سرفراز احمد:آپ کا مکمل نام کیا ہے؟(کنیت، لقب، تخلص یا تاریخی نام ہوتو وہ بھی بتائیں)
مولاناسعید احمد بستوی:محمد سعید احمد ولد بسم اللہ رحمہ اللہ بستوی سے حیدر آباد، دکن میں معروف ہوں۔ فراغت کے بعد کچھ دنوں تک شاعری کیا، تخلص تحسنؔ تھا۔
سرفراز احمد: آپ کی جائے ولادت کہاں ہے؟ اور تاریخ ولادت کیا ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:جائے ولادت: مقام سمرا پوسٹ اٹوا ضلع بستی یوپی، تاریخ ولادت: ۱۶؍دسمبر۱۹۶۳ء
نوٹ:۱۹۸۷ءاختتام اور ۱۹۸۸ء کا آغاز تھا نکل مکانی پر مجبورہوئے۔ سمراکے حالات نامساعد تھے، اختلاف اور آپس میں سرپھٹول پنچایتی الیکشن کی سرگرمیاں عروج پر تھیں جس کی بناپر دو مسجد، دومدرسے، دو عیدگاہ لوگوں نے بنالیے، پارٹی بندی ہوگئی۔ بہت سارے علماء کرام مینا عیدگاہ میں اجلاس تھا اختلاف سن کر وہاں تشریف لائے کہ جماعت کے لوگوں کو ملادیں، جن میں جماعت کی بڑی قد آور اور بزرگ شخصیت محترم صوفی نذیر احمد صاحب کشمیری، مولانا عبدالحمید رحمانی حفظہ اللہ، مولانا عبیداللہ صاحب پروفیسر کشمیری، مولانا قطب اللہ صاحب ندوی،مولانا عبدالرحمن صاحب جھنڈا نگری، مولانا وفاضل عبدالغفور بسکوہری اور بہت سارے علماء وہاں آئےاور صلح ومصالحت کرانی چاہی مگر فریقین میں صلح نہ ہوسکی۔ بدستور دومسجد، دو مدرسہ، دو عیدگاہ، ایک ہی مسلک کے لوگ اور ایسی نوبت سے علماء دل برداشتہ ہوکر چلے گئے۔ عرصۂ دراز تک یہ بے راہ روی چلتی رہی، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا کچھ مخلص علماء کرام نے انتھک جدوجہد اورکوشش سے سب کو ملایا جس میں اولیت حاصل ہے فضیلۃ الشیخ عبدالجبار سلفی؍حفظہ اللہ کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے ابھی حالات بحمدللہ بہت ٹھیک ہیں اور محبت واتحاد کی فضا لوٹ رہی ہے، اللہ اس بستی پر اپنا فضل خیر، رحمت وبرکت نازل فرمائے۔
موجودہ سکونت، نیپال بارڈر سے متصل مقام محلن ڈیہہ بڑھنی وارڈ نمبر ۳ پوسٹ بڑھنی ضلع سدھارتھ نگر یوپی ہے۔پن کوڈ۲۷۲۲۰۱
سرفراز احمد:کچھ خاندانی پس منظر کے متعلق بتائیں، کیا آپ کے آبا واجداد میں کوئی عالم بھی گذرے ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہمارے خانوادے میں والد صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے پر دادا تھے ان کے کئی لڑکے تھے اور پردادا کتنے بھائی تھے وہ صحیح ڈھنگ سے معلوم نہیں۔ پھر ہمارے دادا جو بڑے تھے ان کے ایک بھائی تھے یہ دونوں سمرا میں ہی قیام پذیر تھے۔ ہمارے والد بسم اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور دو ہمشیرہ تھیں اور ہمارے چھوٹے دادا کے دو بیٹے مہدی حسن اور عبداللہ اور ایک بیٹی اور ہمارے خاندان کے دوبزرگ تھے جو کپیوا بخشی چلے گئے جو اٹوا سے شمال جانب واقع ہے۔ ان کے ایک بیٹے تھے جن کا نام حسرت تھا ایک اور تھے وہ بھی کپیوا بخشی میں رہتے تھے، ان کے ایک بیٹے محمد بشیر اور تین بیٹیاں تھیں اور ایک دادا بڑھنی چلے گئے تھے جن کو لوگ سپاہی دادا کہتے تھے۔ ان کے ایک اکلوتے بیٹے تھے جن کو لوگ کلن بابو کے نام سے جانتے تھے اور ان کو سب بابوہی کہتے تھے، ان کا اصلی نام کیا تھا آج تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا۔ نیز خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف جھنڈا نگری رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے دیرینہ مراسم تھے، علماء نواز تھے باوجود ملازم سرکار کے ہونے کبھی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔
الحاج کلن بابو نے مسجد ومدرسہ بنوایا، زمین وقف کی، عابد شب بیدار اور کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے، ہمارے والد کے تین بیٹے تھے محمد شفیق ان سے چھوٹے عاشق علی اور تیسرے محمد سعید احمد اور پانچ بہنیں، جن کی اولاد میں اکثر بچے بچیاں پڑھے لکھے ایم اے، بے اے تعلیم یافتہ ہیں۔ تقریباً ۵۰؍بھانجے بھانجیاں ہیں، اللہ کا شکر ہے ایک بھانجے عبدالحنان لیکھ پال ہیں اور عبدالمنان ٹھیکیدار ہیں، تفصیل بہت لمبی ہے، مختصر یہ کہ ہمارے ایک پھوپھیرے بھائی ماسٹر عبدالجبار صاحب ہیں جو تاریخ سے ایم اے ہیں اور ٹیچر ہیں۔
ہمارے ایک پھوپھیرے بھائی مولانا عبدالسلام صاحب فیضی ہیں جو عائشہ صدیقہ نسواں جھنڈا نگر کے نگراں وذمہ دار ہیں اور ہمارے ایک ماموں کے بیٹے مولانا باب اللہ صاحب قاسمی تھے جو کئی اداروں میں درس وتدریس سے جڑے رہے، مثلاً امداد الاسلام میرٹھ ، مطلع العلوم فندق، جامعۃ السید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ میں شیخ الحدیث تھے وہ تقریباً چالیس سال کی عمر میں انتقال فرماگئے، فاناللہ وانا الیہ راجعون۔ ایک ہمارے پھوپھیرے ماموں کے بیٹے مولانا خیر اللہ صاحب ہیں اور ہمارے بھائی جناب مولانا عبدالستار صاحب فیضی کے ایک بیٹے ارشاد احمد بھی عالم ہیں۔
سرفراز احمد:آپ کی نشونما کہاں ہوئی اور کس نے کی؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہماری نشونما سمرامیں والدین کی سرپرستی میں ہوئی اور ہمارے بڑےبھائی جناب محمد شفیق صاحب حفظہ اللہ والد کے انتقال کے بعد بھی مستقل سرپرستی کرتے رہے۔
سرفراز احمد:آپ کی تعلیم کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی؟ اپنے تعلیمی مراحل کے بارے میں بتائیں۔
مولاناسعید احمد بستوی:ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن مالوف درسگاہ اسلامیہ سمرا میں حاصل کی۔ بعد ازاں میں نے اتحاد قوم مینا عیدگاہ میں داخلہ لیا۔ اس وقت یہاں تعلیم کا بڑا چرچاتھا۔ ایک سال تعلیم مکمل ہوئی، اولیٰ میں داخلہ لیا تعلیم کا آغاز ہوا اور سہ ماہی امتحان ہوگیا۔ ایک دن ہم تین ساتھی جناب نوشاد اعظم صاحب (جومشہور لیڈر ہیں سیاست میں سرگرم عمل ہیں) اور مولانا عبدالودود صاحب جو گنجہڑا کے تھے اور میں محمد سعید احمد گھر سے پڑھنے کے لیے نکلے ربیع کا موسم تھا گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اس دن ہم لوگ گھوم پھر کر اٹوا سے گھر آگئے پڑھنے نہیں گئے۔ ہمارے استاذ مولانا انعام اللہ صاحب قاسمی حفظہ اللہ جو صدر المدرسین تھے ان کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگیا۔ دوسرے دن جب پڑھنے گئے تو دوپہر کی چھٹی میں استاد محترم نے نوشاد صاحب کو بلایا اور عبدالودود صاحب کو بھی ضرب وتادیب کیا۔ میں عیدگاہ میں دوپہر کا کھانا کھارہاتھامجھے بھی طلب کیا گیا۔ میں نے بلانے والے ساتھی سے کہا ذرانل سے پانی لادو۔ وہ پانی لانے گیا میں نے فوراً بستہ لیا اور عیدگاہ کی دیوار پھاند کر بھاگ لیا۔ کوئی پکڑ نہیں پایا گھر آگیا۔ سائیکل مدرسہ پر ہی چھوڑدیا۔ اللہ کی مرضی اسی وقت بڑھنی سے ہمارے پھوپھا حضرت جناب بابو الحاج کلن صاحب سمرا تشریف لائے تھے، ان کے تعلقات استاذ گرامی خطیب الہند حضرت مولانا صاحب رحمانی رحمہ اللہ سے بہت اچھے تھے، اگر ایک دن ملاقات نہیں ہوتی ناغہ ہوجاتاتو حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ مراسلہ لکھ کر بلواتے تھے، دونوں حضرات میں انتہائی محبت تھی،بے انتہا دوستانہ تھا۔ انھوں نے مجھ سے کہا مینا تعلیم چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ جھنڈا نگر چلو وہیں مدرسہ (جامعہ) سراج العلوم میں داخلہ دلادیتاہوں۔ وہیں مدرسہ میں پڑھنا اور گھر پر رہنا۔ بہرکیف ہمارے پھوپھا مرحوم نے بڑی محبت وشفقت سے میری پڑھائی پر توجہ فرمائی اور میں نے جھنڈانگر میں رابعہ تک تعلیم حاصل کی۔ اس وقت وہاں دورۂ حدیث میں تھا، مولانا صاحب سے مشورہ کیا اور دارالعلوم دیوبند چلاگیا۔ وہاں رابع میں داخلہ مل رہاتھا مگر میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ وہاں سے شیخ الحدیث مولانا لقمان الحق صاحب فاروقی کے ہمراہ میرٹھ آگیا اور مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ جو صدر بازار میں واقع ہے وہاں داخلہ لیا اور فضیلت تک مکمل تعلیم وہیں پر حاصل کی اور جامعہ اردو ادبیات حیدر آباد سے اردو عالم واردو فاضل کا امتحان دیا اور پھر جامعہ اردو علی گڈھ سے ادیب کامل کیا۔
سرفراز احمد: زمانۂ طالب علمی کا کوئی یادگار واقعہ ؟
مولاناسعید احمد بستوی:ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ استاذ محترم حضرت مولانا قطب اللہ صاحب ندوی رحمہ اللہ کو حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ نے کہیں مدرسے کے تعاون کے لیے بھیج دیا۔ حضرت ناظم صاحب کا یہ معمول تھا کہ جب کسی مدرس کو کہیں بھیجتے تھے تو ان کی تمام درسی کتابیں خود حضرت ناظم صاحب پڑھاتے تھے۔ ہم لوگ حضرت ناظم کے پاس ترجمہ قرآن پڑھ رہے تھے کہ ایک بہت ہی ضعیف وبزرگ شخصیت مسجد کے گیٹ کے سامنے نمودار ہوئی، مسجد میں داخل ہوتے ہی انھوں نے سلام کیا، دورکعت نماز ادا کی پھر وہیں دالان میں چکر لگانے لگے۔ مولوی صاحب میں آپ کے ساتھ مکہ میں حج پر موجود تھا اور آپ کا اور میرا ایک ہی ٹھکانہ تھا، آپ مدرسہ کے لیے کتابیں لیتے تھے اور یہ خادم اٹھا اٹھاکر لاتاتھا اور آپ کہتے تھے کہ حاجی صاحب بہت ثواب ملے گا آج آپ پہچانتے نہیں ہیں افسوس…. اتنا سننا تھا کہ حضرت ناظم صاحب اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان سے معانقہ کیا فوراً معذرت خواہی فرمائی اور ان کو اپنے پاس بیٹھالیا۔ لڈومنگوایا اور ضیافت فرمائی۔ تواضع کا یہ عالم کہ حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ اتنے بڑے عالم زمین دار ہاتھی نشین لیکن بار بار اس دیہاتی بوڑھے سے معافی مانگتے رہے حاجی صاحب معاف کرنا میں پہچان نہ سکا۔ بالآخروہ دودن یا ایک دن مدرسہ میں رہے۔حضرت ناظم صاحب کا میں جب سوچتاہوں تو ان لوگوں سے محبت تواضع بردباری یاد آتی ہے چاہے وہ عالم ہوچاہے جاہل شہری ہویا گاؤں کا دہقانی امیر ہویا غریب حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ سب سے محبت سے ملتے تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین
ایک واقعہ جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ ہم لوگ میرٹھ میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ بہار، بنگال، منی پور، آسام، اڑیسہ،یوپی کے بچے کثیر تعداد میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں مدرسے کے معمول میں یہ شامل تھا کہ بعد نماز عصروفجر ایک لسٹ بچوں کے نام کی لکھی گئی تھی اس کو نوٹس بورڈ پر دیکھنا پڑتاتھا، وہاں کبھی قرآن خوانی کے بچوں کا نام آویزاں ہوتاکبھی دعوت والوں کا۔ شیخ الحدیث مولانا لقمان الحق فاروقی حفظہ اللہ ۱۹۷۸ء میں دارالعلوم دیوبند میں بغرض تدریس مقرر کرلیے گئے اور ان کی مسند درس خالی ہوگئی۔ حضرت مہتمم جناب محمد الیاس صاحب سے بارہا کہا گیا چونکہ میں جمعیۃ الطلبہ کا صدر تھا اساتذہ بہت مانوس تھے کہ آپ شیخ الحدیث کا انتظام فرمائیں انھوں نے توجہ نہ دی، سب طلبہ سے میٹنگ لی گئی کہ ہم لوگ یہاں پڑھنے آئے ہیں قرآن خوانی کرنے نہیں اس لیے در وس کا اگر انتظام نہ ہوگا تو ہم لوگ قرآن خوانی کرنے نہیں جائیں گے۔ یہ طے ہوگیا پھر بھی توجہ نہ ہوئی پھر ہمارے ایک ساتھی ابوالکلام جو بہار کے تھے اور ایک عبدالعزیز یہ لوگ بڑی عمر کے تھے ان سے مشورہ کیا انھوں نے کہا کہ آج مہتمم صاحب حفظہ اللہ کے بنگلے پر چلیں گے اور وہیں احتجاج کریں گے سب طلبہ نے اتفاق کرلیا۔ ہمارے ایک ساتھی خورشید انور پرنوی تھے، انھوں نے فجر کے بعد دارالحدیث ومدرسہ پر لکھ دیا ہڑتال دوسرے اساتذہ پڑھانے نہیں آئے مہتمم صاحب کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے تو سابق مہتمم صاحب کی اہلیہ محترمہ حجانی بی صاحبہ تشریف لائیں بچوں نے سلام وغیرہ کیا انھوں نے تمام بچوں کی ضیافت کا حکم دیا اور پھر پردے ہی سے کہا کیا تکلیف ہے طلبہ نے کہا شیخ صاحب کے جانے کے بعد کوئی متبادل انتظام حضرت مہتمم صاحب نہیں فرمارہے ہیں تو بڑی بی حجانی اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے (آمین) بہت برہم ہوئیں اور کہنے لگیں آپ لوگ خاموش مدرسے جاؤ اور میں کل تک مدرس کا انتظام حاجی الیاس صاحب (موجودہ مہتمم) کے صاحب زادے سے کہہ کر کراتی ہوں ورنہ دارالاہتمام میں خود انتظام وانصرام دیکھوں گی سب طلبہ خوش خوش واپس آگئے۔ دوسرے روز دارالعلوم دیوبند سے مہتمم صاحب نے حضرت مولانا محفوظ الرحمان شاہیں جمالیؔ جو استاذ حدیث وصاحب تصانیف کثیرہ ہیں ان کا تقرر ہوگیا طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس طرح یہ لاینحل مسئلہ حل ہوگیا۔ بڑی بی حجانی صاحب رحمہااللہ کا ایثار وخلوص طلبہ سے ان کی شفقت آج بھی یاد آتی ہے طلبہ کے مقابلے میں انھوں نے اپنے بچوں کی پرواہ نہ کی اور کہا فوراً مدرس کا انتظام کرو ورنہ اہتمام چھوڑدو میں خود انتظام سنبھال لوں گی لیکن مدرسہ کی نیک نامی پر حرف نہیں آنے دوں گی ،اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے۔ آمین
سرفراز احمد:آپ کی فراغت کب اور کہاں سے ہوئی؟
مولاناسعید احمد بستوی:مدرسہ امداد الاسلام صدر بازار میرٹھ سے ۱۹۷۹ء میں فراغت ہوئی۔
سرفراز احمد:آپ اپنے چند اساتذہ کے اسماء گرامی بتائیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہمارے اہم اساتذہ جن سے بچپن میں تعلیم حاصل کی میاں شاہ محمد احمد صاحب تھے اور حضرت مولانا عبدالقادر انور بستوی حفظہ اللہ جو عرصۂ دراز سے مشرقی یوپی کے ناظم اعلیٰ ہیں اور ماسٹر خلیل احمد صاحب بھروٹیا کے تھے اور مولانا عبدالرقیب صاحب ضیغم، مولانا محمد شریف صاحب رحمہ اللہ صدر ہاپور۔ ان سے آبائی وطن میں تعلیم حاصل کی تھی۔
مینا عیدگاہ میں مولانا محمد یحییٰ صاحب، مولانا انعام اللہ صاحب قاسمی، مولانا اقبال احمد حفظہ اللہ۔
جھنڈا نگر میں حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال، مولانا رحمت اللہ صاحب، مولانا قطب اللہ صاحب ندوی حفظہ اللہ، مولانا عبدالمجید صاحب مدنی، مولانا مختار احمد صاحب مدنی، مولانا عبدالرشید صاحب مدنی اور بہت سارے اساتذہ تھے جن کا نام کہاں کہاں تک ذکر کروں اللہ تعالیٰ ہمارے مرحومین اساتذہ کرام کو جنت نصیب فرمائے اور موجودین کو رحمت کاملہ عطا فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ (آمین) نیز ہمارے اساتذہ میں مولانا عبدالمنان صاحب فیضی اور مولانا مستقیم صاحب سلفی بھی ہیں۔
سرفراز احمد:کس کی شخصیت سے آپ سب سے زیادہ متاثر ہوئے؟
مولاناسعید احمد بستوی:حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمہ اللہ رحمانی جھنڈا نگری، حضرت مولانا مختار احمد صاحب مدنی حفظہ اللہ، حضرت مولانا عبدالمنان صاحب شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال، حضرت مولانا لقمان الحق صاحب فاروقی شیخ الحدیث امداد الاسلام میرٹھ، حضرت مولانا محفوظ الرحمن شاہین جمال موجودہ شیخ الحدیث میرٹھ۔
سرفراز احمد:زمانۂ طالب علمی میں کس فن سے زیادہ شغف رہا؟
مولاناسعید احمد بستوی:حدیث وفقہ۔
سرفراز احمد:آپ نے صحیحین کس سے پڑھی؟
مولاناسعید احمد بستوی:حضرت مولانا لقمان الحق صاحب فاروقی قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ اور مولانا شکیل احمد صاحب قاسمی رحمہ اللہ سے۔
سرفراز احمد:فراغت کے بعد آپ کا کیا مشغلہ رہا؟
مولاناسعید احمد بستوی:فراغت کے بعد درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کو اپنا شغل بنایا۔
سرفراز احمد: آپ نے تدریس کے فرائض کن مدارس میں انجام دیے؟
مولاناسعید احمد بستوی:۱۹۷۹ءمیں فراغت کے بعد حضرت مولانا شوکت علی صاحب محمدی ٹانڈوی حفظہ اللہ کے ایما پر مدرسہ دارالکتاب والسنہ میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگیا۔ ۱۹۸۱ء تک وہیں پر رہا۔
بحیثیت صدر مدرس مدرسہ دارالحدیث مطلع العلوم فندق میں ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۴ء تک۔ جامعۃ العلوم السلفیہ کریم نگر میرٹھ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۷ء ۔معہد العلوم السلفی بڈھی خاص میں جون ۱۹۸۷ء میں خدمت پر مامور ہوا اور ڈھائی ماہ کے بعد جنوبی ہند چلاگیا۔
سرفراز احمد: آپ کے زیر تدریس کون کون سی کتابیں رہیں؟ طریقۂ تدریس کیا اختیار کیا؟
مولاناسعید احمد بستوی:دہلی میں بلوغ المرام، ھدایۃ النحو، ازھار العرب، نحومیر، دروس البلاعۃ، ترجمہ قرآن مجید ثالثہ اور تفسیر جامع البیان وغیرہ پہلے سال، دوسرے سال مسلم شریف ، ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ فندق میرٹھ میں ترجمہ قرآن ثانیہ، بلوغ المرام، ھدایۃ النحو، ازھارالعرب، کتاب التوحید، میزان منشعب اور دیگر کتابیں۔ کریم نگر میرٹھ میں ثالثہ تک تعلیم تھی یہی سب درسی کتابیں تھیں۔ معہد العلوم السلفی بڈھی خاص میں ہماری کتاب حصہ ششم سائنس حصہ پنجم، منہاج العربیہ، نحومیر، چمن اسلام وغیرہ ۔ تانڈور میں فاضل دینیات، عالم دینیات کی کتابیں پڑھاتاتھا نیز ادارہ ادبیات حیدر آباد کی کتابوں کی تیاری کراتاتھا۔ اردو عالم اردو فاضل کے نوٹس وغیرہ۔
جامعہ رحمانیہ وتحفیظ القرآن میں درس قرآن ثالثہ، کتاب التوحید، قدوری، گلستان، فارسی کی پہلی، شرح عقائد نسفی وغیرہ۔
طریقۂ تدریس، سہل وآسان زبان میں افہام وتفہیم بہت زیادہ درس وتدریس میں ضرب وتادیب سے کام نہیں لیتاتھا۔
سرفراز احمد: آپ کے مشہور تلامذہ؟
مولاناسعید احمد بستوی:مولانا عابد نیپال، مولانا احمد صاحب سامرودی، مولانا وحافظ عبدالقیوم صاحب جھارکھنڈ، مولانا لقمان الحق جھارکھنڈ، مولانا محمد یاسین پرواز، مولانا محمد یعقوب خان، مولانا اعجاز احمد صاحب ندوی، مولانا عبدالرحیم صاحب قاسمی اور بہت سارے تلامذہ۔
سرفراز احمد: کیا فن صحافت میں آپ کی دلچسپی رہی؟
مولاناسعید احمد بستوی:جی ہاں۔
سرفراز احمد: آپ نے کن مجلات وجرائد کے لیے مضامین لکھے؟ اور آپ کے مضامین کی تعداد کتنی ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:مجلہ ماہانہ البلاغ میں ایک مستقل کالم توحید کے آنسو مسلسل تقریبا ڈھائی سال تک شائع ہوتارہا۔ اس کے علاوہ تعلیم پر سیاست پراور دیگر عنوانات پر بھی مضامین لکھے اور صوت الحق کی کچھ ہی دنوں تک مجلس ادارت میں تھا، صوت الحق میں مضامین بھی لکھے ہیں۔
سرفراز احمد:کیا آپ خطابت کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ خطابت کی ابتداکیسے ہوئی؟
مولاناسعید احمد بستوی:خطابت شوق نہیں باقاعدہ ایک فن ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں انجمن میں بلاناغہ شرکت کرنا یہی خطابت کی ابتدا ہے۔
سرفراز احمد:اچھے خطیب کے لیے کون سی چیزیں اہم ہوتی ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:ایک اچھے خطیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ سامعین کے احوال وکوائف کے پیش نظر گفتگو کرے اور حالات کو سامنے رکھے۔ ضرورت جس چیز کی ہو اس پر گفتگو کرے۔ عام سہل وآسان طریقہ اختیار کرے جس سے سامعین سمجھیں۔یہی اچھے خطیب کی پہچان ہے۔ مکررات کو نہ لائے، الفاظ کو نہ چبائے، اشارے کنایے میں گفتگو نہ کرے بہت زیادہ ہاتھ پیر سرنہ ہلائے سکون واطمینان وقار کے ساتھ سنجیدگی ومتانت سے اپنی بات پیش کرے۔ مسخرے پن سے قطعی پرہیز کرے۔
سرفراز احمد: آپ نے کن کن مقامات پر تبلیغی کام انجام دیا ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:جہاں جہاں درس وتدریس کے فرائض انجام دیا وہاں دعوت وتبلیغ کو بھی اولیت دی، مثلاً دہلی میں اندر لوگ سرائے خلیل میرٹ میں بھوج پورن الہٰ آباد پپلی کھیڑ پلکھوہ سسولہ کلاں منپالہ بٹ سینی شہر میں پروگرام ہوتے تھے، درس وغیرہ دیتاتھا، ٹانڈومیں ماہانہ اجتماع ہفتہ واری اجتماع خواتین کا اجتماع گلبرگہ چیتاپور سپڑم شاہ آباد ضلع کریم گھراے، پی، ایل، پلگندل ترملا پور جگ بتیال کورٹلہ، نظام آباد، آرمور، مارے پلی، موڑتاڑجمی کنڑد دھرمارم، حسینی پورہ، کاکی ناڑہ۔ اور بہت سی جگہیں ہیں جو ذہن میں نہیں ہیں۔
سرفراز احمد:آپ کو کبھی کسی باطل پرست سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:ایک بار مولانا شبیر میرٹھی کے گاؤں سردھنہ میں مابین اہل حدیث واحناف بحث ومذاکرہ ہواتھا، اکثریت کے بل بوتے پر ان لوگوں نے اپنی بات منوانی چاہی مگر منوانہ سکے اور بالآخرصلح ومصالحت ہی کرنی پڑی، ایک واقعہ ناگن پلی قادیانیوں کے خلاف شولاپور کے یوسف صاحب کی دعوت پر گئے تھے جس میں مولانا محمد مقیم صاحب فیضی، احتشام الحق، عبدالباری سابق قادیانی، مولانا سرفراز ربانی اور کئی ساتھی تھے وہاں قادیانیوں کو شکست ہوئی تھی اللہ کے فضل سے وہاں سے ان کا بوریہ بستر بندھ گیا، یہ بھی اللہ کی توفیق اور اس کا فضل ہے ھذامن فضل ربی۔
سرفراز احمد:آپ کن کن اداروں سے منسلک رہے ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:مدارس کا ذکر تو کردیا گیا ہے میں صرف اور صرف جماعت اہل حدیث ہی سے بچپن سے اب تک وابستہ ہوں اور ان شاء اللہ اسی پر تاحیات قائم رہنے کی کوشش کروں گا اللہ توفیق بخشے۔آمین
سرفراز احمد:کیا آپ کو سیاحت کا شوق ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہندوستان میں دہلی، میرٹھ، اطراف واکناف، مدراس، ترچی، بنگلور، بنگال، ممبئی، کوکن، حیدر آباد کے اطراف واکناف صرف اپنے ہی ملک میں دعوت تبلیغ کے تعلق سے جانا ہوا اور دوسرے ممالک کا سفر ہنوز تشنۂ ہے پسندیدہ ملک سعودیہ عربیہ۔
سرفراز احمد: کن کی اور کس قسم کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:وہ تحریر جس میں کشش ہو اوکھی سوکھی نہ ہو ادب وصحافت کے معیار کی ہو اسی کو دلچسپی سے پڑھتاہوں۔
سرفرازاحمد: آپ کی محسن کتاب/کتابیں کون سی ہیں؟ کچھ اس کتاب کے متعلق بتائیے؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہماری محسن کتابیں، قرآن مجید، احادیث رسول ﷺ جماعتی لٹریچر ،اخبارات ورسائل، پرانی اخبار اہل حدیث کی فائلیں، قدیم ترجمان کی فائلیں، علماء سلف کی تحریریں۔
سرفراز احمد: کیا آپ کو سیاست سے دلچسپی ہے؟ کیا کبھی آپ نے ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا؟
مولاناسعید احمد بستوی:سیاست سے دلچسپی ہے مگر کبھی حصہ نہیں لیا۔
سرفراز احمد:کیا آپ نے کبھی رفاہی کاموں میں حصہ لیا ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:جی ہاں رفاہی کام میں تو اہل حدیث خلق ہے مثلاً فوج کچھ، گجرات کا زلزلہ، سونامی زلزلہ، بہار اور اڑیسہ کی تباہی یا اسی طرح ممبئی کا زلزلہ، یا بھیونڈی میں مشکلات مرکزی جمعیت کے تحت تمام صوبائی جمعیتیں ملک ووطن کی مصیبت میں لوگوں کے لیے رفاہی کام کرتی ہیں اور یہ عین سعادت اور جماعت کا خادم ہونے کی وجہ سے اللہ نے یہ توفیق بخشی ہے اس کا کرم وعنایت ہے ۔
سرفراز احمد:آپ کے پسندیدہ رسالے کون سے ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:مجلہ البلاغ، طوبیٰ، بچوں کے لیے ذکری، الہلال، ترجمان، الفرقان، البیان، موجودہ صوت الاسلام، نوائے اسلام، محدث، السراج۔
سرفراز احمد:آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟اور پسندیدہ شعر کون سا ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:اقبال، جوش، غالب، مومن، فانی، حسرت، شیفتہ، داغ، میر تقی میر، فیض احمد فیض، ساحر، شکیل بدایونی، اختر شیرانی، نذیر اکبر آبادی۔
(۱)خدا فرما چکا قرآں کے اندر
مرے محتاج ہیں پیر وپیمبر
(۲)از احادیث رسول آوردہ دم اسرار دیں
نیست غیر از گوہرش شہوار دردکان ما
(۳)خونے نہ کر وہ ایم کسے رانہ کشتہ ایم
جرمم کہ عاشق روئے گشتہ ایم
(۴)ایامنزل سلمی سلام علیکما
ھلل ازمن الآتی مضین رواجع
(۵)اشارت بطرف العین حینۃ اھلھا
اشارتا محزون ولم تتکلم
سرفرازاحمد: کیا آپ خود بھی شاعری کرتے ہیں؟اگر ہاں تو تخلص کیا رکھتے ہیں؟ نمونہ کلام عنایت فرمائیں۔
مولاناسعید احمد بستوی:فراغت کے بعد کچھ دنوں تک یہ رجحان رہا، جب درس وتدریس، دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری سنبھالی تو اس سے کنارہ کش ہوگیا۔
نمونہ کلام:
ہمہمہ ہیجان ہلچل زندگی
زلزلہ طوفان چنچل زندگی
بادگل آتش وپانی زندگی
شیخ فانی کی کہانی زندگی
کھیلتی ہنستی جوانی زندگی
اس بھری نینا میں پانی زندگی
میکدہ ساقی صبوحی زندگی
بادہ کش ساغر غبوتی زندگی
تو بتا محسن ذرا کیا شئے ہے آخر زندگی
اک فسانہ ہے پرانا میری تیری زندگی
سرفراز احمد:کوئی خواہش جو پوری نہ ہوسکی؟
مولاناسعید احمد بستوی:جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس میں تعلیم نہ حاصل کرسکا۔
سرفراز احمد:حلقۂ احباب؟
مولاناسعید احمد بستوی:بچپن سے جوانی اور پڑھائی کے زمانے سے اب تک بہت سارے احباب ملے کس کا ذکر کروں کس کا چھوڑوں، ایک لمبی فہرست ہے اس کو نہ چھیڑنا مناسب ہے۔
سرفراز احمد:پسندیدہ مشغلہ؟
مولاناسعید احمد بستوی:تنظیم دعوت وتبلیغ۔
سرفراز احمد:فی الحال کیا مصروفیات ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا ادنی خادم ہوں۔
سرفراز احمد:کچھ اہل خانہ کے متعلق؟
مولاناسعید احمد بستوی:معاشرتی وخانگی زندگی اللہ کے فضل سے اچھی ہے۔ دوبیٹیاں اور ایک بیٹا اللہ نے عطا کیا ہے، سب تعلیم وتعلم میں لگے ہیں۔
سرفراز احمد: اعزازات جن سے آپ نوازے گئے؟
مولاناسعید احمد بستوی:حیدر آباد میں ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۸ء تک صوبائی جمعیت کا امیر مقرر ہوا اور اسی وقت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس عاملہ وشوریٰ کا رکن تھا، یہ اعزاز میری کم عمری کی بنیاد پر بڑاتھا اور اس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں۔
اس کے بعد الدارالسلفیہ میں مولانا مختار احمد ندوی کی سرپرستی میں لکھنے پڑھنے اور درس وافتاء کا کام انجام دیا۔
ستمبر ۲۰۰۱ء میں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی باوقار مجلس شوریٰ نے مرکزی مشاہد کی نگرانی میں اس خادم کو صوبائی جمعیت اہل حدیث کا جنرل سکریٹری مقرر کیا اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس شوری کا رکن بھی ہوں الحمدللہ۔
سرفراز احمد:مسلمانوں کے موجودہ دینی، سیاسی، معاشی اور علمی بحران کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:خود اس کے ذمہ دار ملت اسلامیہ کے لوگ مؤقر ہیں خود کردہ۔ جب تک دو کے خانے ختم نہ ہوں گے ایک متحدہ قوت نہیں ہوگی تو اسی طرح دربدری کے شکار رہیں دنیا میں کوئی وقعت نہیں رہ جائے گی۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا:
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِيْحُكُمْ(الانفال:۴۶) آج اگر مسلم امت ایک ہوجائے تو اس کے درد کا مداوا اور دکھوں کا علاج ہو اور معاشی سیاسی اقتصادی علمی ہر اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوں گے ان شاء اللہ۔
سرفراز احمد: اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح ممکن ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:اکثر لوگ جودین سے ناواقف صرف کلمہ کی حدتک مسلمان ہیں وہ مغربیت سے انتہائی مرعوب ہیں اور بہت سے پڑھے لکھے اسکالر لکچرر بھی اس سے مرعوب ہیں۔مغربی طرز کا لباس پہننا ان کے دھارے میں بہنا تہذیب وثقافت خیال کرتے ہیں، یہ سب مرعوب زدہ ذہنیت کی علامت ہے اور بہت سے لوگ جو پیٹ پرست ملاؤں کے چکر میں رہتے ہیں وہ مختلف قسم کے شرک وبدعات میں مبتلا ہوجاتے ہیں جیسا کہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم میں لکھا ہے کہ اس میں اکثر جاہل بدقماش بے راہ رو افلاس کے مارے لوگ اس کے شکار ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ ان نئے اسکالروں پروفیسروں کو دین کی اسپرٹ بتائیں اور عوام کو ان جاہل ملاؤں سے بچانے کی ہرممکنہ تدبیر اختیار کی جائے۔ دعوت کے ذریعہ یاپھر چھوٹے چھوٹے پمفلٹس ہنڈبل شائع کرکے علماء حق اپنے فرض منصبی سے نہیں چکتے مگر شیطان نے عوام کو بالخصوص خواص کو اپنے دام تزویر میں لے رکھا ہے اور وہ اسی فریب میں مبتلا ہیں ۔اللہ تعالیٰ سب کو صالح فہم عطا فرمائے۔
سرفراز احمد:اختلاف کے اس دور میں فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کہاں تک درست ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:عبادت کے احکام مثلاً آمین، رفیع الیدین ،قرأت فاتحہ یا اس طرح کی چیزیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہیں اس کا اتمام حجت کرنا قطعی ضروری ہے اور اسے اختلاف کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے بلکہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے ،فتوے کی روش نہ اپنائی جائے۔ جس پر اعمال و عبادات موقوف ہوں ان کو فروع کہہ کر ٹال دینا حقائق سے آگاہی نہ کرانا یہ تو کتمان علم ہے جو گناہ ہے۔
سرفراز احمد:کیا عالمی اور ملکی سطح پر مسلم اتحاد ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو کن بنیادوں پر؟
مولاناسعید احمد بستوی:عالمی اور ملکی سطح پر کل عالم کے مسلمانوں کا کلمے کی بنیاد پر اتحاد ممکن ہے ناممکن کچھ بھی نہیں۔
سرفراز احمد:علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، اس کی تشکیل کہاں تک ممکن ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی تشکیل دینا قطعی درست نہیں ہے۔ چونکہ اس سے پہلے آپ نے سنا ہوگا کہ آپ کے ملک ہندوستان میں مسلم لیگ تھی اور انڈین نیشنل کانگریس تو اکثر پڑھے لکھے مسلمان مسلم لیگ میں نہیں تھے بلکہ کانگریس کا ہی ساتھ دیتے تھے۔ ایک خاص نظریہ جو بن جاتاہے تو لوگ تعصب سے اسے دیکھتے ہیں اور بدکتے بھی ہیں طعن وتعریض بھی کرتے ہیں۔ مسلم مجلس مشاورت ہے کبھی کامیاب نہیں ہوسکی، لیگ تھی اس کے دوٹکڑے ہوگئے، سلیمان صاحب مرحوم اور جناب غلام احمد ،غازی امان اللہ خان نے مجلس بچاؤ تحریک کا نعرہ دے دیا اور وہ صرف اے پی میں سمٹ کر رہ گئی اس لیے جمہوری تناظر میں مشترکہ پلیٹ فارم ہی کامیاب ہوسکتاہے علیحدہ فورم ٹوٹ پھوٹ کا شکاررہے گا۔
سرفراز احمد:کیا غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کماحقہ ہوپارہی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
مولاناسعید احمد بستوی:آج کل جو رجحان اسلام میں داخل ہونے کا ہورہا ہے وہ دعوت ہی کے اثرات، ثمرات و برکات ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے چاہے وہ امریکہ ہویا افریقہ، جرمن ہویا پیرس، یورپ ہویا دنیا کا کوئی ملک آج اسلام عروج پر ہے۔ کرناٹک، تمل ناڈو، مہاراشٹر کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں تبلیغ ہورہی ہے لوگ اسے سمجھ رہے ہیں اور قبول کررہے ہیں۔
سرفراز احمد:ملکی سطح پر جمعیت اہل حدیث جس طرح کام کررہی ہے کیا آپ اس سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ یا کسی اصلاح کی گنجائش محسوس کرتے ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند موجودہ قیادت نے ترجمان، اصلاح سماج، الاستقامۃ جاری کرکے صحافت کی دنیا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
نیز پورے ملک میں پرائمری کے وحدت نصاف کا عنقریب اجرا ہوگا اور نصابی کتابیں جو غیر مزاج طبع کررہے تھے اس پر روک لگی ہے۔ آل انڈیا تنظیمی کنونشن اور دہشت گردی ایک ناسور سمپوزیم جو منعقد ہوا اس سے پورے ملک میں اچھا تاثر گیا ہے۔
اگر کچھ تشنگی محسوس ہوتی ہے تو دعوت کے تعلق سے باربار متنبہ کرنے اور آگاہی دینے پر بھی صحیح ڈھنگ سے داعی ومبلغ کا انتظام نہیں ہورہا ہے یہ بڑا خلا ہے اور بہت کمی محسوس کی جارہی ہے۔
سرفراز احمد:ممبئی میں سلفی تحریک کس حد تک اطمینان بخش ہے؟
مولاناسعید احمد بستوی:ممبئی میں سلفی تحریک اللہ کے فضل سے میدانی علاقوں میں کام کررہی ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج ہیں مثلاً کوکن کے علاقے میں سلفیت کا اچھا اثر رہا ہے لوگ مائل ہورہے ہیں اور قبول کررہے ہیں۔ گاؤں گاؤں اجلاس وخطابات ہوتے ہیں نیز عروس البلاد میں بھی پروگرام واجلاس عام ہورہا ہے۔ ہر ماہ بلاناغہ پروگرام ہورہا ہے۔ جمعیت اہل حدیث بھیونڈی بھی اپنے علاقے میں سرگرم عمل ہے ۔کچھ درانداز ہیں جن سے تکلیف ہورہی ہے مسائل پیدا کرکے الجھارہے ہیں لیکن ارباب حل و عقد اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔یہ تو ایک ہوا ہے جو کچھ دنوں تک چلتی ہے پھر اپنی جگہ خاموش ہوتی ہے۔ ہر وقتی تحریک کا یہی حشر ہو اہے کہ جو تیوں میں دال بٹنے کی نوبت آجاتی ہے۔ حال ہی میں اس کا مشاہدہ بھی ہوگیا ہے اس سے ہوش کے ناخن لینا چاہیے ورنہ بریں عقل ودانش بباید گریست۔
سرفراز احمد:کیا ہندوستانی اسلامی مدارس کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ درس نظامیہ کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا امتزاج برقرار رکھنا چاہیے نیز ٹیکنیکل طب ودیگر میدانوں میں پیش رفت کی ضرورت ہے۔
سرفراز احمد:کیا مدارس کے نوخیز فارغین اور طلباء مستقبل میں ملی ذمہ داریوں کے متحمل ہوسکیں گے؟
مولاناسعید احمد بستوی: جب نئی جنریشن آتی ہے تو اس کا علم تازہ ہوتا ہے اور ان کی طبیعتوں میں جذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتاہے لیکن بسااوقات لاابالی پن کا شکار ہونے سے میدان عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور عوامی مسائل کے سمجھنے سے قاصر اس لیے کہیں کہیں صبروتحمل سے کام نہیں لیتے ہیں۔ اگر صحیح ڈھنگ سے ان کی تربیت کی جائے اور تواضع پسندی کا خوگر بنایا جائے تو یقیناً یہ مستقبل کے اچھے معمار ہوں گے اور اصلی ذمہ داریوں کو بھی بحسن وخوبی انجام دیں گے ان شاء اللہ بقول اقبال:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
سرفراز احمد:سلفی علماء وطلبہ کے لیے آپ کے پیغامات کیا ہیں؟
مولاناسعید احمد بستوی:موجودہ حالات کے پیش نظر عالمی تناظر پر نگاہ رکھنی چاہیے جیسا کہ ابھی سلمان رشدی، تسلیمہ تسرین اور ایک دہریے نے نئے نئے اسلام کا اعلان کیا۔ ادھر قادیانیت نے پورے عالم اسلام وہندوستان کو اپنی دعوت کے نام منتخب کیا ہے اور دیگر گمراہ فرقے اور تنظیمیں آئے دن فتنے اٹھارہی ہیں، ان کا مقابلہ کرنا ڈٹ کر جواب دینا اور ان کے فحش لٹریچر یا گمراہ کن لوگوں کی تحریروں سے عوام کو آگاہ کرنا آج کے اس دور میں بڑا چیلنج ہوا ہے۔ یہ پیغام ہرعالم اور ہر طالب حق کے لیے ہے اللہ سے اس کی توفیق بھی مانگے اور ان کا مقابلہ بھی کرے۔ اخلاص وللہیت سے ان کی گمراہیوں سے لوگوں کو متنبہ کرے۔اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اتباعہ۔ آمین یا رب العالمین۔
سبحان اللہ…. مولانا سرفراز احمد فیضی، الله يبارك
مولانا سعید احمد بستوی صاحب حفظہ اللہ سے یہ انٹرویو بڑا دلچسپ اور مفید ہے… شیخ مکرم سے میرے والد محترم مولانا محمد حسن بیگ میرٹھی حفظہ اللہ (محبوب نگر،تلنگانہ) کے بچپن کے قدیم مخلصانہ مراسم ہیں….اسی نسبت سے ہم انہیں چچا جان کہتے ہیں.
اللہ تعالٰی شیخ کو شفاء کاملہ عطا فرمائے، جماعت و جمعیت کی گراں قدر خدمات تادیر ان سے لیتا رہے.
جزاكم الله خيرا.
اللہ تعالیٰ شیخ بستوی حفظہ اللہ کی طبیعت کو بہتر بنائے رکھے اور اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ اور ہم لوگوں کو ہر ممکن جماعتی کاز کو آگے بڑھانے کی توفیق دے آمین
نوےکی دہائی میں مدرسہ محمدیہ مہسلہ کوکن میں تدریس کےوقت شیخ سعیداحمد صاحب ایک مرتبہ تعلیم جائزہ کےمقصدسےتزشریف لائے اوربڑےانہماک واخلاص سے تمام اساتذہ کادل جیت کرواپس گیےتھے۔