الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبه وسلم تسليما كثيرا، أما بعد
قال الله تعالى : وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلا(سورة آل عمران:۱۴۵)
ایک انسان کے لیے یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایام کو نیک اور بامقصد بنائے ، دین کی خدمت اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دے، قرآن و سنت کی دعوت اوراس كو سیکھنے سکھانے میں زندگی کا بیشتر حصہ اسی میں صرف كردے،یہ چیز توفيق الہى نيز پروردگار کے فضل وکرم کے بعد انسان کی محنت اور صبر و تحمل کا نتیجہ ہوتا ہے – وأن الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء
بروز بدھ ٩ فروری۲۰۲۲ کو استاد محترم شیخ حافظ محمد الیاس بن عبد القادر رحمہ اللہ کی خبر وفات سن کر عجیب سی کیفیت ہو گئی- رحمه الله تعالى رحمة واسعة وأسكنه فسيح جناته
اس میں کوئی شک نہیں کہ موت ہر ایک کو آنی ہے مگر کچھ لوگوں کی موت سے ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک خواب تھا ، ان کی موت کی خبر ناقابل یقین سی لگتی ہے اور نہ جانے کیوں ایسے مواقع پر کچھ کہنے سننے کی سکت باقی نہیں رہ جاتی۔
استاد محترم رحمہ اللہ مسلسل کئی ماہ سے مختلف بیماریوں سے گهرے تھے اور اس دوران بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
خاموش مزاجی، خیرخواہی، شہرت سے دوری ،خاکساری ،نرمی، یہ سب موصوف رحمہ اللہ کی نمایاں صفات ہیں، جس جگہ ، ياجس منصب پہ تھے چاہتے تو اپنے آپ کو شہرت کا ایک نمودار ستارہ بنا لیتے؛مگر تو اضع اور انکساری کا عالم یہ تھا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے امام اور پڑوسی ہونے کے باوجود بلاضرورت ان سب چیزوں کا ذکر کرنے سے گریز کرتے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد تقریبا سال بھر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے مکان میں تھے۔ ان کے ساتھ علمی تعاون بھی کرتے تھے اس کے باوجود شیخ ابن باز رحمہ اللہ حافظ صاحب کو امامت کے لیے آگے بڑھاتے۔حافظ صاحب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے کئی بار کوشش کیا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو امامت کے لیے مقدم کروں مگر ابن باز رحمہ اللہ سختی سے منع کرديتے کہ آپ اس مسجد کے متعین امام ہیں لہذا آپ ہی نماز پڑھائیں،بلکہ استاد محترم کے لیے یہ بھی شرف کی بات رہی کہ ائمہ حرم اور نہ جانے کتنے علماء اور محدثین، شہزادے اور وزراء نےآپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔(وکان فضل اللہ علیک عظیما)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی سیرت و سوانح کے مقالہ نگار آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، بہت سی باتوں کی تصدیق کے لیے آپ کو مرجعى حیثیت سے دیکھتے ہیں ، آپ رحمہ اللہ شيخ ابن باز کے کئی شاگردوں کے بهى استاذ قرآن و تجوید ہیں۔
جامعہ ملک سعود کے ایک استاد ڈاکٹر تیسیر بن سعد أبو حيمد حفظہ الله(جو ابن باز رحمہ اللہ کے قریبی شاگردوں میں سے ایک ہیں، اور یہ بھی حافظ صاحب رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، حدیث اور علوم حدیث کے متخصص ہیں ، آپ کى شاگردى میرے لیے شرف کی بات ہے ، آج کل شیخ ابن باز رحمہ الله کے کچھ علمى دروس کو کتابی شکل دینے میں مصروف ہیں)کہتے ہیں کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ حافظ صاحب سے بڑی محبت کرتے تھے ان کو کئی معاملات میں مقدم رکھتے تھےان کا احترام بھی کرتےتھے، اور حافظ صاحب رحمہ اللہ شیخ کے درس میں عبارت خوانی کا فریضہ انجام دیتے مثلاً ریاض الصالحین اور بلوغ المرام وغیرہ، شاگردوں کی طرف سے جو سوالات آتے اسے پڑھ کر شيخ ابن باز رحمہ الله كو سناتے، اگر کوئی دوسرا شخص سوال پڑھتا تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ منع کردیتے اور کہتے کہ جو قاری (عبارت پڑھنے والے) ہیں انھی کو سوالات کی پرچی دے دو۔
شہر ریاض کی ایک مسجد (جامع المدینہ) میں عصر تا عشاء (حلقات تحفیظ القرآن الكريم) کا سلسلہ چلتا ہے جہاں پر مختلف مراحل کے اعتبار سے طلباکے لیے حفظ قرآن نیز تجوید سیکھنے سکھانے کا انتظام کیا گیا ہے، حافظ صاحب سے اسی مسجد میں شاگردی کا موقع ملا،حفظ قرآن میں حافظ صاحب کے يہاں تساہل نہیں تھا نیز مراجعہ(آموختہ يا سبق پاره)پر بھی دھیان دیتے تھے۔
اُس وقت آپ کے دو بیٹے خالد اور حامد بھی استاد تھے اور ان دونوں سے بھی الحمدللہ شاگردی کا موقع ملا، بقیہ تین بیٹے راشد، ماجد اور مساعد اس وقت حفظ کرتے تھے،یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان اپنی اولاد کی دینی تربیت کرے اور انھیں صدقہ جاریہ بنا دے۔
حافظ صاحب نیز ان کے دونوں بیٹوں سے شاگردی سن ۲۰۰۵ سے پہلے کی ہے اور اب تک الحمدللہ حافظ صاحب اور ان کے بڑےبیٹے (خالد)حلقات تحفیظ القرآن سے منسلک ہیں۔
اب تک کا مشاہدہ ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ریاض کے دینی پروگراموں میں کبھی بلا عذر غیر حاضری نہیں کی بلکہ جس پروگرام میں کسی خاص مجبوری کے تحت شرکت نہ کر سکتے تو اس میں اپنے بیٹوں کو بھیج دیتے ، حافظ صاحب کی آمد سے بڑے علمی فائدے ہوتے آپ کا انداز بیان نرالا ہوتا ،افہام و تفہیم کا ملکہ تھا، بے جا تکلفات اور بھاری بھرکم جملوں سے پرہیز کرتے، دوسرے مقررین اور شرکاءکی حوصلہ افزائی کرتے ،پروگرام کے اختتام پر کچھ دیر رکتے اور ملاقاتیں کرتے ، خیر خیریت دریافت کرتے اس کے بعد واپسی کا رخت سفر باندھتے،اسٹیج پر بیٹھنے نیز اپنے آپ کو نمایاں يا ظاہر کرنے، دوسروں کو مرعوب کرنے سے کوسوں دور رہتے، بلکہ کچھ پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا اور چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد یہ احساس ہوا کہ شاید آج حافظ صاحب کی آمد نہیں ہوئی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا کہ حافظ صاحب سامعين کے درمیان خاموشی سے بیٹھے ہیں اور یہی حال ان کے بیٹوں کا بھی ہے کہ اپنے آپ کو بار عب یا نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے- ولا نزكي على الله أحدا
۱۳؍اكتوبر۲۰۲۱ کو جس وقت میں ہندوستان میں تھا ان کے سب سے چھوٹے بیٹے مساعد نے میرے پاس میسج کیا کہ والد صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں، اور پوچھ رہے ہیں کی بر وقت کہاں پر ہو؟ چونکہ اس وقت بھی حافظ صاحب ہسپتال میں تھے اس لیے بات نہ ہو سکی البتہ مساعد سے کہہ دیا تھا کہ ابھی ہندوستان میں ہوں مگر جلد آنے کی کوشش میں ہوں۔ جنوری میں الحمداللہ ریاض پہنچنے کے بعد حافظ صاحب کے دوسرے بیٹے حامد کو میسج کیا کہ حافظ صاحب سے ملاقات کی تمنا ہے، مناسب دن اور وقت کی تعیین کر دیجیے تاکہ ملاقات ممکن ہو، شیخ حامد حفظہ اللہ نے اس وقت مثبت جواب دیا كہ ان شاءاللہ میں آپ سے رابطہ کرتا ہوں، مگر کچھ ہی دن کے بعد حافظ صاحب کی طبیعت دوبارہ بگڑ گئی اور ان کو اسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا ۔ دن بہ دن مرض بڑھتا گیا اور آخر میں( آئی سی یو)میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں پر تقریبابارہ (۱۲) دن تھے اور بالآخر وقت موعود آ پہنچا اور بروزبدھ شام ۷ بج كر ۳ منٹ پر شاہ سلمان اسپتال میں حافظ صاحب کا انتقال ہو گیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
کچھ دیر کے لیے اس خبر پر یقین نہیں ہوا اور لگا کہ افواہ پھیل گئی ہے مگر جب متواتر لوگوں نے اس خبر کو بھیجا تو یقین ہوا ، آپ کی نماز جنازہ جمعہ کے بعد ریاض کی مشہور جامع مسجد شہزادہ فہد بن محمد بن عبد الرحمن آل سعودمیں ادا کی گئی اور تدفین منصوریہ نامی قبرستان میں ہوئی۔
آپ نے اپنی زندگی کی ۶۶ بہاریں دیکھیں، بیوی اور۵ بچے ۴ بچیاں چھوڑ گئے۔ اللہ تعالی ان سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
حافظ صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں مگر آپ کی یادیں ،آپ کے شاگرد ،آپ کی علمی کاوشیں ،آپ کے بچے آپ کو زندہ رکھیں گے۔ ان شاءاللہ
آپ کے جنازے میں ایک کثیر تعداد نے شرکت کی جس میں میں علمائے کرام کے ساتھ ساتھ آپ کے شاگرد اور آپ کے متعارفین بھی تھے۔
حافظ صاحب کی چند اہم علمی کاوشیں جو قابل ذکر ہیں:
(۱)شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے دروس میں ۱۷ کتابوں کی عبارت خوانی کی جو ایک ہزار سے زائد کیسٹوں میں ریکارڈ ہے۔
(۲)امام دار قطنی کے ایک مخطوطہ کی تحقیق جس کا نام ’عمرو بن عبيد المعتزلي عقيدته وكلامه في القرآن الكريم‘ ہے۔
(۳)سنن دارمی کا ترجمہ نیز تخریج و تشریح
(۴)مستند اسلامی وظائف
(۵)المسائل المهمة للشيخين ابن باز ومحمد صالح العثيمين( رحمهما الله) کا اردو ترجمہ
(۶)الوسائل المفيدة للحياة السعيدة کا اردو ترجمہ
(۷)حقوق الراعي والرعية کا اردو ترجمہ
نیزمختلف موضوعات پر مقالات و مضامین بھی ۔
رحمه الله وغفر له
شكرا على هذه الكلمات والانطباعات عن المغفور له بإذن الله..
عفوًا
بارك الله فيكم
Jazakallahu khairan
Masha allah tabarakallah
آمين واياكم يارب
بارك الله فيكم