حمد ونعت اور ترانے وغیرہ کے کچھ قابل غور پہلو
رشید مرتضى
ہمارے یہاں جامعات ومدارس کے پروگراموں میں اسی طرح دینی جلسوں وغیرہ میں حمد ونعت نظمیں اور ترانے وغیرہ لحن وترنم کے ساتھ پڑھنے کا عام رواج ہے۔ لوگ عموما یہ سمجھتے ہیں کہ صرف فلمی گانے اور میوزک والی چیزیں ممنوع ہیں، بقیہ دوسری چیزوں کے بارے میں پوری وسعت ہے، تو اس سلسلے میں جاننا چاہیے کہ کسی بھی شعر کو چاہے وہ حمد ونعت ہی کیوں نہ ہو کسی خاص گانے کی طرز یا اس کے دھن پر پڑھنا کہ سنتے ہی آدمی سمجھ جائے کہ یہ فلاں گانے کی دھن ہے علماء نے اسے فسق اور فساق سے مشابہ ہونے کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے۔
اسی طرح کسی بھی شعر یا ترانے کو طرب وسوز کے ساتھ پڑھنا جس سے سامعین جھوم جائیں ان پر خاص کیفیت طاری ہوجائے یا گانے کی جیسی ماڈلنگ یا ایکٹنگ سے پڑھنا (جیسے آنکھیں بند کرنا ہاتھوں سے طرب وسوز کے اشارے کرنا جھومنا مستی دکھانا یا اگر اجتماعی شکل میں ہو تو سب کا ایک جیسی حرکات یا اشارے کرنا وغیرہ) فسق اور فساق سے مشابہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے، عائشہ رضی الله عنہا کے بارے میں آتا ہے:
رأت شخصا يتغنى ويحرك رأسه طربا وكان ذا شعر كثير، فقالت أف شيطان أخرجوه أخرجوه فأخرجوه(الأدب المفرد:۱۲۴۷ حسنہ الألباني)
حالانکہ عائشہ رضی الله عنہا کی اجازت ہی سے وہ شعر پڑھ رہا تھا مگر جب دیکھا کہ طرب وسوز سے پڑھ رہا ہے اور فساق کی طرح حرکتیں کر رہا مستی دکھا رہا ہے تو اسے شیطان کہہ کر بھگا دیا۔
اپنے یہاں دینی پروگراموں کا مزاج یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے بعد کسی خوش الحان شخص کے ذریعے حمدیہ نعتیہ اشعار یا نظمیں پیش کی جاتی ہیں، اگر یہ اشعار اوپر مذکور محظورات سے پاک ہوں تو بھی دینی پروگراموں میں ان کا اہتمام محل نظر ہے :
۱۔دینی پروگراموں میں شعر وشاعری اور حمد ونعت وغیرہ گا کر لہرا کر پڑھنا اہل بدعت کا طریقہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اس کا خاص اہتمام پایا جاتا ہے۔
۲۔اس میں متصوفہ کی مجلس سماع سے کسی قدر مشابہت پائی جاتی ہے۔
۳۔الله کی عبادت کسی غیر ثابت شدہ طریقے سے کرنا بدعت ہے، چنانچہ حمد ونعت وغیرہ کے اشعار ثواب سمجھ کر گنگنانا یا سننا ثابت نہیں، یہی وجہ ہے کہ علماء ان لوگوں پر سخت نکیر کرتے ہیں جو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نعت وغيره گنگناتے ہیں۔
۴۔یہ ذکر کی مجلس ہوتی ہے جس میں رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اس کا مقصد تعلیم وتعلم اور ایمان کی تازگی ہوتا ہے جب کہ حمدیہ ونعتیہ اشعار وغیرہ میں خوبصورت آواز کے ذریعے ترویح نفس اور الذاذ واطراب کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ طرب میں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پڑھنے والے کو خوب داد وتحسين پیش کرتے ہیں اور بسا اوقات انعامات کی بھی بارش ہوجاتی ہے اور یہ ساری چیزیں پوری طرح سے مجلس ذکر کے مخالف ہیں۔
۵۔قباحت اس وقت زیادہ ہوجاتی ہے جب یہ اشعار کسی خوبصورت شکل وصورت اور آواز والے امرد کے ذریعہ پیش کےس جائیں، اس لےب کہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ اگر امرد کی شکل وصورت اور آواز سے فتنے کا خوف ہو تو اس کا بھی حکم اجنبیہ عورت جیسا ہی ہوگا، قال ابن القيم :
أما سماع الغناء من المرأة الأجنبية أو الأمرد فمن أعظم المحرمات وأشدها فسادا للدين(إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان:۱/۲۳۰)
پتہ چلا کہ جس طرح اجنبیہ عورت کی زبانی خوش الحان شاعری سننا حرام ہے اسی طرح امرد کی زبانی بھی حرام ہے۔
قال أبو العباس القرطبي:كل ما تقرر في حق الأجنبية يجري مثله في حق الأمرد الحسن الصورة والوجه فإن سماعه والنظر إليه مظنة المفسدة بل الفتنة به أعظم والبلية أشد(كشف القناع للقرطبي:۱۲۸)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے امرد کی طرف لذت سے دیکھنے کی حرمت پر ائمہ کا اتفاق نقل کیا ہے:
التلذذ بالنظر إلى وجه المرأة الأجنبية معلوم لكل أحد أن هذا حرام فكذلك النظر إلى وجه الأمرد باتفاق الأئمة
ترانے:
ہندوستان کے جامعات اور مدارس میں ترانے پڑھنے کی ایک عام رسم ہے بلکہ اکثر جامعات اور مدارس کے بلا مشارکت غیر اپنے اپنے خاص ترانے پائے جاتے ہیں جن کو پروگراموں اور مناسبتوں میں پڑھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور انیں اس جامعہ یا مدرسے کا شعار سمجھا جاتا ہے۔
سب سے پہلی بات یہ کہ جامعات یا مدارس وغیرہ میں ترانوں کی یہ مروجہ رسم آخر اس کی اصل کیا ہے کیا کسی شرعی دلیل سے دور یا نزدیک سے اس کی طرف کوئی اشارہ ملتا ہے؟
بلکہ اس کے برعکس غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریقہ غیر قوموں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پائیں گے کہ مسلم کے علاوہ تقریبا ہر قوم یا ہر ملک کا بلا مشارکت غیر ایک خاص مذہبی یا قومی ترانہ یا گیت ہوتا ہے جسے ہر مذہبی یا قومی مناسبت میں پڑھا جاتا ہے اور اسے اپنا شعار سمجھا جاتا ہے، چنانچہ یہی سوچ شعوری یا لا شعوری طور سے جامعات اور مدارس وغیرہ کے ترانوں کے تعلق سے بھی پائی جاتی ہے، اور یہ ایک اندھی تقلید ہے جس کی ہمارے یہاں کوئی حاجت نہیں۔
اس تقلید کی قباحت اس وقت مزید ہوجاتی ہے جب اس کے لوازمات کو بھی اپنا لیا جائے، جیسے:ترانے کے لے کھڑے ہوجانا اس کے لےہ دل میں خاص احترام رکھنا اس کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھنا خاص مناسبتوں اور پروگراموں میں اس کے پڑھنے کا التزام کرنا یہاں تک کہ غیر اردو داں مہمانوں (عرب وغیرہ) کے سامنے بھی اردو میں ترانہ پیش کرنا ایک جامعہ کا ترانہ دوسرے جامعہ میں پڑھنے کی قطعا اجازت نہ ہونا وغیرہ، اسی طرح ایسے ترانوں کا پایا جانا جن میں فکری یا عقدی غلطیاں پائی جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو ایسے بھی ترانے سننے میں آتے ہیں جو ترانہ کم شادی کے سہرے زیادہ معلوم ہوتے ہیں جن میں بالاسم ذمہ داران کی تعریف وتمجید ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کی بیویوں کا بھی بالاسم تذکرہ ہوتا ہے، فيا للعجب۔
ترانے جسے عربی میں نشید انشودہ اناشید کہا جاتا ہے، ان کے حکم کے بارے میں علماء کے کچھ اقوال:
۱۔قال الشيخ الألباني رحمه الله بعد أن بين حكم الغناء الصوفي وأدلة تحريمه:من أجل ذلك حرم العلماء الغناء الصوفي، واشتد إنكارهم على مستحِّليه، فإذا استحضر القارئ في باله هذه الأصول القوية تبين له بكل وضوح أنه لا فرق من حيث الحكم بين الغناء الصوفي، والأناشيد الدينية؛ بل قد تكون في هذه آفة أخرى، وهي أنها قد تلحن على ألحان الأغاني الماجنة، وتوقع على القوانين الموسيقية الشرقية أو الغربية التي تطرب السامعين وترقصهم، وتُخرجهم عن طورهم، فيكون المقصود هو اللحن والطرب، وليس النشيد بالذات، وهذه مخالفة جديدة وهي التشبه بالكفار والمُجَّان، وقد ينتج من وراء ذلك مخالفة أخرى وهي التشبه بهم في إعراضهم عن القرآن، وهجرهم إياه، فيدخلون في عموم شكوى النبي صلى الله عليه وسلم من قومه، كما في قوله تعالى: ( وَقَالَ الرَّسُولُ يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا)(تحريم آلات الطرب:۱۸۱)
۲۔قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله:الإنشاد الإسلامي إنشاد مبتدع، يشبه ما اتبدعته الصوفية، ولهذا ينبغي العدول إلى مواعظ الكتاب و السنة اللهم إلا أن يكون في مواطن الحرب ليستعان به على الإقدام، والجهاد في سبيل الله تعالى فهذا حسن. وإذا اجتمع معه الدف كان أبعد عن الصواب(فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين، جمع أشرف عبدالمقصود:۱۳۴)
۳۔قال الشيخ صالح الفوزان حفظه الله:ومما ينبغي التنبه عليه ما كثر تداوله بين الشباب المتدينيين من أشرطة مسجل عليها بأصوات جماعية يسمونها الأناشيد الإسلامية، وهي نوع من الأغاني وربما تكون بأصوات فاتنة وتباع في معارض التسجيلات مع أشرطة تسجيل القرآن والمحاضرات الدينية. وتسمية هذه الأناشيد بأنها (أناشيد إسلامية) تسمية خاطئة، لأن الإسلام لم يشرع لنا الأناشيد وإنما شرع لنا ذكر الله، وتلاوة القرآن والعلم النافع، أما الأناشيد الإسلامية فهي من دين الصوفية المبتدعة، الذين اتخذوا دينهم لهواً و لعبا، واتخاذ الأناشيد من الدين فيه تشبه بالنصارى، الذين جعلوا دينهم بالترانيم الجماعية والنغمات المطربة، فالواجب الحذر من هذه الأناشيد، ومنع بيعها وتداولها، علاوة على ما قد تشتمل عليه هذه الأناشيد من تهييج الفتنة بالحماس المتهور، والتحريش بين المسلمين۔
و قد يستدل من يروج هذه الأناشيد بأن النبي صلى الله عليه وسلم كانت تنشد عنده الأشعار وكان يستمع إليها ويقرها، والجواب على ذلك:
أن الأشعار التي تنشد عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ليست تنشد بأصوات جماعية على شكل أغاني، ولا تسمى أناشيد إسلامية وإنما هي أشعار عربية، تشتمل على الحكم والأمثال، ووصف الشجاعة والكرم، و كان الصحابة رضوان الله عليهم ينشدونها أفرادا لأجل ما فيها من هذه المعاني، و ينشدون بعض الأشعار وقت العمل المتعب كالبناء، والسير في الليل في السفر، فيدل هذا على إباحة هذا النوع من الإنشاد في مثل هذه الحالات الخاصة، لا أن يتخذ فناً من فنون التربية والدعوة كما هو الواقع الآن، حيث يلقن الطلاب هذه الأناشيد، ويقال عنها (أناشيد إسلامية) أو (أناشيد دينية)، وهذا ابتداع في الدين، وهو من دين الصوفية المبتدعة، فهم الذين عرف عنهم اتخاذ الأناشيد ديناً۔
فالواجب التنبه لهذه الدسائس، ومنع بيع هذه الأشرطة، لأن الشر يبدأ يسيراً ثم يتطور و يكثر إذا لم يبادر بإزالته عند حدوثه(الخطب المنبرية:۳/۱۸۴-۱۸۵۔طـ۱۴۱۱)
وقال أيضا:وفي وقتنا الحاضر لما كثرت الأحزاب والجماعات صار لكل حزب أو جماعة أناشيد حماسية، قد يسمونها بالأناشيد الإسلامية وهذه التسمية لا صحة لها وعليه فلا يجوز اتخاذ هذه الأناشيد ولا ترويجها بين الناس”.(مجلة الدعوة عدد:۱۶۳۲ ص۵۸)
۴۔قال الشيخ حمود التویجری رحمه الله في كتابه “إقامة الدليل على المنع من الأناشيد الملحنة والتمثيل:
إن بعض الأناشيد التي يفعلها كثير من الطلاب في الحفلات والمراكز الصيفية ويسمونها الأناشيد الإسلامية، ليست من أمور الإسلام لأنها مزجت بالتغني والتلحين والتطريب الذي يستفز المنشدين والسامعين ويدعوهم للطرب ويصدهم عن ذكر الله وتلاوة القرآن وتدبر آياته والتذكر بما جاء فيه من الوعد والوعيد وأخبار الانبياء وأممهم، وغير ذلك من الأمور النافعة(ص۶)
خلاصہ یہ کہ کچھ خاص مقامات پر ترانے پڑھنے کی اجازت ملتی ہے جیسے جہاد کے میدان میں جوش پیدا کرنے کے لےہ سفر میں یا مشقت بھرے کام کرتے ہوئے نشاط پیدا کرنے کے لےو یا ان جیسی جگہوں میں، مگر اس کے برعکس ترانوں کی عام عادت بنا لینا ان میں تفنن پیدا کرنا پروگراموں میں ان کا التزام کرنا ان کو اپنی پہچان یا شعار سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ یہ بھی دعوت دین کا یا الله کے ذکر کا ایک طریقہ ہے ان کے ذریعے بھی ایمان کو جلا ملتی ہے، تو یہ سب بلا شبہ بدعت ہے جو کہ متصوفہ کی ایجاد ہے، اسی طرح یہ ایک بہت بڑا سبب ہے لوگوں کو صحیح ذکر اور قرآن سے پھیرنے کا، قال أبو موسى:سمعت الشافعي يقول:بالعراق زنادقة أحدثوا القصائد؛ ليشغلوا الناس عن القرآن(الكلام على مسألة السماع، ابن القيم: ص۱۲۴)
اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں:
قال الشافعي:خلفت ببغداد شيئا أحدثته الزنادقة يسمونه التغبير يصدون به عن القرآن(الاستقامة، ابن تيمية: ۱/۳۸۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله شافعی رحمه الله کے اس قول کے بارے میں کہتے ہیں:
وهذا من كمال معرفة الشافعي وعلمه بالدين، فإن القلب إذا تعود سماع القصائد والأبيات والتذ بها حصل له نفور عن سماع القرآن والآيات، فيستغني بسماع الشيطان عن سماع الرحمن(الفتاوى :۱۱/۵۳۲)
مزید کہتے ہیں:
والذين حضروا السماع المحدث الذي جعله الشافعي جملة من إحداث الزنادقة لم يكونوا يجتمعون مع مردان ونسوان، ولا مع مصلصلات وشبابات، وكانت أشعارهم مزهدات مرققات(الفتاوى:۱۱/۵۳۴)
سبحان الله!ان کے اشعار زہد اور رقت پیدا کرنے والے ہوتے تھے اسی طرح ان کی مجلس سماع میں عورتیں یا امرد حاضر نہیں ہوتے تھے پھر بھی شافعی رحمہ الله نے ان کو زنادقہ قرار دیا کیونکہ لوگوں کو ان کا عادی بنا کر ان میں مست کر کے قرآن سے روکتے تھے۔
کیا ہمارے ترانوں میں کچھ اس طرح کی بات پائی جاتی ہے کہ نہیں؟ یقینا کسی نہ کسی حد تک یہ بات پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں کے اندر شعر وشاعری اور ترانے سننے کا شوق قرآن سننے سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے، دینی مجلسوں اور پروگراموں میں تقریبا آپ نے کبھی نہیں دیکھا یا سنا ہوگا کہ آغاز میں قرآن کی چند (بالکل چند) آیات کی تلاوت کے بعد کبھی دوبارہ سہ بارہ بھی الله عز وجل کی کتاب عزيز وحکیم کی تلاوت کی گئی ہو اس کے مقابلے میں شعر ونظم اور ترانے وغیرہ کے دور پر دور چلتے ہیں ہر ایک دو تقریر کے بعد لوگوں کی طرف سے فرمائش آتی ہے کہ اب کچھ وہ والا ہونا چاہےد، کیا آپ نے کبھی یہ بھی سنا ہے کہ ایمان کی تازگی کے لےئ لوگوں کی طرف سے کسی بہترین قاری کے ذریعے قرآن کی تلاوت پیش کےا جانے کی فرمائش آئی ہو؟:
(إِنَّمَا ٱلمُؤمِنُونَ ٱلَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَت قُلُوبُهُم وَإِذَا تُلِیَت عَلَیهِم ءَایَٰتُهُۥ زَادَتهُم إِیمَـٰنا)
(إِذَا یُتلَىٰ عَلَیهِم یَخِرُّونَ لِلأَذقَانِ سُجَّدا)
(إِذَا تُتلَىٰ عَلَیهِم ءَایَٰتُ ٱلرَّحنِٰ خَرُّوا سُجَّدا وَبُكِیّا)
ان آیات کے آئینے میں ذرا ہم اپنا مقام دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا اس تقصیر کے ذمہ دار ہم علماء طلبہ اہل مدارس بھی ہیں کہ نہیں؟؟
ترانوں کی کچھ اور قباحتیں:
۱۔ترانے عموما خوبصورت امرد لڑکوں سے پڑھوائے جاتے ہیں جس کی قباحت کا اوپر ذکر ہوا۔
۲۔ترانے عموما اجتماعی شکل میں خوب طرب وسوز کے ساتھ لہرا کر پڑھے جاتے ہیں اور اس طریقے سے پڑھنا نہایت ہی محل اشکال ہے جیسا کہ علماء نے اس کی صراحت کی ہے۔
۳۔بعض نسواں مدارس میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کے بعض حفلات میں علماء اور عوام بھی مدعو ہوتے ہیں چنانچہ بالغہ طالبات نقاب میں لوگوں کے سامنے نظمیں اور ترانے پیش کرتی ہیں، الله رب العالمين نے تو (إِنِ ٱتَّقَیتُنَّ فَلَا تَخضَعنَ بِٱلقَولِ فَیَطمَعَ ٱلَّذِی فِی قَلبِهِۦ مَرَض)کے ذریعے نرم اور لچکدار آواز سے بات کرنے سے منع فرما دیا ہے اور یہاں ہم اہل مدارس دینی پروگرام میں نرم اور لچکدار نہیں بلکہ رسیلی اور سریلی مترنم آواز میں لوگوں کے کانوں میں رس گھول رہے ہوتے ہیں اور ان کے سکون نفس کا سامان کر رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کی ویڈیو گرافی کر کے یوٹیوب پر بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ گناہ جاریہ ہوجائے اور جب جس کا جی چاہے کانوں کا زنا کر لے:وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ(مسلم:۲۶۵۷)
۴۔اسی پر بس نہیں بلکہ کچھ اہل مدارس دو ہاتھ اور آگے نظر آتے ہیں، چنانچہ ان کے یہاں طالبات ترانے یا نظمیں کچھ رنگ برنگے طریقے سے پر کیف انداز میں پیش کرتی ہیں جس میں اٹھک بیٹھک اور ہاتھوں سے خاص اشارے بھی شامل ہوتے ہیں یا ان کے ہاتھوں میں کوئی چیز ہوتی ہے جس کے ذریعے خاص ایکٹنگ کرتی ہیں، فيا لها من غربة الدين۔
۵۔کچھ اہل مکاتب ومدارس صبح کلاس شروع ہونے سے پہلے جو دعا خوانی ہوتی ہے اس میں ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے‘ وغیرہ جیسے دعائیہ ترانے پڑھواتے ہیں بلکہ کہیں کہیں تو دعا کرنے کی طرح سارے بچے ہاتھ بھی اٹھائے ہوتے ہیں، آخر اس کے پڑھوانے کا مقصد کیا ہے؟ اگر اس کا مقصد الله سے دعا کرنا ہے تو دعا کا یہ طریقہ بلا شبہ بدعی ہے، اجتماعی طور سے ہاتھ اٹھا کر یا بغیر ہاتھ اٹھائے اشعار گا کر دعا کرنا بدعت ہے کیونکہ دعا ایک عظیم عبادت ہے اور عبادت کو اپنے من مانی بناوٹی طریقے سے ادا کرنا بدعت ہے، ہم تو اجتماعی طور سے فرض نماز کے بعد ’ربنا آتنا‘ جیسی مأثور دعا کرنے کو بدعت سمجھتے ہیں اور یہاں تو پورے لحن کے ساتھ اشعار گا کر اجتماعی شکل میں دعا کی جارہی ہے اس کے بدعت ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ یہ تو پوری طرح سے اہل تصوف کا طریقہ ہے۔
اور اگر اس کا مقصد دعا نہیں بلکہ ترانے یا اشعار گنگنانے کی مشق کرانا ہے، تو پھر دعا میں جس طرح ہاتھ اٹھایا جاتا ہے اسی طرح ہاتھ اٹھانے کی ایکٹنگ کیوں کی جاتی ہے جب کہ یہ معلوم ہے کہ عبادات کی ایکٹنگ نہیں کی جاتی، یا اگر ہاتھ نہ بھی اٹھایا جائے تب بھی اس سے دور رہنا چاہےو اس لےک کہ ترانے یا اشعار کی لحن کے ساتھ مشق کرا کر آخر ہم بچوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمیں قوم کے لئے گویّوں کی ضرورت ہے؟ چنانچہ حال یہ ہے کہ بلا ناغہ اور بلا استثناء سارے بچوں سے اشعار یا ترانے گانے کی مشق کرواتے ہیں، یقینا ہماری بہت بڑی غفلت کے سبب ایسا ہورہا ہے اس کے تدارک کی ضرورت ہے، بلا کسی خاص مناسبت کے ترانے اور اشعار اجتماعی شکل میں پڑھنے کے جواز ہی پر سوالیہ نشان ہے چہ جائے کہ اسے روز مرہ کی عام عادت بنا لیا جائے اور اس پر قیمتی وقت اور محنت صرف کی جائے۔والله الهادي إلى سواء الصراط
حمد ونعت اور ترانے وغیرہ کے تعلق سے یہ کچھ قابل غور زاویے ہیں جنیںن ذکر کیا گیا، ان میں مزید غور کیا جائے اور جو بھی شرعی مخالفت شعوری یا لا شعوری طور پر ہو رہی ہے ان کی اصلاح کے لے مضبوطی سے قدم بڑھایا جائے۔نسأل الله تعالى أن يلهمنا جميعا الرشد والسداد۔وصلى الله وسلم على نبينا محمد۔والحمد لله رب العالمين
علمی مقالہ۔
طرز تحریر خوش اسلوب۔
معتدل پیرائے میں باتیں عرض کی گئی ہیں۔
جزاک اللّہ خیراً
بہت بہت شکریہ شیخ
یقینا آپ نے حق رکھ لیا
بڑے بڑے سلفی مدارس میں یہ بات عام ہے۔
اللہ ہر طرح کے فتنے سے بچائے۔
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ پیرائے میں موضوع کو سمیٹاہے