فارغین مدارس، امکانات اور روزگار

ڈاکٹر عبد المحسن معاشیات

مدارس اسلامیہ کو اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں معاشرتی، سماجی وتعلیمی اصلاح کا درس دیا جاتا ہے۔ اسلام کی ترقی وبقا، تعلیمات اسلامیہ کی نشر واشاعت اور قرآن وحدیث کی دعوت و تبلیغ میں مدارس کا ایک عظیم کردار رہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی اقتصادی ومعاشرتی زندگی کو خوشحال بنانے میں ایک قابل تعریف ومستحسن قدم بھی۔ ایسے غریب ومحتاج افراد کو تعلیم وتربيت سے سنوارا جاتا ہے جو تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ آج وہ فارغین مدارس اسلامیہ میں زیور تعلیم قرآن وحدیث سے آراستہ ہوکر زندگی کے جس شعبے سے بھی منسلک ہوتے ہیں وہاں حسن اخلاق، ایمانداری، احساس ذمہ داری کا پرخلوص مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس سے وہ شعبہ بہت سارے اخلاقی اور معاملاتی فساد وبگاڑ سے محفوظ رہتا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے مدارس کے طلبہ کے لیے کسب معاش کا دائرہ بھی نہایت وسیع ہو جاتا ہے وہ محنت و مشقت، مسائل و مشکلات کے عادی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی بھی شعبہ میں بآسانی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس دور حاضر میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فارغین مدارس کے سامنے کسب معاش کا دائرہ نہایت محدود و تنگ ہو جاتا ہے اس لیے اہل ثروت اور مالدار لوگ اپنی اولاد کو مدارس اسلامیہ میں پڑھانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد دینی و دنیاوی اعتبار سے مالدار ہوں جب کہ طلباء دینی اعتبار سے مالدار تو ہو جاتے ہیں لیکن مادی اعتبار سے تنگدستی و مفلسی کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے مدرسہ، مسجد اور مکتب کے علاوہ دوسرے میدانوں میں روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ اسی احساس کمتری کا شکار کچھ علمائے کرام بھی ہیں جو خود مدارس میں درس و تدریس، دعوت و تبلیغ میں مشغول ہوتے ہیں جبکہ ان کی اولاد دینی تعلیم وتربيت سے نابلد عصری تعلیم میں مشغول ہیں۔ ملک کے مشہور و معروف ادارہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر جناب ڈاکٹر ولی اختر رحمہ اللہ کے گھر ایک دن جانے کا اتفاق ہوا، ڈاکٹر صاحب اپنے بچوں کو نحو وصرف پڑھا رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے برجستہ سوال کر دیا سر آپ ہندوستان کے ایک بہت بڑے ادارے کے پروفیسر ہیں، آپ کے پاس مال و دولت کی قلت بھی نہیں ہے اور آپ اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھا رہے ہیں جب کہ ہمارے علماء بھی اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میرے سوال کا مقصد سمجھ گئے اور جواب دیا کہ محسن عربی زبان سے زیادہ کس شعبہ میں پیسہ ہے؟ میرے استاد گرامی جن سے کئی سالوں تک کسب فیض کیا ان کی دو اولاد تھی، ایک کو مدرسہ میں پڑھایا تو دوسرے کو اسکول میں، شاید ان کے ذہن میں یہ بات رہی ہوگی کہ جس کو مدرسہ میں پڑھا رہا ہوں ایک دن وہ کسی مدرسے کا استاد ہی ہوگا اور ہمیشہ مالی تنگی کا شکار رہے گا لہذا دوسرے کو اسکول میں داخل کیا لیکن جو لڑکا مدرسے سے فارغ ہوا آج فرانس کے اندر ہے جبکہ دوسرے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حالات کے تقاضوں سے نابلد، کیریئر کونسلنگ کا فقدان اور دستیاب روزگار کے مواقع سے لا علمی ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں دینی مدارس میں کونسلنگ کا کوئی مناسب انتظام ہے اور نہ ہی طلباء کو مستقبل کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
عربی زبان و ادب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریبا تین سو ملین سے زائد افراد اپنی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ 18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کر لیا۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ 2019 میں برٹش کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ اور امریکہ میں عربی سیکھنے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگلے 20 سالوں میں برطانیہ کے اندر عربی دوسری زبان کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ برطانوی کمپنی ایڈ زونا کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں زبانوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ تنخواہ اور جلدی ترقی پانے والے افراد عربی کے ساتھ انگلش میں مہارت رکھنے والے دوسرے نمبر پر ہیں۔
مواقع وامکانات:
اگر طلباء دینی اداروں سے فارغ ہوکر یونیورسٹیوں یا کالجوں کی طرف رخ کرتے ہیں اور کسی کورس میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کے لیے دوسروں سے زیادہ بے شمار روزگار کے مواقع فراہم ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنی دلچسپی اور حالات کے اعتبار سے فیصلہ لے سکتے ہیں کہ ان کے لیے کون سا میدان موزوں ومناسب ہے۔ ذیل میں طوالت کے ڈر سے اپنے تجربات کی روشنی میں چند مواقع کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
سول سروس:
ہندوستان میں اس کا امتحان سب سے زیادہ مشکل سمجھا جاتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں طلبہ حاضر ہوتے ہیں اور صرف چند ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں طلباء کو اس میدان میں بھی کوشش کرنی چاہیے۔ میرے ہمعصر جناب حماد ظفر، جنھوں نے عالمیت مدرسہ عالیہ مئو اور فضیلت جامعہ سلفیہ بنارس سے کیا تھا، اس امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ ان سے پہلے بھی کچھ فارغین مدارس نے کامیابیاں حاصل کی تھیں۔
درس و تدریس کا میدان:
اس شعبے کو دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے ایک سرکاری اور دوسرا غیر سرکاری۔ فارغین مدارس نے اس شعبہ میں عظیم اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مدارس اسلامیہ نے اس شعبہ میں بڑے بڑے اساتذہ کرام، دانشوران، محققین اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو پیدا کیا ہے جو کہ ملک و بیرون ملک میں اپنی علمی کاوش و صلاحیت کی بنیاد پر بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر فائز ہیں بطور مثال چند حضرات کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر اکرم ندوی (ڈین شعبہ عربی آکسفورڈ) ڈاکٹر عبد العلی ازہری (مسلم کالج لندن) ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا) عبدالہادی عمری لندن (ڈاکٹر ندیم الواجدی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن امریکہ) وغیرہ جبکہ عرب ممالک میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی بڑے بڑے سرکاری اداروں کے مختلف علوم و فنون میں بطور استاذ ہیں جن کا شمار ناممکن ہے۔
سرکاری شعبہ جات:
ہندوستان کے مختلف سرکاری شعبہ جات میں عربی اور اردو مترجم کی آسامیاں آتی رہتی ہیں جن میں پارلیمنٹ، خفیہ ایجنسی، آرمی، ریڈیو اسٹیشن اور وزارت خارجہ وغیرہ شامل ہیں۔
طبی سیاحت:
پچھلے چند سالوں سے یہ شعبہ کافی عروج پر ہے۔ عرب ممالک سے سینکڑوں مریض ہر روز ہندوستان علاج کے لیے آتے ہیں، انھیں عربی مترجم کی ضرورت ہوتی ہے جو ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ترجمانی کا کام انجام دے۔ صرف دہلی اور قرب و جوار میں تقریبا ہزاروں فارغین مدارس اس شعبہ سے منسلک ہیں۔ تقریبا لاکھوں روپے ماہنامہ کماتے ہیں اور بی ایم ڈبلیو جیسی گاڑی رکھتے ہیں۔ اس شعبہ کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے غیر مسلم بھی عربی سیکھنے لگے ہیں اور اس پیشہ سے جڑنے لگے ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں:
ہندوستان میں بے شمار ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو عربی اور انگلش میں مہارت رکھنے والوں کو بحال کرتی ہیں جن کی تنخواہ کم سے کم 30 ہزار سے لاکھوں میں ہوتی ہے۔ چند مشہور کمپنیوں کے نام یہ ہیں. TCS, Wipro, IBM, Accenture, London stock Conentrix, Cognizant, Google Thomson Reuters وغیرہ بے شمار کمپنیاں ہیں جو اچھی تنخواہ کے ساتھ ہر طرح کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں اور بسا اوقات بیرون ملک ٹریننگ کے لیے بھی بھیجتی ہیں۔
ایمبیسی:
ہندوستان میں تقریبا تمام عرب ممالک کے سفارت خانے موجود ہیں جو ایسے مقامی حضرات کو بحال کرتی ہیں جو عربی زبان و ادب سے واقف ہوں۔ اس میں فارغین مدارس کے لیے سنہری موقع ہوتا ہے۔ اس میں مختلف شعبے ہوتے ہیں اور ایک شعبہ میں متعدد افراد کی جگہ ہوتی ہے اس میں کام کرنے والے فارغین مدارس کی تعداد بھی بہت ہے۔
اسلامک بینکنگ:
2008 میں پوری دنیا کو معاشی و اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے سب سے زیادہ نقصان امریکہ جیسے ملک کو ہوا اور بینکنگ سیکٹر پوری طرح متاثر ہو گیا، صرف اسلامک بینک اس سے محفوظ رہا اس کے بعد تمام عالمی برادری کو اسلامی بینکنگ کی اہمیت و افادیت کا احساس ہوا اور پورے ممالک میں اسلامی بینکنگ کا نظام شروع ہوگیا۔ اکثروبیشتر یونیورسٹیوں میں اسلامی بینکنگ کا کورس بھی داخل نصاب ہوگیا ہے، اس شعبہ میں فارغین مدارس بھی منسلک ہونے لگے ہیں۔ عزیزالرحمن 2008 میں جامعۃالفلاح سے فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملیشیا کے گلوبل یونیورسٹی آف اسلامک بینک میں پوسٹ گریجویشن کیا، اس کے بعد یونیورسٹی آف لندن سے مزید اس سلسلے میں ڈگری حاصل کی، آج وہ دبئی میں عجمان بینک میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ اس طرح کے بے شمار مواقع فارغین مدارس کے لیے آج دستیاب ہیں جن کا شمار اس مختصر مضمون میں ناممکن ہے، امید ہے کہ میرے اس مختصر مضمون سے ان نظریات وافکار کا ازالہ ہوگا جو فارغین مدارس کو مکاتب وہ مساجد تک محصور کرتے ہیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد منصور عالم

یقینا ۔
لیکن طلبہ مدارس اس نا آشنا ہیں ۔
انہیں ان ساری چیزوں کو بھی بتانے ضرورت ہے تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔

MD PARWEZ ALAM

ما شاء الله جزاك الله خیراً، بہت اچھی تحریر