھی جائز اور درست نہیں ہے ۔

کیونکہ یہاں بھی ایک شرعی رکاوٹ موجود ہے اور وہ یہ کہ عقد (لین دین)کے وقت قیمت متعین نہیں ہوئی ہے بلکہ مجہول ہے ۔

یعنی :یہ متعین نہیں ہوا کہ اس نے تینوں صورتوں میں سے کس صورت پر اسے خریدا ہے ۔

لیکن اگر وہی شخص کہتا ہے کہ میں یہ گاڑی یا زمین قسطوں پر دو لاکھ میں فروخت کروں گا اگر آپ قیمت کو ایک سال میں جمع کریں گے ۔

اور اڑھائی لاکھ میں دوں گا اگر آپ دو سال کی مدت میں قیمت ادا کریں گے ۔

یا تین لاکھ میں دوں گا اگر آپ تین سال کی مدت میں ادائیگی کریں گے ۔

پھر خریدنے والا کہتا ہے کہ میں تین سال والا لوں گا یا دو سال والا لوں گا یا ایک سال والا لوں گا اور اسی پر بیع ہو جاتی ہے ۔

تو یہ جائز اور درست ہے ۔

کیونکہ یہاں عقد (لین دین)کے وقت قیمت متعین ہو گئی ہے ۔

یعنی :یہ متعین ہو گیا ہے کہ وہ تینوں صورتوں میں سے کس صورت پر اسے خرید رہا ہے ۔

لیکن چونکہ ای ایم آئی میں لین دین کے وقت ہی متعین کرنا لازمی ہوتا ہے کہ آپ کتنے مہینوں کے لیے رہے ہیں اس لیے صرف اس مسئلہ کی وجہ سے وہ ناجائز نہیں ہوگا ۔

اگر آپ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے EMIپر کوئی پروڈکٹ لیتے ہیں تو اس کے ناجائز ہونے کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں:

دو وجوہات کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے ۔ تیسری اہم وجہ یہ کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال ہی بذات خود ناجائز ہے ۔

سوال :کریڈٹ کارڈکیا ہے ؟

جواب:کریڈٹ کارڈ درحقیقت قرض کی ایک شکل ہے ، اس کے ذریعے بینک آپ کو یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ آن لائن یا شاپنگ مال وغیرہ میں خریداری کریں ، خریداری کی قیمت کارڈ کو سوائپ کرتے ہی بینک آپ کی طرف سے ادا کر دے گا ۔

پھر آپ جتنے کی خریداری کریں گے اتنی رقم مقررہ دنوں کے اندر بینک کو واپس کرنی ہوگی، تاخیر کی صورت میں پینالٹی کے نام پر سود لگنا شروع ہو جائے گا ۔

سوال :کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز کیوں نہیں ہے؟

جواب :کریڈٹ کارڈ دراصل بینک اور صارف کے درمیان قرض کا ایک معاہدہ ہے جس کے شرائط میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر صارف کی طرف سے قرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے تو بینک کی طرف سے پینالٹی کے نام پر حسب تاخیر اضافی رقم وصول کی جائے گی ۔

چونکہ قرض پر اضافی رقم کی وجہ سے یہ معاملہ یا معاہدہ سودی لین دین میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کہ واضح طور پر حرام ہے ، کیونکہ اس کا شمار زمانہ جاہلیت کے سود’إما أن تقضي وإما أن تربي‘(یا ادا کرو یا اضافہ کرو) میں ہوتا ہے۔(موطأ مالك:۱۹۶۵)

لہذا اس سودی معاہدہ کی وجہ سے اس کارڈ کے ذریعہ لین دین بھی ناجائز ہو جاتا ہے۔

کیونکہ جس لین دین کی بنیاد ہی باطل اور حرام چیز پر قائم ہو وہ لین دین درست کیسے ہو سکتا ہے؟

چنانچہ یہ ایک مسلمہ ضابطہ ہے کہ : ما بني على باطل فهو باطل ،أو : ما بني على فاسد فهو فاسد،أو : ما بني على حرام فهو حرام (موسوعة القواعد الفقهية:۹/ ۴۳۹،الأشباه لابن نجيم ، ص:۳۹۲ ، المعاملات المالية أصالة ومعاصرة:۱۳ /۲۰۱)جس چیز کی بنیاد ہی باطل یا فاسد یا حرام پر قائم ہو وہ چیز بھی باطل یا فاسد یا حرام ہو جاتی ہے ۔

[اس ضابطے کی دلیل کے لیے دیکھیں:صحيح البخاري:۲۷۲۵]

البتہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ پر مقیم ہے جہاں کریڈٹ کارڈ کے بغیر سامان خریدنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ان شاء اللہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا البتہ وہ مقررہ وقت کے اندر ہی قرض جمع کرنے کی کوشش کرے تاکہ سود سے بچ سکے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ابو حفصہ

شكرا شيخنا الحبيب من فضلكم أرسلوني رقمكم الإتصال
في هذا الرقم 9629006652