حالیہ ایران اسرائیل جنگ: مقاصد اور اثرات

رفیق احمد رئیس سلفی سیاسیات

عصر حاضر کی سیاست کو سمجھنا بہت آسان نہیں ہے۔ اپنی عوام کو خوش کرنے اور اس کی نظروں میں خود کو اہل ثابت کرنے کے لیے حکم راں طبقہ کے لیے معصوموں کی جانوں سے کھیلنا اور بستیوں کو اجاڑدینابائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔ حکم رانوں کی لڑکھڑاتی ہوئی کرسی کے پائے مستحکم ہوجائیں اور ان کا دعوی حکم رانی مضبوط ہوجائے ،بس یہی آج کی جنگوں کا حاصل ہے۔ ایک فلاحی اور انسان دوست ریاست کا تصور معدوم ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی نئی ٹیکنالوجی اور دور تک مارکرنے والے میزائل حالیہ جنگ کی کامیاب دریافت ہیں۔ زمین پر جنگ لڑے بغیر بہت آسانی سے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاسکتی ہے اور دنیا سے اپنی عسکری قوت کا لوہا منوایا جاسکتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ کی حالیہ تصویر آپ دیکھیں اور مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے سنی دنیا کی خوش فہمیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ عالم اسلام خصوصاً عالم عرب اب نئے منظر نامے میں کتنے خطرات سے دوچار ہوچکا ہے۔ محرم کا مہینہ اور شیعی دنیا میں ماتم وعزاداری کے نام پر جلسے جلوس اور مجالس ،جس میں بطور خاص ایران کی عسکری قوت کا زور وشور سے چرچا ہورہا ہے اور سنی عوام جسے اس جنگ کے درپردہ مذموم مقاصد کا کوئی علم نہیں ، غیر شعوری طور پر شیعی اسلام اور ایران کی عسکری قوت کو للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ایران سے باہر جہاں جہاں شیعہ آبادی قابل لحاظ ہے، اس کی حوصلہ مندی اور اسرائیل کے چند ٹھکانوں پراس کی بمباری سے سنی آبادی غیر شعوری طور پر خود کو ناکارہ اور کمزور سمجھے گی اور پھر سنی معاشرے میں شیعی عقائد وخیالات کو جگہ بنانے کے مواقع میسر ہوں گے ۔شیعہ فرقے کی پوری تاریخ سنیوں سے مزاحمت سے بھری پڑی ہے اور جنسی امراض میں مبتلا مسلم نوابوں اور سرمایہ داروں کو اس کی گود میں بیٹھ کر بڑا جنسی سکون حاصل ہوا ہے۔ اگر اس بارے میں کسی کو شبہ ہو تو حیدرآباد اور لکھنؤ کے نوابین کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرلے۔

مظلوم فلسطینی ہمیشہ سے سنی رہے ہیں ،آج بھی ان کی اکثریت سنی ہے ۔ فلسطینیوں کی بعض مزاحمتی تحریکوں میں بعض ایسے عناصر شامل رہے ہیں جنھوں نے عالم عرب خاص طور پر سنی دنیا سے بہت زیادہ رسم وراہ نہیں رکھی ہے۔ بلکہ ان کے زیادہ تر تعلقات ایران سے یا ان تنظیموں سے رہے ہیں جن کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

سنی دنیا کے مقاصد سے ایران کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ غزہ میں آج بھی بھوک سے لوگ مررہے ہیں، باہر کی سپلائی آسان نہیں ہے۔ دواؤں کی قلت ہے،تمام اسپتال زمیں بوس کیے جاچکے ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایران اگر اسرائیل کا اتنا ہی بڑا دشمن تھا تو اس نے ابھی تک مظلوم فلسطینیوں کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا اور اگر اس کی عسکری صلاحیت اتنی ہی مضبوط ہے جس کو حالیہ جنگ میں دکھایا گیا ہے تو کیوں نہیں وہ زمین پر اتر کر مظلوموں کی مدد کو سامنے آیا اور کیوں ابھی تک وہاں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔

صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حالیہ جنگ صرف ایران کی عسکری قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے برپاکی گئی اور جب اس کا دنیا میں اعلان واظہار ہوگیا اور مقصد پورا ہوگیا تو امریکہ کے کہنے سے جنگ روک دی گئی۔ بارہ دنوں تک جنگ کی جوصورت حال دکھائی گئی ،اس سے تو یہی لگ رہا تھا کہ اب اسرائیل ختم ہوجائے گا یا کم ازکم وہ مظلوم فلسطینیوں کی ناکہ بندی اور گھیرابندی سے دست بردار ہوجائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جنگ کے خاتمے کا دونوں طرف سے اعلان ہوگیا۔اب دونوں حکومتیں اپنی اپنی کامیابی کے ڈھول پیٹ رہی ہیں۔

اس جنگ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب عالم عرب پر امریکی شکنجہ مزید وسیع اور مضبوط ہوجائے گا۔ ایران کے خطرات سے ڈرا کر ان سے مہنگے ہتھیار بیچے جائیں گے ۔ عربوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسی امریکہ کے مشورے سے طے پائے گی ۔ عرب کی شیعہ آبادی کو خوش اور مطمئن کرنے کے لیے عرب حکمراں مزید سہولیات فراہم کریں گے ، حالانکہ عربوں کی شیعہ آبادی کا ایران سے رشتہ سیاسی سے زیادہ دینی ہے ، ایران کا روحانی پیشوا اس سلسلۂ امامت کی کڑی ہے جو ان کے یہاں روز اول سے جاری ہے اور جس کے بغیر شیعہ اسلام کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ خمس کا نظریہ ایران کے معاشی استحکام کی مضبوط بنیاد ہے ۔ اس خمس کا فیض تمام شیعی عوام کو نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کو حاصل ہوتا ہے جو اپنی حکومت کی پالیسیوں پر اثرانداز بھی ہوتا ہے اور پالیسی ساز بھی۔

پوری دنیا میں شیعہ اسلام کی تبلیغ جاری ہے اور مختلف ممالک کے ہزاروں طلبہ قم میں تعلیم حاصل کرکے اپنے اپنے ملکوں میں جاکر دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ایرانی سفارت خانے بھی شیعہ اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا ایک خاص شعبہ رکھتے ہیں۔ بھرپور لائبریری ہوتی ہے،ریسرچ اسکالر کو مطالعہ وتحقیق کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور اندرون ملک شیعہ فکر کو فروغ دینے کے لیے کئی طرح کے اقدام کیے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ بدقسمتی سے کسی عرب سنی ملک میں اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ بیرون ممالک ان کے سفارت خانے عیش وآرام کی زندگی بسرکرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

ایران اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بڑے دور رس اثرات ہوسکتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایران ایک ناقابل تسخیر عسکری قوت بن کر ابھرا ہے یا اسے ابھارا گیا ہے ۔ اب سنی عرب دنیا ایران کی شرطوں پر اس سے اپنے تعلقات استوار کرے یا پھر امریکہ اور دوسرے یوپین ممالک سے اپنی قربت مزید بڑھاکر ان کے لیے نفع بخش منڈی بن جائے ۔ان کی خود مختاری داؤ پر لگ چکی ہے،مظلوم فلسطینیوں کا مسئلہ مزید لا ینحل ہوگیا ہے۔ کوئی ان کا پرسان حال نہ ماضی میں تھا اور نہ مستقبل میں نظر آتا ہے۔عربوں پر چوکیداری کے لیے ایک اسرائیل ہی کیا کم تھا کہ اب ایران کی بھی چوکیداری شروع ہوجائے گی۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان۔

اس عذاب سے نکلنے کا واحد راستہ عالم اسلام خصوصاًعالم عرب کی خود اعتمادی اور خود انحصاری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ،تجارتی ،معاشی اور عسکری قوت میں اضافہ کیا جائے۔دنیا کی بیش قیمت دولت ہاتھ میں رہنے کے باوجود عالم عرب کیوں اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا ، اس کا تجزیہ اور محاسبہ ضروری ہے۔ امت مسلمہ کے وہ منصبی فرائض جن کی نشان دہی قرآن مجید کرتا ہے،کون ادا کرے گا۔ بادشاہتوں میں عوام کو اظہار رائے کی آزادی نہیں،کھل کر لکھنے اور بولنے پر پابندی ہے، اگر کوئی جرأ ت کرے بھی تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے جہاں اسے اپنے قریبی عزیزوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اپنی بادشاہتوں اور خاندانی حکومتوں کو بچانے کی جو مزمن بیماری ہمیں لگ چکی ہے، اس سے پیچھا چھڑائے بغیر ہم ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے جو مسلمان کی حیثیت سے اللہ نے ہمارے اوپر ڈالی ہے۔کتاب وسنت کا صحیح فہم رکھنے والے ہمارے نوجوان صحافی اور اسکالر رات کی تنہائی میں اپنے منصب اور اس کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں پر جب غور کریں گے تو ان شاء اللہ صحیح راستہ انھیں نظر آئے گا۔ عقیدت اور محبت اپنی جگہ لیکن اسلام کے وسیع تر مفاد میں جب آپ غور کرنا شروع کریں گے تو سب کچھ صاف صاف دکھائی دے گا۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کروں گا کہ اللہ ہم مظلوموں کی فریاد سن لے ، ہمارے درمیان سے ایسی مخلص قیادت کھڑی کردے جو مکمل اخلاص کے ساتھ عالم اسلام اور دنیا میں پھیلی مسلم اقلیات کی رہنمائی کرے۔ جو جسمانی عیش وآرام سے بے نیاز ہوکر اس روحانی قوت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے جس میں ہمارے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ وہ قیادت ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرے جو ماضی میں ہم سے ہوچکی ہیں اور جس کا خمیازہ ہم بھی بھگت رہے ہیں اور معلوم نہیں کب تک ہماری نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ بھیڑیوں کی اس دنیا میں ایک وسیع اور مستحکم خلافت اسلامیہ ہی ہمارے مسئلے کا حل ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گھرندوے اور چھپروں کے بوسیدہ مکانات ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ کاش ہم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم الجوزیہ کے سیاسی افکار ونظریات کا مطالعہ کرپاتے اور مسئلۂ خلافت کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک کرپاتے۔زوال وادبار سے امت کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس کی قوت فکر وعمل کو صحیح بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

آپ کے تبصرے

3000