آفاقی دین اسلام نے بے شمار جیالوں اور سورماؤ ں کو پیدا کیا جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ماسوا موسی بن نصیر،طارق بن زیاد ،محمد بن قاسم، نور الدین زنگی ،سلطان صلاح الدین ایو بی ،شیر میسور ٹیپو سلطان،سید احمد شہید،شاہ اسماعیل شہید،علامہ احسان الہی شہید وغیرہ جیسے شب زندہ دار ،مجاہد ین باکمال شامل ہیں۔ شیر میسور سلطان شہید ما ہ نومبر میں پیدا ہوئے تھے۔
تقریبا پندرہ سولہ سال قبل جب میں شیر میسور کی جائے پیدائش دیون ہلی دعوتی کاز کے سلسلے میں ایک گروپ کے ساتھ گیا تھا،تو وہاں جس مسجد میں ہمارا قیام تھاوہ سلطان شہید کی یاد گار تھی۔یہاں کے عام برادران وطن ٹیپو سلطان سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں اور ان کے ہم وطن ہونے پر فخر محسو س کرتےہیں اور اپنے لوک گیت میں ان کی بہادری اور شجاعت کا اظہار کرتے ہوئے ٹیپو سے اپنی عقیدت کا کھل کر مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی سلسلے میں مشہور مورخ اور پروفیسر ڈاکٹر رام پنیانی کرناٹک کے معروف فن کار گریش کرناڈ کے حوالے سے اپنے ایک لیکچر میں بیان ریکارڈ پر لاتے ہوئے کہتے ہیں:’’اگر ٹیپو سلطان ہندو ہوتے تو جو حیثیت مہاراشٹر میں شیواجی کی ہے وہی حیثیت کرناٹک میں ٹیپو سلطان کی بھی ہوتی چونکہ سلطان شہید کے مسلمان ہو نے کی وجہ سے ہندو شدت پسند ،کٹر پنتھی اورذہنی بیمار لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ بنگلور ایئرپورٹ کا نام ٹیپو سلطان کے نام پررکھاجانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ سلطان ایسی شخصیت کا میں بچپن ہی سے فین اور عقیدت مند رہا ہوں ۔‘‘
ولادت اور خاندانی پس منظر :
شیر ہندوستان ٹیپو سلطان شہید۱۰نومبر۱۷۵۰میں نواب حیدر علی کے گھر موجودہ کرناٹک کی راجدھانی بنگلور سے تقریباً۲۲کلومیٹر دور شمال کی جانب ’دیون ہلی‘نامی قصبہ (جس کا نام سلطان شہید نے اپنے دور حکمرانی میں یوسف آبادسے موسوم کردیا تھا اور تادم تحریر دیون ہلی سے موسوم ہے)میں فاطمہ بیگم فخرالنساء کے بطن سے رمضان المبارک میں پیدا ہوئے۔ تاریخی روایات اور ماخذ سے یہ حقیقت بھی واشگاف ہوتی ہے کہ شیر میسور عرب کے قریش خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباواجداد مکہ سے ہجرت کر کے دہلی اور جنوبی ہند میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔
تعلیم وتعلم :
نواب حیدر علی نے اپنے لخت جگر نو ر نظر ٹیپو سلطان کی تعلیم وتربیت اور فنون حرب وضرب کے لیے قابل ترین اساتذہ اور ماہرین کا بندوبست کیا۔نہایت کم سنی اور قلیل مدت میں ٹیپو سلطان نے عربی، فارسی، کنڑ،فرانسیسی جیسی زبانوں میں مہا رت حاصل کرلی۔ مدرسہ فکر ولی اللہی کے عالم باعمل علماء سے کسب فیض کیا اور ان سے قرآن وحدیث اور فقہ کی بھی تعلیم حاصل کی ۔ ٹیپو سلطان کی ذاتی زندگی پر اسلامی تہذیب وتمدن کی گہری چھاپ تھی ۔ نماز کی پابندی مثالی تھی۔ٹیپو سلطان دین داری، رعایا پروری،منصف مزاجی،مذہبی رواداری ،علماء نوازی، اخوت وبھائی چارگی، غریب پروری ،مظلوم پروری، جیسی صفات سے بدرجہ اتم متصف تھے۔اورقدرت نے ان کو ان اوصاف سے متصف کرنے میں فیاضی سے کام لیا تھا۔ ٹیپوسلطان ایک فرض شناس حکمراں اور جرنیل تھے، انونں نے کئی جنگوں میں انگریزوں ،مرہٹوں اور نظام کو شکست فاش دی تھی۔ٹیپو سلطان کے اندر ایک کامیاب وکامران جرنیل اورحکمر اں کی تما م خوبیاں مو جو د تھیں ۔ٹیپو سلطان کی جنگی حکمت عملی اور عظیم جنگی قائد اور سپہ سالار اعظم ہونے کی وجہ سے میسور کی پہلی اور دوسری جنگ میں انگریزوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور انو ں نے ذلت آمیز صلح پر صلح کی تاہم تیسری جنگ میں اپنوں کی بے وفائی اور میرصادق کی غداری کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ شکست اور صلح میں بدل گئی ۔ چوتھی اور آخری جنگ۴مئی ۱۷۹۹ءمیں دین ،ایمان ،ضمیر فروش بے ایمانو ں اور غداروں کی وجہ سے شکست فاش ہوئی۔اسی جنگ میں شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔اس طرح خود شیر میسورکے تاریخی کلمات ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہے‘‘صادق آئی۔
مذہبی رواداری:
یو ں تو ٹیپو سلطان پر ابتدا ہی سے مذہبی شد ت پسندی اور مذہبی عدم رواداری کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بڑی تعداد میں بےبدریغ قتل کرنے اور بڑی تعداد میں مندروں کو مسمار کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ جو مکا ر اور دجل وفریب کے حامل ،بزدل انگریز جرنیل کی قبیح سازش کا نتیجہ ہے ۔اور گزشتہ چند سالوں سے انگریزوں کی معنوی اولاد بغض وعناد اور دجل وفریب کے خوگر، بدقماش ،بدکردار سنگھی ،احترام انسانیت کو فرامو ش کرتے ہوئےمذہبی رواداری کی حدیں پھلانگتے ہوئے ٹیپوسلطان کی شبیہ کو پھر سے مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فتح علی ٹیپو سلطان جیسا سورما ، بہادر اپنے وطن پر مر مٹنے والا جرنیل اور بادشاہ ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا۔جیسا کہ بقول شخصے
جو لڑا تھا سپاہیوں کی طرح
ہند میں ایسا بادشاہ نہ ہوا
وطن عزیز ہندوستان میں چند ایک کو چھو ڑ کر تما م راجاؤں مہا راجاؤں اور نوابوں نے انگریزوں سے ہندوستان کا سودا کیااور ان کے بالمقابل ٹیپو سلطان واحد حکمراں ہیں جو انگریزوں کے سامنے دم آخر تک سینہ سپر رہےاور مرتے وقت بھی گولیوں کے سارے وار اور زخم سینے پر سجاکر تمغہ شہادت نوش کیا ۔ جس سے عیاں ہوتا ہے کہ فتح علی حقیقی معنی میں مرد مجاہد اور اپنے پیش روؤں عمر بن خطاب ،خالد بن ولید، محمد بن قاسم ، نورالدین زنگی اورصلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے والے اسلامی جرنیل اور بادشاہ تھے ۔ لہذا یہ ٹیپوسلطان پر سراسر بہتان و الزام تراشی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے ٹیپو سلطان نے ہزاروں ہند وؤں کو تہہ تیغ کیا اور مندروں کو مسمارکیا۔انگریزوں نے ٹیپوسلطان کی مذہبی روا داری، منصف مزاجی جیسی صفات اور شبیہ کو داغدار کرنے کی ناپاک و ناکام کو ششیں کیں ۔ انو ں نے ٹیپوسلطان کو ہندومخالف اور مندر شکن، سفاک ،ظالم حکمراں کے روپ میں پیش کیا۔ اور اسی راستے پر آج انگریزوں کی معنوی اولاد سنگھی، آرایس ایس جیسی ہندو شدت پسند تنظیمیں چل رہی ہیں۔
فرضی داستان کے متعلق مشہو ر تاریخ داں پروفیسر بی این پانڈے کہتے ہیں کہ جب وہ ا لہ آباد میں رہ کر ٹیپوسلطان پر تحقیق میں مصروف تھے تو اس وقت کچھ طلباء اینگلو بنگالی کالج کی تاریخی کونسل کا افتتاح کرنے کی گزارش لے کر میر ے پاس آئے ۔ان کے ہاتھ میں تاریخ پر مشتمل ایک کتاب تھی، وہ کہتے ہیں کہ: ’’میں نےان لڑکو ں سے اس کو دیکھنے کی گزارش کی بعدہٗ جب انوکں نے مذکورہ کتاب کھولی تو اس میں ایک باب تھا جس میں لکھا تھا کہ ٹیپو سلطان نے تین ہزار برہمنوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا کیو نکہ وہ انیںب دائرہ اسلام میں داخل کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں لاکھ کوشش کے باوجود یہ مذکورہ افسانہ انیں کسی تاریخی ماخذ میں نہ مل سکا ، اس کے مصنف شعبہ سنسکرت کےصدر مہامہوا پادھیا ئے ڈاکٹر پرساد شاستری تھے جو تاریخ داں نہیں تھے۔اس کے بعد پروفیسر پانڈےنے پروفیسرمنتیا سے رابطہ کیا جوان دنوں میسور گزییٹر کا نیا ایڈیشن تیا ر کررہے تھے۔ تو انورں نے کہا کہ میسور گزییٹر میں اس فرضی واقعہ کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔
ایک مشہور تاریخ داں سوربھ واجپئی کے مطابق ٹیپوسلطان نے اس زمانے کے شنکر اچاریہ سے کہا کہ آپ ’’وشو گرو ہیں ‘‘۔اس وقت کے معتبر تاریخی ماخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ ٹیپو سلطا ن ہندو مندروں ،اداروں اور زیارتی مقامات کے محافظ کی شکل میں سامنےآتے ہیں اوروہ مندروں کو تحائف بھیجتے تھے،مندروں کے مختلف فریقوں کے درمیان چل رہے تنا زعات کو حل کر تے تھے اور ثالثی کا کردار نبھاتے تھے۔ ٹیپوسلطان جنگ آزادی کے سرخیل اور سچے مرد مجاہد تھےاور ہندو مسلم اتحاد اور بھا ئی چارہ کے سچے علمبردار تھے۔ انویں نے بغیر کسی سیاسی مفاد اور مقاصد کے صرف مذہبی رواداری کی وجہ سے مندروں پر بے شمار عنایات کیں ۔ جس کی گواہی ننجن گڑھ کے کالے نامی گاؤں کے مندر،سررنگا پنم کا مندر رنگناتھ،نارائن سوامی مندر کو سلطان کی جانب سے عطیا ت اور تحائف دیے گیے جو آج بھی ان مندروں میں مو جود ہیں۔ اس کے علاوہ انوسں نے کئی مندروں کو جاگیر یں عطا کیں ۔
کیرالہ کے ضلع کانجی پورم (جو اس وقت ٹیپو سلطان کے زیرنگیں تھا) کے مندر کو کچھ شرپسند مراٹھا فوجیوں نےگرادیا ۔ڈاکٹر رام پنیانی کہتے ہیں: مندر شکنی کی یہ بات اس وقت کی ہے جب مراٹھا فوج،فوج کشی کے لیے سری رنگا پٹنم آئی اور شکست وریخت کے بعد شیطانی غصہ سے پر وہاں کے ایک مقامی مندر کو زمین بوس کردیا جس کے چیف سیکرٹری خود ٹیپو سلطان تھے، تاہم جب ٹیپو سلطان کو اس کی خبر ہوئی تو نہ صرف ناراض اور خفا ہوئے بلکہ ان مجرمین کو سخت ترین سزائیں دینے کا مصمم ارادہ کیا بلکہ بعض تاریخی روایات سے واضح ہے کہ ٹیپو سلطان نے ان مندر شکن مجرمین کو قرار واقعی سزا دی اور اپنے ذاتی صرفے سےمندر کو از سر نو تعمیر کروایا۔
متعصب اور بزدل انگریز مورخین کے برعکس سوئیڈن کا ایک مورخ سیموئیل سٹر ینڈ برگ نے اپنی کتاب ’ٹیپو سلطان‘میں ٹیپوسلطان کے ۱۷۸۷ءکے ایک اعلامیہ کا ذکر کیاہے۔ جس میں رقم ہےکہ (۱) مذہبی رواداری قرآن کا بنیادی درس ہے(۲)قرآن میں ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی جبر نہیں (۳)قرآن میں ارشاد ہے کہ تم دوسروں کے معبود وں کو برانہ کہو(۴)ہم اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو دل وجان سے عزیز رکھتے ہیں ۔مصنف سیرت سلطان ٹیپو شہید رقم طراز ہیں: ٹیپو سلطان نے مذہبی رواداری اور وسیع القلبی کی شاندار روایات قائم کیں، ڈاکٹر سالیٹورنے بھی ان (ٹیپو سلطان) کی مذہبی فراخ دلی اور ہندو مذہب کے ساتھ مکمل رواداری کی تعریف کی ہے۔
الفضل ماشہدت بہ الاعدا
اور پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کے الفاظ میں
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے
حق اور سچ وہی ہے جس کا اعتراف دشمن کی زبان اور تحریر سے ہو، جسم کے کالے، من اور سوچ وفکر کے کالے انگریز اور ان کی تعفن زدہ تنظیمیں آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور دیگر کٹر پنتھی دہشت گرد جماعتوں کے الزام کے بر خلاف سلطان شہید خود جبر اور طمع ولالچ میں آکر مذہب تبدیلی کے سخت خلاف تھے۔چنانچہ تاریخ سلطنت خدا داد بحوالہ انگریز مورخین صفحہ۵۳۲میں مرقوم ہے کہ جب انگریز ی اور عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی ترویج و تبلیغ شروع کی تو نتیجتاً بہت سے ہندو اپنا آبائی مذہب تر ک کرکے عیسائی ہونے لگے، جس پر سلطان شہید نے حکم نامہ جاری کیا کہ ’’میں حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم میں کا کوئی شخص اپنا آبائی مذہب ترک نہ کرے، اور اگر ایسا ہی تبدیلی مذہب کا شوق ہو تو خود اپنے بادشاہ کا….. مذہب قبول کریں‘‘۔اس طرح کے بے شمار ثبوت اور دلائل تاریخی ماخذسے ملتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہو تا ہے کہ شیر میسو ر ٹیپو سلطان مذہبی رواداری کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ اور ان کے اندر نام کا بھی مذہبی تعصب نہیں تھا۔ ٹیپو سلطان کے متعلق صحیح تاریخی حقائق کو مشہورومعروف ہندو تاریخ داں ڈاکٹر رام پنیانی نے اپنے متعدد لیکچر میں مدلل پیش کیا ہے اور انوہں نے بھگوائی تاریخ کے قلعہ کو مسمار کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ بار الہ اپنے فضل وکرم سے ان جیسے مجاہدین حکمراں پھر سے قو م مسلم کو عطا کر۔اور قوم مسلم کو ایمانی توحیدی اور وہن کی بیماریوں سے نجات دے دے اور چند اور مجاہد حکمراں عطا فرمادے تاکہ قوم مسلم ذلت ورسوائی اور مقہوریت کی عقیمیت سے نکل سکے ۔آمین ثم آمین
آپ کے تبصرے