سودی بینک کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعامل جائز نہیں ہے، کیونکہ سود حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے، لہذا اس میں کسی طرح کی اعانت حرام ہے، اللہ رب العالمین نے فرمایا:
ولا تعاونوا على الإثم والعدوان(سورۃ المائدہ:۲)گناہ اور زیادتی میں باہم تعاون نہ کرو۔
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے (دینے)والے، سودی حساب کتاب لکھنے والے اور سودی معاملات پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب (اصل) گناہ میں برابر ہیں(۱)۔ البتہ اگر کسی کو اپنے مال کے چوری ہوجانے، ڈاکہ پڑجانے، یا ضائع ہوجانے کا خدشہ ہو، یا تنخواہ وصول کرنے یا کسی تجارتی غرض کے لیے بینک میں اکاونٹ کھلوانے کی ضرورت ہو، اور سودی بینک کا کوئی شرعی بدیل بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس میں کرنٹ اکاونٹ کھلوانا جائز ہے، کیونکہ اس میں سودی لین دین پر عقد نہیں ہوتا ہے، بلکہ مقصد مال کی حفاظت وصیانت ہوتی ہے گرچہ بینک اس مال کو بھی سودی کاروبار میں لگا دیتا ہے۔اور سیونگ اکاونٹ کھلوانا اس لیے ناجائز ہے کیونکہ اس میں معاہدہ سودی لین دین پر ہوتا ہے اور کسی بھی سودی عقد میں داخل ہونا اور اس پر رضامندی کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے گرچہ کھاتا ہولڈر اس صورت میں سود سے ملنے والی رقم کو رفاہ عامہ اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو(۲)۔ البتہ اگر کسی کو مسئلہ معلوم نہ ہو یا پھر سودی لین دین سے توبہ کرنا چاہتا ہو اور اس نے سود کی رقم بینک سے اس سے پہلے وصول کر لی ہو، تو اس سے گلو خلاصی کا طریقہ یہ ہے کہ بلا نیتِ ثواب، اس کو فقراء ومساکین کو دے دے، یا قرض داروں کے قرض کی ادائیگی میں، یا سڑک، پل، حمام، اسکول ومدارس وغیرہ جیسے رفاہی کاموں میں خرچ کر دے۔البتہ مساجد کی تعمیر میں اس رقم کو لگانے کو اکثر اہل علم نے ناجائز کہا ہے چونکہ یہ مالِ خبیث ہے لہذا اسے مساجد کی تعمیر پر لگانا ان کے تقدس کے منافی ہے۔
البتہ مسئلہ کا علم ہونے یا توبہ کرنے کے بعد جو سود کی رقم بینک میں موجود ہو کیا اس کا بینک سے کارِ خیر میں خرچ کرنے کی نیت سے وصول کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ تواس تعلق سے اہل علم کے دو قول ہیں:
پہلا قول:سود کی رقم بینک سے وصول کرنا ناجائز ہے، اس لیے اس کو بینک میں ہی چھوڑ دیاجائے۔ اس قول کے قائلین میں شیخ ابن عثیمین اور بعض دیگر اہل علم ہیں(۳)۔
اس قول کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)قرآن کریم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ:
وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ: ۲۷۸)سود کا بقایا چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔
اور :وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُسُ أَمْوالِكُمْ(البقرة:۲۷۹]اور اگر توبہ کرلو تو تمھارے لیے تمھارے اصل مال ہیں۔
اور بینک کا سود اصل پونجی سے زائد ہوتا ہے اس لیے اس کو لینا جائز نہیں ہے۔
(۲)اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
«وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ»(۴) اور زمانۂ جاہلیت کے ہر قسم کے سود ختم کیے جاتے ہیں۔ میں سب سے پہلے خود (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کے سود کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں۔
گویا اللہ کے رسول ﷺ نے اس سودی عقد کو باطل قرار دیا جو کہ شرک کی حالت میں منعقد ہوا تھا اور اسے لینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ گویا بینک سے جس سودی رقم کو لینے پر اتفاق ہوا ہے شریعت کی نظر میں وہ عقد باطل ہے اس لیے اس بنیاد پر بینک سے سودی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
(۳) احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ بینک سے سود کی رقم نہ نکالی جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انسان اس رقم کو بینک سے نکالنے کے بعد ہوائے نفس شکار ہو جائے اور حبّ مال اس پر غالب آجائے خصوصا جب وہ مال لاکھوں اور کروڑوں میں ہو، اور وہ اس کو اپنے ذاتی مصرف میں استعمال کرنے لگے اور اس طرح وہ مال اس کی آخرت کی بربادی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
(۴) بینک سے سود کی رقم نکالنے کے بعد اگر کوئی شخص اس کو رفاہ عامہ میں خرچ بھی کر دے، لیکن لوگ اس کے تعلق سے یہ بدگمانی پال سکتے ہیں کہ اس نے اس مال کا ایک حصہ اپنے ذاتی مصارف میں بھی خرچ کیاہوگا، اور اسلام نے مواضع التہم سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔
(۵) سدّ ذریعہ کے طور پر اس باب کو بند کرنا ہی مصلحت کا تقاضا ہے کیونکہ سودی رقم کو بینک سے نکالنے کے بعد اگر چند لوگ اسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ بھی نہ کریں لیکن معاشرہ کا عام رویہ اس کے برعکس ہوگا اور اس طرح اس لعنت کا چلن اور زیادہ عام ہوگا۔
(۶) اگر مسلمان بینک سے سود کی رقم نکالنا چھوڑ دیں تو پھر اس کا اثر اہل کتاب یہود ونصاری پر یہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں سے نفسیاتی طور پر خوفزدہ رہیں گے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر مسلمان دین کی طرف پلٹ آئیں تو ان کو مغلوب نہیں کیا جا سکتا ہے، اور سود سے مسلمانوں کا احتراز کرنا-جو کہ ان کے علم میں بھی ایک حرام اورملعون شئی ہے- دین کے ساتھ ان کے گہرے لگاؤ اور مضبوط رشتہ کی دلیل مانی جائے گی۔
(۷) اگر تمام مسلمان بینک سے سود کی رقم نکالنا چھوڑ دیں تو لوگ اسلامی بینک کھولنے اور حلال مضاربت کے لیے کوشاں ہوں گے اور اس لعنت سے سماج کو پاک کرنے کی راہ کھلے گی، ورنہ لوگ اس دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے جو کہ قوم وافراد کے اخلاقی، دینی اور اقتصادی ہر ناحیے سے تنزلی اور انحطاط کا سبب ہے۔
دوسرا قول:بینک سے سودی رقم کو نکال لیا جائے اور بلا نیت ثواب رفاہ عامہ میں، یا فقراء ومساکین پر صرف کر دیا جائے:یہ قول شیخ ابن باز، شیخ البانی، شیخ ابن جبرین، دائمی فتوی کمیٹی سعودی عرب اور مختلف اسلامک فقہی کمیٹیوں کا ہے (۵)۔
البتہ شیخ البانی کی رائے یہ ہے کہ معین افراد مثلا فقراء ومساکین پر نہ خرچ کرکے اسے رفاہ عامہ میں خرچ کیا جائے(۶)۔
اس قول کے قائلین کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)سود کی رقم بینک میں چھوڑ دینا در اصل سود خوروں کو مزید سود کھلانے کا موجِب اور سودی نظام کو براہ راست تقویت پہنچانے کا سبب ہے، کیونکہ اگر مسلمان سودی رقم بینک میں چھوڑنے لگیں تو بینک کے پاس ایک بڑا سرمایہ ہمیشہ موجود رہے گا جو وہ اپنے کسٹمر کو بڑے سودی منافع پر دے کر ان سے سود وصول کرتا رہے گا، اور اس طرح پورے سودی سسٹم کو اس سے زبردست تقویت ملے گی، اور اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور گواہی دینے والے سب پر لعنت بھیجی ہے(۷)۔
(۲) یہ مصالح مرسلہ کے باب سے ہے، کیونکہ قرآن کریم کی آیت (فلكم رؤؤس أموالكم) کا تعلق اس سود سے ہے جس کا مالک معلوم ہو، اور مجہول شخص کے بارے قرآن خاموش ہے، اور بینک سے ملنے والی سودی رقم کا مالک مجہول ہے ، اس لیے کہ بینک ایک شئیر ہولڈنگ کمپنی ہوتا ہے، اور سود ادا کرنے والے شئیر ہولڈر ہی ہوتے ہیں جو کہ موجودہ سسٹم میں مجہول ہوتے ہیں۔
(۳) اس کو مالِ مغصوب یا مالِ حرام پر بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، اور مال مغصوب یا مالِ حرام کے بارے میں فقہائے کرام کی یہ رائے ہے کہ اگر اس کے اصل مالک کی معرفت حاصل نہ ہو سکے تو اس سے گلو خلاصی کے لیے اصل مالک کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے (۸)۔
(۴) بعض مغربی ممالک کے اندر اس سودی رقم کو جو کسٹمر چھوڑ دیتے ہیں، بینک ایسے اداروں کے حوالے کر دیتا ہے، جو کہ نصرانیت کے فروغ اور اسلام ومسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے درء مفسدت کا تقاضا ہے کہ اس مال کو بینک سے نکال لیا جائے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ ہو، اور مفاسد کا ازالہ اور مصالح کی حصولیابی شریعت اسلامیہ کے عظیم مقاصد میں سے ہے بلکہ پوری شریعت مطہرہ اسی اصول کے ارد گرد گھومتی ہے۔
لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم بھی ہوجائے کہ اس مال کا استعمال نصرانیت کے فروغ اور اسلام ومسلم دشمنی میں کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود بھی ہمارے لیے اس کو لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس مال پر ہماری شرعی ملکیت ثابت ہی نہیں ہوتی ہے۔ اور جو ہمارا مال نہیں ہے اس کے مصارف کے ہم ذمہ دار بھی نہیں ہیں۔
لیکن اس جواب کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ گرچہ اس رقم پر شرعی استحقاق ثابت نہیں ہوتا ہے لہذا اس کا استعمال ذاتی مصارف میں نہیں کیاجا سکتا ہے، لیکن اس رقم کا حقیقی مالک تو بینک بھی نہیں ہے، بلکہ مجہول کسٹمر ہیں جن تک اس کو لوٹانا ممکن نہیں ہے، لہذا اس رقم کو بینک کے حوالہ کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جو نہ اس کا شرعی مالک ہے اور نہ ہی بینک کے نظام کے اعتبار سے مالک ہے ،تاکہ بینک اس کا استعمال اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرسکے۔
(۵)یہ مال اصل کے اعتبار سے گرچہ ناجائز ہے لیکن جب اس کی نوعیت بدل جائے تو پھر وہ مباح ہو جاتا ہے، جیسا کہ مشرکین سے حاصل شدہ مالِ غنیمت مسلمانوں کے لیے جائز ہے حالانکہ اصل کے اعتبار سے وہ مال حرام ہوتا ہے کیونکہ اس میں سوروں اور شراب کی کمائی وغیرہ بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بینک سے ملنے والی اس سودی رقم کو مسلمانوں کی عام مصلحت میں، یا فقراء ومساکین پر خرچ کر دیا جائے جن کے لیے یہ مال نوعیت بدلنے کی وجہ سے مباح ہے۔
دونوں اقوال کے دلائل پر غور کرنے کے بعد دوسرا قول راجح معلوم ہوتا ہے گرچہ پہلے قول کے دلائل بھی قوی ہیں، اور ا س کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)قول ثانی کے دلائل شرعی اصول سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گزری۔
(۲)آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ سود کی رقم کو اس کے مالکان سے نہ لیا جائے بلکہ ان کے پاس چھوڑ دیا جائے، جبکہ یہاں پر بینک اس سود کا مالک نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے سود کی رقم وصول کرنے کا مقصد ذاتی مصارف میں لگانا ہے۔
(۳)احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ سود کی رقم بینک سے نکال کر اس سے شرعی طریقے سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے کیونکہ جب تک وہ رقم اکاونٹ میں موجود رہے گی دل اس سے معلق رہے گا اور کبھی بھی تنگ دستی یا حرص وطمع کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان اس رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں لگا سکتا ہے۔
(۴)بینک کے ساتھ انسان کا معاملہ بالکل سرّی ہوتا ہے اب اگر سود کی رقم بینک میں وہ چھوڑ بھی دے تو لا علمی کی وجہ سے لوگ سوء ظن کے شکار ہو سکتے ہیں، لیکن اگر بینک سے نکال کر اس کو رفاہ عامہ میں خرچ کر دے تو اس کی خبر عموما سب کو ہوگی اس لیے بدگمانی کے امکانات دوسری صورت میں کم ہوں گے۔
(۵)دونوں فریق کے نزدیک کسی بھی سودی عقد پر استمرار یا بقا جائز نہیں ہے گرچہ سود پر ملنے والی رقم کو خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کا ارادہ ہو، بلکہ اس عقد سے دستبردار ہونا اور اس سے سچی توبہ کرنا ضروری ہے، لہذا اگر کسی کے پاس سیونگ اکاونٹ ہو تو اس کو بند کرنا ضروری ہے، اور توبہ کرنے کے بعد اس کے اکاونٹ میں جو سودی رقم موجود ہے اس سے گلو خلاصی کا احوط طریقہ یہی ہے کہ اس کو بینک سے نکال کر فقراء ومساکین، یارفاہ عامہ میں لگادیا جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
مراجع:
(۱)صحيح مسلم :۱۵۹۸
(۲)فتاوى اللجنة الدائمة:۱۳ٍ/۳۴۶، فتاوى الشبكة الإسلامية:۱۲/۸۶۶۹،فتاوى إسلامية:۲/۴۰۷
(۳) مجموع فتاوى ورسائل العثيمين:۱۸/۴۸۵
(۴)صحيح مسلم:۱۲۱۸
(۵)مجموع فتاوى ابن باز:۱۹/۱۵۰، مجلس المجمع الفقهي الإسلامي في دورته التاسعة المنعقدة بمبنى رابطة العالم الإسلامي بمكة المكرمة في الفترة من يوم السبت ۱۲ رجب عام۱۴۰۶ھـ إلى يوم السبت ۲۹ رجب۱۴۰۶۔ فتاوى اللجنة الدائمة:۱۳/۳۵۰
(۶)تفريغ «سلسلة الهدى والنور»للشيخ الألباني – الإصدار۴:۹/۲۳۱
(۷)صحيح مسلم:۱۵۹۸
(۸)زاد المعاد:۵/۶۹۱، فتاوى نور على الدرب لابن باز بعناية الشويعر:۱۹/۱۹۱
بہترین اور بہت ہی مفصل انداز میں آپ نے وضاحت کردی، جزاکم اللہ خیرا،
ایک تیسرا قول بھی بعض لوگوں کا ہے، کہ سودی بینک میں کسی بھی حال میں پیسہ نہ رکھا جائے اللہ پر بھروسہ کرکے کسی جگہ مال چھپا کر رکھیں، سودی بینک میں مال رکھنا جائز نہیں. اور مجھے راجح معلوم ہو رہاہے. شیخ ابن عثيمين کا بھی یہی قول ہے جیساکہ انکے شاگرد شیخ ابو صالح نے ان سے مشافہتا نقل کی، والله أعلم.
مجھے لگتا ہے کہ بینک کے پیسے پر جو انٹرسٹ ملتا ہے اس پر از سرِ نو غور کیا جائے. کیا اس نظام کو سود کی حرمت کے جو اسباب وعلت ہے اس پر محمول کیا جاسکتا ہے؟ سود کی حرمت کی اصل وجہ غریبوں و مسکینوں کے استحصال کو روکنا جو پیسہ والے کرتے تھے.
اصل یہ ہے کہ اس سے احتراز کرنا چاہئے لیکن اگر مجبوری کی حالت ہو یا ایسی حاجت جو مجبوری کے قائم مقام ہو تو ایسی صورت میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے یہی اکثر اہل علم کی رائے ہے اور شرعی قواعد کے موافق بھی ہے۔
جزاك الله خيرا