محدثین کرام جنھوں نے حصول علم کے اصول و آداب مرتب کیے ہیں ان کے نزدیک ایک بات بڑی مشہور ہے:
لا ینبُل الرجل حتی یأخذ العلم عمّن ھو فوقہ، وعمّن ھو مثلہ، وعمّن ھو دونہ(آدمی اس وقت تک باکمال عالم نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ حصول علم میں اپنے سے اونچے لوگوں کی طرح اپنے ہمعصر اور اپنے شاگردوں کے درجہ کے لوگوں سے استفادہ نہ کرلے)
یہی بات وکیع بن الجراح نے یوں بیان فرمائی ہے:
لا ینبل الرجل من أصحاب الحدیث حتی یکتب عمن ہو فوقہ وعمن ہو مثلہ، وعمن ہو دونہ(الباعث الحثیث: ۱۵۸) کوئی محدث اس وقت تک پورا محدث نہیں بنتا جب تک کہ وہ اپنے سے برتر، اپنے ہمسر اور اپنے سے کمتر درجہ کے علم والے سے علم نہ لے لے۔
تحصیل علم کے سلسلے میں سلف صالحین کے پاس ایک مفصل منہج ہے جس میں متعدد ضابطے ہیں۔ علم سے پہلے ادب کا حصول، علم میں تدرج، علمی مسائل میں اجمال سے تفصیل کی طرف، اہم سے مہم کی طرف جانے، حصول علم کی ابتدا اپنے شہر کے اہل علم سے کرنے اور پھر دیگر شہروں کا رخ کرنے، ایک ہی استاذ تک خود کو محدود نہ رکھ کر متعدد اساتذہ سے سیکھنے جیسے متعدد سنہری اصول ہیں جو اس منہج کی خوبصورتی کے ساتھ اس کے استحکام کی بھی بنیاد ہیں۔
طلب علم کے سلسلے میں اس منہج کا جہاں یہ اصول ہے کہ علم اہل علم ہی سے لیا جانا چاہے، وہیں یہ بھی ضابطہ ہے کہ علم چھوٹے بڑوں سے لیتے ہیں، جس طرح صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تابعین عظام نے صحابہ کرام سے لیا۔ بلکہ نبی ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ بڑوں کو چھوڑ کر چھوٹوں سے علم لینا یا فتوی کی قبیل سے متعلق مسائل میں چھوٹوں کا بڑھ بڑھ کر بولنا قیامت کی ایک نشانی ہے:
إن من أشراط الساعۃ أن یلتمس العلم عند الأصاغر.. (الزھد لعبداللہ بن المبارک :۶۱)قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ علم اصاغر سے لیا جائے۔
مزید ارشاد فرمایا:
۔۔۔۔ وینطق فیھا الرویبضۃ قیل وما الرویبضۃ یارسول اللہ ! قال :السفیہ یتکلم في أمر العامۃ (مسند أحمد:۷۹۱۲)قرب قیامت ایسے ماہ وسال آئیں گے جن میں ـدیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوگا کہ- رویبضہ بولے گا۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول! یہ رویبضہ کیا ہے؟ فرمایا: کم عقل جو عوام الناس سے جڑے مسائل میں فتوی دے۔
تاہم اسی علمی منہج کا ایک سنہرا اصول یہ بھی ہے کہ بعض چیزوں کاعلم اگر بڑوں کے پاس نہ ہو کر چھوٹوں کے پاس ہو تو اپنے سے بڑوں کی طرح اپنے ہمعصروں اور اپنے سے چھوٹوں سے بھی حاصل کیا جانا چاہےا۔ علمی دنیا کی ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ:
{نرفع درجات من نشاء وفوق کل ذي علم علیم }(یوسف:۷۶)ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں اور ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے۔
شرعی علوم میں بڑے اور چھوٹے، عمر کے اعتبار سے بھی ہوتے ہیں اور علمی مقام اور رتبہ کے اعتبار سے بھی، عمر کا تفاوت استاذ اور شاگرد کے درجہ کے فرق سے سمجھ میں آتا ہے اور علمی مقام اور رتبہ کا فرق عام طور پر ہمعصروں میں ہوتا ہے۔ان میں سے ہر دو اعتبار سے بڑوں کا وقت ضرورت چھوٹوں سے علم نہ لینا اورتحصیل علم کے اس دروازہ کو اپنے اوپر بند کرلینا دراصل حرمانِ علم کا موجب اور نفس کے تکبر کا باعث ہے۔علم کی جولانی کے سامنے نفس کی طغیانی سے ہارجانا ہے ۔
اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ بسا اوقات علم کا ایک باب بڑوں کے بجائے چھوٹوں پر کھولتا ہے۔ اور جو بڑے ہوتے ہیں یہ ان کی آزمائش ہوتی ہے اوران کا حقیقی بڑپن اسی میں ہوتا ہے کہ وہ علم کی خاطر تواضع اختیار کرتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں سے ملنے والے علم کو حاصل کرتے ہیں اور اس طرح بظاہر وقتی طور پر چھوٹے ہوجانے کے باوجود انجامِ کار بڑے ہوجاتے ہیں:
من تواضع للہ رفعہ اللہ(شعب الإیمان للبیھقي :۷۷۹۰) جو اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرے اللہ اسے بلند کردیتا ہے۔
قرآن و سنت میں ایسی بہت ساری مثالیں ہیں جہاں اللہ تعالی نے اپنی اس سنت کو ظاہر فرمایا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
(۱)سورہ ص میں اللہ تعالی نے حضرت داود و سلیمان علیہما السلام کا واقعہ بیان کیا ہے۔ دونوں اللہ کے نبی تھے تاہم داودعلیہ السلام باپ تھے مگر جب ایک تنازعہ میں فیصلہ کا معاملہ آیا تو اللہ تعالی نے حضرت سلیمان کو صحیح فیصلہ سجھایا۔ اس طرح حضرت داود کے مقابلہ چھوٹے حضرت سلیمان کو اللہ تعالی نے اس قضیہ میں معاملہ فہمی سے سرفراز فرمایا:
{ففہمناھاسلیمان}(الأنبیاء:۷۹)ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔
(۲)دوسری مثال خود حضرت سلیمان کے مقابلے ایک معمولی پرندے کی ہے، اللہ نے جہاں ایک مقام پر انیں۲ داود علیہ السلام کے مقابلے معاملہ فہمی کے ذریعے فوقیت عطا فرمائی وہیں ایک معاملہ اس کے برعکس بھی دکھلایا، سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے بے شمار وسائل سے مالا مال بے مثال حکومت عطا فرمائی تھی، جن و انس، چرند پرند سے آگے ہوائیں بھی آپ کے حکم کے تابع تھی تاہم ایک موقعہ پر ایک کمزور سے پرندے ہدہد کو اللہ نے یہ موقعہ عطا فرمایا کہ وہ حضرت سلیمان سے کہنے لگا:
{فمکث غیر بعید فقال أحطت بما لم تحط بہ وجئتک من سبأ بنبأ یقین}(النمل:۲۲)کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس نے آ کر کہا‘‘میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں میں سَبا کی ایک سچی خبر آپ کے پاس لایا ہوں۔
(۳)اس باب کی سب سے عظیم مثال تو خود نبی ﷺکی ہے کہ آپ نے جبریل علیہ السلام سے سیکھا۔ {علمہ شدید القوی}اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے(النجم:۵) کے مطابق جبریل علیہ السلام معلِّم تھے اور آپ ﷺمتعلِّم۔ حالانکہ جبریل کے مقابلے نبی ﷺاعلی و برتر ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حضرت جبرئیل کے مقابلے نبی کریم ﷺ کی برتری پر دلالت کرنے والا حضرت عبداللہ بن سلام سے مروی ایک اثر ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
وَمَا عَلِمْت عَنْ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَۃِ مَا یُخَالِفُ ذَلِکَ. وَہَذَا ہُوَ الْمَشْہُورُ عِنْدَ الْمُنْتَسِبِینَ إلَی السُّنَّۃِ مِنْ أَصْحَابِ الْأَئِمَّۃِ الْأَرْبَعَۃِ وَغَیْرِہِمْ، وَہُوَ: أَنَّ الْأَنْبِیَائَ وَالْأَوْلِیَائَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ (مجموع الفتاوی-۴/۳۴۴) مجھے نہیں معلوم کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت عبداللہ بن سلام کی اس بات سے اختلاف کیا ہو، یہی ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین اہل سنت وغیرہم کے نزدیک مشہور و معروف قول ہے کہ انبیاء و اولیاء فرشتوں سے زیادہ افضل ہیں۔
(۴)جساسہ ودجال کا واقعہ نبی کریم ﷺ نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے سنا پھر صحابہ کرام کی بھری مجلس میں آپ ﷺ نے انہی صحابی کے حوالے سے اس واقعہ کو روایت کیا۔ (مسلم – باب قصۃ الجساسۃ:۱۱۹)
حصول علم کے باب سے جڑی اس تعلیم کی قرآن و سنت میں جہاں ایسی متعدد مثالیں ہیں وہیں یہ سلف صالحین کی سیرتوں کا ایک روشن باب ہے۔
امام ترمذی امام بخاری کے شاگردوں میں سے ہیں، ساتھ ہی انویں نے امام بخاری کی طرح ان کے بعض اساتذہ سے براہ راست بھی علم حاصل کیاہے جیسے قتیبہ بن سعید، محمد بن بشار اور اسحاق بن راھویہ۔اس طرح وہ شاگرد بھی ہیں اور بعض اساتذہ کے اعتبار سے ہمعصر بھی، تاہم عِلل کی پہچان کے باب میں امام ترمذی کوکمال حاصل تھا۔اس باب میں ان کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ امام بخاری نے استاذ ہونے کے باوجود اس باب میں اپنے شاگردسے استفادہ کیا اوراس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:
ما انتفعت بک أکثر مما انتفعت بي(تھذیب التھذیب:۹/۳۸۹)میں نے تم سے جو سیکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو تم نے مجھ سے سیکھا۔
محدثین کے نزدیک علوم الحدیث کی ایک خاص صنف ہے جسے روایۃ الأکابر عن الأصاغر کہا جاتا ہے جس میں محدثین نے ایسے راویان حدیث کے نام یکجا کیے ہیں جنؤں نے اپنے شاگردوں سے یا ان کے درجہ کے راویوں سے حدیث روایت کی ہے تاکہ ایک عام قاری یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حدیث کی سند میں قلب ہوا ہے یعنی تقدیم وتاخیر کی غلطی ہوئی ہے اور شاگرد کو استاذ اور استاذ کو شاگرد بنا دیا گیا ہے۔ ایسی مثالوں کو یکجا کرنے کے مقصد سے متعدد اہل علم نے کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
۱۔ ما رواہ الکبار عن الصغار والآباء عن الأبناء للحافظ أبی یعقوب المنجنیقی البغدادی (۳۰۴ھ)
۲۔روایۃ الصحابۃ عن التابعین للخطیب البغدادی
۳۔ روایۃالآباء عن الأبناء للخطیب البغدادی (الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني:۱۶۴)
اسی سے ملتی جلتی علوم الحدیث کی دیگر اصناف میں (روایۃ الأقران) بھی ہے اور( مُدَبَّج)بھی ہے۔(تفصیل کے لےی علوم الحدیث کی کتابیں دیکھ لی جائیں)
علم انبیاء کی وراثت ہے اور اس کا حصول ایک عظیم عبادت ہے اس لےی ایک سچے طالب علم کی علامت ہی یہی ہے کہ وہ حصول علم کے سلسلے میں متواضع بھی ہوتا ہے اور علم کا لالچی وحریص بھی اور اس کی اس بھوک کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن پاتی۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے:
منھومان لایشبعان طالب العلم وطالب الدنیا(المستدرک :۳۱۲)دوبھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے، طالب علم اور دنیاکا طلبگار۔
طالب علم کی اس بھوک کی شدت یہ ہوتی ہے کہ فرق مراتب کا احساس اس کے لےل کوئی معنی نہیں رکھتا۔وہ اپنے ہم سبق ساتھیوں،اپنے ہم عمر طلبہ اور اپنے ہمعصرعلم والوں ہی سے نہیں بلکہ اپنے سے کم رتبہ والے اہل علم سے بھی استفادہ کو اپنا وطیرہ وشیوہ بنائے رکھتا ہے۔اپنے کھوکھلے احساس برتری کے دھوکے میں کبھی نہیں جیتا ۔
حضرت عبداللہ بن مبارک ان گنے چنے چند اہل علم وفضل میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ:اجتمعت فیہ خصال الخیر کلہا یعنی وہ تمام خصائل حمیدہ کے پیکر تھے۔
علم وفضل کے اس اعلی مقام پر فائز ہونے کے باوجود ان کا معمول تھا کہ وہ اپنے سے کم درجہ کے اہل علم سے بھی حدیث سننے اور لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔کسی نے ان سے کہا کہ آپ کو اس کی کیا ضرورت ہے تو کہنے لگے:
لعل الکلمۃ التي فیھا نجاتي لم تقع لي(شرح التبصرۃ والتذکرۃ :۲:۴۶)شاید جو جملہ یا کلمہ میری نجات کا باعث بن جائے وہ ابھی تک میرے نصیب میں نہ آیا ہو۔
اپنے سے کمتر لوگوں سے بھی استفادہ کا یہ باب بہت وسیع ہے،حصول علم کے اس ضابطہ کا تعلق سماج کے تمام طبقات اور زندگی کے تمام ہی میدانوں سے ہے۔ جس طرح ایک استاذ اپنے شاگرد سے مستفید ہوسکتا ہے اسی طرح ایک ذمہ دار اپنے ماتحت سے، ایک باپ اپنی اولاد سے، ایک شوہر اپنی بیوی سے غرض یہ کہ ہر بڑا اپنے سے چھوٹے کو اہمیت دے تو اس اصول کے مطابق سب سے مستفید ہوسکتاہے ۔
عربوں میں ایک مثل مشہور ہے:
یوجد فی النہر ما لا یوجد فی البحر(جو سمندر میں نہ ملے وہ ندی مل جاتا ہے)
ایک مرتبہ نبیﷺ نے بھری مجلس میں ایک سوال رکھا جس میں مہاجرین و انصار کے سردار شریک تھے۔ اللہ تعالی نے جواب ایک چھوٹے بچے عبداللہ بن عمر کو سجھادیا جو مجلس کے کسی بڑے کی سمجھ میں نہ آیا تا آنکہ خود نبی ﷺ نے انیںد بتلایا۔
اسلام میں مشورہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے حتی کہ اللہ نے اسے مومنین کا شیوہ بتلایا ہے {وأمرھم شوری بینہم }اور ان کا کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔(الشوری : ۳۸)
مشورہ کے مضمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار اللہ تعالی چھوٹے منہ سے بڑی بات نکال دیتا ہے۔
قرآن و سنت کی بیان کردہ اس واضح تعلیم اور سلف صالحین کے اس عظیم طرز عمل کے باوجود عصر حاضر میں طلب علم کی یہ راہ مسدود اور یہ دروازہ اکثر بند ہی نظر آتا ہے۔
ایک طرف یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ علم سے شغف رکھنے والے بہت سارے لوگوں میں یہ تواضع نہیں رہ گیا۔طلبہ حصول علم کے میدان میں ایک مرحلہ کے بعد خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگتے ہیں، اپنے سے چھوٹوں کو محض لینے والا سمجھنے لگتے ہیں اور بسا اوقات ماضی میں جن سے سیکھا مستقبل میں بھی ان سے احتیاج کے باوجود اعراض و استغنا کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں جبکہ علم تواضع چاہتا ہے، تکبر حصول علم کی راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ امام مجاہد فرماتے تھے:
لا یتعلم العلم مستحی ولا متکبر(البخاري – باب الحیاء في العلم)علم کے معاملہ میں شرمانے والا اور تکبر کرنے والا کچھ نہیں سیکھتا۔
دوسری طرف طلبہ علم میں بھی خود شناسی کا وہ جوہر نہ رہا،وہ خود اعتمادی نہ رہی کہ وہ تحصیل علم کے میدان کی اس عظیم حکمت سے آشنا ہوں، خود کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کریں خود کو اس قدر روشن اور منور کرلیں کہ وہ جہاں رہیں ان کے اطراف روشنی کا ایک ہالہ سا بنا رہے پھر کیا استاذ؟ اور کیا ہم سبق ساتھی؟ سب کو نہار دیں نکھاردیں۔
آؤ تم بھی پاس آؤروشنی میں نہلادیں
جس کو چھولیا ہم نے آئینہ بناڈالا
ماشاء الله بارك الله فيكم
ما شاء الله…
بارك الله فيكم شيخنا
جزاكم الله خيرا وأحسن الجزاء
ماشاءاللہ زبردست علمی نکات ۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مزید علمی خدمات لے اور عمر دراز فرمائےآمین
ماشاء الله تبارك الله
اللهم زد فزد
ماشاءاللہ سبحان اللہ بہت جامع تحریر ہے