یہ اللہ کے وہ چنیدہ بندے ہوتے ہیں جو اپنے ہی جیسے بندوں میں اجنبی بن کر رہتے ہیں۔ “طوبی للغرباء” کی تفسیر بننے کے لیے جان مارتے ہوئے۔ “طوبی لمن وجد فی صحیفتہ استغفار کثیر” پر عمل کرنے کی کوشش میں گناہوں سے بچتے بچتے کبھی گناہ سرزد ہوجائے تو کثرت سے استغفار کرتے ہیں۔
جب دنیا خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے یہ اللہ کے کلام میں سے حکمت کے موتی چنتے ہیں۔ ان موتیوں سے ایک مالا تیار کرتے ہیں۔ یہ حاملین قرآن عجمی ہوتے ہوئے عربی زبان کے لب و لہجے میں قرآن کو نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں اگر اللہ نے خوش الحانی نہ عطا کی ہو، لہجہ کانپتا ہو، آواز ساتھ نہ دیتی ہو تب بھی پوری تگ و دو سے آواز کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کے کلام کی زبان کو سیکھنا ہوتا ہے. “تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے دوسروں کو سکھائے” پر عمل کے لیے دنیاداری کے لالچ میں قرآن کی اجرت لینے سے تعبیر کرنے والے معاشرے کی باتیں سننے میں لگا دیتے ہیں۔
دنیا کے جھمیلوں سے بچ کر قرآن مجید میں پناہ ڈھونڈتے یہ لوگ چاہتے ہیں ان سے سوالات ایسے کیے جائیں جن کے جوابات میں کسی کی اہانت کا پہلو نہ ہو۔
آپ کا سسرال کیسا ہے؟ آپ سے ملتا ہے؟ آپ کہاں رہتی ہیں؟ میکے میں رہتی ہیں یا سسرال میں؟ میکے میں کیوں نہیں رہتیں؟
آپ کی بہن کا شوہر کیسا ہے؟ اس کی نندیں کیوں اب تک کنواری ہیں؟ آپ کے فلاں رشتے دار کو طلاق ہوگئی۔ آپ کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟ جیسے سوالات کے بجائے آپ کے بچے کیسے ہیں۔ آپ کے اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں۔ آپ کے بچوں نے آپ سے کلام اللہ میں سے کیا سیکھا ہے۔ آپ کے سٹوڈنٹ کیسے ہیں۔ وہ آپ سے کیا سیکھتے ہیں۔ کتنی دعائیں آپ کے سٹوڈنٹس کو یاد ہیں۔ قیام الیل کی فضیلت کیا ہے۔ صلاۃ الضحی چاشت اور اشراق کیا ہیں۔ تطوع صلاۃ کیا ہوتی ہے۔ تحیۃ المسجد کیسے ادا کرتے ہیں۔ آپ تشہد میں انگلی کو حرکت کیوں دے رہی تھیں۔ کیا فوت شدہ والدین کے لیے روزے رکھ سکتے ہیں۔ کیا میت کی طرف سے قربانی ہوجاتی ہے۔ توحید کیا ہے۔ آپ توحید کی بات بہت کرتی ہیں۔ آپ کو وقت کیسے مل جاتا ہے پڑھانے کے لیے۔ آج کل بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر کون کون سی کتابیں ہیں۔
عربی ترجمہ کتنا سیکھ لیا ہے؟ جیسے سوالات خوشی دیتے ہیں۔ حاملین قرآن مذاق کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں کہ کوئی برا جملہ صادر نہ ہوجائے۔ حالانکہ فطرتاً خوش طبع ہوتے ہیں۔ محرم نا محرم کی تفریق میں الجھے رہتے ہیں۔ ہم مزاج لوگوں کے برعکس حلقہ احباب میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حافظ ہوں تو حفظ کے کھونے کا فکر لاحق رہتا ہے۔ خواہشات کے غلام نہیں بنتے۔ اسراف نہیں کرتے۔ پھر رجاء و خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔ دین کے اندر دین کے علم میں فتنوں سے خبردار رہتے ہیں۔ تعلقات کو جوڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ منفیت سے دور بھاگتے ہیں۔ کوئی پلیٹ فارم چاہتے ہیں جہاں سے قرآن کا پیغام پہنچا سکیں۔ فرقہ پرست ہونے کا طعنہ سنتے ہیں۔ غم و حزن سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
صحت چاہتے ہیں تو اس لیے کہ قرآن کی خدمت کرسکیں۔
اللہ سے اچھے حافظے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ذخیرہ احادیث کھنگالتے رہتے ہیں۔ شہرت کے فتنے سے دولت کے فتنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ نیکیوں کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں۔ دین داری کے ٹیگ سے بچتے ہیں۔ نیکو کار کہلانے سے خوف کھاتے ہیں۔ اللہ کی بات کہہ کر سخت رد عمل سے نمکین پانی حلق سے اتارتے ہیں۔ تعریف کیے جانے سے پریشان ہوتے ہیں۔ راہ اعتدال پر چلتے چلتے ڈگمگا رہے ہوتے ہیں۔ انیباء کی سنت کو زندہ کرنے کی کوشش میں ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہت بھاری منصب ہے حاملین قرآن ہونا۔
اگر اللہ نے یہ منصب دے دیا ہے اسے خوش اسلوبی سے نبھانے کی توفیق دے۔ اور اس سلسلے میں ہونے والی کمی و کوتاہی کو معاف فرمادے۔ آمین
آپ کے تبصرے