شمالی بہار خطہ متھلانچل جسے ترہت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اسے کوہ ہمالہ نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے، اپنی گوناگوں خوبیوں،سرسبزی و شادابی، مردم خیزی اور سب سے بڑھ کر جو حریت پسندوں کا مرکز وپناہ گاہ اور آرام گاہ بھی ہے، کبھی اسی متھلانچل اور ترہت کے سرسبز راستوں اور پگڈنڈیوں سے نیک طینت اور پاکباز، مرد مجاہد، سالار قوم ملت اور مجاہدین آزادی کے آخری سرخیل، سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید، امام زماں مناظر اسلام سرخیل اہل حدیث داعی بے مثال مبلغ اسلام صاحب حسن البیان وصاحب سوا الطريق علامہ مولانا عبدالعزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ کا دعوت و تبلیغ کے لیے گزر ہوتا تھا اور آج بھی اس خطے میں ان کی نسلی اور روحانی اولاد دعوت وعزیمت اور تبلیغ کے کاز میں مصروف عمل ہیں۔ اسی خطہ متھلانچل کی راجدھانی دربھنگہ میں علامہ رحیم آبادی کا لگایا ہوا شجر سایہ دار (دارالعلوم احمدیہ سلفیہ) تناور درخت بن کر علم وعرفان کی موتیاں لٹارہا ہے اور اس سے مستفیدین مستفیضین عرب وعجم میں اسلام، مسلک قرآن وسنت، عمل بالحديث اور منہج سلف الصالح کی نشرواشاعت میں مشغول ومامور ہیں۔ اسی مرکز علم وعرفان کے مستفیدین ومستفیضین میں ایک نام نامی اسم گرامی حضرت مولانا ابو بکر سلفی پیغمبرپوری رحمہ اللہ کا ہے جنوسں نے اپنی بساط بھر علمی دعوتی تبلیغی رفاہی سماجی اور تجارتی سطح پر اپنی سی کوشش کی اور شناخت بنائی۔
مولانا رحمہ اللہ کا وطن مالوف دربھنگہ سے قریب پیغمبر پور، نامی ایک معروف و تاريخی بستی ہے جو انتہائی مردم خیز و علما ربانین اور حاملین مسلک قرآن وسنت کی عظیم بستی ہے، اسی بستی سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے کئی دہائی قبل کئی نیر تاباں ہویدا ہوئے، جن میں علامہ عبید الرحمن عاقل رحمانی، علامہ عبید اللہ عنبر رحمانی اور علامہ عبدالحلیم ناظم رحمانی کے اسما قابل ذکر ہیں۔ اللہ عزوجل ان تمام علماء کرام رحمهم اللہ کی قبروں پر رحمت ورضوان کی برکھا برسائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کی ذات گرامی قوم وملت اور بالخصوص جماعت اہل حدیث دربھنگہ و پیغمبر پور کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل شخصیت تھی، مولانا رحمہ اللہ کی اچانک وفات نے ہر خاص وعام کو جھنجھوڑ کررکھ دیا اور میرے لیے تویقین کرنامشکل تھا جب میری والدہ محترمہ نے یہ خبر سنائی کہ زاہدہ خالہ کے خسر اس دار فانی سے داربقا کی جانب کوچ کر چکے ہیں۔
انا لله وإنا إليه راجعون اللهم اغفر له و ارحمه وعافه واعف عنه و اكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ۔آمين ثم آمین یا رب العالمین
مولانا پیغمبر پوری رحمہ اللہ علیہ اپنی ذات والا صفات میں نہایت ہی منکسرالمزاج، خلیق و ملنسار، علم وعلما اور طالبان علوم نبوت کے بہی خواہ اور جماعتی وملی غیرت سے لبریز وسرشار تھے۔اﷲعزوجل نے ان کے اندر علمی ، تعلیمی و تربیتی تنظیمی تجارتی خوبیاں ودیعت کی تھیں۔
میری والدہ ماجدہ کی چھوٹی ہمشیرہ بڑی خالہ امی نے ماضی کے جھروکے سے اپنی یاد داشت کو مہمیز لگاتے ہوئے کہا کہ مولانا ابو بکر سلفی میرے نہایت ہی شفیق استاد تھے، ان کے اندر استاد کی تقریباً تمام صفات اور خوبیاں موجود تھیں، ان کےپڑھانے سمجھانے کا طریقہ ایسا تھا کہ ایک کند ذہن طالب علم بھی ذرا سی کوشش سے ان کی بات سمجھ سکتا تھا، مولانا نے انھیں فارسی وغیرہ کی ابتدائی کتابیں پڑھائی تھیں جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، انھو ں نے مولانا رحمہ اللہ کے لیے دعائیں کیں۔ کچھ سال قبل جب مولانا کے صاحبزادے مولانا منظر احسن سلفی حفظہ اللہ وتولاہ (جو خود بھی عالم دین اور ایک معروف کامیاب ترین تاجر بھی ہیں) نے ممبئی کے پوش علاقہ وی ٹی ریلوے اسٹیشن کے سامنے جی پی او کےپاس پورٹ پرالقلم اسلامک اسکول کی اساس رکھی تو مولانا رحمہ اللہ نے خوشی ومسرت کا اظہار کیا اور جب کبھی اسکول تشریف لاتے تو اسکول ھذا کے طلبا وطالبات اور مدرسین وایڈمن حضرات سے خیر خیریت کے ماسوا دینی سوالات بھی کرتے اور محظوظ ہوتے۔اور علمی و کاروباری اعتبار سے عظیم حیثیت رکھنے کے باوجود ملنساری، عاجزی انکساری اور اپنائیت کی خوبیوں سے پوری طرح متصف تھے، جب راقم سے تعارف ہوا تو خوش ہوئے اور بجائے نام کے نواسہ سے پکارتے اور ساتھی ٹیچروایڈمن سے کہتے یہ میرا نواسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
مولانا رحمہ اللہ کا اسم گرامی باعتبار نسب اس طرح سے مرقوم ہے: ابوبکر بن حافظ عبد الرحمن بن کمانڈر ومنشی اصغر علی
مولانا کی ولادت باسعادت ۱۹۳۳ میں پیغمبر پور میں حافظ عبدالرحمن کے دولت کدہ پر ہوئی، آپ کی والدہ رحمھا اللہ علامہ رحمہ اللہ کے لے پالک کی صاحبزادی تھیں، یوں مولانا رحمہ اللہ کا ننہالی رشتہ علامہ عبدالعزيز رحیم آبادی سے استوار ہوتا ہے، لہذا مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ ہر دو جانب سے جماعت مجاہدین اور تحریک آزادی سے منسلک ہیں، یہی وجہ ہے کہ دینی جاں فروشی کے ماحول میں پروان چڑھے، تعلیمی سلسلہ کا آغاز والد محترم کے ذریعے ہی ہوا، یوں والد رحمہ اللہ روحانی استاد بھی ہوئے، بعد سن شعور دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں داخل ہوئے، بتاتا چلوں کہ دارالعلوم میں آپ رحمہ اللہ کے والد بزرگوار شعبہ حفظ میں مدرس تھے، ۱۹۵۳ میں فراغت کے بعد دعوتی و اصلاحی مشن پر اڈیشہ میں دارالھدی چمپوا کیونجھر میں صدر مدرس کے منصب پر فائز ہوئےیہاں وہ دو سال تک درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے ،بعد ازاں جماعت اہلحدیث کی قدیم دانش گاہ جامعہ فیض عام مئوناتھ بھنجن میں شعبہ دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہونے کے بعد دعوت وتبلیغ کے علاوہ مولانا رحمہ اللہ کو جامع مسجد فیض عام کے منصب امامت وخطابت پر متمکن کیا گیا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتیہے کہ جامع مسجد فیض عام کی امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھالنا اور منتظمین کا اس منصب جلیلہ پر مولانا رحمہ اللہ کو فائز کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا رحمہ اللہ کے ایک اچھے خطیب وواعظ اور داعی ہونے کا بین ثبوت بھی ہے۔
لیکن سوئے قسمت کہ آپ اس علم وعمل کے مرکز میں صرف دو سال رہے پھر وہاں سے عازم وطن مالوف ہوئے، ہم نے سوئے قسمت اس لیے کہا کہ مجھے یقین ہے اگر مولانا رحمہ اللہ اس مرکز علم و دانش میں رہ جاتے تو علمی اعتبار سے آج آپ کا مقام کچھ اور ہوتا کیونکہ یہ علوم وفنون کا سرچشمہ تھا، جہاں مختلف علوم وفنون اور اسماالرجال کی بے شمار ہستیاں موجود تھیں اور ایسے خالص علمی ماحول میں آپ کے علم وعمل کو جلا ملتی۔تاہم یہ بات بھی مولانا کے پیش نظر رہی ہوگی کہ اپنی علمی صلاحیت و قابلیت سے اہل وطن کو فائدہ پہنچایاجائےاوران کی اصلاح کی جائےاور ’علی وجہ البصیرت ‘یہ ہوا بھی کہ آپ نے علاقے کے مختلف مدارس دینیہ میں مسند درس وتدریس کو قائم رکھا اور جہاں بھی رہے وہاں کی مسجد جامع کے امام وخطیب رہے یا کم از کم خطیب جمعہ رہے۔چنانچہ مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ متعدد دانش گاہوں کے استاد وصدر اور رکن رہے ،جیسے ابنائے قدیم داراالعلوم احمدیہ سلفیہ کےصدر ،سلفیہ یونانی میڈیکل کالج دربھنگہ کےسابق رکن شوری، معروف وقدیم سلفی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ، بھوارہ، مدھوبنی کےصدر، مدرسہ عزیزیہ محمدپورعرف کھرایاں دربھنگہ،مدرسہ اسلامیہ رگھے پورہ،مدھوا پٹی،مدھوبنی اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیراگنیاں،شیوکے سابق استاد ،ضلعی جمعیت اہل حدیث دربھنگہ کے امیررہے ۔ بین السطور میں جس مدرسہ عزیزیہ محمد پور عرف کھرایاں کا ذکر کیا گیا ہے میں اس کے تاریخی پس منظر کو واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ یہ بھولی بسری یادیں صفحہ قرطاس پرمنتقل ہوکر تاریخ کے صفحات میں امر ہوجائیں لہذا عرض تحریر یہ ہے کہ مذکورہ مدرسہ عزیزیہ علامہ عبدالعزیز محدث رحیم آبادی کے نام سے منسوب ہے، جسے ہمارے پر نانا محمد یاسین بن فرزند علی اور ان کے برادران عبد العزیز وعبدالشکور اور ایک اور بھائی جن کا نام معلوم نہیں ہوسکا نے باہم مل کر اپنی پشتینی اراضی پر تعمیرکرایا تھا، جو ان برادران کے لیے اور امام العصر وامام المناظرین مولانا عبد العزيز بن احمد اللہ رحیم آبادی رحمہ اللہ کے لیے بھی ان شاء اللہ توشہ آخرت ہے، اللہ عزوجل ان بزرگوں سے راضی برضا ہو۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
در اصل محدث رحیم آبادی علیہ الرحمہ نے غیر منقسم ہندوستان کے کم وبیش تمام علاقوں کا بحیثیت مجاہد آزادی ہند دورے کیے، عوام الناس کو جنگ آزادی وطن وتوحيد وسنت اور عمل بالحديث سے جوڑا لیکن آپ نے دعوت و تبلیغ کا مرکز مادر وطن بہار کے ترہت کمشنری کو بنایا، ۱۳۰۰ھ کے کسی سن وتاريخ میں جب آپ والد محترم سے بعض مسائل میں اختلاف کے سبب مع اہل خانہ گھر بار، مال ودولت زمینداری، عیش و عشرت کوچھوڑ چھاڑ کر رحیم آباد سے مظفرپور وارد ہوئے، اور چھوٹی کلیانی کی ایک مسجد میں سکونت اختیار کی اور اسی کو علم و عرفان اور دعوت وتبلیغ کا مرکز بنا کر یہیں سے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا جس کی وجہ سے آپ پر مصائب کے پہاڑ توڑے گیے، چھوٹی کلیانی سے قریب مظفرپور کا سیشن کورٹ ہے، یہاں پر آپ کی ملاقات دعوتی سلسلے میں راقم کے سکڑ دادا یعنی والد محترم کے پر دادا اور دادا جان کے دادا جان بیرسٹر اور جج نصارت علی بن حسن علی (بن خیر علی بن پیر علی بن سید علی بن ارزان علی بن سبحان علی) رحمھم اللہ سے ہوئی، علامہ رحیم آبادی علیہ الرحمہ نے ان کے سامنے خالص اسلام کو پیش کیا، اس طرح اللہ عزوجل کی توفیق اور علامہ علیہ الرحمہ کی کوشش سے نصارت علی رحمہ اللہ نے مسلک قرآن وسنت کو اختیار کیا اور مولانا رحیم آبادی کا دعوتی کاز اور دیگر مسائل میں دامے درمے قدمے سخنے سپورٹ کیا اور اپنی مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر دعوت وعزیمت میں ساتھ ساتھ رہے ، اس تاریخی حقیقت کو گرچہ محدث رحیم کی زندگی پر خامہ فرسائی کرنے والوں نے معلوم نہیں کیوں نظر انداز کردیا یا انھیں اس کا علم نہیں ہوسکا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ نصارت علی علیہ الرحمہ مظفرپور شہر سے قریب معروف خانپور نامی بستی کے شہرت یافتہ زمیندار اور بیرسٹر اور جج تھے، جماعت مجاہدین سے تعلق اور ان کی مالی معاونت کی وجہ سے ظالم وجابر اور غاصب انگریز حکومت نے بغاوت کے جرم میں کچھ صد اراضی قرق کرلی تھی، اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تو اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی ان شاء اللہ ، بہر کیف علامہ کی کاوش سے مسلک اہلحدیث اختیار کیا تھا اور اس زمانے میں نصارت علی صاحب نے ہر طرح سے دعوتی مشن میں تعاون کیا تھا۔ بہرحال یہ تاریخی سچائی مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر تحریر کی گئی ہے۔ورنہ اسے ریکارڈ میں نہ لانے پر بس یہی کہا جا سکتا ہے: مرضی مولی از ہمہ مولی۔ بات چل رہی تھی مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کی لیکن ضمنا مذکورہ تاریخی واقعہ کا ذکر آگیا۔
مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کی علمی صلاحیت کے تعلق سے استاذ الاجیال سابق ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند اور موجودہ امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے فرمایا :
’’چند سال قبل ایک مجلس میں انھوں نے کسی کام پر خوش ہوکر متنبی کا ایک شعر برجستہ پڑھ کر حاضرین مجلس کو اپنی توجہ کا بایں طورپر بھی مرکز بنالیاکہ :
مضت الدھور ومااتین بمثلہ
ولقد اتی فعجزن عن نظرائہ‘‘
اس واقعہ سے مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کی علمی وادبی صلاحیتوں کا بھی مشاہدہ و مظاہرہ ہوتاہے،حالانکہ مولانا رحمہ اللہ کی جملہ دینی وسماجی خدمات ۷۰ سالوں پر محیط ہیں، مولانا کے تعلق سے والد محترم سابق امام وخطیب و مفتی جامع مسجد اہلحدیث بائیکلہ ممبئی مولانا مطیع الرحمن الحمیدی نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوبکر سلفی کی شخصیت قابل احترام شخصیت تھی ، مولانا رحمہ اللہ نہایت خلیق و ملنسار،مہمان نواز،علماء کے قدرداں،جماعت و جمعیت کے تعلق سے غیرت وحمیت والے انسان تھے۔
مولانا فرہاد احمد بن محمد قاسم سلفی پیغمبرپوری (جو مولانا وحیدالدین خاں کے پرسنل سیکرٹری تھے)نے کہا کہ مولانا ابو بکر سلفی کے گزرجانے کا کافی افسوس ہوا، اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
مولانا فرہاد سلفی مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کےمتعلق بیان کرتے ہیں کہ مولانا خلیق وملنسار اور بردبار تھے، ان کے اندر ایک خاص بات یہ تھی کہ حق بات کہنے میں ذرہ برابر بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ بغیر لومۃ لائم کے حق کو حق کہتے اور باطل کو باطل کہتے، خواہ مخالفین پس پردہ اور پیٹھ پیچھے کتنی ہی مخالفت کرجائیں، مولانا نہ صرف حق گو تھے بلکہ نڈر بےباک اور مجاہدانہ صفت کے حامل تھے چنانچہ سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے قبرستان کے ایک قضیے میں جیل بھی گیے تھے اور قبرستان کے مقدمے میں سرخرو لوٹے بھی تھے۔
اللہ عزوجل مولانا کی تربت پر ابر رحمت برسائے۔آمین
القلم انگلش اسکول کے سینئر اور لائق استاد مولانا احمد قاسمی نے مجھ سے عبرت ونصیحت پر مبنی بات شیئر کرتے ہوئے کہی کہ جب بھی مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ کی القلم اسکول سائن ممبئی میں تشریف آوری ہوتی تو طلباء وطالبات سے دعائیں سنتے، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے، اگر کسی بچے نے دعا سنادی، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق سوالات کے جوابات دے دیے تو فرماتے یہ کامیاب ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا پیغمبر پوری رحمہ اللہ نونہالان امت کے بنیادی دینی تعلیم کے لیے کس درجہ فکر مند رہا کرتے تھے، ہم مذکورہ قصے سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مولانا رحمہ اللہ کی نظر میں اصل اور حقیقی کامیابی فلاح دین تھی جو صد فیصد درستگی پرمبنی ہے۔ مولانا رحمہ اللہ کے صاحب زادگان شیخ عمر فاروق صاحب ، ظفر صاحب، مولانا منظر احسن سلفی ودیگر افراد خانہ قابل مبارک باد وباعث اجر وثواب ہیں کہ آپ لوگ اپنے والد مولانا ابو بکر سلفی رحمہ اللہ علیہ کی زندگی پر مفصل کتاب منظر عام پرلارہے ہیں-جو تاریخی وسوانحی اعتبار سے معلومات کا خزینہ ہے، وگرنہ جماعت اہلحدیث کی نہ جانے کتنی عبقری شخصیات ماضی اور تاریخ میں بھولی بسری شئی بن کر رہ گئیں اور قصہ پارینہ ہوگئیں، اور اب ان کے نام وکام سے بس خال خال لوگ ہی واقف ہیں جو آنے والی نسلوں کے اذہان سے معدوم ہوجائیں گے، اخیر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تاریخی دستاویز کو ہرخاص وعام کے لیے عبرت ونصیحت اور فلاح دارین کا ذریعہ بنا ئے اور رب العالمین مولانا رحمہ اللہ علیہ کی برزخی زندگی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما ئے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
آپ کے تبصرے