جماعت اہل حدیث کے گرج دار خطیب مولانا عبدالشكور اثری رحمہ اللہ اور جھارکھنڈ

اشفاق سجاد سلفی تذکرہ

جھارکھنڈ میں بالعموم اور وسطی جھارکھنڈ میں بالخصوص جو خطبائے کرام اور دعاۃ الی اللہ تشریف لاتے رہے، اور اپنے مواعظ حسنہ سے یہاں کے عوام کو مستفید کرتے رہے، اور جم غفیر، جلسوں اور اجتماعات کو خطاب کرتے رہے، ان میں جامعہ اثریہ دارالحدیث، مئو کے سابق استاذ، سابق شیخ الجامعہ وشیخ الحدیث مولانا عبدالشکور اثری / رحمہ اللہ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے، جن کا گزشتہ کل بتاريخ 30 / دسمبر 2021، بروز جمعرات انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون!!
اور کل ہی بعد نماز عصر اپنے آبائی گاؤں بنکٹوا، بلرام پور، یوپی میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ نے جامعہ اثریہ دارالحدیث سے فراغت 1975 میں حاصل کی تھی، آپ سے ایک سال پہلے استاذ محترم مولانا عبد الستار اثری/ رحمہ اللہ (گریڈیہ، جھارکھنڈ) نے فراغت دارالحدیث ہی سے کی تھی، اور آپ کے ایک سال بعد مولانا ابوالقاسم اثری / حفظہ اللہ نے، نیز اس علاقے کے بہت سے طلبہ آپ کے معاصر تھے، کچھ سینئر اور کچھ جونیئر،، البتہ ناشتہ کھانا عام طور پر ساتھ ہی ہوتا تھا، استاذ محترم مولانا قاری محمد یونس اثری امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث، جھارکھنڈ / حفظہ اللہ بھی معاصر تھے، البتہ قاری صاحب سینئر تھے اور مولانا عبدالشكور جونیئر۔
فراغت کے بعد ممدوح مولانا عبد الشکور اثری دار الحديث کے استاذ مقرر ہو گئے اور مختلف شکلوں میں عمر کے آخری پڑاؤ تک اسی سے وابستہ رہے، اس طول طویل عرصے میں آپ کے بے شمار تلامذہ وشاگردان وسطی جھارکھنڈ کے رہے، اور آپ سے خوب خوب کسب علوم وفنون کیا۔
آپ میدان تدریس کے علاوہ میدان خطابت کے ایک عظیم انسان تھے، آپ نے اپنی خطابت کا لوہا منوایا، اور لگ بھگ پورے ہندوستان میں پہنچ کر تقریریں کیں۔
آپ کی گرج دار آواز آپ کی تقریر کو قوت عطا کرتی تھی اور پر کشش بناتی تھی، تقریر کے دوران آپ علمی باریکیاں بھی بیان کرتے تھے، اس لےک طلبہ آپ کے خطبات جمعہ سننے آپ کی مسجد میں پہنچا کرتے تھے، نہ صرف اثریہ کے، بلکہ فیض عام، عالیہ اور دوسرے مئو کے مدارس کے طلبہ بھی، میں 1992 میں فیض عام میں تھا، اور پھر 1993 میں جامعہ سلفیہ، بنارس آ گیا، جب میں مئو میں تھا تو آپ کا خطبہ سننے کے لیے آپ کی مسجد جایا کرتا تھا،، آپ کسی موضوع کو چھیڑتے یا اٹھاتے تھے تو مہینوں اسی پر خطبہ دیتے تھے، اور پورے موضوع کو آیات واحادیث اور آثار کی روشنی میں مکمل واضح اوربیان کر کے ہی دم لیتے تھے، میں جب 1992 میں ان کے خطبات سننے جایا کرتا تھا تو شہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور جنگ جمل وصفین کے وقوع کے اسباب وعوامل پر سلسلہ وار آپ کی تقریر چل رہی تھی۔
جھارکھنڈ سے چوں کہ آپ کے پڑھنے کے زمانے سے تعلقات تھے اور بعد میں کمی نہیں آئی، بلکہ مزید اضافے ہوئے، اس لےہ کبھی معاصرین کی دعوت پر اور کبھی شاگردوں کی درخواست پر آپ جھارکھنڈ میں مختلف مناسبات سے آتے رہے، آپ کتنے جلسوں میں یہاں آئے اور تقریریں کیں، سب کا ریکارڈ تو بروقت میرے پاس نہیں ہے، البتہ میری کوشش ہوگی کہ سب نہ سہی، اکثر کا علم ہو جائے، تاکہ ہماری کتاب:دامن کوہ میں کاروان رفتگاں، جلد دوم میں وہ معلومات آ جائیں، اور بحث وتحقيق کرنے والوں کے لےا بیش قیمت مواد اکٹھا ہو جائے!!
بر وقت مجھے چند پروگراموں کے متعلق جانکاری حاصل ہوئی ہے، اس سے ان شاء اللہ آپ کی دعوتی تڑپ پر روشنی پڑے گی، اور جھارکھنڈ کے آپ کے دعوتی اسفار کا ایک تعارف اہل ذوق کے سامنے آ جائے گا :
(۱)جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند، ضلع جامتاڑا کے ایک اجلاس میں 1992 میں شرکت کی تھی، مئو سے بذریعہ بس غازی پور ہوتے ہوئے بکسر پہنچے تھے، اور وہاں سے مشہور ٹرین پنجاب میل پکڑ کر مدھوپور آئے تھے، اور وہاں سے جلسہ گاہ۔
(۲)1995 میں جھارکھنڈ کے قدیم ادارہ جامعہ شمس الہدی السلفیہ، دلالپور (قائم 1878 عیسوی) میں ایک عظیم الشان اجلاس تھا، جس میں آپ تشریف لائے تھے۔
(۳)علاقے کے قدیم ادارہ جامعہ اسلامیہ یوسفیہ، منکڈیہا، گریڈیہ (قائم آزادی سے قبل) میں 20_21/ مارچ 1997 کو ایک شاندار دو روزہ اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں اس وقت کے اثریہ کے شیخ الجامعہ مولانا محمد احمد اثری رحمہ اللہ اور آپ تشریف لائے تھے، دونوں روز خطاب فرمایا تھا، جامعہ کے تاثراتی رجسٹر میں تاثراتی تحریر دو صفحات پر مشتمل مولانا محمد احمد رحمہ اللہ کے قلم سے ہے، اور اسی میں دائیں جانب مولانا عبدالشكور اثری رحمہ اللہ کا دستخط ہے۔
(۴)2002عیسوی میں علاقے کے ایک مشہور گاؤں:ناروڈیہ، ضلع جامتاڑا کے اجلاس میں تشریف لائے تھے، اور جہیز کے موضوع پر زبردست خطاب کیا تھا۔
(۵)2002 ہی میں جھارکھنڈ کے قصبہ جینت گڑھ، ضلع سنگھ بھوم میں ایک نئی مسجد کے افتتاح میں تشریف لائے تھے، اور اس موقع سے یک شبی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا، جس میں آپ نے ’ومن شر حاسد إذا حسد‘ کو موضوع بنا کر دو گھنٹے خطاب کیا تھا۔
(۶)2003 میں ضلع گریڈیہ کے گاؤں ماتھاسیر آئے تھے، اور پر معز خطاب کیا تھا۔
(۷) 2004 میں جامعہ اصلاح المومنین، برہیٹ، صاحب گنج کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی تھی، اور سود کی تباہ کاریاں کے موضوع پر گرج دار تقریر کی تھی۔
(۸)آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس، پاکوڑ میں۔
جب آدمی ثقہ عالم ہوتا ہے تو اس کی پذیرائی بڑھ جاتی ہے، شہر میسور سے لگ بھگ ستر کیلو میٹر دور ایک شہر چامراج نگر ہے، وہاں آپ ہمیشہ رمضان المبارک میں محاضرات ودروس دینے کے لےر بلائے جاتے تھے اور جب تک صحت نے ساتھ دیا، ہمیشہ گئے، وہاں آپ جماعت اہل حدیث کی طرح دیوبندیوں اور بریلویوں میں بھی یکساں طور پر مقبول تھے، میں 2018 میں وہاں رمضان المبارک میں دروس ومحاضرات پیش کرنے کے لے گیا تھا، تو سب کی زبان پر آپ کا ذکر خیر پایا۔
بعد میں آپ اثریہ کے تعاون کے لےق جایا کرتے تھے، وہاں کے لوگوں نے بتایا تھا کہ ہم لوگ ان کا چندہ رکھ دیتے ہیں!
جماعت کا ایک عظیم اور بے مثال خطیب اس دنیا سے چلا گیا، اللہ جل شانہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، لغزشوں سے در گزر کرے، جنت بریں میں داخل فرمائے، آپ کا ثانی پیدا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین!!

آپ کے تبصرے

3000