فارغات مدارس کا نکاح: مشکلات اور حل

تسلیم حفاظ عالی سماجیات

تعلیم نسواں کی اہمیت وضرورت کسی سے مخفی نہیں۔خواتین چوں کہ نصف ِمعاشرہ ہیں، اس لیے ان کی تعلیم وتربیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی ضروری مردوں کی تعلیم وتربیت۔ بلکہ تعلیم نسواں تعلیم مرداں کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ تربیتِ اولاد میں ان کا مربیانہ کردار زیادہ مطلوب ہوتا ہے۔ ماں کی پر شفقت اور تربیت آموز گود بچوں کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ اس درس گاہ کے اسباق ودروس نقش بر حجر کی طرح انمٹ اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اس کے نقوش تادمِ زیست انسان کی لوح قلب پر مرتسم رہتے ہیں۔ باب بیرونِ خانہ کسب معاش کی فکر میں مشغول رہتا ہے اور اندرونِ خانہ کی ساری ذمہ داریاں ماں کے کاندھوں پر ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے تعلیم کے باب میں مرد وزن کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ دونوں کو یکساں طور سے حصول علم پر ابھارا ہے۔ احادیث میں خصوصی طور پر بیٹیوں کی تعلیم وتربیت پر جنت کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ لونڈیوں کی تعلیم وتادیب کے بعد ان سے نکاح پر ڈبل اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قرون اولی کی خواتین مردوں کی طرح علم وہنر کے زیور سے آراستہ تھیں۔ ان کے قلوب واذہان کتاب وسنت کی ضیاباریوں سے منور تھے۔ اسلامی معاشرے علم وعرفان کے مخزن تھے۔ مرد وزن دونوں جہالت و ناخواندگی کے مرض سے دور تھے۔
تعلیم نسواں کی اہمیت وضرورت اور اس کے شرعی حکم ومقام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہنوز سلسلہ جاری ہے۔ چند سالوں سے بچیوں کی تعلیم وتربیت کا رجحان دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔ دیگر برادریوں کے مقابلے میں ہماری شیرشاہ آبادی برادری کی بچیوں کی شرح خواندگی قابل ماتم تھی۔ لیکن حالیہ چند سالوں سے شیر شاہ آبادی برادری بھی کشاں کشاں بیدار ہو رہی ہے۔ ان کے اندر بچیوں کی تعلیم وتربیت کا شوق وذوق پروان چڑھ رہا ہے۔ علاقے میں نسوانی اداروں کا جال بچھ رہا ہے اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے۔
بچیوں کی تکمیلِ تعلیم کے سلسلے میں ایک سوال بار بار اٹھتا ہے جوکہ بہت حد تک شائستۂ التفات اور غور طلب بھی ہے، وہ یہ ہے کہ فضیلت تک پہنچتے پہنچتے بچی کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے، پھر اس کو جلدی رشتہ نہیں مل پاتا ہے۔ لوگ تعلیم وتربیت کو پرے رکھ کر عمر کی مزعومہ زیادتی کو خواہ مخواہ مسئلہ بناتے ہیں۔ حقیقت میں اس کی بہت ساری مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ بہت ساری لڑکیاں فراغت کے بعد تدریسی فرائض انجام دے رہی ہیں، لیکن انھیں رشتہ اس بنا پر نہیں ملتا ہے کہ شیر شاہ آبادی کے غلط مفروضے کے مطابق ان کی عمریں زیادہ ہوگئی ہیں۔ حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو نسوانی اداروں کے فضیلت تک مقررہ نصاب تعلیم کی تکمیل کے بعد بچی کی عمر زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر وقت پر تعلیم کا آغاز ہوجائے تو اس سے بھی پہلے فراغت کا امکان ہے۔ عمر کی یہ معمولی زیادتی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے کہ اس کی بنا پر تعلیم یافتہ لڑکی کو اہمیت نہ دے کر اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور تعلیم کی قدر ومنزلت کو گھٹانے کی ناروا اور ناپاک کوشش کی جائے۔ بلا شبہ اس غیر شرعی وغیر منطقی ذوق نے بہت سارے والدین اور ان کی تعلیم یافتہ دختران کی دل شکنی کی ہے۔ اس لیے دیکھا یہ جاتا ہے کہ عام طور پر وہی بچیاں فضیلت تک پہنچتی ہیں جن کے رنگ روپ قبول خاطر نہیں ہوتے یا جن کے گارجین کے پاس گداگروں کی جھولیاں بھرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ قبول صورت بچیاں مرحلۂ متوسطہ یا زیادہ سے زیادہ مرحلۂ ثانویہ تک پہنچتے پہنچتے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوجاتی ہیں۔ ان کے گارجین کو تعلیم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔
عمدہ اور پائیدار تعلیم کا حصول ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور طولِ زمان کا طالب ہوتا ہے۔ ذہنی تناو، ٹنشن، ڈپریشن اور جلد بازی کے ساتھ بہتر تعلیم کا حصول ممکن نہیں۔کسی طالبہ کے ذہن میں اگر یہ پریشان کن خیال ہمیشہ موجود رہے کہ فراغت کے بعد بھی میری شادی کا مسئلہ میرے باپ کے لیے سوہان روح ثابت ہوگا۔ لڑکا میری تعلیم وتربیت کو پس پشت ڈال کر میری عمر اور رنگ روپ کو معیارِ نکاح بنائے گا، تو بھلا یکسوئی کے ساتھ وہ طالبہ اپنے تعلیمی سفر کو کیسے جاری رکھ سکے گی۔ ژولیدہ خاطری اسے حصول علم کے لیے محنت ومشقت اور جد وجہد سے بے زار رکھتی ہے اور پھر فراغت کے بعد بھی وہ کسی لائق نہیں بن پاتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ معلمات کی اکثریت علمی ناپائیداری کا شکار ہے۔ اور اس کا قصوروار جس طرح ہمارا دین بے زار سماج ہے اسی طرح پڑھنے والی طالبات بھی ہیں۔ سماج کا قصور یہ ہے کہ اس نے نوجوان نسل کی خودداری اور غیرت نفس کو سلب کر کے اسے بے غیرت بنادیا ہے۔ اسے تعلیم وتربیت اور اخلاق وکردار حتی کہ حسن وجمال سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔ اگر سروکار ہوتا ہے تو بس لڑکی کے باپ کی دولت سے۔ ایک باپ اپنی بیٹی پر محنت ومشقت اور پسینے کی کمائی خرچ کرے، اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرے اور شادی کے وقت اسے اپنے گداگر داماد کو ایک موٹی رقم بھی دینا پڑے تو بھلا ایسی صورت میں کون باپ اپنی بیٹی کو خوش دلی کے ساتھ پڑھانا لکھانا چاہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گارجین کی اکثریت مجبوری میں یا رنگ روپ کے نکھار کے لیے اپنی بچیوں کو اداروں میں داخل کرتی ہے۔ بچیوں کا قصور یہ ہے وہ اپنی قسمت سے ہمیشہ شکوہ کناں اور نالاں رہتی ہیں۔ زیادہ تر بچیاں محنت سے پڑھنے کی بجاے وقت گزاری کرتی ہیں۔ ان کا کوئی نصب العین ہوتا ہے اور نہ ایجوکیشن کی تکمیل کے سلسلے میں فیوچر پلاننگ ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو حالات کے نشیب وفرازکے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ بس انھیں شادی کا مسئلہ بے چین کیے رکھتا ہے۔
اللہ تعالی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ اس نےتقوی ودینداری کو فضیلت وترجیح کا سبب قرار دیا ہے۔ کسی کو اس نے حسن وجمال کی دولت سے مالا مال کیا ہے اور کسی کی شکل وصورت میں کمی رکھی ہے۔ انسانی شکل وصورت میں حسن وقبح کے امتزاج ہی میں نظام کائنات کے اعتدال وتوازن کا راز مضمر ہے۔ اللہ تعالی کا کوئی بھی کام حکمت ومصلحت سے خالی نہیں۔ پرسکون ازدواجی زندگی کا دارومدار حسن سیرت کے انتخاب وترجیح پر ہے۔ سیرت وکردار کے حسن وجمال کو نظر انداز کرکے حسن صورت پر فریفتہ ہونے والے اپنی ازدواجی زندگی میں اکثر قلق واضطراب اور بے چینی و بے کلی میں مبتلا رہتے ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے:
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اس سے خوش ہوتا ہے دل
صلاحیت وقابلیت کی قدر ہر زمانے میں رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اس لیے اگر کوئی بچی اپنے زعم کے مطابق اپنے آپ کو حسن صورت کی دولت سے محروم سمجھتی ہے تو اسے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اپنے اخلاق وکردار کو سنوارنے اور اپنے اندر بھر پور علمی قابلیت ولیاقت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کے اندر اگر واقعی صلاحیت ہوگی تو یقینا اس کی قدر ہوگی۔ بہت سارے علم دوست اور قدردانِ صلاحیت آپ کی ظاہری صورت کو نظر انداز کرکے آپ کی سیرت وصلاحیت کو ترجیح دیں گے۔نسوانی اداروں میں باصلاحیت معلمات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ میاں بیوی اگر دونوں معلم ہوں تو ذمہ داران ایسے جوڑے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پہلے آپ اپنے آپ کو اس لائق بنائیے تو سہی پھر دیکھیے پسند ناپسند کا حق سماجی طور پر آپ کے پاس بھی ہوگا اور سماج کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
آج کل کی نئی نسل کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اسے لڑکی کے اندر بیک وقت سارے گن چاہیے۔ لڑکی پڑھی لکھی ہو، خوبصورت ہو، مالدار ہو اور کم عمر والی بھی ہو۔ بلاشبہ بیک وقت ان تمام اوصاف کا مطالبہ کریلے کی بیل پر خوشۂ انگور کی امید کے مترادف ہے۔ کوئی بچی شکم مادر سے پڑھ لکھ کر اس دنیا میں نہیں آتی ہے۔ حصول تعلیم میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے تعلیم یافتہ لڑکیوں کی عمریں شادی کے وقت کچھ زیادہ ہوسکتی ہیں۔ تعلیم وتربیت کو پس پشت ڈال کر عمر کی زیادتی کو مسئلہ بنانا کسی بھی طور پر قرین انصاف نہیں ہے۔ علماے دین اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کریں تو بہت حد تک اس کا حل سامنے آسکتا ہے۔ وہی اگر علم کی قدر نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
برصغیر میں دوسری شادی کو ایک طرح سے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ عوام تو عوام خواص بھی اس کی ہمت نہیں جٹا پاتے ہیں۔ اس سنت کو اگر زندہ کرنے کی کوشش کی جائے اور اہل ثروت علما جرات کرکے پہل کریں تو ان شاء اللہ نکاح ثانی کا دھیرے دھیرے ماحول بنے گا اور بہت ساری غیرشادی شدہ فارغات مدارس کو خاوند دیدگی کی نعمت میسر ہوگی۔ فارغات مدارس کو بھی اس گتھی کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو اس لائق شوہر ملے جو دو بیویوں کے اخراجات برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو ہمت وحوصلہ اور شرح صدر کے ساتھ اسے قبول کرلینا چاہیے۔ فارغات مدارس کی شادی کا مسئلہ جو دن بدن مشکل سے مشکل ترین بنتا جا رہا ہے، اس کے حل وکشود میں طرفین کی حصہ داری ضروری ہے۔
عالمہ لڑکی کی شادی کسی عالم لڑکے سے ہو تو سونے پہ سہاگا۔ اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکے تو اسے مسئلہ بنانا اور عزوبت کی زندگی گزارنے کی ٹھان لینا غیر شرعی وغیر منطقی روش ہے۔ لڑکا تعلیم یافتہ ہو، اخلاق مند ہو تو اس سے شادی کرنے میں حرج محسوس نہیں کرنا چاہیے۔بہت ساری معلمات کی یہ ذہنیت بنی ہوئی ہے کہ شادی کرنا ہے تو کسی عالم ہی سے کرنا ہے۔ عام آدمی سے شادی کرنا ہماری تعلیم یافتگی کی توہین ہے۔ اس غیر منطقی مطالبے کی بھینٹ بہت ساری فارغات مدارس چڑھ چکی ہیں۔ شنید کے مطابق کسی معلمہ نے شرط رکھی تھی کہ اگر شادی کروں گی تو کسی جید مدنی عالم سے لیکن سوے اتفاق سے ایسا ہو نہیں سکا اور عمر ڈھلنے کے بعد کسی عام عالم سے اسے شادی کرنی پڑی۔ اس لیے حدیث رسول پر عمل کرتے ہوئے اگر لڑکے کی دینداری اور اخلاق مندی قابل اطمینان ہے تو اس سے شادی کرلینا ہی خیروبھلائی کا سبب اور فتنہ وفساد سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
ماحول کو منٹوں اور سیکنڈوں میں سدھارا نہیں جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مسلسل جد وجہد درکار ہے۔ زیربحث مسئلے کا حل بھی یہی ہے کہ اس پر سنجیدہ حلقوں میں بات چیت ہو، تحریری اور تقریری طور پر لوگوں کی ذہن سازی کی جائے، غیرشادی شدہ حضرات اس طرف دھیان دیں، علم کی قدر کریں اور اہل ثروت علماے دین سنتِ نکاح ثانی کے احیا کا شرف حاصل کریں۔ ہمت مرداں مدد خدا۔

8
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
4 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
مبارك حسين سلفی

بروقت بہت ہی مناسب تحریر ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ !!
بارک اللہ فیکم شیخنا الکریم ۔

تسلیم حفاظ عالی

آمين يارب العالمين
جزاكم الله خيرا

مسرور عالم سلفی

ما شاء اللہ، بہت ہی اچھی تحریر ہے اللہ مزید توفیق عطا فرمائے آمین۔ نکاح ثانی کی بر وقت بے حد ضروری ہے اور یہ کام کے لیے ہم علما دین ہی کو پہل کرنا چاہیے۔ اس سے کئی ایک فائدے ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ نکاح ثانی سے جو سب سے بڑا فائدہ ہوگا وہ یہ ہے کہ جہیز کی لعنت ختم ہوگی کیوں کہ دوسری شادی سے لڑکیاں کم ہوں گی پھر صحیح لڑکی نہ ملنے کی صورت میں لوگ بنا جہیز کے ہی شادی کر لے جائیں گے۔ باقی فوائد تو قرآن و حدیث میں… Read more »

تسلیم حفاظ عالی

شكرا
جزاكم الله خيرا

محمد منصور عالم

ما شاء اللہ بہت عمدہ تحریر ۔
ہمیں اس پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے ۔

تسلیم حفاظ عالی

جزاكم الله خيرا

ابو عروج خلیل احمد

بکواس ہی بکواس۔ صاحب مضمون سے سوال کہ آپ نے مشورہ تو دیا ہے کہ نکاح ثانی کریں، کیا آپ اپنی بیٹی دیں گے بطور دوسری بیوی، ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ میری ایسی کوئی بیٹی بیٹھی ہوئی نہیں کہ مجھے مجبوراً کسی کی دوسری بیوی بنانی پڑے۔ یہی حال سارے مشورے دینے والوں کا ہے، مفت کے مشورے ضرور دیں گے۔ لیکن عمل نہیں۔ میں نکاح ثانی کا حامی ہوں، لیکن مجھے نہ کوئی ایسا مرد ملتا ہے جو پہلے روز سے علی الاعلان نکاح ثانی کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ اور معاشرے میں پہلی بیوی کے سے… Read more »

تسلیم حفاظ عالی

اختلاف راے کا حق ہر کسی کو ہے۔ آپ کی راے آپ کو مبارک ہو ۔ لیکن مضمون کے مشمولات کو جن سے بہت سارے لوگ اتفاق رکھتے ہیں، بکواس ہی بکواس قرار دینا آپ کی بد ذوقی اور آشفتہ مزاجی کو واضح کرتا ہے ۔