آج پوری دنیاے انسانیت امن وامان، صلح و آشتی اور سکون و اطمینان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ظلم و بربریت، وحشت و دہشت اور خوف و ہراس سے پریشان انسانی سوسائٹی لفظ امن کو سننے کے لیے بے تاب ہے۔ خوف و دہشت کے انسداد اور امن وامان کے قیام کے لیے ہر مذہب کے پیروکار بزعم خویش اپنے اپنے طریقے کے مطابق کوششیں کرکے قیام امن کا کریڈٹ لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں۔ اور اس کریڈٹ کے حصول کے لیے دوسرے مذاہب کو مطعون کرنے کی کوئی سبیل نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر مذہب اسلام ان نام نہاد متلاشیان ِامن کے لیے بالکل ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے۔ خوف و دہشت کے پھیلاو کے سارے ٹھیکرے مذہب اسلام کے سر پھوڑنے کے لیے دشمنان انسانیت کی منصوبہ بند سازشیں عروج پر ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے صاف وشفاف چہرے پر دہشت گردی کا بدنما داغ لگانے کے لیے وہ کون سے ایسے ناپاک حربے ہیں جن کو ان انسانیت دشمن عناصر نے استعمال نہ کیا ہو؟ لیکن اسلام کی تعلیمات امن کی صداقت و حقانیت کے سامنے ہر بار انھیں شکست خوردگی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ یہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں ناکام و نامراد ہی رہیں گے۔ جب جب اسلام کی تعلیماتِ امن کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی تب تب ان کی صداقت مزید آشکارا ہوگی۔ کیونکہ اسلام کی تعلیمات سراسر امن و امان کی پیامبر ہیں۔ اسلام قیام امن کو انسانی ضرورت قرار دیتا ہے اور اس شخص کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش نصیب اور خوش حال باور کراتا ہے جو اپنی فیملی یا قوم میں امن کی زندگی گزارتا ہو۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أصبح منكم آمنا في سربه معافى في جسده، عنده قوت يومه فكأنما حيزت له الدنيا (الترمذي: 2346 – حسنه الألباني) تم میں سے جس نے بھی اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو، جسمانی لحاظ سے تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی۔
حاسدین اسلام کو یہ حقیقت جان کر بڑی حیرانی ہوگی کہ اسلام ایک مسلمان کا تعارف ہی امن وامان کے سنہری اصول کے ساتھ کراتا ہے اور اس بات کی زبردست تاکید کرتا ہے کہ اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے تمام اعضا و جوارح کا استعمال ہمیشہ قیام امن کے لیے کرے اور امن مخالف تمام طرح کی سرگرمیوں سے ہمیشہ گریزاں رہے، ورنہ وہ اسلام کی طرف اپنے کو منسوب کرنے کا بالکل روادار نہیں۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کا انٹروڈکشن کراتے ہوئے فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده (البخاري :10) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ و سالم رہیں۔
اور ایک دوسری روایت میں علی الاطلاق عام لوگوں کے مال و خون کی سالمیت کو واضح کرتے ہوئے مسلمان و مؤمن کی شناخت یوں بیان فرمائی:
المسلم من سلم الناس من لسانه ويده والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم و أموالهم (النسائي: 5010- صححه الألباني) مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دوسرے لوگ سالم رہیں اور مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کے خون اور مال محفوظ رہیں۔
اسلام میں انسانی خون کس قدر قابل احترام ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا (المائدة: 32) جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔
اس سے یہ اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں کہ اسلام میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت اور قدر و قیمت ہے۔
انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی اسلام میں کسی طرح کی ظلم و زیادتی بالکل روا نہیں۔ جانوروں کے ساتھ جانورانہ سلوک کرنے والا شخص بھی عذاب الہی کا مستحق ہے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض (البخاري: 3482) ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا جسے اس نے قید کر رکھا تھا، جس سے وہ بلی مر گئی تھی، اور اس کی سزا میں وہ عورت دوزخ میں گئی، جب اس عورت نے بلی کو باندھ رکھا تھا، تو اس نے اسے کھانے کے لیےکوئی چیز دی نہ پینے کے لیے، اور نہ ہی اس نے اسے قید سے آزاد کیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات امن کے اس قدر روشن اور واضح ہونے کے باوجود دوسرے تو دوسرے خود مسلمان غیر مامون و غیر محفوظ کیوں ہیں؟ ظلم و بربریت، جارحیت وسفاکیت اور خوف ودہشت سے سسکتی بلکتی انسانیت کو امن وامان کے شیریں احساسات سے روشناس کرانے کے لیے سب سے زیادہ انھیں ہی کیوں احتجاجات و مظاہروں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ جان ومال، عزت و آبرو کی سالمیت اور اپنے حقوق امن کے حصول کے لیے قوم مسلم ہی کیوں زیادہ دہائی دیتی نظر آرہی ہے؟ آئیے اس پریشان کن اور غور طلب سوال کا جواب قرآن میں تلاش کرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے امن وامان کا حقدار خالص ایمان والوں کو قرار دیا ہے، جو اپنے ایمان کو شرک کی آمیزش سے بچائے رکھتے ہیں۔ چناں چہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم أولئك لهم الأمن وهم مهتدون (الأنعام: 82) جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں۔
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ حدیث میں آتا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی، غلطی، گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے پریشان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے وہ ظلم مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے، جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلا شبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (بخاری:6937)
دوسری جگہ اللہ تعالی نے خالص اہل ایمان سے امن کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا:
وعد الله الذين آمنوا منكم و عملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم وليبدلنهم من بعد خوفهم أمنا يعبدونني لا يشركون بي شيئا ومن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون (النور: 55) تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے کہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
سورۂ نحل میں اللہ تعالی نے کفران نعمت کو زوال امن کا سبب قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وضرب الله مثلا قرية كانت آمنة مطمئنة يأتيها رزقها رغدا من كل مكان فكفرت بأنعم الله فأذاقها الله لباس الجوع و الخوف بما كانوا يصنعون (النحل: 112) اللہ تعالی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی، پھر اس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔
گرچہ اکثر مفسرین کے نزدیک آیت میں مذکور بستی سے مراد مکہ ہے تاہم بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے، کہ کفران نعمت کرنے والوں کا یہ حال ہوگا وہ جہاں بھی ہوں جب بھی ہوں، اس کے عموم سے جمہور مفسرین کو بھی انکار نہیں ہے، گو نزول کا سبب ان کے نزدیک خاص ہے۔ (أحسن البیان)
مذکورہ قرآنی آیتوں سے یہ بات بالکل واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ امن وامان کے حقدار صرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی توحید کو کبھی بھی اور کسی صورت میں بھی شرک کے ساتھ مخلوط نہ کیا ہو۔ اپنے ایمان کو شرک کی غلاظتوں سے اور بد اعمالیوں کی آلودگیوں سے پاک رکھا ہو۔ جب تک مسلمانوں کا ایمان خالص تھا امن وامان کی نعمتوں سے بہرہ ور تھے، خوف سے دور تھے، روے زمین پر ان کا غلبہ تھا، اسلامی تہذیب و تمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا رہا تھا۔ اور جب توحید میں شرک کی آمیزش ہوئی، ایمان میں بے ایمانیوں کا امتزاج ہوا، اعمال میں بد اعمالیوں کی ملاوٹ ہوئی، بدعات و خرافات کا بازار گرم ہوا، کفر وشرک کے مختلف مظاہر رونما ہوئے، معاصی و سیئات کا کھلم کھلا ارتکاب کیا جانے لگا اور مسلمان ایمان و عمل کے میدان میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کی عزت کو ذلت میں، اقتدار و حکومت کو غلامی و محکومیت میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف و دہشت میں بدل دیا۔ فليتدبر المتدبرون۔
آپ کے تبصرے