مفتی حبیب الرحمن فیضی: شخصیت اور کارنامے

ضیاء افضل تاریخ و سیرت

درس دیتے ہیں بخاری کا حبیبِ نکتہ داں

ابرِ نیساں کی طرح برسا رہے ہیں موتیاں

فتح وتحفہ عون ومرعاۃ آپ کی ہیں حرزِ جاں

پھر نہ کیوں یہ حرفِ زر سے لکھی جائے داستاں

اس عالم آب و گل میں روزانہ ہزارہا انسان جنم لیتے ہیں، لیکن ایسی ہستیاں بہت کم جلوہ گر ہوتی ہیں جن پر زمانہ ناز کرے ،بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں اللہ رب العالمین کئی صلاحیتوں سے نوازتا ہے اور عزیمت واستقامت ارزانی فرماتا ہے۔ انھی میں سے ایک ’مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی رحمہ اللہ‘ہیں جنھیں دنیا مفتی صاحب کے نام سے جانتی ہے۔آپ بیک وقت ایک ممتاز عالم دین، مفتی، شیخ الحدیث اور اعلی درجے کے منتظم تھے۔ مفتی صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔آپ کی دینی اور علمی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

خاندانی پس منظر:

آپ نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ مئو کا معروف و مشہور، نامور علمی خاندان شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کے پردادا علامہ ملاحسام الدین صاحب مئو میں تحریک اہل حدیث کے بانیان میں سے تھے جنھوں نے مئو اور اطراف مئو میں اپنی علمی اور عملی تحریک سے تردید شرک و بدعت کے ساتھ اتباع سنت کا وہ پائیدار درخت لگایا جو کہ آج تک پر بہار ہے۔ اور پھر آپ کے دادا مولانا محمد احمد جو بڑے مولوی صاحب کے نام سے مشہور ہوئے اپنے دور کے علماء اعلام میں شمار کیے جاتے ہیں،معقول و منقول جملہ علوم و فنون میں تبحر رکھتے تھے۔فضل،تقوی،پرہیزگاری اور شب بیداری میں اپنے والد ملا صاحب کے مثیل تھے۔گویا:ع

ایں خانہ ہمہ آفتاب است

نام و نسب:

حبیب الرحمن بن مولوی احسان اللہ بن مولانا محمد احمد (بڑے مولوی صاحب)بن حضرت العلام ملا حسام الدین بن جمال الدین بن چندن ہے۔

تاریخ ولادت:

آپ کی پیدائش ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۹۱۶ء میں اس وقت ہوئی جب کہ آپ کے والد گھریلو پریشانیوں کے باعث اپنا آبائی مکان چھوڑکر محلہ پٹھان ٹولہ میں مولوی شبلی رحمہ اللہ کے مکان میں آبادتھے، پھر آپ کے والد مولوی احسان اللہؒ نے محلہ کادی پورہ میں ایک زمین خرید کر مکان بنالیا تو آپ اپنے والد کے ہمراہ وہیں منتقل ہوگئے۔(فتاوائے فیض؍۲۶)

تعلیم اور اساتذہ:

آپ کی پوری تعلیم ابتدا تا فراغت جامعہ اسلامیہ فیض عام میں ہوئی۔آپ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید اور اردو کی کتابیں قاری خلیل الرحمن سے پڑھی اور فارسی مولوی نور محمد اور منشی عبد الکریم اور اپنے جد امجد مولانا احمد سے پڑھی۔ اور جماعت اولیٰ و ثانیہ کی کتابیں نیز کبریٰ،اردو منطق اور تہذیب،شرح تہذیب، قطبی، نور الانوار، ہدایہ اخیرین مولانا عبدالرحمن نحوی مئوی مدرس مدرسہ فیض عام سے پڑھی۔ مولانا محمد شفیع صاحب (پٹھان ٹولہ) سے مشکوۃ المصابیح، تفسیر جلالین اور مولوی محمد صاحب قاسم پورہ باڑہ سے بلوغ المرام وقدوری اور مولانا عبد اللہ شائق سے القرأۃ الرشیدۃ، دیوان متنبی،تلخیص المفتاح،نزہۃ النظر، رسالہ جرجانی، مقامات حریری، توضیح و تلویح پڑھی، اور اپنے جد امجد مولانا احمد صاحب سے خارجی وقت میں رسالہ زنجانی اور الفیہ ابن مالک وغیرہ پڑھی اور مدرسے میں درج ذیل کتابیں پڑھیں۔ شرح جامی ،سلم العلوم،دیوان حماسہ، سبعہ معلقہ، سراجی، اقلیدس، جامع ترمذی ،سنن ا بی داؤد، صحیح مسلم وبخاری پڑھ کر ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء میں فراغت حاصل کی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے دستار فضیلت باندھی۔

اخلاق و کردار:

بلا شبہ مفتی صاحب کی شخصیت بے پناہ خصوصیات و امتیازات کا مرقع تھی ،مفتی صاحب علیہ الرحمہ نہایت خلیق ومہربان تھے ،طلبہ کے ساتھ مشفقانہ برتاؤکرتے تھے ،علماء کی قدر کرتے تھے، مفتی صاحب کے اندر تواضع اور انکساری جھلکتی تھی۔ بقول مولانا ابو سعید فیضی (استاذجامعہ ) ’’آپ کھانے کے وقت اکثر طلبہ کے کمرے میں چلے جاتے اور جاکر پوچھتے تھے کہ کھانا اچھا بنا ہے یا نہیں ،دال کیسی ہے؟ چاول کچا تو نہیں رہ گیا؟‘‘ آپ کے اس عمل سے زبردست نیک نیتی، خلوص، عاجزی اور انکساری کا پتہ چلتا ہے۔

مفتی صاحب رحمہ اللہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے ،انھوں نے اپنی زندگی جامعہ کے لیے وقف کردی تھی ،جامعہ ہی میں رہتے تھے گویا کہ آپ کا اٹھنا ،بیٹھنا ،سونا اور جاگنا سب جامعہ ہی میں ہوتا تھا۔ روزانہ یا پھر ایک دن چھوڑ کرصرف شام کے وقت آپ گھر جاتے اور پھر مغرب بعد آپ مدرسہ چلے آتے، ہمہ وقت جامعہ کی تعمیر و ترقی کے بارے میں فکر مند رہتے تھے ،فیض عام گرلس ہائی اسکول اور فیض عام نسواں (برائے عربی ودینی تعلیم )آپ ہی کی محنت اور جد و جہد کا ثمرہ ہے ۔

درس و تدریس:

آپ ایک ایسے علمی خاندان کے فرزند اور چشم و چراغ تھے جس کے بیشتر افراد تعلیم و تدریس سے وابستہ تھے،اس لیے آپ بھی اپنے اجداد اور بزرگان کی پیروی میں خدمت دین کے لیے تدریس سے جڑگئے۔ فراغت کے فوراً بعد ۱۹۳۹ء سے اعزازی طور پر بلا تنخواہ اپنے مادر علمی مدرسہ فیض عام میں پڑھانے لگے۔ پہلے پہل شرح جامی اور شرح تہذیب کی تدریس حصہ میں آئی ،پھر دیوان متنبی، تلخیص المفتاح ،بلوغ المرام اور قطبی کا بھی درس دینے لگے ۔

ایک زمانے تک ترمذی ،ابو داؤد اور مؤطا امام مالک کا درس دیتے رہے ۔غرض ۱۹۵۷ء تک یعنی بیس سال مادر علمی میں بلا مشاہرہ پڑھایا ،اسی دوران آپ نے اپنا پہلا حج کیا اور ۱۹۵۸ء سے آپ کو مشاہرہ دیاجانے لگا۔ ویسے آپ نے ہرفن کی کتابوں کا درس دیا لیکن فن حدیث سے آپ کو خصوصی دلچسپی اور شغف تھا ،جامع ترمذی اور دیگر کتب احادیث کا درس بڑی تحقیق اور بسط وتفصیل سے دیتے تھے ۔جیسا کہ شیخ عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ نے مفتی صاحب کے ایک مضمون واقعہ ٔ افک کے حاشیے میں لکھا ہے کہ ’’ہم نے مفتی صاحب سے جامع ترمذی پڑھی ہے اور آپ کی محدثانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا یا ہے۔‘‘

۱۹۶۶ء میں آپ کو مدرسہ فیض عام کا صدر مدرس بنایاگیا اور اسی سال سے آپ صحیح بخاری و مسلم کا بھی درس دینے لگے ۔۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۲ء تک مسلسل صحیحین کا درس دیتے رہے ،خصوصا بخاری کا آخری درس بہت تفصیلی اور پر مغز ہوتا تھا ۔ختم صحیحین کی علمی تقریب کے موقع پر صحیح بخاری و صحیح مسلم اور حدیث و سنت کی اہمیت و حجیت اور امام بخاری وامام مسلم کے حالات پر گھنٹہ دو گھنٹہ ایسا خطاب کرتے کہ سننے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے ۔بقول قاری ارشاد احمد فیضی (استاذ جامعہ)’’ختم صحیحین کے موقع پر دوسرے مدارس کے اساتذہ مفتی صاحب کی تقریر سننے کے لیے آتے تھے۔‘‘

ختم صحیحین ہی کی تقریب میں ایک مرتبہ مولانا عبد اللہ شائق رحمہ اللہ بھی شریک تھے جب مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے تقریر کرلیا تو شائق صاحب نے بڑی مسرت کا اظہار کیا ،بے پناہ خوش ہوئے اوربے ساختہ یہ شعر پڑھا؎

اے گردش زمانہ تو جا اپنی راہ لے

اک شیر ہے حبیب خدا فیض عام میں

فتویٰ نویسی:

مفتی صاحب درس و تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی کی بھی ذمہ داری پوری امانتداری و دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے تھے ،پورے ہندوستان سے آپ کے پاس سوالات آتے اور آپ ان کا مکمل تحقیق کے ساتھ جواب دیتے اور لوگوں کی رہنمائی فرماتے ،آپ جماعت اہل حدیث کے ایک مستند ’مفتی‘تھے ،مفتی کی حیثیت سے ایک خاص پہچان رکھتے تھے ۔

آج بھی آپ مفتی صاحب کے نام سے ممتاز اقران ہیں ،مطلق طور پر جب کوئی مفتی صاحب کہتا ہے تو ذہن فورا ً آپ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

مولانا انصار زبیر محمدی نے ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی کے مجموعہ ٔ فتاوی(نعمۃ المنان)کی تقریظ میں لکھا ہے کہ مفتی صاحب کے فتاویٰ کی ترتیب کا کام مولانا محفوظ الرحمن فیضی (سابق شیخ الجامعۃ الاسلامیہ فیض عام ) انجام دے رہے ہیں اور یہ بہت جلد شائع ہوگا۔اس بابت جب میں نے مولانا محفوظ الرحمن فیضی سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ’’میرے ریٹائرمنٹ کے بعد مفتی صاحب کے صاحبزادے حافظ عبد الحنان فیضی نے مفتی صاحب کے فتاوے کے رجسٹر جن کی تعداد دس گیارہ تھی ترتیب دینے کے لیے میرے حوالے کیا تھا، اور حسب ضرورت ان کا فوٹو کرانے کے لیے مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے پوتے حافظ فضیل نے مجھے مبلغ دس ہزار رپئے بھی عنایت کیے تھے، میں نے کچھ کام شروع بھی کیا تھا۔ تمام رجسٹروں کے صفحات کی ترقیم بھی کرلی تھی لیکن بعض مصروفیات اور بہت سے موانع کی بناپر میں فتاوی و مرتب نہیں کرسکا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کے چھوٹے صاحبزادے مولوی عبد المنان فیضی (موجودہ ناظم جامعہ ) کی طلب پر میں نے یہ سارے رجسٹر اور کل روپیہ بتاریخ ۲۴؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو واپس کردیا۔‘‘

بہر کیف یہ سارے کے سارے رجسٹر ناظم جامعہ الحاج مولوی عبد المنان فیضی صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔ اور وہ اس کی ترتیب و اشاعت کے لیے فکر مند ہیں ۔اللہ کرے وہ جلد منظر عام پر آئے اور متلاشیان حق کی آسودگی کا سبب بنے۔

نظامت:

۳۰؍ اپریل ۱۹۵۲ء میں جامعہ کی مجلس منتظمہ کے رکن بنائے گئے ،پھر آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو۱۹۵۸ء میں نائب ناظم بنایا گیا ۔آپ درس و تدریس کے ساتھ جملہ انتظام و انصرام میں تعاون کرتے۔ آپ نے اپنی زندگی جامعہ کے لیے وقف کردی تھی ،جب ۱۹۸۲ء میں ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مولانا محمد احمد) کا انتقال ہوگیا تو ۲۷؍ فروری ۱۹۸۲ء کو آپ بالاتفاق جامعہ فیض عام کے ناظم اعلیٰ اور مسلم انٹر کالج کے مینیجر چن لیے گئے ۔بقول قاری ارشاد احمد فیضی ’’ناظم احمد صاحب کی وفات کے بعد جامعہ کی لائبریری میں کمیٹی کے لوگوں کی میٹنگ ہوئی اور مفتی صاحب علیہ الرحمہ مدرسہ کے ناظم اور مسلم انٹر کالج کے مینیجر چن لیے گئے ،سارے اساتذہ مدرسہ کے صحن میں موجود تھے میٹنگ بعد ممبران کمیٹی صحن میں مسکراتے ہوئے آئے اور خبر دیا کہ مفتی صاحب ناظم چن لیے گئے ہیں آج سے وہ مدرسہ کے ناظم ہیں۔‘‘

جامعہ اسلامیہ فیض عام کو باختیار بنانے اور چندے پر سے انحصار کم کرنے کے لیے ناظم احمد صاحب رحمہ اللہ نے صدر چوک اور اس کے اطراف میں دکانیں تعمیر کرائیں تھیں مفتی صاحب نے ان دکانوں میں مزید اضافہ کیا آپ نے ناظم احمد صاحب ہی کے مثل اپنی زندگی جامعہ کے لیے قربان کردی تھی۔ بالخصوص مفتی صاحب کو جامعہ فیض عام کی تعمیری اور تعلیمی خدمات کے سلسلے میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

خطیب جمعہ وعیدین:

مفتی صاحب نے ایک طویل مدت تک جامع مسجد فیض عام میں خطبۂ جمعہ کی ذمہ داری کو نباہا ہے، جہاں آپ جامع مسجد فیض عام صدر چوک کے مستقل خطیب تھے وہیں جامعہ فیض عام کی عیدگاہ مسلم انٹر کالج میں عیدین کے امام وخطیب رہے، دو دہائی سے زائد عرصہ تک آپ نے اس ذمہ داری کو بھی انجام دیا ہے۔ آپ کے خطبے بڑے سہل اور تصنع سے خالی ہوتے تھے، آپ مدلل گفتگو کرتے۔ اس تعلق سے جب میں نے استاد مکرم مولانا عبدالغنی فیضی( سابق استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام) سے استفسار کیا تو آپ نے درج ذیل باتیں تحریری طور پر ارسال کیں:

’’میں نے نمازِ جمعہ پڑھنے کی شروعات بازکی مسجد سے کی، اس وقت اس تمیز سے عاری تھا کہ کون خطیب، کون مؤذن ہے۔ مگر یہ بات سن رکھا تھا کہ یہاں صرف ایک اذان جمعہ کی ہوتی ہے جب خطیب منبر پر بیٹھتے ہیں۔

خطبہ کے مشتملات آج تک یاد ہیں کہ موضوع کلمہ طیبہ وکلمہ شہادت کا چل رہا ہے اور خطیب صاحب اس کی وضاحت سامعین کے گوش گزار کر رہے ہیں۔ دوسرا جمعہ کا دن آیا تو خطیب بدلے ہوئے تھے۔ انھوں نے خطبۂ مسنونہ کے بعد آیت قرآنی{ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ} [البقرۃ: ۸۳] تلاوت کی، اور نہایت سادہ انداز میں ترجمہ وتفسیر کیا اور کہا اس سے معلوم ہوا کہ احسان وسلوک مذکورہ لوگوں کے ساتھ کرنا بہت ضروری ہے۔ غرض مسائل کا استخراج آپ کے خطبہ کی خصوصیت تھی۔ اور اس طرح اپنی تقریر پایۂ تکمیل تک پہنچایا، سارا زور اطاعت والدین پر تھا۔ جب مدرسہ فیض عام میں دوبارہ تحصیل علم کے لیے درجہ فارسی میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ اول الذکر خطیب مولانا مختار اختر فیضی ہیں جن سے متعلق ہم لوگوں کی ریاضی ہے، اور ثانی الذکر مولانا حبیب الرحمن فیضی نائب ناظم مدرسہ مذکور کے ہیں، یہ سلسلہ سال دو سال رہا۔

پھر نماز جمعہ کی مسجد بدل گئی، کیونکہ میرے سبھی ہم درس جامع مسجد فیض عام میں جمعہ پڑھنے کو بہت اہمیت دیتے تھے، ان کی معیت مجھے بھی پسند آتی جو ایک عادت سی بن گئی تھی۔ یہاں مستقل خطیب مولانا بشیراللہ صاحب فیضی تھے، وہ مدرسہ کے مدرس بھی تھے۔ ان کی مترنم آواز لوگوں کو پسند آتی تھی۔ اس ضمن میں کبھی کبھی دوسرے علماء بھی خطبے دیتے تھے۔ ان میں مولانا شمس الحق سلفی مدرس مدرسہ مذکور بھی تھے۔ وہ بڑے جہیر الصوت تھے۔ ان کی تکبیروں سے مسجد گونج جاتی تھی اور کسی مکبر کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ حالانکہ مسجد کی چھت بھی مصلیوں سے بھر جاتی تھی۔ پھر بھی بطورِمکبر، الحاج رشید احمد پٹھان ٹولہ رہا کرتے تھے۔ مولانا نہایت جذباتی انداز میں لوگوں کو مخاطب کرتے تھے۔ ان کا خطبہ سننے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے، وہ مختلف مساجد میں دروس قرآن وحدیث کے لیے بھی مدعو کیے جاتے تھے۔ یہ دونوں حضرات مسلم اسکول کے میدان میں عیدین کی نماز بھی پڑھاتے رہے۔ یہ معروضات سنہ۱۹۶۰ء کی دہائی کی ہیں۔ مولانا شمس الحق صاحب اور مولانا بشیراللہ صاحب کے مدرسہ سے الگ ہونے کے بعد جامع مسجد فیض عام کی مستقل خطابت مفتی صاحب کے حصے میں آئی۔ آپ کے خطبات بے تکلف اور سادہ انداز میں نہایت واضح، غیرمبہم ہوا کرتے تھے۔ وہ حالات کے مطابق دینی وشرعی احکام و مسائل پر روشنی ڈالتے تھے۔ زندگی کے مسائل اور رسوم ورواج کو اپنا موضوع بناتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اذانِ مغرب کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کے اثبات میں انھوں نے مدلل خطبہ دیا تو نماز جمعہ کے بعد مولانا فیض الرحمن فیض صاحب نے بھی ان کی زبردست تائید کی۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی کبھی دوسرے علماء کو بھی خطبۂ جمع کا موقع دیا کرتے تھے۔ مولانا عظیم اللہ مئوی، مولانا فیض الرحمن فیض اور مولانا محمد الاعظمی صاحبان کے ایک ایک خطبے یاد ہیں۔ جب کہ قاری عبدالسبحان صاحب اور مولانا محمد جمیل صاحب بارہا بطورِ خطیب دیکھے اور سنے گئے۔مولانا محمد جمیل صاحب کی زبان سے سنا ہوا یہ شعر آج تک یاد ہے؎

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

مولانا محفوظ الرحمن فیضی اور قاری نثار احمد فیضی بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔

جماعت اہل حدیث کے اساطین علماء (مولانا عبدالرؤف جھنڈانگری، مولانا مختار احمد ندوی، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، مولانا عبدالحمید رحمانی) کے خطبات بھی اسی مسجد میں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مفتی صاحب لمبے عرصہ یعنی تقریبا ۲۵؍سال تک خطبۂ جمعہ کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ایک اہم خصوصیت آپ کے خطبۂ جمعہ کی یہ رہی کہ اختتام خطبہ کے لیے کبھی آپ کو گھڑی دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی، نہ سامعین کو اشارہ کرنا پڑا بلکہ مقررہ وقت پر آپ {إِنَّ اللہَ وَمَلَائِکَتَہٗ} [الاحزاب: ۶۵] مع درود ابراہیمی پڑھ کر خطبہ ختم کرتے تھے۔ جمعہ کی نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الجمعہ، سورۃ المنافقون، سورۃ الاعلیٰ اور ھل اتاک حدیث الغاشیہ مکمل سورتیں پڑھتے تھے، وہ سورتوں کو کاٹ کر آدھی ادھوری نہیں پڑھتے تھے، دوسروں کو بھی اس طرح پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ حالانکہ آج کل خطباء اس پہلو سے بے پروائی کرتے ہیں جو پسندیدہ عمل نہیں ہے۔

مفتی صاحب خیر الکلام ما قل ودل پر عامل تھے اور حدیث خذ ما صفا ودع ما کدر کے داعی تھے۔ خطبہ مختصر کے مقابلے میں طولِ صلاۃ ان کا وطیرہ تھا جو حدیث صحیح کے مطابق تھا۔ آپ اسی زمانے سےمدرسہ فیض عام کی عیدگاہ مسلم اسکول کے میدان میں عیدین کی نماز بھی پڑھانے لگے، آپ سے پہلے عیدین کی نماز مولانا عبدالرحمن نحوی صاحب، مولانا شمس الحق اور مولانا بشیراللہ صاحبان یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی مولانا قاری عبدالسبحان صاحب تھے۔ عید اور عیدگاہ کے تعلق سے مفتی صاحب کو زبردست محنت سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ بار بار ملازموں اور مزدوروں کے ذریعہ انتظامات کا جائزہ لینا، سویرے نمازِ فجر کے بعد سے بسترے وغیرہ کے انتظام سے آپ بے انتہا تھک جاتے تھے۔ کبھی کبھی اپنی معیت کے لیے ہم جیسے خادموں کو بلا لیا کرتے تھے، پھر نماز عیدین وخطبہ کی ذمہ داری کماحقہ ادا کرنا آپ ہی جیسے متحمل مزاج مضبوط قوت ارادی کے مالک سے ممکن تھا۔ آپ کے خطبات کی جامعیت اور مناسبت کے سبھی لوگ قائل تھے۔ آپ کی بلند آواز اور صاف گوئی وبرجستگی ہر جگہ اور ہر موقع پر حاوی رہتی تھی۔ بعد میں مختلف عوارض کی وجہ سے جب مفتی صاحب کے قوی مضمحل ہو گئے تو استاذ محترم مولانا محفوظ الرحمن فیضی شیخ الجامعہ کے مشورہ سے یہ خدمت خاکسار سے لینے لگے۔ چنانچہ عید الفطر ۱۴۱۴ھ /۱۹۹۴ء تا عید الفطر ۱۴۳۳ھ / ۲۰۱۲ء میرا عمل جاری رہا۔ درمیان میں عیدالاضحی ۱۴۲۸ھ / ۲۰۰۷ء میرا حج کا سال اس سے مستثنیٰ ہے۔ ‘‘

تلامذہ:

آپ کے درس و تدریس کا سلسلہ کافی طویل ہے جو کہ نصف صدی سے زائد پر محیط ہے ۔اس لیے ظاہر ہے کہ آپ کے تلامذہ بھی کثیرہوں گے ۔چند کے اسماء یہ ہیں :

٭ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ

٭مولانا صفی الرحمن مبار کپوری رحمہ اللہ

٭مولانا جمال الدین رحمہ اللہ

٭مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ

٭مفتی عبد الحنان فیضی رحمہ اللہ

٭قاری نثار احمد فیضی رحمہ اللہ

٭ ڈاکٹر عبد العلی ازہری (لندن)

٭مولانا مظہر احسن ازہری

٭مولانا عبد الرحمن مبارکپوری

٭مولانااحمد مجتبیٰ سلفی مدنی

٭مولانا محفوظ الرحمن فیضی

٭شیخ مظہر علی مدنی

٭مولانا عبد الغنی فیضی

٭ مولانا نور العین سلفی

٭مولانا عبد الحمید فیضی

٭ مولانا محمد مقیم فیضی

٭مولانا مقصود الحسن فیضی

٭قاری نجم الحسن فیضی

٭مولانا امان اللہ فیضی

٭مولانا ابو سعید فیضی

٭مولاناعبد الباری فتح اللہ مدنی

٭مولانا زین العابدین فیضی سلفی

٭ڈاکٹر عبد المنان فیضی مدنی

٭مولانا عبد المبین فیضی

٭مولانا شہاب الدین مدنی

٭ مولانا محمد ابرہیم مدنیؔ

٭ قاری جمشید احمد فیضی وغیرہم۔

علماء کے تأثرات :

٭شیخ احمد مجتبیٰ سلفی مدنی (سابق استاذ جامعہ سلفیہ بنارس مرکزی دار العلوم):

استاذ محتر م مفتی حبیب الرحمن فیضی (رحمہ اللہ) سے احقر کو ایک سال دورۂ حدیث میں استفادہ کا موقع ملا تھا،آپ سے صحیحین کا درس لینے کا موقع میسر ہوا ،میں مختصرا ً صرف اتنا عرض کردینا کافی سمجھتا ہوں کہ ان کے بعد بھی صحیحین کا درس لینے کا اتفاق ہوا ،مگر جو تفہیم بخاری آپ سے حاصل ہوئی تھی وہ دوسرے سے حاصل نہیں ہوئی، تدریس کے سلسلے میں کسی نے ایک لفظ گھڑا ہے ’بخاریت‘جو امام بخاری کی صحیح بخاری کا کا طرۂ امتیاز ہے :اس میں موصوف رحمہ اللہ کو میں نے ممتاز پایا ۔

نیز آپ’مفتی‘کے لقب سے یونہی مشہور نہیں ہوئے آپ کے تفقہ اور مدلل فتویٰ نویسی کی بھی ایک مثال میرے سامنے ہے، ہندوستان کے کچھ علاقوں میں زراعتی زمین کو بندھک (رہن ) رکھنے کا چلن ہے۔ میرے دل میں اس بابت کھٹک پیدا ہوئی ،تو میں نے لگ بھگ پانچ مفتیان ِ ہند سے فتوی طلب کیا سب سے مطول و مدلل جواب مفتی موصوف ہی کا تھا ۔آپ نے یہ بات مبرہن کی تھی کہ یہ سود ہے۔ اور اس صورت کے مباح ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ سنا ہے آپ ہی کے ادارے کے کوئی شاگرد اس کے مباح ہونے کا فتویٰ دے رہے ہیں۔

اللہ صحیح اور حق پہچاننے کی توفیق دے۔آمین

رحمہ اﷲرحمۃ واسعۃ

آپ کا ایک مستفید اور حقیر جانشین:

احمد مجتبیٰ سلفی ؔ

(حال استاذ حدیث و مفتی جامعہ أبی ہریرۃ الاسلامیۃ لال گوپال گنج ضلع الہ آباد)

٭ شیخ عبد الغنی فیضی (سابق استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو):

میرے استاذ اور مربی مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی رحمہ اللہ اپنے آپ میں علم کے کوہ گراں تھے، معاصرین میں علوم اسلامیہ کے فرہاد اور اخلاقیات میں نہایت متحمل مزاج تھے ،مسائل علمی میں رسوخ رکھتے تھے ان سب کے باوجود جوبات میری نظر میں اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان کے اندر حد درجہ انکسار پایا جاتا تھا ان کے پاس چھوٹے بڑے بہت سے لوگ اور اساتذہ و تلامذہ آتے جاتے تھے مگر کسی سے ان کی سخت کلامی نہیں سنی گئی نہ تحکمانہ طرز ادا دیکھی گئی ۔وہ گفتگو میں متانت کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے کسی کو ’تم‘نہیں کہتے تھے بلکہ سلیقہ سے ’آپ‘یا اسی طرح کے الفاظ ادا کرنے کے خوگر تھے کسی کا نام بگاڑ نا یا غیر مہذب کلمات سے نوازنا مجھے معلوم نہیں ہے۔ حالانکہ ان سے میرا شاگردی کا تعلق دو تین سال رہا اور ان کی زیر سرپرستی سولہ سال گذارنے کا موقع ملا ۔

مرحوم جا معہ فیض عام کے قدیم اساتذہ کے سلسلہ کی آخری کڑی تھے در حقیقت وہ استاذ الاساتذہ تھے، علمائے اہل حدیث میں فن حدیث کے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔خصوصاً ان کا درس بخاری اور فتویٰ نویسی ان کی نیک نامی و شہرت کا سبب تھے ،وہ جامعہ کے طفل مکتب بھی تھے اور فاضل درس نظامیہ بھی ،مدرس ابتدائی بھی تھے اور مدرس اول بھی اس کے نائب ناظم بھی تھے اور ناظم اعلیٰ بھی رہے ،عامۃ الناس کے معتبر مفتی اور جامع مسجد فیض عام کے خطیب بھی ۔اس طرح ان کی خدمات جلیلہ اور کارنامے لگ بھگ ساٹھ سال پر محیط ہیں۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔

عبد الغنی فیضی

۱۲؍ فروری ۲۰۲۰ء چہار شنبہ

٭ شیخ مظہر علی مدنی (شیخ الجامعۃ الاسلامیہ فیض عام مئو):

۱۹۷۸ء میں جامعہ فیض عام میں جماعت ثالثہ کا طالب تھا ،حدیث کی پہلی نصابی کتاب بلوغ المرام کی تدریس جناب مولانا سہیل احمد صاحب سلفی ثم مدنی کے ذمہ تھی کہ کچھ دنوں کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کے داخلہ کی منظوری آگئی، مفتی صاحب (جو اس وقت صدر مدرس ،نائب ناظم اور شیخ الحدیث تھے ) جن کے ذمہ صحیحین کے علاوہ درجات علیا کی دیگر کتابیں ہوا کرتی تھیں ،بلوغ المرام کی تدریس اپنے ذمہ لے لی ،اس طرح عربی ابتدائی درجات کا طالب ہوتے ہوئے بھی ہمیں مفتی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوگیا ۔اور فیضیابی کا موقعہ ملا، مفتی صاحب کا درس ہر حدیث کی شرح اور مسئلہ کی تنقیح و توضیح میں محدثانہ طرز پر ایسا مفصل و مبسوط ہوتا تھا کہ درس بخاری کی جھلک نظر آتی تھی ۔اور جس کا فائدہ ہمیں مابعد حدیث کی دیگر درسی کتابیں پڑھتے ہوئے بھی ملا، ایک سال بعد جامعہ سلفیہ بنارس چلے جانے کے باوجود بھی مفتی صاحب نے ایک مشفق مربی و استاذ کی حیثیت سے اپنے اس ادنیٰ شاگرد پر نظر عنایت جاری رکھااور ہدایت و رہنمائی فرماتے رہے اور خانوادۂ فیض عام ہی کا ایک فرد سمجھتے رہے ۔

چنانچہ ۱۹۸۵ء میں جامعہ سلفیہ بنارس سے فراٖغت کے بعد واپس آیا تو اسی سال جامعہ فیض عام میں بحیثیت مدرس خدمات کی انجام دہی کے ساتھ پھر مفتی صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان سے فیض حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔آپ نے خود کو جامعہ فیض عام کے لیے مکمل طور سے وقف کررکھا تھا ،سارا وقت درس و تدریس،ترتیب و نگرانی، انتظام و انصرام اور افتاء و مطالعہ میں صرف کرتے تھے ،فتویٰ اسی وقت لکھتے تھے جب مطالعہ و تحقیق کے بعد آپ کو کسی بات پر اطمینان ہوجاتا ،اسی لیے آپ کے فتاوے انتہائی معتبر و مستند سمجھے جاتے تھے ،صرف علاقہ او رقرب و جوا ر کے لوگ ہی نہیں بلکہ ملک کے اطراف واکناف سے لوگ استفتاء بھیجتے اور آپ اسے ایک علمی امانت سمجھ کر جواب سپرد ڈاک کردیتے تھے ۔

الغرض آپ نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی پوری زندگی خدمت علم دین میں گزاردی۔ع

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

آپ جیسے لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں؎

وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

٭ شیخ اسعد الاعظمی (رکن رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ):

مولانا حبیب الرحمن صاحب فیضی رحمہ اللہ ہماری جماعت اور ہمارے شہر کی ایک معتبر علمی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ،آپ علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا احمد بن ملاحسام الدین کے پوتے اور ان کے شاگرد بھی تھے ۔آپ نے طویل زمانے تک تدریسی فریضہ انجام دیا اور ہزاروں شاگردوں کو مستفید فرمایا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔قیادت و سیادت کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے ،ایک عرصہ تک آپ نے نائب ناظم پھر ناظم کی حیثیت سے جامعہ فیض عام اور اس کے متعلقہ اداروں کی خدمت فرمائی ۔جماعتی اور ملی مسائل میں بھی آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اور آپ کی رائے اور فیصلے کی قدر کی جاتی تھی ۔

درس و تدریس اور نظامت کی گوناگوں ذمہ داریوں کے ساتھ ہی فتوی نویسی کے لیے بھی وقت نکالتے تھے اور ’مفتی ‘کی حیثیت سے ایک خاص شناخت رکھتے تھے ۔جامعہ فیض عام کے ساتھ ہی ایک بڑے حلقے میں ’مفتی صاحب‘کے لقب کا اطلاق آپ کی ذات گرامی ہی پر ہوتا تھا ،اور نا م لیے بغیر آپ ہی مراد ہوتے تھے۔ امید کہ آپ کے فتاوی جو کئی جلدوں میں ہوں گے مدرسہ میں یا آپ کے اخلاف کے پاس محفوط ہوں گے اور ان کی ترتیب اور نشر واشاعت کا بند و بست کیا جائے گا ۔ الغرض آپ نے دین اور علم دین کی بڑی خدمت کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور انھیں آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین

اسعد اعظمی

(جامعہ سلفیہ بنارس)

وفات:

جماعت اہل حدیث کا یہ خورشید جہاں تاب ایک لمبی مدت تک جامعہ اسلامیہ فیض عام کی خدمت کرنے کے بعد ۳۰/نومبر ۱۹۹۶ء مطابق ۱۸/رجب ۱۴۱۷ھ بروز سنیچر بعد نماز فجر جامعہ ہی کے ایک حجرہ میں غروب ہوگیا ۔إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

قبر میں تیری رہے ہر دم چراغوں کی چمک

جنتی پھولوں کی ہو چاروں طرف تیرے مہک

جنت الفردوس میں تیرا رہے اعلیٰ مقام

باعث جنت ہو تیری نیکیوں کا انجام

آپ کی نماز جنازہ ناتھو املی کے میدان میں بعد نماز مغرب آپ کے برادر صغیر مفتی فیض الرحمن فیض / سابق مفتی جامعہ اثریہ دار الحدیث نے پڑھائی۔ ہزاروں لوگوں نے نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی اور اپنے آبائی قبرستان چھیتن پورہ بھیٹہ میں دفن کیے گئے؎

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی کی نگہبانی کرے

اولاد واحفاد:

مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو اللہ رب العزت نے پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا ۔

بیٹیاں:

۱۔مرحومہ اسماء خاتون

۲۔مرحومہ سائرہ خاتون

۳۔ مرحومہ عائشہ خاتون

بیٹے:

۱۔حاجی عبد السلام مرحوم

۲۔ حافظ عبد الحنان فیضی مرحوم

۳۔ حاجی عبید الرحمن

۴۔ ضیاء الرحمن مرحوم

۵۔ مولوی عبد المنان فیضی (موجودہ ناظم جامعہ اسلامیہ فیض عام )

اور اس کے علاوہ بھرا پُراخاندان ہے ،تمام لوگ اپنے اپنے کاروبار اور تجارت و غیرہ میں مشغول ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مفتی صاحب کی دینی، علمی، تدریسی، جماعتی، سماجی اور ملی خدمات کو ان کے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے اور ان کے کارناموں کو باقیات صالحات میں داخل کرے اور نجات اخروی کا ذریعہ بنائے ۔آمین

آپ کے تبصرے

3000