کوئی بھی کام منصوبہ بندی کے بغیر کیا جائے وہ زیادہ تر کامیاب نہیں ہوتا اور اس کا خاطر خواہ رزلٹ بھی نہیں ملتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کی لیڈرشپ کو چاہیے کہ ملک میں اپنی کمیونٹی کی تعلیمی اور معاشی اسٹرنتھ بڑھانے کے لیے سب سے پہلے اپنی کمیونٹی کی ایجوکیشن اسٹرنتھ کو معلوم کریں؛ چاہے وہ عصری تعلیم ہو یا دینی تعلیم۔ جب تک ایکچول ڈاٹا کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک آگے کا ایکشن پلان درست طور پر نہیں تیار کیا جاسکتا ہے۔
اسی ڈاٹا کی روشنی میں ملکی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق تعلیم (دینی و عصری) کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
برطانیہ میں میرا مشاہدہ بلکہ تجربہ ہے کہ یہاں کے ذمہ دار تازہ ڈاٹا کی روشنی میں پہلے تجزیہ کرتے ہیں پھر اسی کی روشنی میں اپنے اداروں میں تعلیم کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
ہر تعلیمی سال کے آخر میں ہر ادارہ اوپن ڈے مناتا ہے؛ داخلے کے شوقین نئے طلبہ اس دن اپنے والدین اور سرپرستوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ ہر ادارہ پہلے اپنا تعارف کراتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہمارے ادارہ کی خصوصیات کیا کیا ہیں؛ ہمارے ادارے میں کون کون سے مؤثر شعبے کام کر رہے ہیں۔ حاضرین کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے فارغین (بالخصوص پچھلے سال فارغ ہونے والے) کس فیلڈ میں جگہ پاگئے ہیں۔ کون کون سے شعبے ( آگے کی تعلیم/ ملازمت/ وغیرہ) میں اپنی جگہ بنا پائے ہیں۔ نیز اس اوپن ڈے میں اپنے دو تین فارغین کو خطاب کرنے اور اپنے خوشگوار تجربات سے آگاہ کرنے کی بھی دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی کامیابی کی داستان سے نئی نسل اور ان کے سرپرستوں کو واقف کرا سکیں، اپنا تجربہ بتاسکیں کہ اپنے اس ادارہ سے فراغت کے بعد انھیں آگے بڑھنے کے کیا کیا مواقع میسر آئے، ان کا تجربہ کیا ہے اور کمیونٹی نے ان کا کیسے استقبال کیا ہے وغیرہ۔ پھر ہر ادارہ بڑی صاف دلی کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ ملکی اداروں میں ان کے ادارہ کی رینکنگ کیا ہے، ان کا نمبر کیا ہے۔ ان سے آگے کتنے ادارے ہیں اور ان کے بعد کتنے ادارے ہیں۔ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کن کن چیزوں میں انھیں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی / پرائیویٹ ادارے بالخصوص کالجز اور یونیورسٹیز ملک کے ڈاٹا کا بالکل باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں کہ ملک میں کن کن شعبوں میں کینڈی ڈیٹ کی اشد ضرورت ہے مثلاً سول انجنیئر، ڈاکٹر، اکاونٹن وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسی حساب سے وہ اپنی تعلیمی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کی ایڈورٹائزنگ بھی کی جاتی ہے کہ اِن اِن شعبوں میں داخلہ لینے اور پڑھنے سے نہ صرف آپ کا آپ کی کمیونٹی کا بلکہ ملک کا بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی پڑھائی بھی ضائع نہیں ہوگی۔
معلوم رہے اسی ڈاٹا کی روشنی میں حکومتی ادارے اُس شعبہ کی سیٹیں بھی بڑھا دیتے ہیں جن کی ملک میں اشد ضرورت ہے۔ اور یہ منصوبہ بندی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر انھیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے تو وہ میڈیکل کالجوں میں سیٹوں کی تعداد کا اضافہ کردیتے ہیں۔ دو تین سال کے لیے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر سیٹیں گھٹادی جاتی ہیں۔ تاکہ ضرورت سے زیادہ بھی ڈاکٹر تیار نہ ہوں بصورت دیگر انھیں ملازمت وغیرہ مل نہیں پائے گی اور ان کی محنت ضائع جائے گی۔
مذکورہ بالا نکات کی بہت تفصیل ہے۔ آپ غور کریں گے اور جائزہ لیں گے تو بہت ساری پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ اپنی کمیونٹی کی لیڈرشپ کو اس مسئلہ پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
یہ منصوبہ بندی صرف عصری اداروں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ دینی اداروں میں بھی سخت قسم کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دینی اداروں کے فارغین کو بھی مختلف فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر دینی ادارہ ملکی اور زمینی بالخصوص آس پاس کی ضرورت کے مطابق اپنے طلبہ کو تیار کرے۔ امامت، خطابت، دعوت، تدریس، صحافت، تجارت، سیاست، سیادت، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈبیٹ، وکالت، قضاء، ملکی اور عالمی قوانین کی مہارت وغیرہ کے شعبوں میں کام کرنے کے لیے پہلے ہی سے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ ورنہ فراغت کے بعد ان کا اس بات پر غور کرنا کہ اب انھیں کیا کرنا چاہیے نہایت غیر دانشمندی ہے۔
جو بھی کام منصوبہ بندی کے بغیر کیا جاتا ہے وہ عموماً ضائع ہی ہوجاتا ہے۔ آج کل عموماً یہی ہورہا ہے۔ ہماری کمیونٹی محنت بہت کرتی ہے، بڑا سرمایہ خرچ کرتی ہے لیکن منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے عموماً محنتیں ضائع ہورہی ہیں۔ ہر سال ہزاروں بچے دینی اداروں سے فارغ ہورہے ہیں لیکن وہ کہاں گم ہو رہے ہیں اس کا حقیقی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ علماء کے کرنے والے کاموں کی ہر فیلڈ میں ان کی ضرورت ہے لیکن ان کا اتا پتہ نہیں ہے۔
ماشاء اللّٰہ ۔۔بہت عمدہ تحریر ہے اللہ قبول فرماۓ اور محرر کو جزاۓ خیر دے ۔۔آمین