مولانا عبدالغنی فیضی جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو اور جامعہ سلفیہ بنارس کے ممتاز فضلاء میں سے ہیں، آپ مولانا عبدالرحمٰن رحمانی نحوی رحمہ اللہ کے لائق فرزند اور علمی وارث ہیں۔ آپ نے ایک طویل مدت تک جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں تدریسی فریضہ انجام دیا ہے، اس دوران باکورہ سے لے کر صحیح بخاری تک کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں، آپ ایک قابل استاذ ہیں اور باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، علماء اہل حدیث سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں اور فن حدیث اور ادب میں خصوصی طور پر مہارت رکھتے ہیں۔ (ض ا)
ض،ا: آپ کا سلسلۂ نسب کیا ہے؟
عبدالغنی فیضی: عبدالغنی نام اور فیضی تخلص ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: عبدالغنی پسر مولانا ابوالعرفان عبدالرحمن نحوی رحمانی پسر حکیم مولانا عبداللطیف (شاگرد میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی) پسر حاجی محمود پسر حاجی جہانگیر رحمہم اللہ
ض،ا: آپ کی تربیت کس ماحول میں ہوئی؟
عبدالغنی فیضی: میں نے جب آنکھ کھولی اور بدو شعور کو پہنچا تو گھر میں علمی ودینی ماحول پایا۔ میرے اوپر بھی اس ماحول کا اثر رہا۔ دولت کی ریل پیل تو نہیں تھی مگر صبر وشکر کا غلبہ تھا، میانہ روی اور اعتدال پایا جاتا تھا، دوسرے لفظوں میں ترفہ پایا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ زمینداری کے سبب اور والد محترم کے تدریسی عمل کا حصہ تھا۔
والد محترم کی زندگی کا آخری زمانہ تھا اُس وقت میری عمر دس سال سے بھی کم تھی، کسی شخص کی میت اور کفن دفن کے مراحل میرے لیے بالکل نئی چیز تھے۔
ض،ا: اپنی ابتدائی اور عربی تعلیم کے بارے میں بتائیں، اس وقت تعلیم وتربیت کا کیسا ماحول تھا؟
عبدالغنی فیضی: ابتدائی تعلیم کا آغاز گھر پر ہوا، مدرسہ فیض عام میں حافظ یحییٰ صاحب کے پاس تعلیم کی بسم اللہ ہوئی، ان کے علاوہ مولانا بشیراللہ اعظمی، منشی عبدالولی، ماسٹر نورالدین یتیم اعظمی کے یہاں ابتدائی تعلیم وتحریر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد لگ بھگ دو سال کا خلا ہے۔ اس مدت میں گھر رہ کر اردو، فارسی ونقل واملا اور حساب کی تعلیم مولوی محمد عمر فیضی کے پاس ہوتی رہی۔ ان کے پاس گھر اور محلے کے بہت سے ہم عمر بچے زیر تعلیم تھے، وہ للہ فی اللہ ہم لوگوں کو بڑی اپنائیت اور توجہ سے پڑھاتے تھے، عموماً بعد نمازِ مغرب آتے اور عشاء کی اذان تک رہتے، کبھی اس سے زیادہ وقت بھی دیتے تھے۔ بے تکلف تھے اور ہمارے اُن کے پرانے گھریلو تعلقات تھے، ہمارے بڑے بھائی مولوی محمد صالح کے دوست تھے۔
پھر لگ بھگ سنہ ۱۹۶۵ء میں باقاعدہ مدرسہ فیض عام میں درجاتِ فارسی سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ منشی ذکاءاللہ، مولانا مختار اختر اور ماسٹر شمیم صاحبان کے پاس فارسی، اردو، تاریخ، جغرافیہ، حساب وہندسہ کی تحصیل کی۔ تین سالہ فارسی کورس میں ماسٹر منظور احمد (بھائی) وماسٹر امتیاز ودھایک جی کا بھی ایثارِ نفس شامل ہے۔
سنہ ۱۹۶۹ء میں درجات عربیہ کی ابتدائی جماعت ادنیٰ میں داخل ہوا، جو کہ تین یا چار طلبہ پر مشتمل تھی۔ جس کے ایک فرد مولوی مقصود الحسن پرتاپ گڈھی، دوسرے رفیق برادر مولانا محمد حنیف ابتدا سے انتہا تک ساتھ رہے۔ پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بڑھتا گیا۔ ان میں مولانا عبدالحمید فیضی، مولانا خالد، مولانا مسعود دمکاوی بھی ہیں، میں اپنی جماعت میں تنہا مقامی طالب تھا۔ حالانکہ اوپری جماعتوں میں مولانا عبدالجلیل بمبئی فیضی مکی اور بہت سے طلبہ ہم درس ہوئے۔ یہاں تک کہ چالیس بیالیس طلبہ دورۂ حدیث میں تھے۔ اور مدرسہ کے سارے طلبہ محنتی اور ذی شعور تھے، ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ تدریسی کتابوں کی تکرار تعلیمی نظام کا اہم حصہ تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد سے عشاء کی اذان تک طلبہ کی پڑھائی پر جناب ناظم مدرسہ مولانا احمد صاحب کا خاص دھیان رہتا تھا۔ اس لیے عشاء میں تاخیر کی جاتی تھی۔ بسا اوقات طلبہ کا امتحان بھی لیتے رہتے تھے۔ اور ان کی تربیت پر دھیان دیتے تھے۔ اس وقت طلبہ میں تعلیمی موضوعات سے متعلق خارجی کتابوں کے مطالعہ کا اچھا خاصا چلن تھا۔ اُن میں شعر وادب کا بھی ذوق تھااور تحریر وانشاء کا بھی۔ آج جو سالانہ فیضان شائع ہوتا ہے وہ اسی تسلسل کی یادگار ہے جو آشیانہ والفیض کی صورت میں ہم لوگوں کے عہد یعنی سنہ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۶ء تک قلمی جریدے نکالے جاتے تھے۔ موازنہ کرنا تو درست نہیں ہے کیونکہ عیاں را چہ بیاں! البتہ تعلیم کے طریقے بدل گئے ہیں، ترجیحات اور ضروریات بدل گئی ہیں، جس کے مطابق اساتذہ مدارس اور طلبہ کے غور وفکر کا محور بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ فافہم فتدبر
ض،ا: دورانِ تعلیم کا کوئی خاص واقعہ جو آج تک آپ کو یاد ہو؟
عبدالغنی فیضی: زندگی تو واقعات وحادثات سے عبارت ہی ہے اس لیے بہت سے واقعات پیش آئے جو آج بھی ذہن کے پردے پر محفوظ ہیں۔ اُن میں سے ایک اہم واقعہ طلبہ کی جانب سے اساتذہ کا بے انتہا احترام اور اساتذہ میں ذمہ داری کا احساس تھا۔ محترم ناظم محمد احمد کا ایک علمی مسئلہ میں برجستہ ٹوکنا اور اصلاح کرنا آج تک یاد ہے۔ وہ زن وشو کے بعد وفات کے تعلق سے تھا۔
ض،ا: آپ نے مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس وقت جامعہ کا ماحول کیسا تھا؟
عبدالغنی فیضی: اس وقت جامعہ کا ماحول علمی اعتبار سے عمدہ واعلیٰ تھا۔ تحقیقی وتنقیدی ذہن کا فروغ ہوتا تھا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب ایسا ماحول نہیں ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ صدی ہماری تھی یہ صدی تمھاری ہے۔
ض،ا: فراغت کے بعد آپ کی تقرری جامعہ اسلامیہ فیض عام میں کیسے ہوئی؟
عبدالغنی فیضی: جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد مارچ سنہ ۱۹۸۰ء میں میری تقرری جامعہ اسلامیہ فیض عام میں ہوئی۔ اور درجہ منشی وکامل نیز ادب کی کتابیں زیر درس آئیں۔ حتی المقدور مشق وممارست ومحنت سے کام کیا۔ یہاں تک کہ چالیس سال تدریسی فرائض انجام دیا۔ اور ۳۱؍مارچ ۲۰۲۰ءکو ضابطۂ ملازمت کے مطابق ریٹائر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کو قبول فرمائے۔
ض،ا: جامعہ فیض عام میں آپ شیخ الجامعہ کے عہدے پر بھی فائز رہے، اس دوران طلبہ میں کیا کیا خامیاں ملیں، اور کچھ ممتاز تلامذہ؟
عبدالغنی فیضی: اپنے پیش رو پرنسپل اور بزرگ استاذ کے ریٹائر ہونے کے بعد جولائی سنہ ۲۰۰۸ء میں مجھے پرنسپل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ پنج سالہ دور جون سنہ ۲۰۱۳ء پر منتہی ہوتا ہے۔ اجتماعی امور کی انجام دہی میں کافی محتاط رویہ اختیار کیا گیا۔ آنکھیں کھلی رکھی گئیں اور کان بند۔ طلبہ کے معاملات ہوں یا اساتذہ کے، مشاورت باہمی سے احتراز نہیں کیا گیا۔ اس عرصہ میں کسی طرح کی تعلیمی پستی نہ آئے اس پر کافی توجہ رہی۔
مولوی ابوسعید فیضی، مولوی شفیع احمد، مولوی فیروز، عبدالعزیز فیضی، مولوی رشید کلرک اور طفیل کلرک وغیرہ ابتدائی تلامذہ میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ دیگر بہت سے شاگرد مدرسہ کی چہار دیواری کے اندر اور باہر ہیں۔ ان میں کچھ مکہ اور مدینہ کے مختلف اداروں سے فراغت پاکر اونچے اور اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں دین ودنیا میں کامیاب کرے اور اساتذہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔
ض،ا: آپ اپنے کس استاذ سے سب سے زیادہ متاثر رہے اور کیوں؟
عبدالغنی فیضی: جامعہ فیض عام میں جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اُن میں مولانا مختار اختر فیضی، مولانا مشتاق احمد شوق، مولانا اسماعیل مدنی، مولانا محمد حنیف فیضی، مولانا ابوالکلام احمد، مولانا قاری نثار احمد فیضی، مولانا محفوظ الرحمن فیضی، قاری عبدالسبحان فیضی اور شیخ الحدیث مفتی حبیب الرحمن فیضی اور بطور فہمائش مولانا ناظم احمد صاحب، ماسٹر رفیع اللہ، ماسٹر انجم اور ماسٹر عبدالحئی مدنی شامل ہیں۔
ان اساتذہ میں سے ہر ایک اپنے دائرۂ عمل میں مخلص تھے، اور ان کے دل احساس ذمہ داری سےمعمور تھے۔ لہٰذا میں اپنے تمام اساتذہ سے متاثر ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کا اندازِتعلیم وتربیت منفرد اور متنوع تھا اُن کے درس کی چاشنی میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔
ض،ا: کون کون سی کتابیں زیردرس رہیں اور کس کتاب کو پڑھانےمیں دلچسپی رہی اور کیوں؟
عبدالغنی فیضی: درسِ نظامیہ اور سرکاری بورڈ میں شامل کتابیں سبقاً سبقاً پڑھنے کی سعادت حاصل کی گئی۔ فارسی میں گلستاں وبوستاں اور عربی میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا دور دوبار کرنے کی برکت حاصل ہے۔ یہ عمل لذید حکایت دراز تر ہونے کی طرح ہے۔ مختلف کتابیں، اردو، فارسی اور عربی شعر وادب، نحو وبلاغت وتفسیر وحدیث دلچسپی کے ساتھ پڑھایا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے ساتھ ساتھ ترمذی کے مشتملات سے محظوظ ہوتا ہوں، ان کی شروحات سے زیادہ شغف رہتا ہے۔
ض،ا: مدارس کے نصاب کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں؟
عبدالغنی فیضی: نصاب تعلیم کی تحسین وتنقیص اور تنفیذ کی بحث بہت پرانی ہو چکی ہے۔ نصاب تعلیم دراصل بہتا ہوا پانی ہے جو اپنی روانی چاہتا ہے۔ تب شیشہ کی طرح صاف رہتا ہے ورنہ وہ محض سراب ہے۔
ض،ا: کیا آپ مانتے ہیں کہ مدارس کا معیار گرا ہے۔ اگر ہاں تو ذمہ دار کون ہے؟
عبدالغنی فیضی: یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں کہ تعلیمی گراف پچھلے زمانہ کے مقابلے میں بڑھا ہے مگر معیار تعلیم گرا ہے۔ اس کی وجہ طلبہ کی عدم دلچسپی بھی ہوسکتی ہے۔ انتظامیہ کی تکاسلی کے ساتھ اساتذہ مدارس بھی ہوسکتے ہیں۔
ض،ا: جامعہ فیض عام سے آپ کا گہرا ربط رہا ہے آپ کے والد محترم مولانا عبدالرحمن نحوی رحمہ اللہ جامعہ کے ممتاز مدرسین میں تھے آپ جامعہ کو حال ومستقبل میں کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عبدالغنی فیضی: جامعہ فیض عام سے ہمارے روابط قدیم بھی ہیں اور وسیع بھی۔ اس کی تاسیس اور تعمیر وترقی میں ہمارے اجداد کا بڑا حصہ ہے۔ جدامجد حکیم مولانا عبداللطیف صاحب (شاگرد سید میاں نذیرحسین محدث دہلوی) اس کے بانیان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ مدرسہ فیض عام کے مجلس انتظامی کے رئیس ہوا کرتے تھے۔ خاکسار کے والد محترم مولانا عبدالرحمن نحوی اس کی نظامت کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے ممتاز استاذ رہے۔ ان کا پینتالیس سالہ دور آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ یہ میرا مادرعلمی بھی ہے اور ۴۰؍سالہ خدمات کا ملجا بھی ہے۔ آج ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی جذباتی لگاؤ باقی ہے۔ اس کے تابناک مستقبل کا متمنی ہوں۔ اس کی نیک نامی کے لیے دعا گو ہوں ؎
یہی وہ فیض عام ہے یہی وہ فیض عام ہے جو اپنے حسن کار سے جہاں میں نیک نام ہے
ض،ا: جامعہ اسلامیہ فیض عام کا ترانہ آپ نے ہی لکھا ہے؟ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں؟
عبدالغنی فیضی: جامعہ اسلامیہ فیض عام کا ترانہ میرا ہی نتیجۂ فکر ہے۔ جو میرے شعری ذوق کا مظہر ہے۔
ض،ا: کوئی تصنیف؟ تصنیف وتالیف سے دوری کی وجہ؟
عبدالغنی فیضی: واقعی یہ بات ہے کہ میری کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اس میں کسی وجہ کو دخل نہیں ہے۔ البتہ فرصت کی ناہمواری ہے۔ دراصل معلمی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں نے کہیں پر لکھا ہے:’’درس وتدریس کے ساتھ تصنیف کے لیے وقت کی فراہمی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، کتابوں کے اقتباسات ومنقولات کو تصنیف کا نام دیا جائے تو یہ چنداں دشوار نہیں، لیکن تحقیق کا مرحلہ اور توجہ کا مطالبہ کرتاہے ایک مدرس کے لیے یہ دونوں مراحل دشوار ہیں۔ اس کے باوجود مختلف موضوعات پر علمی مقالات ومضامین کا سلسلہ دور طالب علمی سے جاری ہے ان میں سے کچھ بروقت شائع ہو چکے ہیں، اور بعض مسودات کاغذات میں دبے ہوئے اور اشاعت کے منتظر ہیں۔‘‘
ض،ا: آپ کی شادی کب اور کس سے ہوئی؟ نکاح کس نے پڑھایا؟
عبدالغنی فیضی: ازدواج نصف ایمان ہے، اس لیے ملازمت کی بحالی کے بعد مورخہ ۱۳؍مارچ سنہ ۱۹۸۰ء مطابق ۲۵؍ربیع الثانی سنہ ۱۴۰۰ھ بروز جمعرات مسماۃ ساجدہ خاتون بنت الحاج محمد یاسین ساکن ڈومن پورہ سے عقد مسنون ہوا، اور رخصتی عمل میں آئی۔ مولانا محمد اعظمی نے نکاح خوانی کی۔
ض،ا: کل کتنی اولاد ہے؟
عبدالغنی فیضی: میں کل تین بچوں جابر زماں، عامر زماں، اور نادر زماں کا باپ ہوا۔ اول الذکر دونوں زندہ بخیر ہیں۔ تعلیم وتربیت کے مراحل طے کرنے کے بعد متزوج اور صاحب اولاد ہیں۔ آخر الذکر نادر زماں کو (مئی ۱۹۸۷ءتا جولائی ۱۹۸۰ء) بہت کم زندگی ملی۔
ض،ا: آپ کی موجودہ مشغولیات کیا ہیں؟
عبدالغنی فیضی: تدریسی سلسلہ تو منقطع ہے البتہ تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ جامع مسجدباغچہ کی امامت وخطابت بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔
ض،ا: موجودہ دور میں طلبۂ مدارس کو نصیحت؟
عبدالغنی فیضی: طلبہ کو چاہیے کہ ہمیشہ محنت اور لگن کے ساتھ حصول علم میں لگے رہیں،اور اساتذہ سے معلومات حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کریں، بلکہ مختصر لفظوں میں یہ کہوں گا؎
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
میرے بچو یہ نصیحت مان لو
علم و فن کا سر کرو میدان سب
آپ کے تبصرے