خان

ابوالمیزان منظرنما

خطاط کو کشش کا چاہے جتنا چسکا ہو ‘خان’ لکھے گا تو الف کو اتنا ہی کھینچے گا کہ شوشہ نہ لگے، خ کو ٹانگے رکھنا الف کا کام ہے، خ کے اوپر نقطے کی بندیا بھی الف کے سر سے نیچے رہتی ہے۔
خان تو بہت ہیں مگر یہ لفظ جتنا مسیح الدین چاچا پر سوٹ کرتا تھا اتنا نئے خان حمی الدین (اصل نام حمیدالدین یا محی الدین رہا ہوگا) پر نہیں کرتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے ان کا نام لینا پڑ رہا ہے، خان بھی نہیں کہا کبھی حالانکہ سب انھیں خان ہی کے نام سے جانتے اور بلاتے تھے۔ ان کا اصل نام تو بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔
علاقائی اثر میں اگر کوئی ان کا یہ نام بگاڑ کر پکارے تو الف ساقط ہو جاتا تھا، مگر ہر بگاڑے ہوئے لفظ کی طرح آخر میں ابھر آتا۔ خنوا میں الف ضرورت خطاب نہیں رنگ تمدن ہے۔

کل جب شعیب نے بتایا کہ والد صاحب نہیں رہے تو چونک گیا میں۔ موتوں کا موسم تو گزر چکا تھا اس لیے تعجب ہوا۔ بات کرتے ہوئے روہانسا بھی نہیں ہوا مگر گفتگو کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہوگیا۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ
سب سے پہلی جو بات یاد آئی وہ انیس سال پرانی ہے۔ جب مجھے یہ علم ہوا کہ اعتکاف فرض کفایہ ہے تو بے چینی بہت بڑھ گئی۔ موقع ملا فراغت کے فورا بعد والے رمضان میں۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ پرانی ایک منزلہ مسجد تھی جس کی جگہ پر دائیں بائیں سے کچھ اور جگہ ملاکر اب بڑی اور دومنزلہ شاندار مسجد بنالی گئی ہے۔ دو ہزار تین ختم ہورہا تھا، اس سے پہلے اور تب سے لے کر اب تک میں نے کبھی نہیں سنا کہ پرانی یا اب نئی مسجد میں کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھا ہو۔ حالانکہ پورا گاؤں اہل حدیث مسلمان ہے۔
پورے گاؤں میں وہ ایک آدمی الگ نکلا۔ ان کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی کہ: “مولی صاحب پہلے بتائے ہوتیں تو ہمہوں بیٹھتین۔ ان شاء اللہ اب اگلے سال”
حالانکہ وہ اگلا سال کبھی نہیں آیا۔ مگر ایک شخص نے تمنا کی یہ بات یاد رہ گئی اور اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یہی بات ان کی یاد کا پہلا حوالہ بن گئی۔

آپ کے تبصرے

3000