اسلامی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ذریعۂ معاش: مسئلہ اور حل

رفیق احمد رئیس سلفی معاشیات

[زیر نظر تحریر جامعہ آل رسول،مارہرہ،ایٹہ(یوپی) کے ایک سیمینار میں پیش کی گئی تھی جو۲۱-۲۲؍فروری ۲۰۲۰ء کو منعقد ہوا تھا اور جہاں مختلف مکاتب فکر کے علماء موجود تھے اور کئی ایک دینی مدارس کے مندوبین بھی اس میں شریک تھے ۔دیگر مقالہ نگاران کی طرح راقم نے بھی مسئلۂ زیر بحث پر اپنے خیالات پیش کیے ،شرکائے سیمینار نے اسے پسند کیا ،اب افادۂ عام کے لیے فری لانسر پر پیش کیا جارہا ہے،راقم کی خواہش ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے نوجوان اسکالرس بھی اپنی تجاویز سے مستفید ہونے کا موقع دیں۔ ۔۔رفیق سلفی]
ہمارے ملک کے سیکولر آئین نے یہاں کے تمام باشندوں کو حق دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں بلکہ اپنے مذہب کی تعلیمات کو زندہ رکھنے اور ان کو عام کرنے کے لیے مذہبی تعلیمی ادارے بھی قائم کرسکتے ہیں۔دوسرے مذاہب کی طرح اسلام سے وابستگی رکھنے والوں نے بھی ملک کے مختلف گوشوں میں اس طرح کے سیکڑوں اور ہزاروں مذہبی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جہاں ان کے بچے اور بچیاں زیور علم سے آراستہ ہوتے ہیں اور ایک ذمہ دار شہری بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ان مدارس سے ملحق مکاتب اور بعض مستقل مکاتب میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو، ہندی،انگریزی، جغرافیہ،ریاضی اور مبادیات سائنس وغیرہ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جس سے طلبہ پر اعلی تعلیم کے دروازے کھل جاتے ہیں یا اگر کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے تو وہ مکتب کی اسی جامع تعلیم سے میدان عمل میں اترنے کے بعد فائدہ اٹھاتے ہیں اورانھیں اپنی عملی زندگی میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی۔
ہمارے ملک میں دینی مدارس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔مسلم حکومتوں کے عہد ہی سے اس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر انگریزی حکومت سے ہوتا ہوا آج تک آزاد ہندوستان میں بھی اپنا ضروری اورموثر کردار ادا کررہا ہے۔ان مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام تربیت کی خوبی یہ ہے کہ یہاں کے فارغین نہ صرف علوم شرعیہ سے واقف ہوتے ہیں بلکہ عربی زبان وادب پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے بعض مدارس بی اے کے معیار تک کی انگریزی کی تعلیم بھی دینے لگے ہیں اور کمپیوٹر کی اضافی تربیت کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے۔ بعض بڑے مدارس کی سندیں جب سے ملک کی بعض یونیورسٹیز نے منظور کی ہیں اور مدارس کے فارغین کو ان میں داخلہ لے کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملے ہیں تو ان کی کارکردگی نہ صرف حیران کن اور حوصلہ افزاہے بلکہ کئی ایک فارغین مدارس سول سروسز کے اعلی ترین امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کرکے ملک اور قوم کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور ان کی کارکردگی ان کے کسی ہم پیشہ سے کم نہیں ہے۔
یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جن مدارس کی ملک کی آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار رہا ہے اور جن سے ملک اور قوم کے لاکھوں بچوں نے تعلیم حاصل کرکے ملک اور سماج کی خدمت کی ہے ،ان کے وجود اور ان کی کارکردگی پر سوال کھڑے کیے جاتے ہیں۔کبھی ان کے خلاف منفی رویہ اپنایاجاتا ہے اور کبھی ان کے خلاف غلط پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں۔غربت اور افلاس سے دوچار خاندانوں کے لاکھوں بچوں کو ان مدارس نے اپنے پیروں پر کھڑا کردیا ہے اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔زمین پر پڑے بے سہارا ،غریب اور یتیم بچوں کو تعلیم دے کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچانا کیا کوئی اپرادھ ہے ؟کیا عصری تعلیم گاہوں میں ایسا کوئی نظام ہے جو غریبوں کے بچوں کو اعلی تعلیم کے حصول میں معاون ہو اور کیا تعلیم اور دارالاقامہ کی فیس ادا کیے بغیر اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کہیں تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ملک کے سیاست دانوں کو تو ان مدارس کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جو کام ان کا تھا اور جو ذمہ داری ان کے نظام کی تھی،اسے اپنے محدود وسائل کے باوجود مدارس نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور ملک کے شہریوں کے بچوں کو نہ صرف تعلیم دے رہے ہیں بلکہ ان کی بھرپور کفالت بھی کررہے ہیں۔
مدارس کے تعلق سے گاہے بہ گاہے ایک مشورہ یہ بھی دیاجاتا ہے کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو ملک کے قومی اور تعلیمی دھارے سے جوڑنے کے لیے ان کے نصاب تعلیم میں خاصی تبدیلی کردی جائے تاکہ یہاں کے فارغین سرکاری ملازمتوں کے مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے کے مجاز ہوسکیں اور ان کو بھی سرکاری ملازمتیں مل سکیں۔یہ خیال بڑا اچھا ہے اور اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن نصاب میں جس تبدیلی کی بات کی جاتی ہے،آج تک اس کی روپ ریکھا طے نہیں کی گئی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مدارس کی ترجیحات علوم شرعیہ ہیں،اندیشہ یہ ہے کہ کہیں عصری علوم کی شمولیت سے ان کی ترجیحات متاثر نہ ہوجائیں۔اگر ایسا ہوا تو پھر مدارس کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔اگر ہماری حکومتیں مدارس کے سلسلے میں مخلص ہیں تو کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مدارس کی سندوں کو پورے طور پر ہائی اسکول،انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے مساوی قرار دے دیا جائے اور پھر حکومتیں اپنے نظام کے تحت ان کے فارغین کا امتحان لے کر ان کو سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کا اہل بنادیں۔مدارس کے باصلاحیت فارغین کو چھ ماہ کی اضافی ٹریننگ دے کر سرکاری ملازمتوں کے کئی ایک شعبوں میں داخل کیا جاسکتا ہے اور ان شاء اللہ ان کی کارکردگی کسی اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے فارغ سے کم نہیں ہوگی۔
میری اس بات پر ممکن ہے بعض حضرات کو تعجب ہو اور وہ اسے ناقابل عمل تصور کریں لیکن میں بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کروں گا کہ اس خیال کے پیچھے ایک طویل تاریخی تجربہ ہے جو اسی ملک میں صدیوں تک کیا گیا ہے اور کوئی مورخ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تجربے کے دوران کوئی کمزوری سامنے آئی ہو۔مدارس کا یہی درس نظامی کا نصاب تھا جو مسلم حکومتوں کے دور میں مروج تھا اور اسی نصاب تعلیم سے فارغ ہوکر طلبہ حکومت کی کئی ایک ذمہ داریاں سنبھالتے تھے ۔انگریزوں نے اسلام اور مسلم دشمنی میں درس نظامی کے اس نصاب کو ہٹاکر اپنا نصاب رائج کیا اور سرکاری ملازمتوں کو اسی نصاب تعلیم سے وابستہ کردیا ۔آزادی کے بعد بھی وہی صورت حال برقرار رہی اور صدیوں تک جس نصاب تعلیم نے حکومتی نظام کو چلایا،اسی کو بے کار اور فضول قرار دے دیا گیا۔انگریزوں کی مخالفت اور ان کی دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن سیکولر ہندوستان میں یہ مغائرت اور اجنبیت ناقابل فہم ہے۔ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ذریعے کھڑے کیے گئے اس تعلیمی نظام کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ملک کے تمام انصاف پسندوں سے یہ درخواست کی جانی چاہیے کہ وہ فارغین مدارس کے اس اہم مسئلے پر ہمدردی سے غور فرمائیں اور فارغین مدارس کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھولیں۔ ملک کی کئی ایک ریاستوں میں عربی فارسی کے سرکاری بورڈ قائم ہیں،جہاں کے بعض اساتذہ کو ہماری حکومتیں مشاہرے دیتی ہیں لیکن ان کے فارغین صرف منظور شدہ مدارس ہی میں ملازمت پانے کے اہل ہیں،حکومت کے دوسرے انتظامی اداروں میں ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ پرائمری اور جونیر ہائی اسکولوں میں ان فارغین مدارس کو جگہ ملے تو ان شاء اللہ ان کی کارکردگی دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر ہوگی۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک کے اپنے تعلیمی اداروں کے فارغین کی بہت بڑی تعداد ملازمتوں سے محروم ہے۔سرکاری ملازمتوں کے لیے خالی جگہوں کا اعلان اگر کیا بھی جاتا ہے تو امتحانات کافی تاخیر سے ہوتے ہیں اور امتحانات ہوبھی جاتے ہیں تو نتائج کا اعلان تھکا دینے والے انتظار کے بعد کیا جاتا ہے اور پھر تقرری کے خطوط کا انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہمارے ملک میں عصری تعلیمی اداروں کے سندیافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کا عالم یہ ہے تو فارغین مدارس کے ساتھ یہ ہمدردی کیوں جتائی جاتی ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں اسلام کی تعلیمات اور اسلامی تہذیب وشناخت کی جو شمع ان مدارس نے روشن کررکھی ہے ،اسے کسی حیلے بہانے سے بجھادیا جائے ۔اگر اللہ کی عطاکردہ بصیرت اور بصارت زندہ ہے تو ہمیں پرو پیگنڈ ے اور لالچ کے درمیان چھپی ہوئی ان سازشوں پر نگاہ رکھنی چاہیے اور اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے اسپین کے پس منظر میں کہے گئے شاعر مشرق علامہ اقبال کے ان تاریخی جملوں کو ضروریاد رکھنا چاہیے کہ مسلم آبادیوں اور مساجد میں قائم مکاتب اسلامیہ کو قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے ،یہ اسلام کے قلعے ہیں،ان کے قیام وبقا میں تمھاری زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔اسپین میں مسلمانوں سے یہی غلطی ہوئی تھی جس کی انھیں بعد میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔
بلا شبہ فارغین مدارس کے سامنے معاش کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔یہ تو ان کی دینی اور روحانی تربیت کا فیضان ہے کہ وہ کم سے کم مشاہرہ پر بھی گزربسر کرلیتے ہیں اور کسی سے کوئی شکوہ نہیں کرتے۔کفایت شعاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے اور پھر اللہ ان کی مختصر آمدنی میں بھی برکت عطا فرماتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک ہندوستان میں کسی نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ فارغین مدارس نے حصول ملازمت کے لیے کہیں کوئی احتجاج کیا ہوجب کہ عصری علوم حاصل کرنے والے اس کے لیے جگہ جگہ دھرنا اور پردرشن کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔انتظامیہ کبھی ان کی بات سنتی ہے اور کبھی لاٹھیاں چلا کر انھیں بھگا دیتی ہے۔
مدارس کے فارغین بالعموم مساجد اور مدارس میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔حق خدمت کے طور پر انھیں جو کچھ ملتا ہے ،وہ مسلمانوں کی طرف سے دیا گیا وہی عطیہ اور صدقہ ہوتا ہے جو وہ اپنی مساجد اور اپنے دینی مدارس کو اپنی جیب خاص سے دیتے ہیں۔ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہمارایہ دینی نظام قابل قدر ہے اور ملک میں دین کی جو شمع بھی روشن ہے،وہ اسی نظام کا مرہون منت ہے۔اخلاص اور کفایت شعاری جو ہمارے بزرگوں کا بیش قیمت اثاثہ تھا،جب تک سچائی اور ایمان داری سے ہم اسے محفوظ رکھیں گے ،معاش کا مسئلہ ان شاء اللہ ہماری راہ میں مشکلات پیدا نہیں کرے گا۔
لیکن مادیت کی طرف بڑھتا ہوا رجحان،اخلاص اور روحانیت کی کمی اور گردوپیش کی دنیا سے متاثر ہونے کے نتیجے میں آج یہ سوال ہمارے سامنے کھڑا ہوچکا ہے کہ فارغین مدارس کی معاشی حالت کو بہتر بنایا جائے۔ یہ سوال پہلے بھی اٹھتا رہا ہے اور کئی طرح کی تجاویز مخلصین ملت نے پیش کی ہیں۔بعض تجاویز پر عمل بھی کیا گیا لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔فارغین مدارس کو کسی ہنر کی اضافی تعلیم دینے کی آواز اٹھتی رہتی ہے تاکہ وہ فارغ اوقات میں سیکھے ہوئے ہنر کے مطابق کوئی پیشہ اختیار کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔یہ بات بہ ظاہر بہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور ماضی میں فارغین مدارس طب اور کتابت وغیرہ کی تعلیم حاصل کرکے عام لوگوں کی طرح خوش حال زندگی گزارتے رہے ہیں۔ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں ہمیں ملتی ہیں ۔مبارک پور میں ایک بہت بڑے سلفی عالم دین مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تھے جنھوں نے عربی زبان میں سنن ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کے نام سے لکھی ہے، ان کے بارے میں ان کے حقیقی بھتیجے مولانا محمد امین اثری رحمہ اللہ نے ایک موقع پر مجھے بتایا تھا کہ عم محترم مطب میں صرف اتنی دیر کے لیے بیٹھتے تھے کہ اس دن دال روٹی کا انتظام ہوجائے ۔جیسے ہی اتنی آمدنی ہوجاتی تھی ،مطب سے اٹھ جاتے اور اپنی لائبریری میں بیٹھ کر ترمذی کی شرح لکھنے اور آنے والے طلبہ کو حدیث کی تعلیم دینے میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔
ماضی میں ہمیں یہ مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کوئی صاحب ثروت انفرادی طور پر اپنے گھر کے دالان میں بچوں کی تعلیم کا انتظام کردیتا تھا اور تدریس کے لیے متعین استاذ کے تمام اخراجات خود اٹھاتا تھا۔لیکن آج وہ دور نہیں ہے کہ ہمارا کوئی عالم دین طبیب حاذق بھی ہے اور وہ اپنے مطب میں طلبہ کو درس بھی دے رہا ہے ۔ آج کے حالات میں اس طرح کی مثالوں پر عمل کرنا بہت زیادہ آسان نہیں ہے۔اب ہمارے پاس بڑے بڑے دینی مدارس ہیں جن کا اپنا ایک مکمل نظام ہے ۔ان میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذۂ کرام ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ روزی روٹی کے لیے کوئی اور پیشہ اختیار کرنا حددرجہ دشوار ہے، مزید یہ کہ روزگار کے مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں،ان حالات میں مدارس کے اساتذہ کرام مزید کوئی پیشہ اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔بعض استثنائی مثالوں سے انکار نہیں ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ کسی مسجد سے وابستہ ہوجاتے ہیں،کچھ ٹیوشن کرلیتے ہیں اور آج کل بعض اساتذہ کمپیوٹر میں مہارت حاصل کرکے کہیں جزء وقتی کوئی کام کرلیتے ہیں۔لیکن یہ تمام کام ایک ذمہ دار استاذ کے لیے مفید نہیں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ان کاموں میں مصروف رہ کر وہ تدریس میں کوتاہی کا مرتکب ہوگا،بغیر پیشگی مطالعہ کے مسند درس پر بیٹھ جائے گا،تدریس کے لیے جس ذہنی سکون کی ضرورت ہے، وہ اسے حاصل نہیں ہوگا اور دوران تدریس ایک خاص قسم کی چڑچڑاہٹ اس پر طاری رہے گی اور طلبہ کے ساتھ اس کے مشفقانہ برتاؤ میں فرق آئے گا۔
فارغین مدارس کے معاش کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک قابل عمل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم سماج میں بیداری پیدا کی جائے ۔ایک استاذ اور وہ بھی دینی مدارس میں اپنی خدمات انجام دینے والا استاذہماری نئی نسلوں کا روحانی باپ ہے اور وہ مسلم سماج کی مکمل توجہ کا مستحق ہے۔ایک عام آدمی کی جو بنیادی ضروریات ہیں اور ایک فیملی کے جو بنیادی مصارف ہیں،ان پر ہماری انتظامیہ کو بھی غور کرنا چاہیے۔
تعلیم کے میدان میں استحصال کی بیماری عام ہے۔یہ صرف دینی مدارس تک محدود نہیں ہے بلکہ پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں کا حال دینی مدارس سے کہیں زیادہ برا ہے۔ یہ بے حسی سماج کے تمام طبقات میں پائی جاتی ہے۔شہروں اور قصبات میں پائے جانے والے انگلش میڈیم اسکولوں کا سروے کرالیں،پتا چل جائے گا کہ ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں رکھنے والے نوجوان ڈھائی ہزار سے آٹھ نوہزار روپے مشاہرے پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔مشاہرے کے تعلق سے تعلیم یافتہ خواتین کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔جب کہ یہ عصری تعلیمی ادارے معقول فیس وصول کرتے ہیں،ہر سال نئے سیشن کے لیے ایک بھاری رقم طلب کی جاتی ہے،نئے ایڈمیشن کے چارج بھی کچھ کم نہیں ہیں۔بعض اسکول کورس کی کتابیں فروخت کرکے بھی اپنی کمائی میں اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسکولوں میں یہ چلن بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ بعض ناشرین کتب کی طرف سے پیش کردہ کمیشن کی لالچ میں ہر سال نصاب کی کتابیں بدل دی جاتی ہیں تاکہ ایک ہی فیملی سے تعلق رکھنے والاچھوٹا بھائی بڑے بھائی کی کتابوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے یا کوئی غریب طالب علم نصاب کی پرانی کتابیں نصف قیمت میں خرید کر اپنی ضرورت پوری نہ کرسکے۔
الحمد للہ ہمارے دینی مدارس ان میں سے کئی ایک بیماریوں اور بے اعتدالیوں سے محفوظ ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق تعلیمی کارواں کو تیز گام کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ مدارس کے اساتذہ کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے،وہ موجودہ ضروریات سے میل نہیں کھاتا ، اس میں معقول اضافے کی ضرورت ہے۔یہ اضافہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ جن مدارس کے پاس وسائل ہیں ،ان کی انتظامیہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرے اور اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اساتذہ کے مشاہروں پر خرچ کرے۔یہ دیکھ کر کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ جن مدارس کے ذرائع وسیع اور مستحکم ہیں،وہ بھی کشادہ ظرفی سے کام نہیں لیتے اور دوسرے مدارس کی نقل کرتے ہوئے تنخواہوں کا معیار ان کے جیسا ہی رکھتے ہیں۔
مسلم سماج کو بھی احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ جن علوم پر ہماری آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے،ان سے وابستہ حضرات کی خبرگیری کرے ۔اپنی عطیات اور صدقات میں اضافہ کرے اور اس کو اپنی دینی واخلاقی ذمہ داری سمجھے۔صدقۂ جاریہ کے لیے مدارس کے لیے جائیدادیں وقف کی جائیں اور ان کی آمدنی اور ان کے انتظام کو بہتر بنایا جائے۔بعض مدارس کے پاس اوقاف کی جائیدادیں ہیں لیکن بے حسی اور آخرت فراموشی کاعالم یہ ہے کہ ان کی دیکھ بھال ملت کی امانت کے طور پر نہیں کی جاتی بلکہ اسے مال غنیمت کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور بھیا بھتیجوں میں تقسیم کرکے ان کی آمدنی کو کم سے کم کردیا جاتا ہے۔ہماری حیرت اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اوقاف کی جائیدادوں کے ساتھ ظلم کرنے والے وہ حضرات ہیں جو پابندی سے پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور مساجد ومدارس کی خدمت کو اپنے لیے باعث سعادت بھی سمجھتے ہیں۔لیکن ان کی یہ دین داری ملت کی اجتماعی امانتوں کے تئیں ان کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں بناپاتی ۔شرعی نصوص میں اس قسم کی خیانتوں کے لیے جو وعیدیں موجود ہیں،یہ حضرات ان کو بھی نظر انداز کرجاتے ہیں۔جمعے کے خطبات اور دروس قرآن وحدیث کے مضامین میں وسعت اور جامعیت لانے کی ضرورت ہے ،فضائل اور سنن ومستحبات سے متعلق نصوص کو مکمل اسلام سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہے ،اسی سے وہ عملی انحرافات جنم لیتے ہیں جن کا مشاہدہ آج ہم معاشرے میں کرتے ہیں۔
فارغین مدارس کے معاشی مسئلے کو حل کرنے کے لیے خاکسار کی تجویز یہی ہے کہ اس کو تعلیم وتدریس کی اسی فضا میں رہ کر حل کیا جائے ۔دینی مدارس نے اپنا یہ تعلیمی نظام صرف اس لیے کھڑا کیا ہے کہ ہمارے مدارس میں ماہرین فن کی کمی نہ ہونے پائے، مساجد میں امامت وخطابت کا سلسلہ جاری رہے،دعوت وتبلیغ کے اسٹیج آباد رہیں،افتاء اور استفتاء کی مجلسیں آباد رہیں،دروس ومواعظ کے لیے علماء اور خطباء ہر مسلم آبادی میں موجود رہیں۔ان بنیادی ضروریات کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب فارغین مدارس کی خاصی بڑی تعداد تعلیم سے فراغت کے بعد ان کاموں کی طرف متوجہ ہو،اگر ان کو کسی دوسری طرف لے جایا گیا تو ان کی اپنی ذاتی زندگی میں خوش حالی تو آسکتی ہے،یہ اپنی فیملی کو ترقی کی راہ پر گامزن بھی کرسکتے ہیں لیکن اس ملت کے کام نہیں آسکتے جس نے اپنا سرمایہ خرچ کرکے ان کو مسلم سماج کے دینی کاموں کے لیے تیار کیا ہے۔
فارغین مدارس کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے جو میدان عمل چاہیں ،منتخب کرسکتے ہیں،ان پر نہ جبر کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کے ساتھ کوئی زبردستی کی جاسکتی ہے کہ وہ لازمی طور پر خود کو دینی کاموں سے وابستہ کریں۔یہی وہ آزادی ہے جس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ دینی مدارس کا پس منظر رکھنے والے کتنے فارغین ہیں جواپنی اپنی ترجیحات اور ذوق کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں میں عربی زبان کے مترجم بن کر معقول مشاہرہ پارہے ہیں،کمپیوٹر سیکھ کر اخبارات کے آفسوں میں ملازمت کررہے ہیں، یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم حاصل کرکے پروفیسربن رہے ہیں، گڑگاؤں جیسے شہروں میں عرب ممالک سے آنے والے مریضوں کی ترجمانی کرکے مریضوں،ہوٹل کے مالکوں،ڈاکٹرس اور دوافروشوں سے اپنا کمیشن وصول کررہے ہیں۔بہت سے فارغین جن کی فیملی تجارتی پس منظر رکھتی ہے،وہ فیملی کی تجارت سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔اپنے معاشی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان تمام راستوں پر بہت سے فارغین مدارس چل رہے ہیں ،کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ہے لیکن سوال پھر وہی سامنے آتا ہے کہ دینی مدارس کے قیام کا اولین اور ترجیحی مقصد کیا ہے اور کیا معاشی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان راستوں پر چلنے والے فارغین اس مقصد کو پورا کرنے میں معاون بن رہے ہیں۔خیر امت کو’اخرجت للناس‘قرار دیا گیا ہے ،اس کے برعکس اگر اس کا کوئی فرد خاص طور پر علوم شرعیہ میں مہارت رکھنے والا صرف اپنی زندگی جیتا ہے تو پھر دنیا کے دوسرے انسانوں میں اس کا مابہ الامتیاز کیا رہ جائے گا۔
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ بہت سے سعادت مند اور فرض شناس فارغین مدارس کسی دوسری جگہ سے اپنا معاشی مسئلہ حل کرکے خود کوکسی نہ کسی حیثیت سے دینی کاموں سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں،دینی مدارس کا پس منظر رکھنے والے یونیورسٹیز سے وابستہ بہت سے اساتذہ ملت کی دینی وعلمی ضروریات پوری کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں اوراپنے علم وتجربے سے مدارس اورمسلم سماج کو فائدہ پہنچارہے ہیں لیکن ایسے مخلص افراد کی تعداد بہت کم ہے ،زیادہ بڑی تعداد ایسے فارغین کی ہے جن کو دیکھ کر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ کبھی کسی دینی مدرسے سے بھی ان کا کوئی تعلق تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض بڑے دینی مدارس کے ذمہ داران فارغین کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ دینی علوم کی تدریس اور ان سے متعلق کاموں کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر چل کھڑے ہوں کیوں کہ انھیں صورت حال کا اندازہ ہے اور دینی علوم میں ماہرین کا جو قحط الرجال ہے ،اس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اسی ملک میں ماضی میں ہمیں ایسے ایسے ماہرین علوم دینیہ نظر آتے ہیں جو اپنے وقت کے امام ہوا کرتے تھے،صحیح معنوں میں وہ مرجع خلائق تھے،دور دور سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے کے لیے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے لیکن کیا موجودہ وقت میں کوئی مفسر،کوئی محدث،کوئی فقیہ،کوئی منطقی، عربی زبان وادب کا کوئی رمز شناس ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ جب کسی مسئلے میں اس کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نہ صرف سائل کو مطمئن کردے بلکہ موضوع سے متعلق سارا قدیم وجدید مواد ایک لمحے میں اس کے سامنے آجائے اور وہ سوال کے مالہ وماعلیہ پر شرح صدر کے ساتھ گفتگو کرسکے۔
عصر حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی خدمات حدیث سے حدیث کا ہر طالب علم واقف ہے۔ان سے استفادہ کرنے والے میرے ایک بزرگ دوست شیخ محمد عزیر شمس (مقیم حال مکہ مکرمہ )نے مجھے بتایا کہ حدیث کے ایک راوی کے سلسلے میں کئی مہینوں تک میں نے تحقیق کی،ائمۂ جرح وتعدیل کی بیان کردہ تفصیلات کا محاکمہ کیا اور اس کے سلسلے میں اپنی ایک معتدل رائے قائم کی۔ایک بار جب علامہ ناصرالدین البانیؒ سے ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اسی راوی کے سلسلے میں سوالات کیے۔میری حیرت کی انتہا نہیں تھی جب میں نے دیکھا کہ مہینوں کے مطالعے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا تھا اور اس کے سلسلے میں جو اشکالات تھے،انھوں نے چند منٹ میں تمام کتابوں کے حوالے سے وہ ساری باتیں بیان کردیں۔یہ ہے کسی فن میں مہارت اور اس میں کمال کی نوعیت۔کیا آج اس کی مثالیں ہمارے آس پاس کہیں نظر آتی ہیں؟جب کہ اس طرح کے ماہرین فن کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔کہیں نہ کہیں معاشی مسئلے کی پیچیدگیوں نے ہمارے ذہین طلبہ کو دوسری راہ پر ڈال دیا ہے اور مدارس کی بزم علمی سونی پڑتی جارہی ہے اور اس کی رعنائیوں کا رنگ پھیکا پڑتا جارہا ہے۔
وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق فارغین مدارس کے معاشی مسئلے کو دینی نظام کے اندر رہ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے ،ورنہ ہمارے بزرگوں نے دینی تعلیم کا جو نظام ہمیں ورثے میں دیا ہے وہ ہمارے اپنے ہاتھوں بکھر جائے گا اور صورت حال دن بہ دن خراب ہوتی چلی جائے گی اور قال اللہ وقال الرسول کی پرکیف اور روح پرور صداؤں سے جو محفلیں آباد ہیں،وہ ویران ہوجائیں گی۔اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اسلاف کی ان امانتوں کی حفاظت کرسکیں اور اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ آنے والی نسلوں کو منتقل کرسکیں تاکہ یہ گلشن اسی طرح ہمیشہ سرسبز وشاداب رہے ۔آمین یا رب العالمین

آپ کے تبصرے

3000