سیمانچل میں ہر سال کی طرح امسال بھی جلسوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔یہ جلسے عام طور پرمدارس کے فقر واحتیاج کو عوام الناس کے سامنے رکھنے اور ان کی جیبوں کے بوجھ کو ہلکا کرکے ا داروں کے مالی حالات مستحکم کرنے کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔لیکن رنگ برنگ کے دیدہ زیب اشتہارات کی طباعت پر ہونے والے خطیر اخراجات اور مقررین کی بھاری بھرکم فیسیں اس منشا کی تکمیل میں روڑا اٹکا دیتی ہیں۔بیشتر اوقات یہ سنا گیا ہے کہ جلسہ کرکے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ہوسکتا ہے کہیں کہیں کچھ فائدے بھی ہو جاتے ہوں۔در اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کے جلسوں میں غریب ویتیم طلبہ کے نام پر اور اداروں کی تعمیر وترقی کے بہانے لوگوں سے حاصل شدہ پیسوں کا بیشتر حصہ لمبی لمبی شیروانیوں کی بڑی بڑی جیبوں کو بھرنے ہی میں چلا جاتا ہے۔اداروں کے ذمہ داران اور جلسوں کے منتظمین تو بس یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے دیتے ہیں کہ چلو کم ازکم اسی بہانے لوگ باگ کو واعظین کے مواعظ حسنہ سے مستفید ہونے کا زریں موقع تو نصیب ہوا۔اگر یہ مقصد بھی حقیقی معنوں میں پورا ہوتا تو کچھ حد تک ان جلسوں کے افادی پہلوؤں پر غور کیا جا سکتا تھا۔لیکن اس طرح کے بیشتر جلسوں میں مواعظ حسنہ کی بجاے قصے کہانیاں اوراقاویل واغانی سے لطف اندوزی کا دل خراش منظر پوری قوم کی بالعموم اور علماے دین کی بالخصوص دینی غیرت وحمیت کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے!۔
جو لوگ ان جلسوں کے احوال وکوائف سے آگاہ ہیں انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان جلسوں کے لیے اکثر بنگلہ زبان میں ترنم کے ساتھ تقریر کرنے والے مقررین کا انتخاب ہوتا ہے۔جو مقرر جتنا لسّان ، چرب زبان اور خوش گلو ہوگا اس کا نام اشتہار میں اتنے ہی موٹے موٹے حروف میں لکھا جائے گا۔گویا پردھان وکتا وہی قرار دیا جاتا ہے جس کا ترنم سب سے زیادہ دل کش ہو۔اسی طرح اگر یکاک اردو مقرر کو مدعو کرنا ہوتو اس میں بھی ترنم ہی کو قابل ترجیح مانا جاتا ہے۔گا گا کر تقریر کرنے کے جواز اور عدم جواز کا فتوی دینا مفتیانِ دین کا کام ہے۔لیکن یہ تو تقریبا ً سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ مترنمانہ اسلوب خطابت اہل علم وتحقیق کے نزدیک بہر حال معیوب ہے۔ترنم کے جواز اور عدم جواز سے پرے یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مقرر کی دو دو ،تین تین گھنٹے کی تقریر میں کتنی باتیں کتاب وسنت کی ہوتی ہیں اور کتنی باتیں روداد سفر اور آپ بیتی سے متعلق۔ان جلسوں میں شریک ہونے والوں کو معلوم ہوگا کہ خاص طور پر بنگلہ مقررین کی اکثریت نظم گوئی، غزل خوانی اور خالہ خالو ،نانا نانی کرنے ہی میں اپنا پورا وقت صرف کردیتی ہے۔ ان میں سے بہتوں کو تو قرآن وحدیث صحیح سے پڑھنا بھی نہیں آتا۔والعیاذ باللہ!
ایک مولانا کئی سالوں سے بڑے مشہور ہیں۔ان کے بغیرشاید ہی سیمانچل کا کوئی ’اصلاحی جلسہ‘ ہوتا ہو۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے اصلاحی جلسوں کے بڑے بڑے اشتہارات میں اپنے نام کو نمایاں اور موٹے موٹے حروف میں کیسے لکھوانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔آپ سوچیں گے کہ شاید مولانا نے کتاب وسنت کی نصوص کے حفظ وضبط میں بڑی محنت کی ہوگی۔خالص قرآن وحدیث کی روشنی میں تقریر کرتے ہوں گے۔ان کے تن میں ایک دنیاے علم آباد ہوگی۔ان کے گلستانِ خطابت سے بہت سے گل چیں اپنی اپنی پسند کے گل چنتے اور مشام جاں کے لیے اس سے خوشبو حاصل کرتے ہوں گے۔اصلاحی جلسوں کے حوالے سے آپ کی یہ فکر بالکل صحیح ہے بلکہ مطلوب ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہے، اگر آپ کبھی ان کو سنیں گے تو آپ کو لا محالہ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔اور آپ کو معلوم ہوگا کہ بھوجپوری فلموں نے جو دھوم مچا رکھی ہے،اس میں ان کے گانوں کا کتنا کمال ہے۔ ہمارے مولانا نے سوچا کہ کیوں نہ اس زبان سے-جو کہ سیمانچل کے شیر شاہ آبادی مدعووین کی زبان بھی نہیں ہے- استفادہ کیا جائے، پھر انھوں نے بھوجپوری زبان میں چند نظمیں اور غزلیں یاد کرلیں،شادی بیاہ کے موقعے پر پڑھے جانے والے شیر شاہ آبادی خواتین کے چند گیت یاد کر لیے،تضحیک نما تقریر میں لطیفوں کے ذریعے ہنسی آوری کے گن پیدا کرنے اور غزل میں بھوجپوری زبان کا سہارا لے کر قہقہہ آفرینی کی صلاحیت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یوں راتوں رات مصلحِ قوم بن بیٹھے!!
ہوسکتا ہے کچھ لوگ مذکورہ بالا سطور پر چیں بہ جبیں ہوں اور کہیں کہ آپ کی یہ باتیں نوشتنی نہیں ہیں،اس لیے کہ بڑے بڑے علما ان کے ساتھ اسٹیج پر موجود ہوتے ہیں اور کتنے تو فرمائش کرتے ہیں کہ مولا نا ایک گیت ہوجائے،پھر مولانا اپنی کرتب نمائی کا آغاز فرمادیتے ہیں۔در اصل ایسے ہی علما کی عنانِ توجہ اس جانب مبذول کرانے کے لیے یہ چند سطریں حیطۂ تحریر میں لائی گئیں ہیں،جو خالص دعوتی و اصلاحی اسٹیجوں پر بیٹھ کراپنے مذاقِ تفنن و مزاح کی تسکین کا سامان پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے بہروپیے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔نتیجے کے طور پر لوگ قرآن وحدیث کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کے عادی نہیں رہے،انھوں نے پورے زور سے حلق پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے واعظوں اور گا گا تقریر کرنے والوں کی غیر ثقہ اور اتھلی باتیں سننے کا اپنے آپ کو عادی بنالیا ہے۔یہ کور ذوقی اور بد نصیبی ہی ہے کہ ہمارے اہل حدیث علما بھی سلف صالحین کی راہ سے ہٹتے جارہے ہیں، اصلاحی جلسوں کے اسٹیجوں پر ان کی ساکت موجودگی اس طرح کی واہیات گوئیوں کو ایک طرح سندِ جواز فراہم کرتی ہے۔
علماے دین کو چاہیے کہ وہ اپنے علمی مقام ومرتبے کو اچھی طرح سمجھیں،کتاب وسنت کی روشنی میں تقریر کرنے والوں کی جہاں حوصلہ افزائی کریں وہیں قصہ گوؤں کی نقاب کشائی سے ہر گز گریز نہ کریں اور عوام الناس کو بتائیں کہ ان کے لیے کس طرح کے خطابات دنیاوی اور اخروی دونوں لحاظ سے مفید اور کار آمد ہیں۔
بہت ہی زبردست جھٹکا لگانے والی تحریر ہے۔
علمائے سیمانچل کے لئے
ایک لمحہ فکریہ بھی ہے ۔
جزاك الله خيرا
ما شاء اللہ بہت خوب میں سمجھتا ہوں جس طرح علمائے کرام بردرس کے فتنے کی بیخ کنی کے لیے سینہ سپر ہیں اسی طرح ان بنگالی باباؤں اور بھوجپوری گویوں کی بیخ کنی کے لیے میدان میں اترنا بھی لازمی ہے۔۔۔ ہم ملاحظہ کر رہے ہیں کہ شیر شاہ بادی اور بنگالی مسلمانوں میں دو طرح کے مقررین کا فتنہ بڑا زور پکڑ رہا ہے ایک تو بھوجپوری گویوں کا اور دوسرا شادی بیاہ میں گائی جانے والی گیتوں کو گانے والے مقررین کا۔۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان فتنوں کے خاتمے کے لیے پوری کوشش کریں اور جس… Read more »
جزاك الله خيرا
بالکل، اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اجتماعی کوشش ضروری ہے