املی کا چوتھا پیڑ

ابوالمیزان منظرنما

میرے گاؤں میں املی کے تین پیڑ تھے۔

گزرے ہوئے پل کسی خاص وجہ سے تھوڑے سے یاد رہتے ہیں اور اکثر ایسے ہوجاتے ہیں جیسے اونگھ یا نیند میں گزار دیے گئے ہوں۔ کمپیوٹر کے ریسائکل بن کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی فائلیں ری اسٹور کرنے کے قابل ہوتی ہیں اور بڑے سائز والے ڈیٹا سیدھے ڈلیٹ ہوجاتے ہیں۔ ری سائیکل بن کی کیپیسٹی کم ہوتی ہے۔

انسانی یادداشت (میموری) کی کیپیسٹی ایک اندازے کے مطابق ڈھائی پیٹابائٹ ہوتی ہے جو ڈھائی ملین یعنی پچیس لاکھ جی بی(GB)کے برابر ہے۔

ہم اپنے اتیت کے بارے میں سوچتے ہیں تو گنتی کے جو واقعات اور کردار ہمیں یاد آتے ہیں ان کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شعور میں ان کی موجودگی کے اسباب امتیازی ہیں۔ باقی واردات و افراد تحت الشعور میں پڑے ہوتے ہیں۔

ریم اور ہارڈ ڈسک میں جتنا فرق ہے اتنا ہی شعور (Concious) اور تحت الشعور (Sub Concious) میں بھی ہے۔ زیادہ تر کتابیں، رسالے، یادداشتیں، تراشے، پی ڈی ایف، ویڈیو، تصویریں اور آڈیو ہماری لائبریری اور ہمارے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا فون کے ہارڈ ڈسک میں پڑے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ماضی کی پوری فائلیں ہماری میموری(تحت الشعور) میں پڑی ہوتی ہیں۔

گاؤں چھوٹا سا ہے، پھیلا کم بٹا زیادہ ہے اس لیے آبادی میں اضافے کا ہلکورا بہت دور تک نہیں گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ہجرت کرلی، ملک کے دوسرے شہروں میں بکھر گئے مگر تقسیم سے پیچھا نہیں چھوٹا۔ ایک گھر میں کئی گھر ہوگئے اور ایک گاؤں میں کئی گروپ۔ گاؤں کی یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے نہ خاندانوں کی۔ بڑوں کے دماغ میں ابھی جو تقسیم ہے اس کی بنیادیں الگ ہیں، ہمارے بچپن میں اس تقسیم کی سرحد تھی ہمارے گاؤں کی مسجد۔ راستہ پورب پچھم کا ہے مگر تقسیم ممبئی کی طرح ایسٹ ویسٹ میں ہوئی ہے۔

اور مقدر کی بات یہ ہے کہ املی کے تینوں پیڑ علیم کے حصے میں تھے۔ علیم، اس بارڈر کے جانباز سپاہیوں کا جنرل۔ آم، انار، پپستہ، بیری، کٹہل، بڑہل، جامن، شریفہ، سارے پھل تھے ہماری طرف۔ مگر املی کے لیے بارڈر کراس کرنا آسان کام نہیں تھا۔ کسی طرح علیم سے آنکھیں بچاکر کراس بھی کرلو تو پکڑے جانے پر ترحیل(Deportation) لازمی تھی۔

ہارڈ ڈسک نہ ہو تو ریم کے اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے سسٹم ہینگ ہوجاتا ہے، ترجیحات کی بنیاد پر بہت ضروری یادیں اور باتیں شعور میں ہوتی ہیں، باقی تحت الشعور میں ڈھکیل دی جاتی ہیں، ایسا نہ ہو تو بندہ آڈیو کے شور اور ویڈیو کے زور سے پاگل ہوجائے گا۔ نہ کسی ایک خیال پر باقی رہے گا، نہ کسی ایک فکر کو جانچ پائے گا اور نہ ہی کسی ایک عمل کو انجام تک پہنچا پائے گا۔ فکر و عمل کو بھنگ کرنے والے خارجی اسباب تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، تحت الشعور کی ساری فائلیں شعور میں بکھر جائیں تو کان کم سنیں گے دماغ زیادہ۔

املی کے جس پیڑ کی عمر سب سے کم تھی وہ سب سے قریب تھا۔ اس کا تنا بھی چھوٹا تھا، اس لیے اس پر چڑھنا بھی آسان تھا۔ مگر پہرہ داری بہت تھی، زیادہ آسان تھا پہلے کھپریل کے گھر پر چڑھنا پھر وہاں سے املی کے پیڑ پر۔ چڑھنا خطرناک ہو یا نہ ہو، کھپریل کے ٹوٹنے کا معاملہ زیادہ حساس تھا۔ اتنی سی وجہ بچوں کو املی کے پیڑ سے دور بھگانے کے لیے کافی تھی۔ دوسری سب سے بڑی وجہ تھی وہ ڈر، جو بلاوجہ نہیں پیدا کیا گیا تھا کہ املی کے پیڑ پر چڑھنا اپنی جان خطرے میں ڈالنا ہے۔ گرنے پر اونچائی کے حساب سے بدن میں چوٹ لگتی ہے، ہاتھ پیر بھی ٹوٹ سکتے ہیں اور چوٹ سر میں لگنے کی وجہ سے جان بھی جاسکتی ہے۔ املی کے پیڑ کو دیکھنے کے بعد یہ سارے اندیشے درست بھی معلوم ہوتے ہیں۔

املی کے پیڑ کا جائے وقوع دیکھ کر ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تھے کہ اس کا پودا کسی نے لگایا ہوگا۔ کامن سینس کی بنیاد پر جس کی زمین میں پیڑ ہے وہ مالک اور جس کے گھر سے قریب ہے وہ رکھوالا سمجھا جاتا تھا اور اسی سمجھ کے مطابق سارے معاملات بھی ہوتے تھے۔

دھوبی کے گھر سے لگا ہوا املی کا یہ چھوٹا پیڑ پچھواڑے ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی اکیلا مل جاتا تھا۔ جان ہتھیلی پر رکھنے والا بھی اکثر اکیلا ہی ہوتا تھا مگر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو دنیا میں جیسے ٹیم مل جاتی ہے ویسے ہی املی کے پیڑ پر چڑھنے والے کو بھی پیڑ کے نیچے رہ کر املیاں جمع کر‌نے اور رکھوالے کے نمودار ہوتے ہی لے کر بھاگنے والی ٹیم مل جاتی تھی۔ لیڈر املیوں کے لیے پہلے اپنے ہاتھ پیر کو خطرے میں ڈالتا تھا اور پھر مالک یا رکھوالے کی آمد پر اپنی عزت۔ عزت کبھی کبھی بچ بھی جاتی تھی، لیڈر اگر املی کے شاخوں اور پتوں کی مدد سے چھپ جائے تو مالک یا رکھوالے کا کوسنا نام زد نہیں ہوتا تھا، پہچان لیے جانے پر ساری ضیافت باپ کے نام سے ہوتی تھی۔

ونس اے لیڈر آلویز اے لیڈر (Once a leader, always a leader) زندگی میں کوئی کھیل ہو یا زندگی کا کھیل، کردار بے سبب نہیں چنے جاتے نہ ہی نبھائے جاتے ہیں۔ فیلڈ میں سب سے زیادہ پچ دکھائی دیتی ہے اور پچ پر سب سے زیادہ بیٹسمین۔ سب سے زیادہ گلیمر بھی بیٹسمین کو ملتا ہے اور سب سے زیادہ محنتانہ بھی۔ کرکٹ کی فیلڈ میں بیٹنگ ہو یا بولنگ، وکٹ کیپنگ ہو یا فیلڈنگ، ہر محاذ کا اپنا کردار اور الگ پورٹ فولیو ہوتا ہے۔ فیلڈنگ میں الگ کئی محاذ ہوتے ہیں اور ہر محاذ کی اپنی اہمیت۔

زندگی میں بھی ایسے ہی الگ الگ محاذ ہوتے ہیں۔ ولکل فن رجال۔ یہ بات بچپن سے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ سب سے کمزور آدمی برتن یا جھولا لے کر ندی یا تالاب کے کنارے کنارے چلتا ہے۔ باقی اپنی طاقت اور ہمت کے اعتبار سے جال لے کر گہرے پانی میں مچھلیوں کا شکار کر رہے ہوتے ہیں۔شکار ہو یا زندگی کردار طاقت اور ہمت کے حساب سے ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ املی کے پیڑ پر جو چڑھتا تھا وہ آج بھی ویسا ہی کردار ادا کر رہا ہے، جو بچے پیڑ کے نیچے توڑی ہوئی املیاں بٹورتے تھے وہ آج بھی ویسے ہی کام کر رہے ہیں۔ تب وہ کسی کے بیٹے تھے اب وہ کئی کے باپ ہیں۔

املی کا دوسرا پیڑ تو بہت دور تھا۔ بہت بڑا بھی۔ لگان وصولی پر آئے ہوئے افسر کو ہم نے اس پیڑ کے نیچے ایک کھاٹ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ مگہر سے بیل گاڑیوں پر جو گنا بیچنے والے آتے تھے وہ جب تک ان کا سارا گنا بک نہ جائے وہیں قیام کرتے تھے۔ سنا ہے میاں صاحب (عبدالرؤف) اپنے آخری دنوں میں جمعہ بعد وہیں بیٹھ کر دور دراز سے آئے اپنے مریضوں پر دم کیا کرتے تھے۔

یہ پیڑ بڑا تو تھا ہی گاؤں کے بڑے راستے میں بھی تھا بلکہ گاؤں یہیں سے شروع ہوتا تھا۔ بغل میں جن کا گھر تھا ان سے بچے اتنا ڈرتے تھے کہ شاخوں سے لٹکتی ہوئی املیوں کو دیکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتے تھے۔ بس زمین پر بچھی ہوئی پتیوں کا معائنہ کرتے ہوئے گزر جاتے تھے کہ کوئی املی ٹوٹ کر گری ہو تو اٹھالیں۔

دس سال پہلے تک املی کے اسی پیڑ کے سایے میں سوکھا کنواں فیس بک کی طرح لائک اور کمنٹ کرنے والوں کی چوپال بنا ہوا تھا۔ آتے جاتے دور سے دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مختلف عمر، رنگ اور اطوار والے مردوعورت یہاں دیر دیر تک بیٹھ کر کیا کرتے ہیں۔ ایک دن کے ڈی(قمرالدین) چاچا نے بلالیا، تھوڑی دیر بیٹھنے پر پتہ چلا یہ لوگ ہر آنے جانے والے پر کمنٹ کرتے ہیں۔

بہت گھنا تھا پھر بھی چھوٹے پیڑ میں سے کہیں کہیں سورج چاند جھانک لیتے تھے، یہ سہولت دوسرے پیڑ کے سائے میں نہیں تھی۔ آسمان دکھائی دیتا تھا نہ تارے۔ رات میں تو وہاں ٹھہرنے سے بھی ڈر لگتا تھا، لوگ کہتے تھے اس پیڑ میں نہ دکھائی دینے والے لوگ رہتے ہیں۔

افریقہ اور ساؤتھ ایشیا کے جن ممالک میں املی کا استعمال کھانے کا ذائقہ بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے وہ بھی یہی سمجھتے ہیں۔ واستو شاستر سے فینگ شوئی تک سب املی کو نگیٹیو وائب کا سبب سمجھتے ہیں۔ مگر املی کا جو نام بنیادی طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے وہ لفظ Tamarind دراصل عربی زبان تمر ھندی (indian Date) کا‌ مرکب ہے۔

کھانے پینے کی چیزوں میں پائے جانے والے تین اہم غذائی اجزاء میں سے ایک کاربوہائیڈریٹ بھی ہے، انسانی جسم کاربوہائیڈریٹ کو گلوکوز میں بدل دیتا ہے۔ گلوکوز یا بلڈ شوگر جسم کے خلیوں(Cells)، ٹشو(Tissues) اور اعضاء(Organs) کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ سو گرام املی میں ساڑھے باسٹھ(62.5)گرام کاربوہائیڈریٹ ہوتا ہے۔

تیسرا پیڑ سب سے بڑا تھا، عمر بھی سب سے زیادہ لگتی تھی۔ پتیاں کم نکلتی تھیں، شاخیں دور دور تھیں، روکھاپن بہار میں بھی جھلکتا تھا، کھردراپن دور سے نظر آتا تھا۔ اس کے شمال اور مشرق میں قبریں تھیں، مغرب میں ایک بیرھا(باڑہ) گھاری پھر گڑھی اور جنوب میں کچا راستہ جو گاؤں میں داخل ہوتا تھا۔ راستے سے متصل دکھن دور تلک کھیت اور باغ۔

کھیتوں میں جس وقت دھان گیہوں کی فصل ہوتی املی کا یہی پیڑ گاؤں بھر کے بچوں کا مرکز ہوتا۔ کھیل کا سب بڑا میدان یہی تھا۔ جو بچہ گھر پر یا‌ گھر کے پاس نہیں ملتا وہ یہیں ملتا۔

امرود کا پودا لگانے سے جو حوصلہ ملا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن میں املی کا پودا لے آیا۔ عجیب گاؤں ہے، دھان، گیہوں اور آلو کی کھیتی سے آگے ہی نہیں بڑھتا۔ ضرورت بھر لہسن، پیاز، دھنیا، ٹماٹر اور مرچ بھی اگا لیتا ہے مگر گنتی کے جو لوگ اڑد، ارہر، چنا، مٹر اور سرسوں کی کھیتی کرتے تھے انھیں عجیب نظروں سے دیکھتا تھا۔ مجھے بھی حوصلہ توڑنے والی ایک جانکاری دی گئی کہ سب سے زیادہ وقت لگتا ہے املی کو پھل دینے میں، تیس سال۔ اب معلوم ہوا کہ تیرہ چودہ سال بہت ہیں۔ ہوسکتا ہے دیسی مرغی اور چکن برایلر والا معاملہ یہاں بھی ہو۔ مگر پودا لگانے والے کو مایوس نہیں کرنا چاہیے، ویسے بھی کم ہیں۔

املی کے تیسرے اور بڑے پیڑ کی عمر پتہ نہیں کیا تھی۔ اب اس دنیا‌ میں نہیں رہا۔ گھاری بھی اب حویلی نما شاندار گھر میں بدل چکی ہے۔ املی کے پیڑ کی عمر پچاس سے سو سال تک ہوتی ہے۔ کچھ پیڑ سو سال سے زائد بھی جیتے ہیں۔ بیس سے تیس میٹر تک کی لمبائی ہوتی ہے اور پچاس سال تک پھل دے سکتا ہے۔

شکاری آنکھوں (Hunter Eyes) والے بڑکے باؤ اتنے ہی دور اچھے لگتے تھے جتنی دور زمین سے املی کے پیڑ کی چھتری (Canopy) ہوتی ہے۔ بڑکے باؤ عرف عبدالمنان صاحب کو کچھ لوگ صرف منان بھی کہتے تھے۔ جس وقت میں نے ہوش سنبھالا ان کا ایک تعارف تھا جو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ ویسے بھی وہ بہت کم لوگوں کو اپنے قریب آنے دیتے تھے۔

املی کے پیڑ پر میں بھی چڑھ جاتا تھا حالانکہ یہ جرأت کرنے والے بہت کم تھے۔ گرا نہیں کبھی، الٹا حوصلہ ہی بڑھا۔ جنگل میں بھی کام آیا، تیز دھاروں والی بہتی ندی میں تیر کر دوسرے کنارے پر اترنے، جامن کی نرم و نازک دبلی پتلی شاخوں اور جھربیرا کے کٹیلے درختوں پر چڑھنے میں یہ حوصلہ بہت کام آیا۔ جنگل میں پیروں کے نشان اور آرام گاہ کی علامات چاہے نیل گائے ہی کی رہی ہوں مگر ہمارے بڑے اکثر شیر کی بتاتے تھے، پھر بھی جنگل میں پھرنا آسان کام نہیں تھا۔

بڑکے باؤ کے والد عبدالمجید صاحب کے پاس گھوڑا ہوا کرتا تھا، ہوسکتا ہے گھوڑسواری کی ہو بڑکے باؤ نے، کبھی ان سے کنفرم کرنے کا خیال نہیں آیا۔ مگر بائیک نہیں چلاتے تھے۔ بیٹھتے بھی بہت کم بائیک والوں کے پیچھے تھے۔ ان کم لوگوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ حالانکہ ایک حادثہ انھیں میرے پیچھے بیٹھنے سے روک سکتا تھا۔ منجھریا چوراہے سے ذرا پہلے تیس کی اسپیڈ میں اگلے پہیے کے نیچے ایک کتا آگیا تھا، بائیں طرف کو الٹ گئی تھی بائیک۔ انھیں کچھ نہیں ہوا، میرے بائیں پیر میں پائیدان گھس گیا، بھورا کتا تو صاف بچ گیا۔ مگر مجھے کئی دنوں تک ننگے پاؤں رہنا پڑا۔

منجھریا چوراہے لانا لے جانا تو ٹھیک تھا، مگر مکن پور۔ یہی تعارف نہیں اچھا تھا ان کا، اس لیے کراہت فطری تھی۔ پھر بھی منع نہیں کرسکا، جانا پڑا‌ ایک صبح۔

مکن پور پردھان جی کے یہاں پورے گرام سبھا کے گیارہ گاؤں سے لوگ ملنے آتے تھے۔ اس دن بھی کئی گاؤں کے لوگ تھے۔ خوش دلی سے چائے پلاتے ہوئے پردھان جی سب کی باتیں سنا کرتے تھے، کبھی کبھی بیچ میں کچھ بول بھی دیا کرتے تھے۔

چائے اچھی تھی مگر اچانک بہت کڑوی لگنے لگی جب میں نے دیکھا کہ بڑکے باؤ چائے نہیں پی رہے ہیں۔ واپسی پر میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ پردھان جی کی چائے انھوں نے کبھی نہیں پی ہے۔ اس دن بڑکے باؤ کی عظمت میرے دل میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی۔ کیونکہ ان کا خراب تعارف یہی تھا کہ اکثر صبح وہ پردھان جی کی چائے پینے جاتے ہیں۔ دوسرے کمزور لوگوں کی طرح وہ ایسی ویسی رپورٹیں بھی نہیں پیش کرتے تھے۔ ہر دوسرے دن کوئی کام بھی نہیں رہتا تھا۔ معلوم نہیں کیوں جاتے تھے، یہ پوچھنے کا خیال بھی نہیں آیا کبھی۔حالانکہ ان کے ساتھ ان گنت بار جانا ہوا۔ ان کے سامنے پردھان جی کی چائے پینا اتنا خراب لگا کہ دوبارہ میں نے کبھی اس مجلس میں بیٹھنے کی ہمت نہیں کی۔ گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ کوئی کتاب ڈکی میں رکھ لیا کرتا تھا اور جب تک وہ پردھان جی کے پاس بیٹھتے تھے میں بائیک پر بیٹھا پڑھتا رہتا تھا۔ مگر پہلی بار جو چائے پی لی تھی اس نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا، حالانکہ چائے مجھے کبھی ایسی پسند نہیں آئی کہ اس کی خواہش کروں۔ منع بھی نہیں کرسکا کبھی مگر ہمیشہ میرے پاس پابندی سے پہنچائی جاتی رہی۔

بڑکے باؤ دمہ کے مریض تھے، ایک دن سانس رک گئی۔ چھوٹے بھائی عبدالحنان کا اپنے عبدالمنان باؤ کو بڑا بنا کر رکھنے میں کتنا یوگدان تھا یہ تب پتہ چلا جب بڑکے باؤ کی سانس رکتے ہی عبدالحنان صاحب پر دل کا دورہ پڑا۔ پہلے لکھنؤ میں علاج ہوا۔ پھر ممبئی لائے گئے۔ زیادہ دن نہیں رکے، صرف اٹھارہ دنوں کے بعد چار مئی دو ہزار اٹھارہ کو اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ کشادہ گھر اور لہلہاتے کھیتوں میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے کے بعد تھانہ شہر کے ایک تنگ قبرستان میں دفن کردیے گئے۔

بڑے بھائی کے جو ٹھاٹ باٹ تھے اس کے اہتمام میں چھوٹے بھائی کی قربانی ایسے شامل تھی جیسے نسوں میں خون۔ جس اطمینان سے کھاٹ پر بیٹھ کر وہ پھاگن کی صبح ناشتہ کرتے تھے اسی سکون سے چیت اور اگہن میں بھی ان کی صبحیں گزرتی تھیں۔ برسات کی رات میں کھیتوں میں مینڈھ دیکھنا ہو یا بھول پر بندھ باندھنا، دھوپ تیز ہونے سے پہلے کاتک میں دھان کے بیچ اگے ہوئے خودرو پودے اکھاڑ کر پھینکنا ہو یا اگہن میں بالیوں کے بکھرنے سے پہلے کٹائی کرکے کھلیان میں جمع کرنا، چیت میں برفانی بارشوں اور طوفانی ہواؤں سے پہلے گیہوں کی کٹائی ہو یا جیٹھ میں گھاری میں سے بھر بھر کے کھیتوں میں کھاد ڈالنا سارے کام اکثر اکیلے عبدالحنان صاحب ہی کرتے تھے۔ بڑکے باؤ کی صبحوں میں کوئی فرق آتا تھا نہ شاموں میں۔ معائنہ کرنے کبھی کبھار وہ ضرور جاتے تھے مگر تب جب ان کا موڈ ہوتا۔ اس موڈ کو نباہنے میں جتنا بڑکپن بڑکے باؤ دکھاتے تھے اتنا ہی جتن عبدالحنان صاحب بھی کرتے تھے۔ بھائی بھائی کے اس رشتے میں جتنی مضبوطی تھی اتنی ہی ان کہی اور ان سنی سی مفاہمت (Understanding) بھی تھی۔ چھوٹے بھائی کے ساتھ بڑکے باؤ نے بچپن میں کیا کیا تھا یہ بتانے والے بہت کم لوگ زندہ ہیں، اب کے لوگ تو ٹھیک سے جانے والوں کی عمریں بھی یاد نہیں رکھتے۔

بڑکے باؤ میرے بڑکاپا (بڑے ابا) لگتے تھے۔ میرے دادا کی سگی بہن کے بیٹے تھے۔ ان سے میری آخری ملاقات آٹھ اپریل دو ہزار اٹھارہ کو ہوئی تھی۔ جدا ہوتے ہوئے ان کا‌‌ ایکسپریشن ایسا تھا جیسے رو دیں گے۔ بوجھل قدموں سے پلٹتے ہوئے بار بار خیال آرہا تھا کہ مڑکر دوبارہ دیکھ لوں پتہ نہیں اب کب ملاقات ہوگی۔ مگر مجھے بھی رونا آرہا تھا اس وجہ سے ہمت نہیں ہوئی۔ صرف ایک ہفتے بعد سولہ اپریل کو خبر ملی کہ واقعی اب دوبارہ ملاقات نہیں ہوگی۔ دنیا سے ان کی رخصتی کو چھ سال سے زائد ہوگئے مگر وہ ایکسپریشن جب بھی یاد آتا ہے ہچکیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے جبڑے میں درد ہونے لگتا ہے۔ آنکھوں پر بندھ باندھنے کے لیے پورے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپالیتا ہوں پھر بھی چھلک پڑتی ہیں۔ آنسوؤں کو دیکھو تو پانی جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر دونوں پتلیوں میں جمی ہوئی سرخیاں بتاتی ہیں کہ خون پانی میں ملا‌ ہوا ہے۔ جلن کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے۔

املی کے پیڑ جیسے بڑے پرسونا والے بڑکے باؤ کے ساتھ ساتھ اور پاس پاس رہنے والے شیشم کے پیڑ جیسے توانا، تندرست، شانت اور گٹھیلے بدن کے عبدالحنان صاحب صبح اگر جال لے کر مچھلی کے شکار کو نکلتے تھے تو دوپہر تک ندی میں مچھلی چھاننے کے بعد بھی نہیں تھکتے تھے۔ اس بیچ اگر کہیں کوئی پڑھنی جال پھلانگ جائے تو ان کی آنکھوں میں جو چمک آتی تھی وہ سرور بن کر پورے چہرے پر پھیل جاتی تھی۔ پنچھوپ پر جال لے کر کھڑے کھڑے وہ ندی کے کنارے بیٹھے نڈھال بڑوں اور بے حال بچوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مجھے بھی دیکھتے اور کہتے: مولوی ساہب، چلو یک چھان آور مار لیہا جائے۔

شیشم کا پیڑ انسان کی طرح انیس بیس سال میں توانا ہوجاتا ہے اور تقریباً ساٹھ سال تک زندہ رہتا ہے۔ عبدالحنان صاحب بھی اس دنیا سے ساٹھ سال کی عمر میں رخصت ہوگئے۔ عبدالمنان صاحب یعنی بڑکے باؤ املی کے پیڑ کی طرح بلندی پر اٹھاسی سال شان سے جیے اور یاد رہ گئے۔ اللھم اغفرلھما وارحمھما

آپ کے تبصرے

3000