اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے، اس کی تعلیمات انسان کے تمام شعبہ ہائے حیات کو شامل ہیں، ان میں سے مالی معاملات کا بھی شعبہ ہے جسے اسلام نے بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کے جملہ مسائل کو منضبط کر دیا ہے۔ چونکہ مال انسانی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اسلام نے لوگوں کی آسانی کی خاطر اس باب میں اصل اباحت کو قرار دیا ہے اور اسباب تحریم کو دو امور میں محصور کر دیا ہے، پہلا: ظلم، کیونکہ شریعت ظلم سے روکتی ہے، دوسرا: اس میں ایسے چیزوں کا پایا جانا جو عام طور پر لوگوں کے بیچ نزاع کا سبب بنتی ہوں کیونکہ اسلا م نے حتی الامکان آپسی تنازع کے دروازے کو بند کر دیا ہے۔(۱)
عصر حاضر میں بیع وشراء کی ایک مشہورورائج صورت قسطوں پر بیع کی ہے جس میں اگر نقد اور ادھار دونوں صورت میں قیمت متساوی ہو تو بالاتفاق جائز ہے، لیکن نقدی کے مقابلے ادھار یا بیع تقسیط کی قیمت زیادہ ہو، تو اس سلسلے میں علماء کے دو قول ہیں:
پہلا قول: یہ جائز ہے، اور یہ ائمہ اربعہ اور اکثر اہل علم کی رائے ہے(۲)، بلکہ بعض علماء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔(۳)
اس قول کے متعدد دلائل ہیں:
پہلی دلیل: بیوع کے باب میں اصل اباحت ہے تا آنکہ حرمت کی کوئی دلیل آجائے اور یہاں حرمت کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے، اس کے علاوہ قیمت میں اضافہ شروط کے قبیل سے ہے اور طرفین کی رضامندی سے بیوع میں شروط رکھنا جائز ہے ۔
دوسری دلیل: اس میں لوگوں کے لیے آسانی اور سہولت ہے جو کہ اسلام کے روح تیسیر سے ہم آہنگ ہے، کیونکہ مشتری (خریدار) ہر سامان نقدی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اور بائع (فروخت کنندہ) بغیر کسی فائدہ کے ادھار دینے پر راضی نہیں ہوگا، لہذا اگر یہ صورت جائز ہو تو بغیر کسی شرعی ممانعت کے لوگ بہت سارے ایسے قیمتی سامان خرید سکتے ہیں جن کی انھیں حاجت ہوتی ہے جبکہ وہ انھیں نقدی خرید نے کی استعداد نہیں رکھتے ہیں۔
تیسری دلیل: انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اگر بائع کو ادھار دینے کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے تو اسے نقصان کی تلافی کے طور پر قیمت زیادہ ملے۔کیونکہ بائع کا پیسہ اس وقت تک بلا فائدہ بند پڑا رہتا ہے جب تک اسے مشتری لوٹا نہ دے۔(۴)
چوتھی دلیل: یہ بیع فریقین کے مفاد میں ہے، کیونکہ اس بیع سے جہاں بائع کو قیمت زیادہ ملتی ہے اور اس کے گراہکوں کی تعداد بڑھتی ہے، وہیں پر مشتری اپنی محدود آمدنی اور مالی استعداد کے مطابق قسطوں کو ادا کرتا ہے،اس کے علاوہ بعض سامان میں اس کو یہ موقع ملتا ہے کہ ان کو بڑھا کر اور ان سے نفع کما کر بغیر کسی مشقت اور پریشانی کے اپنا قرض ادا کرے، گویا اس کا جائز ہونا اصول شریعت کے مطابق ہے کیونکہ اسلام جلب مصالح کی حمایت کرتا ہے۔ (۵)
پانچویں دلیل: اگر کوئی شخص نقدی آٹھ اور ادھار دس روپئے میں کسی سامان کو فروخت کرنا چاہے، تو اس کے لیے اسے نقدی بھی دس روپئے میں بیچنا بالاجماع جائز ہے،بشرطیکہ اس میں دھوکہ اور فراڈ نہ ہواور جب اس قیمت پر نقدی بیچنا جائز ہے تو ادھار من باب اولی جائز ہونا چاہیے۔(۶)
چھٹی دلیل: بیع سَلَم بھی اس بیع کے جواز پر دلالت کرتا ہے جو کہ جائز ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ، فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ(۷)جو شخص بیع سلم کرنا چاہتا ہے، وہ متعین پیمانے اوروزن میں متعین مدت کے لیے کرے۔
اور بیع سلم کے جواز میں سب بڑی حکمت یہ ہے کہ خریدار کو کم قیمت پر سامان مل جائے اور بائع کو اڈوانس قیمت مل جائے جسے وہ کھیتی کے مصارف میں لگا سکے۔
وجہ استدلال یہ ہےکہ نقد یا ادھار کا اثراشیاء کی قیمت پر پڑتا ہے۔
دوسرا قول: تاخیر کے مقابلے قیمت میں اضافہ کرنا سود ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے۔ یہ قول بعض متقدمین کی طرف منسوب ہے اور معاصرین میں شیخ البانی اس کے قائل ہیں۔(۸)
اس قول کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل: یہ صورت زمانہ جاہلیت کے سود کے اقسام میں سے ہے اور زمانہ جاہلیت کے سود کی صورت یہ ہے کہ ایک مدت کے لیے قرض دے اور جب وہ مدت پوری ہو جائے تو قرض دار ، قرض خواہ سے یہ کہے کہ تم قرض ادا کروگے یا میں اس میں اضافہ کروں، یعنی میں مزید مہلت دوں گا اور تم مال میں مزید اضافہ کرو۔ ٹھیک اسی طرح اس مسئلہ میں بھی تاخیر کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کیا جا رہا ہے لہذا یہ بھی سود ہے اور ناجائز ہے۔
لیکن یہ استدلال محل نظر ہے اور اس کے کئی جوابات ہیں:
پہلا جواب: یہ قیاس صحیح نہیں ہے کیونکہ قسطوں پر بیع میں تاخیر کے مقابلے قرض میں اضافہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ سامان کی اصل قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ زمانہ جاہلیت کے سود میں قرض میں اضافہ کیا جاتا تھا۔ اور دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرض کا تعلق تعاون اور مدد سے ہے جس میں اضافہ جائز نہیں ہے، اور بیوع کا تعلق معاوضہ سے ہے جس میں فریقین کو قیمت گھٹانے اور بڑھانے کا اختیار حاصل ہے۔
دوسرا جواب: جاہلی سود میں قرض میں اضافہ ظلم کے قبیل سے ہے، جبکہ بیع تقسیط میں اضافہ عدل پر مبنی ہے اور اس میں دونوں فریق کے مفاد کی رعایت کی گئی ہے۔
تیسرا جواب: جاہلی سود میں اضافہ عارضی ہے، جبکہ ادھار یا قسط والی بیع میں اضافہ اصل قیمت میں ہے، یعنی ادائیگی میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ نہیں ہے۔(۹)
دوسری دلیل : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ (۱۰)یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ ادھار اور قسطوں کے ذریعہ کاروبار کرنے میں ایک سودے میں دو سودے ہوتے ہیں کیونکہ عام طور پر فروخت کرنے والا خریدار کے سامنے دو قیمت پیش کرتا ہے ایک نقدی، دوسرا ادھار، گویا اس میں ایک سودے میں دو سودے ہوتے ہیں۔
لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھاؤ تاؤکے قبیل سے ہے نہ کہ بیع کے قبیل سے ہے، کیونکہ بیع کا مطلب عقد ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ عقد سے پہلے ہوتا ہے، اور اس میں ایک سے زائد قیمت کہنا صحیح ہے۔
البتہ یہ صورت ایک سودے میں دو سودے کے قبیل سے اس وقت ہوگی جب مجلس عقد میں یہ بات طے نہ ہو کہ عقد کس قیمت پر متعین ہوا ہے، لیکن اگر مجلس عقد میں دونوں صورتوں میں کسی ایک صورت پر بیع طے ہو جاتی ہے تو پھر یہ اس میں شامل نہیں ہوگی۔(۱۱)، جیسا کہ امام ترمذی اس حدیث کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وقد فسر بعض أهل العلم، قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، ونسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعتين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما(۱۲) بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: ایک بیع میں دو بیع کا مطلب یہ ہے کوئی یہ کہے: میں یہ کپڑا نقدی دس روپئے میں اور ادھار بیس روپئے میں بیچوں گالیکن مفارقت سے پہلے دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر بیع طے نہیں ہوئی ہو، البتہ اگر کسی ایک صورت پر بیع طے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
راجح پہلا قول ہے کیونکہ اس کے دلائل زیادہ قوی ہیں جیسا کہ اوپر گزرا۔
لیکن اس کے جواز کے لیے چند شروط کا خیال رکھنا ضروری ہے:
پہلی شرط: عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، امام بغوی فرماتے ہیں:
إذا باتّه على أحد الأمرين في المجلس فهو صحيح به لا خلاف فيه(۱۳)مجلس عقد میں اگر کسی ایک قیمت پر بات طے ہو جائے تو یہ بیع بغیر کسی اختلاف کے صحیح ہے۔
دوسری شرط: ٹال مٹول یا تنگ دستی یا کسی اور سبب سے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم یاجرمانہ وصول نہ کیا جائے اور نہ ہی عقد میں یہ شرط ہو کہ اگر قیمت جلدی ادا کردی گئی تو قیمت کم ہوگی۔
رابطہ عالم اسلامی کے زیر نگرانی چلنے والی فقہ اکیڈمی نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں کہا:
إن شرط الغرامة المالية أو التعويض أو الشرط الجزائى باطل، وهو قرض جر نفعا، ولا يجب الوفاء به ولا يحل سواء كان المشترط هو المصرف أو غيره؛ لأنه عين الربا الجاهلي الذي نزل به القرآن(۱۴)ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے مالی جرمانہ وصول کرنا باطل ہے اور یہ قرض میں سے ہے جو کہ نفع کا باعث ہے، اور یہی عین زمانہ جاہلیت کا سود ہے، جس کے بارے میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔
تیسری شرط: قیمت میں کمی وبیشی اصل سامان میں ہونی چاہیے، مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ سامان کی اصل قیمت آٹھ روپئے ہے اور باقی دو روپئےادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہے،تو پھر یہ صریح سود ہے۔ اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو یہ کہے کہ اس سامان کی اصل قیمت آٹھ روپئے ہے اور ادھار کی وجہ سے مزید دو روپئے کا اضافہ کیا جاتا ہے۔(۱۵)
واللہ اعلم بالصواب، وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلى آل محمد وصحبه وسلم
حواشی:
(۱)فقہ المعاملات المالیہ المعاصرہ:للاستاذ الدکتور سلیمان الرحیلی: ص: ۱۰
(۲)بدائع الصنائع:۵/۱۵۸، المبسوط:۸/۱۳، المهذب:۱/۲۶۶-۲۶۷، أسنى المطالب:۲/۳۰، الإنصاف:۴/۳۱۱، المغنی:۴/۱۶۱
(۳) معالم السنن:۳/۱۰۵-۱۰۶
(۴) فقہ المعاملات المالیہ المعاصرہ: ص۱۸
(۵)صحيح فقه السنة وأدلته وتوضيح مذاهب الأئمة :۴/۳۲۱
(۶) بحوث في قضايا فقهية معاصرة:ص۱۳
(۷)صحیح بخاری:۲۲۴۰/ صحيح مسلم:۱۶۰۴
(۸)نيل الأوطار:۵/۱۵۲، الروضة الندية للقنوجي:۲/۱۰۱
(۹)فقہ المعاملات المالیہ المعاصرۃ : ص۲۰
(۱۰)سنن ترمذی:۱۲۳۱،سنن النسائی:۴۶۳۲، شیخ البانی سے اسے مشکوٰۃ (۲۸۶۸) کی تعلیق میں صحیح کہا ہے۔
(۱۱)المبسوط:۱۳/۸،المهذب:۱/۲۶۶،الإنصاف:۴/۳۱۱
(۱۲)سنن الترمذی ت بشار:۲/۵۲۴، رقم:۱۲۳۱
(۱۳)شرح السنة، للبغوی:۸/۱۴۳
(۱۴)ضوابط تحديد الثمن في البيع بالتقسيط دراسة فقهية مقارنة:ص۱۶
(۱۵)بحوث في قضايا فقهية معاصرة:ص۱۳
بہت خوب! اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر سے نوازے اور آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین! لکھنے کا اور عوام و خواص تک اپنی باتیں پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں ۔
آمين يا رب العالمين
وإياكم
وشكرا لكم وبارك الله فيكم
ماشاء اللہ بہت خوب
اللہ تعالی آپ کے علم میں مزید ترقی عطا فرمائے
آمين، وإياكم، وبارك الله فيكم