علماء کرام تجارت میں آگے بڑھیں

عبدالوحید عبدالقادر سلفی معاشیات

تجارة العلماء

علماء کرام تجارت میں آگے بڑھیں

مقالہ نگار: محمد یوسف الجاھوش

ترجمانی: ابو عفاف عبد الوحید سلفی


علی بن الفضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب کو عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے کہتے ہوئے سنا کہ: ”تم ہمیں زہد، کفایت شعاری اور زادِ راہ پر اکتفاء کرنے کی تلقین کرتے ہو حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تم سامان لاتے ہو (تجارت کرتے ہو)، آخر ایسا کیوں؟ تو ابن المبارک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ: اے ابو علی میں ایسا اس لیے کرتا ہوں تاکہ میں اپنی عزت نفس اور آبرو کی حفاظت کرسکوں اور اس کے ذریعہ اپنے رب کی اطاعت شعاری میں مدد لے سکوں۔ تو ابوعلی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر بات ایسی ہے تو کیا ہی خوب عمل ہے!“۔ (سیر أعلام النبلاء ج8 ص 387).

ایک مومن سے ہمیشہ کوشش اور محنت کی امید کی جاتی ہے اور کسب حلال کے لیے اسے تمام جائز طریقوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ} [الملك: 15]
ترجمہ: ”اسی نے زمین کو تمھارے لیے نرم و ہموار بنا دیا ہے، پس تم اس کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو، اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ، اور تمھیں دوبارہ زندہ ہو کر اسی کے پاس جانا ہے“۔
”الضّربُ فِی الأرضِ“ کا مطلب ہے رزق کی تلاش میں نکل پڑے تاکہ اپنی عزت نفس اور آبرو کی حفاظت کرسکے، اپنے اہل و عیال کی حلال طریقے سے پرورش کرسکے، اس یقین کے ساتھ کہ یہ بھی اللہ کی عبادت ہے اور اس کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایسا کرنا اس کے لیے بسا اوقات نفلی عبادات اور ذکر و تلاوت سے بھی افضل ہوجاتا ہے۔ وہ مومن جو رزق کی تلاش میں دور دراز نکل جائے اور مشقت و تھکان کا شکار ہوجائے تو وہ نوافل کی ادائیگی سے معذور ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مریضوں اور مجاہدین کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ}. [المزمل: 20]
ترجمہ: ” اسے معلوم ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ مریض ہوں گے، اور کچھ دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے، اللہ کی روزی تلاش کریں گے، اور بعض دوسرے اللہ کی راہ میں قتال کریں گے، اس لیے جتنا آسان ہو قرآن پڑھ لیا کرو“۔
اسلام کی آمد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ زمین کو آباد کریں اس کے کنوز و معدنیات اور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں، اور اس میں پائی جانے والی چیزوں کو اپنے استعمال میں لائیں جس سے کہ امت مسلمہ اور اس کے افراد کی سر بلندی ہو، اور اسے نفع بخش، خوشحال اور صحت مند زندگی کا ماحول میسر ہوسکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے لیے مال اور اِنکَمْ سورس کی بہت ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات اور اپنے اہل و عیال کی کفالت کو یقینی بناسکے۔ بغیر مال کے اس کا اس دنیا میں زندگی گزارنا تقریبًا ناممکن ہے، اور اپنی اس حاجت کی تکمیل کے لیے اس کے سامنے صرف دو راستے ہیں:
(1) وہ رزق کی تلاش میں سرگرداں ہو، اس کے لیے بھرپور محنت کرے تاکہ اپنی اور اہل وعیال کی ضروریات پوری کرسکے۔
(2) یا کسی کے سامنے دست دراز کرے، اپنی عزت نفس کو داؤں پر لگائے، ذلت و رسوائی کا سامنا کرے، محسنین کے صدقات و خیرات یا حکمرانوں اور مالداروں کی داد و دہش اور نذرانوں کی امید لگائے بے حس و حرکت بیٹھا رہے.ض۔ جبکہ مذہب اسلام نے صدقات و زکوۃ کا مستحق ان پریشان حال لوگوں کو ٹھہرایا ہے جن کے پاس خاص شرعی عذر موجود ہے، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں کیا ہے:
{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} [التوبة: 60]
ترجمہ: ”بے شک اموال صدقہ فقیروں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور انھیں اکٹھا کرنے والوں کے لیے، اور ان کے لیے ہے جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کا قرض چکانے کے لیے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے ہیں، یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ بڑا جاننے والا اور حکمتوں والا ہے“۔
مومن ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے، اس کا ہاتھ بلند ہو، وہ دینے والا ہو، دوسروں کے مال وثروت کا حریص نہ ہو، خصوصًا جب وہ صاحب علم ہو، لوگوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہو، وعظ و نصیحت کی مجالس اس سے آباد رہتی ہوں، خیر و بھلائی کی نشر و اشاعت اس کے مطمح نظر ہو، امر بالمعروف و النہی عن المنکر کے فریضے کا پابند ہو، جادۂ حق اور سنتوں کے دشمنوں سے نبرد آزما ہو۔
تجارت کی حقیقت و فضیلت کو ہمارےاسلاف بخوبی جانتے اور پہچانتے تھے، اور اس کے اصول و ضوابط بھی ان کی نظروں میں روز روشن کی طرح عیاں تھے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ مسجد میں رہتا ہے اور ذکر و عبادت ہی میں اپنا وقت گزارتا ہے اور طلب علم میں مشغول رہتا ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس نوجوان سے پوچھا کہ تمھارا خرچ کون اٹھاتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میرا بھائی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: ”أخوک أعبدُ منك“ (تمھارا بھائی تم سے زیادہ عبادت گزار ہے)
اللہ اکبر! عمر رضی اللہ عنہ کی اصابت رأی، باریک بینی اور دور اندیشی پر ذرا غور فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ ”أخوك أعبدُ منك“. گویا کہ عمر رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمھارا وہ بھائی جو اونٹوں کو سیراب کرتا ہے، کھجوروں کے پودے لگاتا ہے، پتھروں کو اٹھاتا ہے اور خوب محنت و مشقت کرتا ہے (اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں بھی بجا لاتا ہے)۔ وہ بھی اسی اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے جسے تم حاصل کر رہے ہو بلکہ بسا اوقات تم سے بھی زیادہ کا حقدار ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، اس نے تو راحت بخش زندگی کو ترک کر دیا، ذائقے دار کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا، بیوی اور بچوں سے بھی دور رہا اور رزق حلال کی تلاش میں سر گرداں رہا، محض اس لیے کہ اس کو عزت کی روٹی نصیب ہو اور اپنے اہل و عیال کی کفالت حلال طریقے سے کرسکے۔
ہمارے اسلاف کرام کی سوچ و فکر اس سلسلے میں بڑی واضح تھی اور اسی لیے وہ صدیوں تک خیر و برکت اور عزت و سر بلندی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔
حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا واقعہ ہے کہ ان کے بعض ساتھی انھیں تیل کی تجارت کرنے پر سرزنش کرتے تھے، حالانکہ حضرت سعید بن المسیب کا مقام و مرتبہ اور زہد و تقوی ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں۔ ساتھیوں کی یہ بات سن کر ان کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نمایاں ہوگئے، اور انھیں سختی کے ساتھ ڈانٹتے ہوئے کہا: ”کہ اگر یہ درہم و دینار ہمارے پاس نہ ہوتے تو بنو امیہ کے غلام ہمیں اپنے ہاتھوں کا رومال بنا لیتے (ہمیں کوئی اہمیت نہ دیتے اور من مانی ہمارا استعمال کرتے)، لیکن ہم اپنے چہرے اور عزت کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے حسب و نسب کی کرامت کی پاسداری کرتے، صلہ رحمی کرتے اور اپنے رب کے پیغام کی تبلیغ بھی کرتے ہیں، اور ہماری گردنوں میں کسی کے احسان کا طوق نہیں کہ ہماری زبان پر پابندی عائد کرسکے یا ہماری گردنیں ذلت و رسوائی سے ان کے سامنے خم ہو جائیں“۔
دور حاضر میں داعیان دین کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسائل تجارت کا گہرائی سے جائزہ لیں اور اس کی اہمیت اور باریکیوں کو سمجھیں نوجوانوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کریں، تاکہ ہر عالم اور داعی کے پاس آمدنی اور رزق کے ایسے ذرائع موجود ہوں جس سے وہ اپنی عزت نفس کو ٹھیس لگنے سے بچائے، اپنی آبرو کی حفاظت کرسکے، اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں اس کا استعمال کرسکے، دوسروں کا دست نگر بننے سے اپنے کو بچائے، اور ان لوگوں پر غلبہ اور سربلندی حاصل کر سکے جو مال و ذر کے لیے اپنی فہم و فراست اور عقل کا سودا کرتے اور قلم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ ان افراد کو مسکت جواب دے سکے جو دینار و درہم کے ذریعے من چاہا فتوی حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے غلط نظریات، منحرف اخلاق، بگڑے سلوک اور اللہ کے قائم کردہ حقوق کی پامالی کا جواز فراہم کر سکیں۔
ہم سب کے لیے اور بطور خاص علماء کرام کے لیے سیرت رسول ﷺ، اغنیاء صحابہ کرام اور تجار محدثین و علماء کرام کی زندگیوں میں ایسی بہترین اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000