مولانا عبدالستار سراجی

سرفراز فیضی روبرو

سرفراز احمد:آپ کا مکمل نام کیا ہے؟(کنیت، لقب، تخلص یا تاریخی نام ہوتو وہ بھی بتائیں)
مولانا عبدالستارسراجی:ابوالفضل عبدالستار بن راغب اللہ السراجی
سرفراز احمد: آپ کی جائے ولادت کہاں ہے؟ اور تاریخ ولادت کیا ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:میری پیدائش ۱۶؍مئی۱۹۶۶ءکو موضع: امونا تیواری، پوسٹ:پپرا، ضلع: سدھارتھ نگر یوپی میں ہوئی۔
سرفراز احمد:کچھ خاندانی پس منظر کے متعلق بتائیں، کیا آپ کے آبا واجداد میں کوئی عالم بھی گذرے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:میرا خاندان معاشی اعتبارسے متوسط رہا اور یہی حالت پورے گاؤں کی رہی اور آج بھی وہی حالت ہے لیکن الحمدللہ عملی اعتبار سے بہت بہتر رہا۔ ہمارے دادا کے اخلاق وعادات اور دین کے سلسلے میں ان کی لگن قابل رشک رہی ہے، مسجد سے دور رہنے کے باوجود نماز باجماعت ادا کرتے تھے، تہجد کی نماز کے بھی پابند تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم لوگ چھوٹے تھے اگر کوئی غلطی کرتایا عبادت میں کوتاہی کرتاتو سخت تنبیہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے، آمین۔ ہمارے آباء واجداد میں کوئی عالم نہیں گزرا ہے البتہ یہ ضرورہے کہ اکثر لوگ قرآن مجید اور اردو کی جانکاری رکھتے تھے۔ اس وقت الحمدللہ ہمارے خاندان میں پانچ عالم اور کئی حفاظ موجود ہیں۔ فالحمدللہ علی ذلک۔
سرفراز احمد:آپ کی نشونما کہاں ہوئی اور کس نے کی؟
مولانا عبدالستارسراجی:میری نشوونما جائے پیدائش ہی میں والدین کے ہاتھوں ہوئی۔
سرفراز احمد:آپ کی تعلیم کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی؟ اپنے تعلیمی مراحل کے بارے میں بتائیں۔
مولانا عبدالستارسراجی:تعلیم کی ابتدا گاؤں ہی سے ہوئی، میاں رحم اللہ رحمہ اللہ اپنے گھر پر بچوں کو پڑھاتے تھے، چنانچہ میں نے بھی قرآن مجید اور کچھ اردو کی ابتدائی کتابیں انھی کے پاس پڑھیں پھر مدرسہ ضیاء العلوم پپرا رام لعل میں درجہ سوم تا پنجم مکتب کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم ریواں میں ادنیٰ تا ثانیہ اور مفتاح العلوم ٹکریا میں ثالثہ اور جامعہ انوار العلوم پرسا عماد جو اس وقت تعلیمی میدان میں عروج پرتھا، وہاں عالمیت کا کورس مکمل کرنے کے بعد فضیلت کی سند جامعہ سراج العلوم بونڈیہار گونڈہ سے حاصل کی۔
سرفراز احمد:آپ کی فراغت کب اور کہاں سے ہوئی؟
مولانا عبدالستارسراجی:میری فراغت مئی۱۹۸۵ء میں ہوئی۔
سرفراز احمد:آپ اپنے چند اساتذہ کے اسماء گرامی بتائیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:میرے استاذ مولانا عظیم اللہ مئوی رحمہ اللہ جو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں، فضیلۃ الشیخ عبدالاول فیضی، شبیر احمد سلفی، حمید اللہ سلفی ، محمد عمر گونڈوی، ابوالعاص وحیدی، محمد خلیل رحمانی، عبدالرحمن مدنی وغیرہم، ابھی الحمدللہ سب باحیات ہیں۔
سرفراز احمد:کس کی شخصیت سے آپ سب سے زیادہ متاثر ہوئے؟
مولانا عبدالستارسراجی:مولانا عبدالرحمن لیثی مدنی حفظہ اللہ کہ صاحب علم وصاحب جائداد ہونے کے باوجود بڑے سنجیدہ نرم مزاج، خاکسار وملنسار ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملنے، بڑے پیارمحبت کے ساتھ گفتگو کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم اور تواضع میں اضافہ کرے۔ آمین
سرفراز احمد:زمانۂ طالب علمی میں کس فن سے زیادہ شغف رہا؟
مولانا عبدالستارسراجی:زمانۂ طالب علمی میں میرا پسندیدہ موضوع حدیث نبوی اور ادب عربی تھا۔
سرفراز احمد:آپ نے صحیحین کس سے پڑھی؟
مولانا عبدالستارسراجی:صحیح بخاری (دونوں جلدیں) مولانا عظیم اللہ مئوی مفتی جامعہ سراج العلوم سے پڑھی اور صحیح مسلم (کی پہلی جلد) مولانا ابوالعاص وحیدی اور( جلد ثانی) مولانا عبدالرحمن لیثی مدنی نے پڑھائی۔
سرفراز احمد:فراغت کے بعد آپ کا کیا مشغلہ رہا؟آپ نے تدریس کے فرائض کن مدارس میں انجام دیے؟آپ کے زیر تدریس کون کون سی کتابیں رہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:فراغت کے فوراً بعد جامعہ اتحاد ملت اٹوا بازار میں درس وتدریس کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد ستمبر ۱۹۹۰ء سے اگست ۱۹۹۳ء تک جامعۃ الملک سعود ریاض کے شعبۂ معہد اللغۃ العربیہ میں تعلیمی تشنگی بجھاتارہا۔بعد ازاں ستمبر ۱۹۹۳ء تا حال جامعۂ رحمانیہ کاندیولی ممبئی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہاہوں، ان ۱۸؍سالہ تدریسی ایام میں درجہ ذیل کتابیں زیر درس رہیں:
ترجمہ قرآن مجید، المختصر القدوری، مرقات، القرأۃ الرشیدہ،معلم الانشاء، گلستان، علم الصیغہ، رحمت عالم، تاریخ الامت، ھدایۃ النحو، شرح شذور الذھب، ازھار العرب، شرح الوقایہ ، تفسیر نسفی، تفسیر ابن کثیر، شرح العقیدۃ الواسطیہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، مضمون نویسی۔
سرفراز احمد: آپ کے مشہور تلامذہ؟
مولانا عبدالستارسراجی:۲۱؍سالہ تدریسی دور میں بہت سے طلبہ نے استفادہ کیا ہے جن کی تعداد ایک ہزار سے کم نہ ہوگی۔ چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
محمد مصطفی مدنی، خورشید احمد ریاضی،شفیق احمد رحمانی، عبدالسلام رحمانی، نصیر احمد رحمانی، شاہ عالم رحمانی، منہاج الدین رحمانی، ابوذر مدنی۔
سرفراز احمد: کیا فن صحافت میں آپ کی دلچسپی رہی؟
مولانا عبدالستارسراجی:جب میں نے جامعہ رحمانیہ میں قدم رکھا اور یہاں سے جاری ہونے والے ماہنامہ صوت الاسلام پر نظر پڑی اور بعض اساتذہ کے مضامین نگاہوں کے سامنے آئے تو میرے اندر مضمون نگاری کا داعیہ پید اہوا۔
سرفراز احمد: آپ نے کن مجلات وجرائد کے لیے مضامین لکھے؟ اور آپ کے مضامین کی تعداد کتنی ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:میرا پہلا مضمون ’’معاشرہ کی اصلاح کیونکر ممکن ہے‘‘صوت الاسلام ممبئی میں چھپا۔ اس کے بعد سے تاحال صوت الاسلام میں مسلسل میرے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اسی طرح سے جریدہ ترجمان، ماہنامہ نوائے اسلام، ماہنامہ الاسلام دہلی میں بھی مضامین شائع ہوئے ہیں، اب تک سو سے زائد مضامین منظر عام پر آچکے ہیں۔
سرفراز احمد: لکھتے وقت آپ کن چیزوں کا خیال رکھتے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:مضمون قرآن وسنت کے دلائل اور صحیح واقعات سے مزین ہو نیز بے جا طوالت سے بچاجائے اور مضمون کا خلاصہ پیش کیا جائے تاکہ کم پڑھالکھا قاری بھی مضمون کی گہرائی اور اس کے تقاضے تک کما حقہ رسائی حاصل کرسکے نیز ماحول اور موقع کی مناسبت مضمون نگاری میں مدنظر رکھنا چاہیے۔
سرفراز احمد: کیا تصنیف وتالیف کا کام اب بھی جاری ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:جی ہاں تصنیف وتالیف کا بھی شوق ہے۔ میری پہلی کتاب ’’معاشرہ برباد کیوں؟‘‘ ہے لیکن کتاب کی ضخامت اور قلت اسباب کی بنا پر کتابی شکل میں اب تک شائع نہ ہوسکی البتہ صوت الاسلام ممبئی میں قسط وار اس کے مضامین چھپ چکے ہیں۔ لوگوں کے خطوط اور ملاقات سے معلوم ہوا کہ لوگوں نے اسے پسند کیا اور مفید سمجھا اور بعض لوگوں کی طرف سے اسے کتابی شکل میں کرنے کی فرمائش بھی ہوئی اور تعاون بھی کرنا چاہا لیکن میری بدقسمتی کہیے یا کتاب کی اہل جامعہ نے لوگوں کی فرمائش پر یہ جواب دیا کہ یہ کتاب جامعہ کے استاد نے لکھی ہے اس لیے جامعہ ہی اسے چھاپے گا۔ لیکن افسوس اب تک اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اب تک صرف دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور کئی کتابیں مسودہ کی شکل میں قلت اسباب کی بناپر محفوظ ہیں۔
پہلی کتاب ’’احکام نماز‘‘ فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب احکام الصلوٰۃ کا ترجمہ ہے جس میں نماز کے احکام اور تارک صلوۃ پر مرتب ہونےوالے احکام نیز امام کے ساتھ مقتدی کی حالتیں وغیرہ مذکور ہیں۔
دوسری کتاب ’’الدلائل القطعیہ فی المسائل الخلافیہ‘‘ ہے جس میں چند مختلف فیہ مسائل صحیح دلائل مع ترجمہ پیش کیے گئے ہیں۔ جنھیں ہر اہل حدیث کو اپنے پاس رکھ کر سینے میں محفوظ کرنا چاہیے۔
درج ذیل کتابیں غیر مطبوع ہیں:
معاشرہ برباد کیوں؟ صوفیت اسلامی عدالت میں، روزہ کے احکام ومسائل، اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات، اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ لوگ، جادو اور نظربد کا شرعی علاج۔
سرفراز احمد:کیا آپ خطابت کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ خطابت کی ابتداکیسے ہوئی؟
مولانا عبدالستارسراجی:جی ہاں الحمدللہ خطابت کاشوق اس نیت سے دل میں موجزن رہتاہے کہ عوام الناس کو قرآن وسنت سے روشناس کرایا جائے اور منکرات ومنہیات سے بچانے کی تگ ودوہو، میں پہلی جماعت میں پڑھ رہاتھا، تبھی سے خطبات جمعہ کا تسلسل اس لیے رہا کہ گاؤں پر کوئی عالم مستقل رہنے والے نہیں تھے، بنابریں جب چھٹی میں گھر جاتا اور جمعہ کا دن آتاتو لوگ مجھ کو کھڑا کردیتے۔ اس طرح آہستہ آہستہ کام ہوتارہاتا آنکہ میرے اندر خود خطابت کا شوق پیدا ہوگیا۔
سرفراز احمد:اچھے خطیب کے لیے کون سی چیزیں اہم ہوتی ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:ایک اچھے خطیب کے لیے ضروری ہے کہ باتیں دلائل کی روشنی میں کرے اور موقع محل کی رعایت کرتے ہوئے سامعین کی حالت کو پیش نظر رکھے اور پیارمحبت کا اسلوب ہوتاکہ عوام کے قلوب واذہان آپ کی طرف متوجہ ہوں۔ بےجا اور بے موقع باتوں اور ضعیف وموضوع روایات اور بے سرپیر کے واقعات سے اجتناب کرے، باتیں عام فہم زبان اور سیدھے سادے اسلوب میں بیان کرے، تکلف ، تصنع اور مسجع ومقفی عبارت سے بچے۔
سرفراز احمد: آپ نے کن کن مقامات پر تبلیغی کام انجام دیا ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:میں نے مستقل طورسے تو خطابت کا کام انجام نہیں دیا ہے لیکن اجتماعات میں شرکت نیز درس قرآن ودرس حدیث اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام تو عمومی طورسے جہاں بھی رہا کرتا رہا ۔جہاں بھی موقع ملا یا کسی نے دعوت دی تو بلاچوں چرا وہاں پہنچ کر کتاب و سنت کی باتیں پیش کی ہیں حتی کہ ریاض سعودیہ میں بھی تعلیم کے دوران ہم ہندوستانی اور پاکستانی اکٹھا ہوکر دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتے تھے۔ فالحمدللہ علی ذلک۔
سرفراز احمد:آپ کو کبھی کسی باطل پرست سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:جی ہاں غیر مسلم اور پنجابی سے گفتگو کا موقع ملا ہے اور الحمدللہ مقابل کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی اور کامیاب بھی رہا۔
سرفراز احمد:آپ کن کن اداروں سے منسلک رہے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:میں مدرسہ اشرف العلوم اموناتیواری یوپی کا بروقت صدرہوں اور صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی مجلس شوری کا رکن ہوں، ضلعی جمعیت کا نائب سکریٹری وغیرہ۔
سرفراز احمد:کیا آپ کو سیاحت کا شوق ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:سیاحت کا شوق ضرور ہے لیکن اس کے لیے فراغت اور مال چاہیے اور میرے پاس دونوں چیزیں نہیں ہیں، البتہ تعلیم کی غرض سے سعودیہ عربیہ اور دیگر ضرورتوں کی خاطر نیپال جانے کا اتفاق ہوا ہے۔
سرفراز احمد: کن کی اور کس قسم کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:یہ سوال تفصیل طلب ہے کیونکہ مختلف فنون میں مختلف اصحاب فن نے خامہ فرسائی کی ہے اور ہر فن کا الگ طرزواسلوب ہوتاہے اس لیے کسی ایک کتاب یا کسی ایک مصنف کو نامزد کردینا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ اس طرح سے صرف ایک فن کی بات ہوگی اور صرف ایک مصنف کی بات ہوگی حالانکہ دوسرے فن میں دوسرے کی کتاب تیسرے فن میں کسی تیسرے کی کتاب اعلیٰ درجہ کی ہوگی۔ اس لیے ایک قاری کو چاہیے کہ جس فن میں مطالعہ کا شوق ہو اس فن کے ماہر کی کتاب کا مطالعہ کرے مثلاً سیرت پر مطالعہ کرنا ہوتو اردو زبان میں رحمت للعالمین اور الرحیق المختوم اور عربی میں سیرت ابن ہشام کا مطالعہ کرے۔ وقس علی ذلک۔
سرفرازاحمد: آپ کی محسن کتاب/کتابیں کون سی ہیں؟ کچھ اس کتاب کے متعلق بتائیے؟
مولانا عبدالستارسراجی:جس کتاب سے بھی دین کی جانب رہنمائی ملتی ہو وہ تمام کتابیں میرے نزدیک محسن ہیں۔
سرفراز احمد: کیا آپ کو سیاست سے دلچسپی ہے؟ کیا کبھی آپ نے ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا؟
مولانا عبدالستارسراجی:نہیں۔
سرفراز احمد:کیا آپ نے کبھی رفاہی کاموں میں حصہ لیا ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:ہاں۔
سرفراز احمد:آپ کے پسندیدہ رسالے کون سے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:مجھے ہر وہ رسالہ پسند ہے جو دین متین کی نشرواشاعت قرآن مجید اور سنت صحیحہ کے حوالوں اور دلائل کی روشنی میں کررہاہو۔
سرفراز احمد:آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟اور پسندیدہ شعر کون سا ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:باحیات شاعروں میں فضاابن فیضی میری نگاہ میں ہرناحیہ سے عمدہ شاعر ہیں۔
سرفراز احمد: ماضی کا کوئی یادگار واقعہ بتائیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:میرا ایکسیڈنٹ۲۳؍جنوری۲۰۰۴ء بروز جمعہ تقریباً ۱۲؍بجے دن میں پیش آیا جبکہ میں کرلا جامعۃ الرشاد ممبئی میں جمعہ کا خطبہ دینے کی غرض سے جارہاتھا۔ وہ وقت میرے لیے بڑا دلدوز اور قیامت خیز منظر تھا، اگر میں یہ کہوں کہ اللہ رب العالمین نے مجھے دوسری حیات دی ہے تو بےجانہ ہوگا، میرا دایاں پیر تین جگہ فریکچر ہوا،پیشاب کی تھیلی پھٹ گئی جس کی وجہ سے پیٹ کا آپریشن کرناپڑا۔ قریباً دوماہ تک اسپتال میں رہا اور ا س کے بعد تقریباً چھ ماہ تک بیساکھی کے سہارے چلتارہا لیکن فی الحال الحمدللہ بخیروعافیت ہوں، آپریشن اور فریکچر کی جگہ سوجن اب بھی رہتاہے۔ بہرحال جب وہ واقعہ یادآتاہے تو بدن کانپ اٹھتاہے اور اگر کبھی ادھر سے گذرہوتاہے تو بدن لرزہ برندام ہوجاتاہے، اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو میری غلطیوں کے لیے کفارہ بنائے اور ثواب دارین سے نوازے ۔آمین
سرفراز احمد:کوئی خواہش جو پوری نہ ہوسکی؟
مولانا عبدالستارسراجی:ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
سرفراز احمد:حلقۂ احباب؟
مولانا عبدالستارسراجی:ہمارا کوئی خاص دوست نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو شریعت کا پابند ہو قرآن وسنت کو حرزجان بناتاہو وہ ہمارا دوست اور رفیق ہے۔
سرفراز احمد:پسندیدہ مشغلہ؟
مولانا عبدالستارسراجی:درس وتدریس اوردعوت وتبلیغ۔
سرفراز احمد:فی الحال کیا مصروفیات ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:درس وتدریس اوردعوت وتبلیغ (جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی)
سرفراز احمد:مستقبل کے لیے کیا عزائم ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:امت مسلمہ کو قرآن وحدیث سے روشناس کرایاجائے اور شرک وبدعات کے بھنور میں پھنسے افراد کو راہ نجات دکھائی جائے۔
سرفراز احمد: اعزازات جن سے آپ نوازے گئے؟
مولانا عبدالستارسراجی:جامعۃ الملک سعود ریاض سعودیہ عربیہ میں تعلیم کے دوران دوہزار ریال اور ایک گولڈ بطور تحفہ عنایت ہواتھا، فالحمدللہ علی ذلک۔
سرفراز احمد:مسلمانوں کے موجودہ دینی، سیاسی، معاشی اور علمی بحران کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح ممکن ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:موجودہ دور میں مسلمان ہر اعتبار سے بحرانی حالت میں مبتلا ہے جس کی اصل وجہ قرآن وسنت سے دوری اور دنیا سے قربت ہے اور اس کی اصلاح قرآن وسنت کو حرزجاں بنانے اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے ہی میں ممکن ہے، کیونکہ عرب کا بگڑا ہوا سماج انھی دونوں کے ذریعے اس قابل ہوا کہ دنیا کے مقابل میں قلت تعداد وقلت اموال کا شکار ہونے کے باوجود اہل دنیا کی رہبری اور ان پر حکمرانی کرے۔
سرفراز احمد:مغرب پرستی اور جاہلی رسومات وبدعات کے اس دور میں علماء کرام کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:علماءکرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیرت نبوی کو اپنی زندگی میں داخل کریں اوراپنے گفتاروکردار، اقوال و افعال اور وضع قطع کو اسلامی بنائیں۔ آج علماء کی کوتاہی وغفلت اور اسوہ نبوی سے ان کی دوری نے مسلم افراد اور سماج کو مغرب زدہ ہونے کا راستہ ہموار کیا ہے۔آج علماء کرام میں احساس ذمہ داری کا فقدان نظرآرہا ہے وہ بھی دنیا کے پیچھے محو تماشہ بنے ہوئے ہیں اور سماج کے اخلاقی بگاڑ نے انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
سرفراز احمد:اختلاف کے اس دور میں فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کہاں تک درست ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:فروعی مسائل سے احتراز بہت ضروری ہے کیونکہ فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ بسا اوقات نفرت کو جنم دیتاہے اور نفرت سے افراد کے درمیان بُعد پیدا ہوتاہے، جوکہ اصلاح کے راستے کا روڑہ اور اتحاد کے لیے سم قاتل اور زہر ہلاہل ہے۔
سرفراز احمد:کیا عالمی اور ملکی سطح پر مسلم اتحاد ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو کن بنیادوں پر؟
مولانا عبدالستارسراجی:دراصل یہ اختلاف ابتداسے ہے اور رہےگا خصوصاً جب تک تقلید کی جکڑ بندیاں باقی ہیں اس وقت تک اختلاف بھی باقی رہے گا ’’فتنۂ تقلید سے جنگ وجدل پیدا نہ کر‘‘اور اگر اتحاد ممکن ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہے اور وہ ہے عقیدہ توحید اور اس پر جو اتحاد ہوگا وہ پائدار ودیرپا ہوگا اور بقیہ دیگر چیزوں پر اتحاد عارضی اور ناپائدار ہوگا۔
سرفراز احمد:علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، اس کی تشکیل کہاں تک ممکن ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:میرا خیال وہی ہے جو مجلہ اہل حدیث کے مدیر نے مجلہ اہل حدیث مجریہ جون ۲۰۰۶ء میں لکھا ہے، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’مسلم لیڈران کا الگ پارٹی بناکر اقتدار حاصل کرنے کا یہ پروگرام انتہائی احمقانہ ہے، یہ تجربہ تو پہلے ہی مسلم لیگ مسلم مجلس، انصاف پارٹی کرچکی ہے، یہ فارمولہ صرف ان خطوں میں جو مسلم اکثریتی ہیں جہاں سے مسلم ممبران ہی چن کر آتے ہیں کامیاب ہوسکتاہے، مگر وہاں کتنے ممبر کامیاب ہوں گے اس کا تجربہ حال ہی میں آسام اور کیرالہ میں ہوچکا ہے، دونوں جگہ مسلم ووٹ صرف مسلم امیدواروں کے لیے کا نعرہ دینے والے لیڈران فیل ہوگئے اور ممبران کی تعداد گھٹ گئی۔
متحدہ قومیت کے سب سے بڑے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد نے آزادی ملنے کے بعد لکھنؤ اتحاد کانفرنس میں یہ بات نہایت صفائی کے ساتھ کہہ دی تھی کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمان اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانے کا تصور ختم کردیں اور وہ جس پارٹی کو پسند کریں اس کے ساتھ وابستگی اختیار کریں، اس تقریر کے بعد سے جس قدر تجربات مولانا مرحوم کے موقف کے خلاف اختیار کیے گئے وہ خود غرض لیڈران یا ملت کے درد میں مبتلا ہونے والے ناعاقبت اندیش حضرات کا کارنامہ ہیں جس میں ناکامی ونامرادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘‘(مجلہ اہل حدیث جون۲۰۰۶ء)
سرفراز احمد:کیا غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کماحقہ ہوپارہی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
مولانا عبدالستارسراجی:نہیں، دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا گھر خود بگاڑ کامنبع بناہوا ہے اور ہمیں یہیں سے فرصت نہیں ملتی۔ دوسری بات یہ کہ جب ہم خود بے راہ روی اور بدعملی کا شکار ہیں تو کون سا منہ لے کر غیروں کے پاس جاکر دعوت کا کام کریں گے۔
سرفراز احمد:ملکی سطح پر جمعیت اہل حدیث جس طرح کام کررہی ہے کیا آپ اس سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ یا کسی اصلاح کی گنجائش محسوس کرتے ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:بہرحال جس قدر بھی کام ہورہا ہے غنیمت ہے، خامیاں اور کوتاہیاں تو بہت ہیں کس کس کی نشاندہی کریں۔
تن ہمہ داغ داغ شد،پنبہ کجا کجا نہم
سرفراز احمد:ممبئی میں سلفی تحریک کس حد تک اطمینان بخش ہے؟
مولانا عبدالستارسراجی:ممبئی میں سلفی تحریک صرف ماہانہ اجلاس اور ریلیف وغیرہ تک محدود ہے جسے وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
سرفراز احمد:کیا ہندوستانی اسلامی مدارس کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:جی ہاں میں مطمئن ہوں لیکن اس سے بھی بہترکار کردگی کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عمدہ سے عمدہ نتائج سامنے آسکیں اور قوم کی اصلاح حتی المقدور ٹھیک ٹھاک طریقے سے ہوسکے۔
سرفراز احمد:کیا مدارس کے نوخیز فارغین اور طلباء مستقبل میں ملی ذمہ داریوں کے متحمل ہوسکیں گے؟
مولانا عبدالستارسراجی:جی ہاں، کیونکہ یہ گیلی مٹی ہیں انھیں جس شکل میں ڈھالا جائے ڈھل سکتے ہیں صرف ڈھالنے والے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی علمی و اخلاقی تربیت کی جائے تو مستقبل کا ہیرا بن سکتے ہیں؎
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ قرینے سے سنوارا جائے
سرفراز احمد:سلفی علماء وطلبہ کے لیے آپ کے پیغامات کیا ہیں؟
مولانا عبدالستارسراجی:عالم بننے کے ساتھ عامل بنیں اور اپنے اخلاق وکردار اور اعمال کے ذریعہ دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیں،اختلافات وتنازعات سے کنارہ کشی اور بغض وحسد اور تعصب وتنگ نظری سے دوری اختیار کریں، کتاب وسنت کو اپنی زندگی کا لائحۂ عمل قرار دیں، عقائد واعمال میں کسی بھی طرح کی مداہنت سے اجتناب کریں، خدا فراموشی وخود فراموشی کی دبیز چادر کو تارتار کردیں اور اپنی سیرت وصورت اور وضع قطع سے یہ ثابت کریں کہ واقعی وہ وارثین انبیاء ہیں، امربالمعروف ونھی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی ہر ممکن طریقے سے کریں وغیر ذالک ۔

آپ کے تبصرے

3000