کیا دین ڈاڑھی میں اٹکا ہے؟

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی عقائد

کئی سال پہلے کی بات ہے کہ مسجد عائشہ بیدر کرناٹک میں ایک اجلاس عام منعقد ہوا، متعدد اہل علم کے دعوتی وتذکیری خطابات کے بعد سوال و جواب کی بھی ایک نشست رکھی گئی۔ شریک اجلاس عوام الناس کی جانب سے مختلف اور متنوع سوالات پوچھے گئے انھی میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ:
کیا دین ڈاڑھی میں اٹکا ہوا ہے؟؟
سائل کی نیت اللہ جانے مگر لب و لہجہ ایسا تھا جیسے یہ سوال نہ ہو بلکہ سائل ڈاڑھی رکھنے کی مکرر ترغیب سے نالاں ہو، جیسے اس پر یہ بات گراں گزری ہو کہ علماء ڈاڑھی رکھنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ جیسے یہ ان علماء کی دینی بصیرت نہ ہو بلکہ ان کی “تشدد پسندی” ہو۔
حالانکہ سائل یا ان جیسے حضرات صرف اتنا دیکھ لیتے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکرر اس بات کا حکم دیا ہے۔ ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث مروی ہیں ان میں “أعفوا” “أرخوا” “وفروا” جیسے امر کے صیغوں کا مکرر آنا خود اس ترغیب اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔
بعض معاصرین کی تحقیق کے مطابق ڈاڑھی کو دین سے جدا محض عادات کی قبیل سے سمجھنا عصر حاضر کی بدعات میں سے ہے، ماضی میں کوئی اس کا قائل نہیں رہا ہے، قرون اولی و وسطی میں کم از کم استحباب کے درجہ میں اسے شرعی مسئلہ کی حیثیت ہی سے دیکھا گیا ہے جبکہ مذکورہ نبوی اوامر کی روشنی میں راجح قول یہی ہے کہ اس کا حکم وجوب کا ہے جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے۔
سائل کا یہ سوال کہ کیا دین ڈاڑھی ہی میں اٹکا ہے؟ دراصل ایک مخصوص سوچ کا ترجمان ہے، یہ سوچ اور یہ لہجے سماج کے ایک طبقہ میں بہت عام ہیں۔
ان میں سے بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ان کی نظر میں ڈاڑھی جیسے مسائل پر گفتگو کرنا اور اس کی ترغیب دلانا گویا امت کے حق میں جرم اور امت کو حقیقی مسائل سے بھٹکانا ہو۔ امت کی ضرورت اور ان کے حقیقی مسائل ایسے شرعی مسائل نہ ہو کر محض سیاسی مسائل ہی سب کچھ ہوں۔ اسی فکر کا ترجمان ایک جملہ یہ بھی ہے “دشمن مسلمانوں کی گردنیں ناپنے میں لگا ہے اور آپ حضرات لوگوں کی ڈاڑھی ناپنے میں ۔۔۔۔۔”
یاد آتا ہے کہ ہمارے ایک سینیئر ساتھی نے مدینہ یونیورسٹی میں اپنے کلاس روم کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بوسنیا اور یوگوسلاویہ کے درمیان سخت جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ بوسنیا کا ایک طالب علم دوران درس کسی ضرورت کے تحت کلاس روم سے باہر نکلنے لگا، استاذ نے دیکھا کہ اس کا لباس ٹخنے سے نیچے ہے جو کہ شریعت کی طرف سے مردوں کے لیے مقرر کی گئی جائز حد سے متجاوز ہے۔ استاذ نے طالب علم کو روک کر تنبیہ کی تو اس طالب علم نے کہا:
استاد جی!
بوسنیا میں لوگوں کا قتل عام جاری ہے اور ایئرکنڈیشنڈ روم میں بیٹھے آپ کو میرے ٹخنے سے نیچے لٹکتے کپڑے کی پڑی ہے۔۔۔۔!
استاذ نے بڑے ہی پرسکون لہجے میں اس طالب سے کہا:
بیٹا۔۔!
ہم ٹخنے سے نیچے بھی اللہ کے احکام کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اسی لیے یہاں ایئرکنڈیشنڈ روم میں پرسکون بیٹھے ہیں۔
بات شروع ہوئی تو تھی بیدر کی مسجد عائشہ سے اور پہنچ گئی مدینہ یونیورسٹی تک۔ مسجد عائشہ میں سائل کے اس چبھتے سوال کے جواب میں بر وقت میں نے یہ عرض کیا تھا کہ:
دین ڈاڑھی میں نہیں اٹکا ہے مگر دین میں ڈاڑھی لٹکانا ضروری ہے۔ مقصود یہ تھا کہ یقینا ڈاڑھی دین کے ان بنیادی ارکان میں سے نہیں ہے جن پر پورے دین کا دار و مدار ہو مگر ڈاڑھی رکھنا دینی واجبات میں سے ہے۔
پرانی باتوں کے یاد آنے کی کوئی نئی وجہ ضرور ہوتی ہے، ہوا یوں کہ کل ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، لمبے عرصہ کے بعد ملے تھے، پہلے کے مقابلے اب کی بار انھوں نے ڈاڑھی بڑھالی تھی اور قانون فطرت کے مطابق چہرہ پہلے کی بنسبت خوبصورت بھی لگ رہا تھا۔ دوران گفتگو انھوں نے جو باتیں بتلائی ان کو سن کر ان جیسے بعض دیگر حضرات کے تجربات کی بھی یاد تازہ ہوگئی اور مجھے اپنے سابقہ جواب پر نظرثانی کرنے پر مجبور کردیا۔
ان کے بقول ان کی سگریٹ نوشی اور ڈاڑھی نہ رکھنے کی عادت نے رفتہ رفتہ انھیں دین سے دور کردیا تھا، لوگوں کی نظر سے بچ کر سگریٹ نوشی کے چکر میں اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب سارے دوست و احباب نماز کے لیے جاتے تب موقعہ کو غنیمت جان کر وہ سگریٹ نوشی کے لیے نکل جاتے، اور پھر اس غلط روش نے وہ دن بھی دکھلائے کہ بسا اوقات عین جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت تھیٹر میں فلم بینی میں مشغول رہے۔ یہ سوچ کر ڈاڑھی نہیں بڑھاتے تھے کہ ڈاڑھی کے ساتھ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے کیسا لگے گا، دماغ ایسے ہی شیطانی خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ پھر وہ کہتے ہیں: “اب جب سچے دل سے توبہ کرلی ہے اور ڈاڑھی بڑھالی ہے تو یوں لگتا ہے کہ میری ڈاڑھی میری کئی دیگر باتوں کی محافظ بن گئی ہے”۔
ایسے کتنے لوگ ہیں جنھوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کے بعد اب برا لگتا ہے کہ نماز کے وقت کہیں بازار میں مٹرگشتی کریں، برا لگتا ہے کہ سگریٹ نوشی کریں، برا لگتا ہے کہ کسی سے جھوٹ بولیں، برا لگتا ہے کہ سنیما ہال جائیں، برا لگتا ہے کہ سڑکوں پر اوباشوں کی طرح سفلی حرکتیں کریں۔
نہ جانے اور کتنے ایسے احساسات اور جذبات ہیں جو اس ایک ڈاڑھی کے ساتھ انسان کے اندر چلے آتے ہیں، اور وہ باعث خیر اور دافع شر بن جاتی ہے۔
اب میرا خیال یہ ہے کہ ہاں! دین ڈاڑھی میں بھی اٹکا ہوا ہے۔ اور میرے اس خیال کو آپ غلط نہیں قرار دے سکتے، یقین نہ ہو تو تجربہ کرکے دیکھ لیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Zahid

ماشاء اللہ بہت خوب

اللہ تعالیٰ شیخ کو اجر عظیم عطا فرمائے