آج بروز منگل 24 مئی 2022 دوپہر سے واٹس اپ پر استاذ محترم مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سن کر دل دکھی ہوگیا، جامعہ دارالسلام عمرآباد کے تعلیمی ایام کی یادیں دل ودماغ پر چھانے لگیں۔
1-شرفِ تلمذ:
استاذ محترم نہ صرف میرے بلکہ میرے والد مولانا محمد اسحاق عمری ہنچالی رحمہ اللہ سمیت مزید چار بھائیوں اور ہنچال وضلع بیجاپور کے دسیوں فارغین کے بھی استاذ ہیں،
اس لیے گھر، خاندان بلکہ پورے گاؤں اور ضلع بیجاپور میں آپ کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا تھا اور موقعہ محل سے آپ کے اقوال زریں اور آراء کا اظہار کیا جاتا تھا۔
مجھے الحمد للہ آپ سے تفسیر، جامع الترمذی، نزهة النظر في شرح نخبة الفكر اور مقدمة ابن الصلاح پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ تفسیر میں مختلف مقامات پر امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے بات اس درد سے پیش کرتے کہ کلاس میں خاموشی چھا جاتی۔ ترجمہ قرآن میں ہو یا دیگر امور میں مولانا آزاد کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے اور استشہاد کے طور پر مولانا کی بڑی بڑی عبارتیں ہو بہو سنا دیتے۔ کبھی تاریخ اور اقوام عالم کا تذکرہ ہوتا تو قرآن مجید کے مطالعہ اور عباسی دور میں ترجمہ شدہ کتابوں کو ان کی ترقی اور ایجادات واکتشافات کا راز بتلاتے۔
2- تقریر وتحریر:
جب بھی آپ کا خطاب ہوتا تو طلبہ بڑے انہماک سے آپ کی بات سنتے۔ موضوع سے متعلق مناسب آیت کی تلاوت کرتے اور بڑا فصیح ترجمہ پیش کرتے۔ تمہید اور خطابی جملوں کے بعد بڑے جوش وجذبہ اور جچے تلے الفاظ میں اپنی بات رکھتے عربی اور اردو زبان پر خاصا عبور تھا اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں اشعار آپ کو ازبر تھے اسی لیے موقع ومحل کے اعتبار سے عربی، اردو اور فارسی کے اشعار کا سہارا لیتے تو “ان من البيان لسحرا” کی تصویر بن جاتے۔
کلمات کی تکرار سے کلی طور پر اجتناب کرتے۔ جب تک خطاب جاری رہتا سب ہمہ تن گوش ہوتے اور خطاب کے بعد اس کا طلبہ پر اس قدر اثر ہوتا کہ آپ کی تقریر کے جملوں کو کلاس اور رہائش گاہ میں دہرایا کرتے۔
آپ کی تحریریں بھی بڑی جاندار ہوتیں جب کبھی ماہنامہ راہ اعتدال عمرآباد کا عام یا خاص شمارہ شائع ہوتا تو قارئین سب سے پہلے آپ کا مضمون پڑھتے “میرے حج وعمرے” کے عنوان سے راہ اعتدال میں آپ نے جو مضامین لکھے وہ اس قدر مقبول ہوئے کہ اس کی افادیت کی خاطر اسے الگ کتاب کی شکل میں (ارض حرم میں پہلا قدم) کے نام سے شائع کیا گیا۔
اس کے علاوہ آپ کی ایک کتاب “میرے اساتذہ” اپریل 2020 میں ادارہ تحقیقات اسلامی جامعہ دارالسلام عمراباد سے شائع ہوئی جو نہ صرف آپ کی تحریری صلاحیتوں کی عکاس ہے بلکہ اپنے اساتذہ سے گہری عقیدت اور وابستگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس کتاب میں آپ نے عالم اسلام کی مشہور شخصیات میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اور شیخ ناصر الدین البانی اور شیخ محمد امین شنقیطی رحمہم اللہ کے حالات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے جو طلبہ اور اساتذہ سب کے لیے بہت مفید ہے۔ نصف صدی بعد اپنے اساتذہ اور تعلیمی دور کی باتوں کو قید تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی کتابوں میں متاعِ قرآن (مجموعہ دروس قرآن) اور صدائے دل (مجموعہ خطابات) ہیں جو آپ کی تحریری وتقریری صلاحیتوں کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
3-اوصاف حمیدہ:
استاذ محترم بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے دوسروں کا بڑا احترام کرتے چھوٹے سے چھوٹے طالب علم کو بھی آپ اور جی کہہ کر خطاب کرتے۔ کسی طالب علم پر کوئی پریشانی آجاتی یا کسی عزیز کا انتقال ہو جاتا تو اسے تعزیتی کلمات کہتے اور بڑی شفقت وہمدردی کا اظہار فرماتے جو طلبہ کے رنج وغم کو بھلانے کا باعث بنتا۔
کسی بھی طالب علم کی امتیازی کامیابی یا فارغین کے کارہائے نمایاں کی خوش خبری سنتے تو درس میں اسے طلبہ سے بیان کرتے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تین فارغین (1)مولانا عبد العظیم عمری مدنی ہسکوٹہ (2)مولانا دکتور عبداللہ مشتاق عمری مدنی(3) دکتور آر کے نور محمد عمری مدنی نے اپنے کلیہ میں امتیازی کامیابی حاصل کی تو آپ نے راہ اعتدال میں ایک مضمون “ہمارے شاہین بچے” کے عنوان سے لکھا جو اپنے شاگردوں کی کامیابی پر دلی مسرت وشادمانی کی دلیل ہے۔
ویسے ہر طالب علم سے آپ بڑی اپنائیت سے ملتے کوئی طالب علم درس میں کوئی سوال کرتا تو بڑی توجہ سے سنتے اور اطمینان بخش جواب سے مطمئن کرتے نہ کسی سوال پر ناراض ہوتے نہ ٹوکتے۔
4- ایک یادگار سفر:
سنہ 2002 میں جماعت ہفتم میں تھا جمعرات کا دن تھا درس جاری تھا کہ یکایک نقیب صاحب کلاس روم کے دروازہ پر نمودار ہوئے اور کہنے لگے”محمد راشد” مولانا ظفر صاحب بلاتے ہیں۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا تو فرمایا مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی حفظہ اللہ کچھ ہی دیر میں مدراس جارہے ہیں آپ کو مولانا کے ہمراہ جانا ہے۔
میں مولانا کے ہمراہ آمبور پہنچا اور وہاں سے کوئمبتور سے آنے والی ٹرین انٹرسٹی ایکسپریس میں دوپہر گیارہ بجے کے قریب سوار ہوئے صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی سیٹ ملی میں نے مولانا کو بیٹھایا اور خود دروازہ کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں آپ نے مجھے اشارہ سے بلایا اور کہا “آؤ جی اب تم بیٹھو میں کھڑے ہو جاتا ہوں” میں شرمندہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہوگیا میں نے کہا مولانا آپ تشریف رکھیں مجھے کھڑے رہنے میں کوئی دشواری نہیں۔
پھر ارکونم اسٹیشن آیا تو پاس کے مسافر کے اترنے پر آپ نے مجھے وہاں بلالیا۔
پاس بیٹھا تو میرے پاس موجود ایک کتاب پر آپ کی نظر پڑی تو فرمایا “سفر میں کتابوں کا مطالعہ نہیں کائنات کا مطالعہ کرنا چاہیے”
سفر میں خورد ونوش کی اشیاء فروخت کرنے والے آتے تو مجھ سے پوچھ لیتے بتاؤ جی کیا لوگے؟ میں ہر بار انکار کرتا تو کہتے “دیکھو جی میں تو مدراس پہنچ کر کھاؤں گا لیکن آپ کچھ کھالو”
پھر ہم مدراس سینٹرل ریلوے اسٹیشن اتر کر آٹو رکشہ کے ذریعہ مسجد عبداللہ ابن المبارک (باوٹا بیڑی) پہنچے جتنے کرایہ پر اتفاق ہوا تھا اس سے کچھ زیادہ کرایہ سے نوازا آٹو ڈرائیور بڑے شکریے کے کلمات ادا کرتا ہوا رخصت ہوا۔
وہاں آپ نے مجھے نماز فجر اور جمعہ کی نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ آپ کی خواہش تھی کہ میں اسی مسجد میں تراویح سناؤں جس میں آپ تراویح کے بعد تفسیر کیا کرتے تھے لیکن معتمد عمومی کاکا سعید احمد عمری حفظہ اللہ کو کیرلا سے حافظ کی ضرورت پر مشتمل خط موصول ہوا تو آپ نے مجھے وہاں ارسال کیا۔ یہ مدینہ مسجد ایم جی روڈ یرناکولم میں تھی جس کی کمیٹی کے ذمہ داروں میں ہاشم حاجی کے علاوہ سابق ایم پی ابراہیم سلیمان سیٹھ (صدر انڈین نیشنل لیگ) تھے آپ ہر روز تراویح میں حاضر رہتے اور جامعہ کے حال احوال پوچھتے چند سال قبل انتقال کر گئے۔ (اللہ غریق رحمت کرے- آمین)
ہمارے مدراس پہنچنے کا ایک مقصد مولانا کی جمعیت اہل حدیث تمل ناڈو کی ایک میٹنگ میں شرکت تھا جس میں مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی رحمہ اللہ، کاکا سعید احمد عمری حفظہ اللہ، الحاج رؤوف احمد عمری اور مولانا عبداللہ عمری مدنی حیدرآبادی کے علاوہ اعیان جماعت کی ایک خاص تعداد میلوڈی ہوٹل میں جمع تھی۔ میٹنگ مدراس میں جمعیت کے مرکز کے قیام سے متعلق ہوئی تھی اب کئی سال بعد الحمد للہ میٹنگ کے خوش کن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
ہم لوگ واپسی میں مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی کی کار میں عمرآباد واپس ہوئے۔ استاذ محترم مولانا ظہیر الدین اثری کے ہمراہ حافظ عبد الغنی عمری مدنی مدارسی آئے تھے ہم چاروں رات نو بجے کے قریب عمرآباد واپس پہنچ گئے مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی کی دلچسپ باتوں میں سفر ایسا طے ہوا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔
بہرحال آپ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے آپ کے لواحقین، ذمہ داران جامعہ، طلبہ وفارغین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آپ کی تعلیمی، دعوتی واصلاحی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے آپ کے شاگردوں کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
ماشاء اللہ بہت جاندار تحریر