جن اساتذہ کرام، اعاظمِ رجال اور قابلِ قدر شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے علوم وفنون کی تحصیل کے ہمیں زریں مواقع ملے، اُن میں استاذِ محترم مولانا نعیم الدین مدنی؍ رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔
استاذِ محترم مولانا نعیم الدین سلفی مدنی بن محمد ابراہیم بن حوصل؍ رحمہ اللہ کولپور، گرانٹ ٹولہ نبہوا، بھٹ پرا، ضلع سدھارتھ نگر، یوپی کے رہنے والے تھے، آپ کی پیدائش اسی گاؤں میں ۱۵؍ نومبر ۱۹۵۴ء کو ہوئی اور یہیں پر نشو ونما پائی۔ تحصیلِ علم وفن کے لائق ہوئے تو ابتدائی تعلیم کی تحصیل کا آغاز بھٹ پرا میں قائم مدرسہ مفتاح العلوم سے کیا، پھر مدرسہ بحر العلوم، انتری بازار میں داخلہ لے کر فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے علاقے کے قدیم ادارہ جامعہ دارالہدیٰ، یوسف پور میں داخلہ لیا اور عربی کی پہلی جماعت سے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد شہرِ علم وآگہی، شہرِ قدیم، اور ادیان ومذاہب کے شہر بنارس کا رخ کیا، اور جامعہ رحمانیہ، مدنپورہ میں داخلہ لیا، اور یہاں ایک سال رہ کر ماہرینِ علوم وفنون اساتذہ کرام سے اکتسابِ علم وفن کیا، اور پھر جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) جیسی جماعتِ اہلِ حدیث، ہند کی مرکزی دانش گاہ میں خوشہ چینی کرنے کا ربِ ذوالجلال نے موقع عطا فرمایا، اور ۱۹۷۵ء میں عالمیت اور ۱۹۷۷ء میں فضیلت کر کے فراغت پائی۔
ہندوستان کے سلفی مدارس وجامعات کے فارغین کی ہمیشہ یہ چاہت ہوتی ہے کہ اُنھیں سعودی عرب کی کسی یونیورسٹی میں بالخصوص جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں داخلہ مل جائے اور اس کے لےی وہ تمام تر کوششیں بھی کرتے ہیں۔ استاذِ محترم؍ رحمہ اللہ نے بھی جامعہ اسلامیہ میں داخلے کی بھر پور کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کامیابی بھی ملی، آپ مدینہ رسول ﷺ تشریف لے گئے اور ’کلیۃ الدعوۃ وأصول الدین‘ میں داخلہ لے کر بی، اے کی ڈگری ۱۹۸۲ء میں حاصل کی، پھر رابطہ عالمِ اسلامی، مکہ مکرمہ کے تحت چلنے والے ادارہ برائے ڈپلوم عالی میں داخلہ لیا اور ڈپلوم عالی کا کورس مکمل کیا۔
اس طول طویل علمی سفر کے دوران جن اساتذہ کرام کی شفقت ومحبت حاصل رہی اور جن سے علوم وفنون کی تحصیل کر کے عالم ومدرس اور داعی بننے کے لائق ہوئے، اُن میں مولانا محمد ابراہیم رحمانی، شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی بہاری، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبدالوحید ابوالقاسم رحمانی، مولانا عابد حسن رحمانی، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، فقیہِ ہند وماہرِ اسمائے رجال علامہ محمد رئیس ندوی، مولانا عبدالسلام مدنی، شیخ عبدالمحسن العباد، شیخ عبداللہ غنیمان، شیخ علی عبدالرحمن حذیفی، شیخ ابراہیم السقا اور شیخ عبدالمقصود جاراللہ وغیرہم بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔
رابطہ عالمِ اسلامی، مکہ مکرمہ سے ڈپلوم عالی کا کورس کرنے کے بعد رابطہ ہی میں ہندوستان میں بطورِ داعی ومدرس کام کرنے کے لےس تعاقد کی درخواست پیش کی، اُس وقت رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری شیخ محمد علی الحرکان تھے، اُنھوں نے آپ کی درخواست منظور کی اور رابطہ عالمِ اسلامی سے تعاقد کا خط ۹؍ محرم الحرام ۱۴۰۳ھ کو جاری ہوا، جس کا حوالہ نمبر ۲۷۵۷ ہے، اُس خط میں یہ مذکور ہے کہ آپ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، ہند کی نگرانی اور شیخ عبدالوحید عبدالحق سلفی کی سرپرستی میں کام کریں گے، آپ کا اور چند دیگر مشائخِ کرام کا رابطہ سے تعاقد ایک ہی وقت میں ہوا تھا، اور رابطہ کا جو خط جاری ہوا تھا، وہ بھی ایک ہی تھا، آپ کے ساتھ ہمارے علاقہ جھارکھنڈ کے موقر عالم دین، استاذِ محترم شیخ عبدالعلیم عبدالعزیز سلفی مدنی [شیخ الحدیث ومفتی جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ، جھارکھنڈ] کا بھی تعاقد ہوا تھا، اور تعاقد کا وہ خط مجھے انہی سے ملا ہے، اور جن دیگر ہندوستانی علماء کا تعاقد آپ کے ساتھ ہی ہوا تھا، وہ ہیں شیخ محمد اسلام دین محمد(اکرہرا، یوپی)، شیخ راحت اللہ عظمت اللہ (پرتاپ گڑھ، یوپی)، شیخ وحیدالزماں ابوالخیر (مئو)، شیخ جمیل احمد محمد شفیع (مفتی مرکزی جمعیت اہل حدیث، ہند)، شیخ مظفرالحسن مولوی شکراللہ (الٰہ آباد)، شیخ محمد نسیم اخترمحمد عین الحق (بہار)، شیخ عبدالرحمن عصمت اللہ (مئو)، شیخ حاجی احمداللہ قریشی (تمل ناڈو)، شیخ محمد نعمان عبدالسبحان (تمل ناڈو)۔
مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی اُن دنوں مرکزی جمعیت اہل حدیث، ہند کے امیر اور مادرِ علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس کے ناظمِ اعلیٰ تھے، اس لے ممکن ہے کہ جب تعاقد کا خط اُن کے پاس پہنچا ہوگا، تو انھوں نے جامعہ سلفیہ میں کام کرنے پر مامور فرمایا ہوگا۔ آپ جامعہ سلفیہ تشریف لے آئے اور ۱۸؍ نومبر ۱۹۸۲ء سے تام دمِ واپسیں (۲۲؍ اگست ۲۰۲۱ء تک)جامعہ سلفیہ سے منسلک رہے، اور دعوت وتعلیم، تدریس وتربیت اور دیگر ذمہ داریاں پورے اخلاص ومحنت سے انجام دیتے رہے، تقبل اللہ جہودہ وجعل الجنۃ مثواہ!!
استاذِ محترم مولانا نعیم الدین مدنی؍ رحمہ اللہ ہمارے اُن اساتذہ کرام میں سے ایک تھے، جن سے ہم لوگوں کو بہت زیادہ پڑھنے کا موقع ملا، آپ سے ہمارے درجے والوں کو ثانویہ میں کلیلہ دمنہ، دیوانِ حماسہ، معلم الانشاء (جلد دوم)، عالمیت میں ’البلاغۃ الواضحۃ‘ اور فضیلت میں ’تفسیر فتح القدیر‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے لگ بھگ چالیس سال تک جامعہ سلفیہ میں تدریسی خدمات سر انجام دیں، اس طویل عرصے میں آپ کے زیرِ درس جو کتابیں رہیں، اُن میں مذکورہ کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری [جلد اول]، سنن ابی داؤد، تفسیر جلالین، السراجی، حصول المامول، تدریب الراوی، بدایۃ المجتہد، شرح الوقایۃ اور حجۃ اللہ البالغۃ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
کبھی کبھی مدارس میں اساتذہ کے مابین مضامین وکتب کی تقسیم کے دوران کتابوں اور مضامین کو لے کر چھوٹا موٹا ایک آدھ واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ ہم لوگ عالمیت میں تھے اور کتابوں کی تدریس کا پہلا پروگرام جاری ہوا، تو آپ کو ’البلاغۃ الواضحۃ‘ تدریس کے لےت دی گئی، حالانکہ اس سے قبل اس کلاس میں آپ ’امتاع العقول‘ پڑھاتے تھے، آپ نے البلاغۃ الواضحۃ پڑھانا شروع کر دیا، ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آپ سے یہ کتاب لے لی گئی اور پھر امتاع العقول دے دی گئی، تو آپ ڈٹ گئے کہ مجھے ’البلاغۃ الواضحۃ‘ ہی پڑھانا ہے، ’امتاع العقول‘ نہیں لوں گا، چاہے رابطہ عالم اسلامی میں لکھ کر میری شکایت کر دی جائے، بہر حال دوبارہ آپ کو ’البلاغۃ الواضحۃ‘ مل گئی۔
آپ جو بھی کتاب پڑھاتے تھے،بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ اس کا اعتراف آپ کے تمام شاگردوں کو ہے۔ عبارت فہمی اور مغلق عبارت کو آسان بنا کر پیش کرنے کا آپ کو ہنر حاصل تھا، بے جا طویل گفتگو نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کتب احادیث کی تدریس میں فقہا کے اختلافات کو بیان کرنا ضروری سمجھتے تھے، بلکہ استاذِ محترم مولانا عبدالسلام مدنی؍ رحمہ اللہ کی طرح راجح قول بیان کرنے اور حدیث سے مستنبط علمی مسائل کو واضح کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ آپ ہنستے ہنساتے پورا نصاب گھنٹی ہی میں پڑھا دیتے تھے۔ اِدھر سال پورا ہوتا تھا اور اُدھر نصاب بھی۔
کبھی کبھار کسی ادارہ میں کسی استاذ کو کسی آزمائش میں ڈالنا مقصود ہوتا ہے، تو اسے مشکل کتاب کی تدریس بلا ضرورت سونپ دی جاتی ہے۔ آپ نے ایک دن بتلایا تھا کہ ایک مرتبہ مجھے، جب میں شروع شروع میں جامعہ آیا تھا اسرارِ شریعت کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ تدریس کے لےو دے دی گئی، حالانکہ اس سے قبل استاذ الاساتذہ علامہ محمد رئیس ندوی؍ رحمہ اللہ پڑھاتے تھے، اور اس تبدیلی کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے ندوی صاحب سے ملاقات کی اور انھیں اس بات کی جانکاری دی، تو انھوں نے کہا کہ آپ کے لےن آزمائش ہے، آپ گھبرائیں نہیں، خوب محنت کیجیے اور جہاں جہاں سمجھنے کی ضرورت پڑے مجھ سے رجوع کر لیجیے گا، میں آپ کی پوری مدد کروں گا۔ مولانا کا بیان ہے کہ میں نے خوب محنت کی اور پورے سال پڑھایا، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کسی سے پوچھنے کی ضرورت پڑی، نہ ندوی صاحب سے رجوع کرنے کی نوبت آئی۔
تدریس کے علاوہ ندوۃ الطلبہ (طلبہ کی یونین)کے ہفتہ واری اور سالانہ پروگراموں میں بطورِ حکم اور صدر شرکت فرماتے تھے، اور بلا کسی تعصب کے ہر مستحق کو اس کا جائز حق دیتے تھے۔ کبھی کبھی لوگ اس قسم کے موقعوں پر انصاف اور عدل کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ فضیلت سالِ آخر میں میرے مقالے کے مشرف تھے۔ مقالے کا عنوان تھا:’مجلہ المنار، شمارہ:۱ تا ۱۸:تعارف وتبصرہ‘۔ یہ عنوان مجھے جامعہ کے تعلیمی بورڈ کی طرف سے ملا تھا، ورنہ عام طور پر طلبہ چند عناوین مشرف کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور وہ انہی میں سے کسی کی تعیین کر دیتے تھے۔جامعہ کا مقصد اس نوع کے عنوان کے تحت مقالہ تیار کرانے کا یہ تھا کہ مجلہ المنار پر کام کرنے والوں کے لے یہ ایک مرجع کی حیثیت رکھے گا، اور تحقیق وریسرچ کرنے والوں کو اس سے مطلوبہ معلومات تک بہ آسانی رسائی ہو جائے گی۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور توفیق سے ’مجلۃ البحوث الاسلامیۃ‘(دارالافتا، ریاض)کے طرز پر چار سو صفحات پر مشتمل مقالہ تیار کیا تھا۔ اتنے لمبے مقالے کا مراجعہ وتصحیح کا کام واقعی بہت صبر آزما اور تھکا دینے والا تھا، مگر آپ نے کبھی بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کی، ایک ایک حرف کو پڑھا، بڑے حوصلوں سے نوازا، تعریف وتحسین فرمائی اور مقالے میں امتیازی نمبرات عطا کیے۔
آپ ایک خود دار مدرس اور کام سے مطلب رکھنے والے انسان تھے، اورایسا اس لےے تھا کہ رب کریم نے آپ کو تدریسی لیاقت اور صلاحیت سے نوازا تھا، جب آدمی تدریس میں کمزور رہتا ہے تو چاپلوسی کا دامن تھامنے پر مجبور ہوتا ہے اور ذمہ داران کی چاپلوسی میں زیادہ محنت ووقت لگاتا ہے۔ آپ کو کبھی بھی ذمہ دار کی چاپلوسی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، آپ کا کہنا تھا کہ مجھے شان سے جینا پسند ہے، اور اسی لےھ بعض سہولیات کو پانے میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتا ہوں۔
میں ۱۹۹۳ء سے دسمبر ۱۹۹۸ء تک جامعہ سلفیہ میں زیر تعلیم رہا۔ اس اثنا میں آپ کو جامعہ سلفیہ کی عظیم الشان مسجد میں کبھی بھی خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، اور کبھی اس کے متعلق پوچھ بھی نہیں سکا کہ آپ یہاں خطبہ کیوں نہیں دیتے ہیں۔ البتہ آپ شہر بنارس میں موجود اہل حدیث مسجدوں میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ سننے والوں کا بیان ہے کہ آپ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، اور جس موضوع کو اٹھاتے تھے، اس پر سیر حاصل روشنی ڈالتے تھے۔ مولانا عبدالمتین مدنی [استاذ جامعہ سلفیہ بنارس] لکھتے ہیں کہ:’’استاذِ محترم مولانا احسن جمیل مدنی حفظہ اللہ وتولاہ کی معاونت میں جب خاکسار نے مشہور تاریخی مسجد طیب شاہ، مدنپورہ میں خطیبوں کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالی تو شیخ نعیم الدین صاحب رحمہ اللہ سے بھی گزارش کی کہ آپ بھی اس مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں، الحمد للہ استاذ محترم نے اس مسجد میں بھی متعدد خطبے دیے، آپ کا انداز خطابت کے تکلف سے پاک تھا، نہ پیشہ ور خطیبوں کی طرح گھن گرج، اور نہ مشہور واعظوں کی طرح رقت طاری کرنے کی ماحول سازی۔ نشیب وفراز کے بجائے تقریباً درسی انداز میں آپ خطبہ دیتے تھے، اور جس موضوع کو اختیار کرتے دوران خطبہ اس میں شوشے پیدا کر کے ٹائم پاس نہیں کرتے تھے، اسی لےج بعض وہ لوگ جو اس طرح کی تقریر اور خطبوں کو پسند نہیں کرتے ، ان کو آپ کی تقریر کی یہ خوبیاں نہیں بھاتی تھیں۔‘‘
آپ نے تدریس ودعوت کے علاوہ بعض انتظامی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں، اور پوری محنت ولگن سے ادا کرنے کی کوشش کی۔ ہم لوگوں کے زمانے میں ’ندوۃ الطلبہ‘ کی بعض سرگرمیوں کے آپ ذمہ دار ہوا کرتے تھے، اور پوری محنت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ ہم لوگوں کی فراغت کے بعد آپ ’دارالافتا‘ سے بھی منسلک رہے، اسی طرح دسمبر ۲۰۰۶ء سے اکتوبر ۲۰۰۹ء تک نائب شیخ الجامعہ، اور اکتوبر ۲۰۰۹ء سے ۲۵؍ مئی ۲۰۱۶ء تک شیخ الجامعہ کے منصبِ عظیم پر فائز رہے۔
آپ نے طلبہ پر بے جا رعب قائم کرنے کی کوشش کبھی بھی نہیں کی، بلکہ طلبہ کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے اور طلبہ بھی آپ کا پورا احترام وعزت کیا کرتے تھے، اور بعض امور میں آپ سے مشورے لیا کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی آپ سے توصیات بھی لکھوایا کرتے تھے۔ میں بھی اُن میں سے ایک ہوں، میں آپ کے پاس ایک دن پہنچا اور ایک توصیہ عنایت کرنے کی درخواست کی، پہلے آپ نے فرمایا کہ مجھ جیسے معمولی آدمی سے توصیہ لے کر کیا کیجیے گا؟، بڑے بڑوں سے لیجیے، میں نے کہا کہ نہیں شیخ، آپ ہمیں دیجیے، ان شاء اللہ آپ کا توصیہ میرے لے؟ مددگار ثابت ہوگا۔ آپ نے ایک جامع توصیہ عربی میں لکھ کر مرحمت فرمایا، جس میں آپ نے لکھا:
عزت مآب مدیر ایڈمیشن ڈپارٹمنٹ؍ حفظہ اللہ ورعاہ
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
طالب؍ اشفاق احمد بن سجاد حسین، جس کا تعلق ہندوستان سے ہے، اورجس نے جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس سے فراغت پائی ہے، اور اسی جامعہ سے عا لمیت وفضیلت کی ڈگریاں حاصل کی ہیں، میرا شاگرد ہے، میری نگاہ میں یہ اچھے اخلاق وکردار کا حامل ہے اور تحصیلِ علوم وفنون پوری دل جمعی اور للک سے کرتا ہے، اور اسی لےغ میں اس کا تزکیہ کرتا ہوں، اور حقیقتِ حال سے تو اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔
طالب مذکورکے اندر آپ کی یونیورسٹی کے کسی کالج میں داخلہ پانے، وہاں کے کبار اور ماہرین اساتذہ سے کسبِ فیض کرنے، اور مختلف علوم وفنون اور اسلامی معلومات سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کی بے تحاشا چاہت وخواہش ہے۔
اسی چاہت وخواہش کو دیکھتے ہوئے میری آپ کی کریمانہ ذات سے یہ گزارش ہے کہ اس کی داخلے کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشیں گے!
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا دینی بھائی:
نعیم الدین محمد ابراہیم
مدرس جامعہ سلفیہ، بنارس
آپ کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ اپنے تلامذہ کے کاموں کو بہت سراہتے تھے، اور نیک دعائیں دیتے تھے۔ مولانا محمد رضوان سلفی [پورنیہ، بہار] لکھتے ہیں کہ:’’استاذِ مکرم ایک بار اپنے گاؤں میں واقع مادرِ علمی جامعہ دارالسلام، ڈنگرہ گھاٹ، پورنیہ، بہار کے جامعہ سلفیہ، بنارس کے ساتھ الحاق کے موقع پر معائنہ کے لےا ڈنگرہ گھاٹ تشریف لائے تھے، میری ادنیٰ درخواست پر ہمارے نسواں تعلیمی ادارہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ کی زیارت کی، بے پناہ خوشی کا اظہار کیا، اور شاباشی دی، اساتذہ وذمہ داران سے ملے، اور سب کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جامعہ اس وقت ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا۔ تعمیری ترقی اور تعلیمی بہتری کے لےز نہایت قیمتی مشورے دیے، دل کھول کر دعائیں دیں۔‘‘
آپ نے لکھنے کا کام بہت کم کیا۔ آپ کا ایک وقیع اور مبسوط مقالہ عربی زبان میں بعنوان:’’الإسراء والمعراج في ضوء الکتاب والسنۃ‘‘(اسراء اور معراج:قرآن وحدیث کے آئینے میں)ماہنامہ ’صوت الامۃ‘ میں استاذِ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری؍ رحمہ اللہ کی ادارت کے زمانے میں متعدد قسطوں میں شائع ہوا تھا، اس کے علاوہ دیگر مطبوع تحریریں میری نگاہ سے نہیں گزری ہیں۔
فراغت کے بعد مجھے مادر علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) بنارس جانے کا بہت کم ہی اتفاق ہوا، اس لیے صرف تین بار ہی آپ سے ملاقات ہو پائی۔ ایک بار ۲۰۰۳ء میں مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی تھی، جب آپ اور استاذِ محترم مولانا محمد حنیف مدنی؍ رحمہ اللہ اور مولانا جمیل احمد مدنی؍ حفظہ اللہ (تینوں حضرات) رابطہ عالمِ اسلامی، مکہ مکرمہ کی دعوت پرایک ریفریشر کورس کرنے کے لےی تشریف لے گئے تھے، اور میں مرکز الجالیات، احدرفیدہ، ابہا میں مترجم کی حیثیت سے کام کرنے کے لےن گیا تھا، اور عمرہ کرنے کے لےں مکہ مکرمہ آیا ہوا تھا، سب سے لمبی اور آخری ملاقات جامعہ سلفیہ میں ۲۰۱۹ء میں ہوئی تھی، جب میں جامعہ کے ایک پروگرام میں شرکت کی غرض سے وہاں گیا ہوا تھا، آپ سے جب بھی ملاقات ہوئی، پوری اپنائیت کے ساتھ ہوئی،اور تیسری وآخری ملاقات کئی سالوں کے بعد ہوئی تھی، پھر بھی پہلی فرصت میں پہچان گئے، اور بولے اشفاق!
یوں تو آپ شوگر کے مریض تھے، مگر خبر آئی کہ آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ گورکھپور میں زیرِ علاج ہیں، آپ کے چاہنے والے اور تلامذہ صحت وتندرستی کے لےع برابر دعائیں کرتے رہے، مگر افاقہ نہ ہوا، اور ۹؍ اگست ۲۰۲۱ء کو دہلی ریفر کر دیا گیا، ایمس میں علاج چلنے لگا، مگر قسامِ اجل کا بلاوا آنے والا تھا، اس لے کچھ بھی افاقہ نہ ہوا، اور ۲۲؍ اگست ۲۰۲۱ء مطابق ۱۲؍ محرم الحرام ۱۴۴۳ھ، اتوار کو نصف شب میں ایمس دہلی ہی میں آخری سانس لی، اسی دن اپنے آبائی گاؤں لائے گئے اور بعد نمازِ عصر تدفین ہوئی، نماز جنازہ میں علماء وعوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اور دعائے مغفرت کی، نماز جنازہ آپ کے استاذِ گرامی مولانا محمد ابراہیم رحمانی؍ حفظہ اللہ (استاذ دارالہدیٰ، یوسف پور)نے پڑھائی۔
آپ کے پسماندگان میں چار لڑکے (عبدالحق، ضیاء الحق، عبدالرحمن، عبدالسلام)اور چار لڑکیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
آپ کی وفات پر بہت سے اہلِ قلم نے تاثراتی تحریریں قلم بند کیں، استاذِ محترم شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی مدنی؍ حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے لکھا کہ:’’استاذ محترم مولانا نعیم الدین مدنی کا انتقال علمی دنیا کا ایک خسارہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، آپ ایک متواضع وملنسار اور عالمانہ اخلاق وعادات سے متصف انسان تھے، آپ ایک ممتاز معلم ومربی اور کامیاب داعی تھے، تفسیر، حدیث اور فقہ کی کتابیں آپ بڑی محنت اور شوق سے پڑھاتے تھے، میں نے فقہ مقارن میں بدایۃ المجتہد جیسی اہم کتاب مولانا سے پڑھی، مولانا بنارس واطراف کی مساجد میں بسا اوقات اور حافظ ظہور والی مسجد میں ایک جمعہ میں اور ایک جمعہ مولانا پابندی سے خطبہ جمعہ دیتے تھے، چوں کہ جامعہ سلفیہ کی مجلسِ افتاء کے چھ اعضاء میں سے ایک رکن میں بھی تھا، اس لےد افتاء میں مولانا کی دقتِ نظری اور برجستگی کا قریب سے اندازہ ہوا۔‘‘[ہندوستان اکسپریس، ۲۴؍ اگست ۲۰۲۱]
بزرگ عالم دین مولانا خورشید احمد سلفی (شیخ الجامعہ، جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈانگر، نیپال) نے واٹس ایپ میں ایک تحریر لکھی، جو بہت وقیع ہے، اس میں انھوں نے لکھا کہ:’’موصوف جامعہ سلفیہ بنارس کے میرے اچھے ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک ہی روم میں ہم رہتے ، او رساتھ ہی آں رحمہ اللہ وشیخ جمیل احمد مدنی مفتی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، وشیخ اشفاق احمد مدنی رحمہ اللہ سابق استاذ جامعہ عالیہ عربیہ، مئو ناتھ بھنجن ناشتہ وکھانا کھاتے تھے۔
شیخ رحمہ اللہ مرنجاں مرنج ہی نہیں بلکہ بڑے پُر لطف، خوش اخلاق، ملنسار اور دل نواز تھے۔ افسردہ کو مسرور اور روتے ہوئے کو ہنسا دیتے تھے۔ امتحان کی تیاری والی راتوں میں جب طبیعت پژمردہ ہونے لگتی، تو وہ سبھوں کو ہنسا کر تازہ دم کر دیتے تھے، ۔۔۔۔۔اب جب کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، تو ان کی خوش اخلاقی، دلنوازی کو یاد کر کے بار بار غالب کا یہ شعر دماغ پر دستک دے رہا ہے کہ:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘
آپ پر واٹس ایپ گروپوں میں نشر ہونے والے مقالات ومضامین میں سب سے اہم تاثراتی مضمون شیخ عبدالمتین مدنی (بنارس) کا ہے، چوں کہ استاذِ محترم رحمہ اللہ سب سے زیادہ ایک مدرس کی حیثیت سے متعارف تھے، اور آپ کی بنیادی خدمات بھی اسی میدان میں ہیں، اس لےح تدریسی مہارت اور لیاقت سے متعلق ایک پیراگراف یہاں نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، شیخ عبدالمتین لکھتے ہیں:’’جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ اور المعہد العالی للدعاۃ، مکہ مکرمہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ میں بحیثیتِ مدرس تشریف لائے، غالباً اس سال میں عالم اول میں زیرِ تعلیم تھا، اور ہندوستانی مدارس میں پڑھائی جانے والی تفسیر کی مشہور کتاب ’جلالین‘ (جلد اول) آپ نے ہم لوگوں کو پڑھائی، آپ کی تدریس کا انداز بڑا پیارا تھا، رعب کے بجائے نرمی وشفقت غالب تھی، دورانِ درس طنز ومزاح، طلبہ کے ناموں میں نکتہ آفرینی، ماحول کو شگفتہ بنانے کے لےق علاقائی زبانوں کی نقل اتارنا آپ کا عام معمول تھا، اسی لے، طلبہ عموماً آپ کا درس بڑی دل چسپی سے سنتے اور اکثر اوقات محظوظ بھی ہوتے تھے۔‘‘
مولانا رشید سمیع سلفی نے آپ کی وفات کے بعد واٹس ایپ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے لکھا کہ:’’آج ایک اور جید عالم دین کی موت سے دنیائے علم میں ویرانی اور چمنِ حیات میں اداسی پھیلی ہے۔ شیخ نعیم الدین مدنی جامعہ سلفیہ میں ایک قابل قدر اور با وقار مدرس تھے، تدریس میں غیر معمولی درک تھا، مختلف علوم وفنون کی کتابیں آپ نے پڑھائیں، اور ایک زمانے نے آپ کے علمی دسترخوان سے خوشہ چینی کی، آپ کا اسلوب تدریس دھیان بٹنے نہیں دیتاتھا، کبھی کبھی ہلکا پھلکا مزاح بھی فرما لیتے تھے، طبیعت شگفتہ ہو جاتی تھی، قدیم زمانے کے علماء کے اقدار وروایات کے امین تھے، شخصیت ظاہری وباطنی نفاست سے معمور تھی، طلبہ کے ہاسٹل میں آپ کا کمرہ تھا، نگرانی آپ کے ذمے تھی، بے ضرر قسم کے انسان تھے، بلا وجہ طلبہ پر نگرانی کی دھونس نہیں جماتے تھے، غیر ضروری سختی سے بچتے تھے، طلبہ بے زار نہیں بلکہ طلبہ نواز تھے، ایسا بھی نہیں تھا کہ غلطیوں کو نظر انداز کر دیں، اصولوں پر کار بند تھے، جب کبھی کوئی آپ کے اصولوں کی زد میں آیا تو پتہ چلا کہ بظاہر سادہ اور بے ضرر نظر آنے والا انسان کتنا با اصول اور منظم ہے، سادگی پسند تھے، مگر سادہ لوح نہیں تھے۔‘‘
اور بعض شعراء نے آپ کو منظوم کلام میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہاں صرف ایک بڑے اور کہنہ مشق شاعر سالک بستوی کا کلام نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ سالک بستوی لکھتے ہیں:
نعیم الدین مدنی کو بھلائیں کس طرح سے ہم؟
ہے ان کی موت کا صدمہ، ہوئی جاتی ہیں آنکھیں نم
’بنارس سلفیہ‘ کیسے بھلائے ان کی خدمت کو
بصد اخلاص لہراتے رہے تدریس کا پرچم
جسے بھی دیکھیے ہے آبدیدہ ان کی رحلت سے
غم واندوہ میں ڈوبا ہوا لگنے لگا عالم
منور کر دیا دنیا کو اپنی حق بیانی سے
کسی طاقت کے آگے سر ہوا ان کا کبھی نہ خم
غم دوراں بسائے پھر رہے تھے اپنے سینے میں
مسیحائی کے ماہر تھے سبھی کا بانٹتے تھے غم
’نعیم الدین‘ کا نعم البدل دے اے مرے مولا!
چراغ بزم الفت کی ہوئی ہے لو بڑی مدھم
رہے اللہ خوش ان سے، انھیں اللہ دے جنت
اے سالکؔ یہ دعا کرتے رہو ان کے لے ہر دم
استاذِ محترم اب ہمارے بیچ نہیں رہے، اللہ تعالیٰ آپ کی حسنات وخدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، لغزشوں سے درگزر فرمائے اور جنتِ بریں میں داخل کرے۔ آمین
نہایت متاثر کن تحریر
آنکھیں اشکبار تو دل پر اداسی چھا گئی۔
زبان سے بے ساختہ دعائیہ کلمات نکل پڑے۔
اللہم اغفر لہ و ارحمہ