ملک میں مسلم شرح خواندگی سے سبھی واقف ہیں، اسلامی مدارس ومکاتب ہی ان کو جلا بخش رہے ہیں تاہم حکومتی سطح پر ان مدارس کی کیا حیثیت ہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی، گئی اور کہاں دب کر موہوم ہوگئی معلوم نہیں؛ حکومتوں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا اور اس کی امید بھی نہیں ہے۔ شرح ناخواندگی کی جتنی ذمہ دار حکومتیں ہیں اس سے کہیں زیادہ ہم اور ہمارا معاشرہ بھی ہے۔ معاشرہ اس حیثیت سے کہ اس کے پاس کوئی وژن اور مقصد نہیں۔ اکثریت کا مقصد پیٹ بھرنا اور پھر میٹھی نیند سو جانا ہے۔ اسی شرح ناخواندگی کو کم کرنے کے لیے مختلف ریاستوں میں مدرسہ بورڈ، اردو بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے طلباء تعلیم سے بہرہ ور ہو سکیں تاہم اکثر بورڈ اور تعلیمی منصوبوں کا کام صرف کاغذی طور پر ہی باقی رہ گیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ ہے۔ یہ بورڈ سال میں ایک بار داخلے کا اعلان کرتا ہے اور پھر امتحان کے اعلانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ حالانکہ طلباء کی اکثریت نصاب تعلیم سے بے خبر ہوتی ہے۔ اس بورڈ کے تحت منشی، مولوی (ہائی اسکول)، عالم(انٹرمیڈیٹ)، کامل(بی اے)، فاضل(ایم اے) کے مساوی امتحان کرائے جاتے ہیں۔
اسلامی مدارس کی حیثیت حکومتی سطح پر کیا ہے اور وہاں کی ڈگریاں کیا حیثیت رکھتی ہیں سبھی جانتے ہیں۔ مجبوراً طلباء اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ سے مولوی منشی عالم کامل فاضل کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور بایں ضرورت اس کو کام میں لاتے ہیں تاکہ کم از کم حکومت کی نظر میں انٹرمیڈیٹ پاس اور گریجویٹ تسلیم کیے جائیں۔ اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کا تذکرہ یہاں سرِدست جس حیثیت سے کیا جا رہا ہے وہ اس کا اپنا سست رویہ اور وقت پر کام نہ کر پانا ہے۔ دراصل بیرون ملک سفر کرنے کے لیے ECR-ECNR پاسپورٹ بنائے جاتے ہیں، ECR پاسپورٹ سے بچنے کے لیے لوگ حکومتی سطح پر منظورشدہ مدرسہ بورڈ کی ڈگری کااستعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ علاقائی پاسپورٹ آفس کی طرف سے ۲۰۱۷ سے پہلے کی مارکشیٹ مدرسہ بورڈ کے آفس جانچ پڑتال کے لیے بھیج دی جاتی ہے۔ اب مدرسہ بورڈ لکھنؤ والے کرتے کیا ہیں کہ اس کا جواب ہفتہ دو ہفتہ نہیں بلکہ چار پانچ مہینوں بھی نہیں دیتے ہیں جس سے متعلقہ شخص کا پاسپورٹ بورڈ کی عدم توجہی کے سبب سال چھ ماہ ہولڈ ہی پڑا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۱۴ سے پہلے مدرسہ بورڈ کے ڈگری ہولڈرز بآسانی اپنا پاسپورٹ بنوا سکتے تھے لیکن وقت بدلا، حالات نے کروٹ لی اور مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کی ڈگری حکومت کی نظر میں مشکوک قرار پائی۔ سال ۲۰۱۲ میں راقم نے مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ سے حاصل شدہ مولوی کی ڈگری سے اپنا پاسپورٹ بنوایا تھا جو بآسانی ایک مہینہ کے اندر مل گیا۔ تب کسی طرح کی کوئی دقت یا جانچ وغیرہ کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی۔ تاہم گزشتہ ۲۵؍جنوری کو راقم نے ایک بار پھر اپنے پاسپورٹ کی اختتامی میعاد میں اضافے کے لیے درخواست دی اور گورکھپور پاسپورٹ سیوا کیندر (پی ایس کے گورکھپور) گیا۔ جہاں پہلے ہی وہلے میں مولوی کی ڈگری پر سوالیہ نشان لگا کر سینٹر کے اعلی افسر کے پاس جانچ کے لیے بھیج دیا گیا۔ اعلی افسر سے اجازت نامہ ملنے کے بعد دوبارہ کاروائی شروع ہوئی اور پھر ٹوکن دے کر اندر کاؤنٹر پر بھیجا گیا۔ ضروری کاغذات دیکھ کر کاؤنٹر پر موجود شخص نے بہت ہی درد مندانہ لہجے میں کہا ’’بھائی آپ مدرسہ کی ڈگری کیوں لگارہے ہیں، آپ کو مقامی پاسپورٹ ہیڈ آفس لکھنؤ جانچ کے لیے جانا پڑے گا۔ بہت دوڑ بھاگ کرنا ہوگا‘‘۔ مزید تفتیش کے بعد اس نے یہ بھی کہا کہ ’’اس میں خاصہ وقت لگے گا، آپ کی ڈگری جانچ کے لیے بورڈ کو بھیجی جائے گی اور وہاں سے مثبت جواب ملنے کے بعد ہی آگے کی کاروائی شروع ہوگی‘‘۔ یہ سب سننا تھا کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور ایک بار پھر اسسٹنٹ پاسپورٹ آفیسر کے پاس گیا، اور اس نے گول مول جواب دے کر رخصت کردیا۔ مدرسہ بورڈ کی مارکشیٹ لگا کر ایک غیر ارادی پریشانی میں پھنس چکا تھا۔ آفس سے نکلنے کے بعد دوست احباب کے ذریعہ اطلاع ملی کہ مجھ سے پہلے بھی کئی لوگ اس پریشانی کا شکار ہوچکے ہیں اور کچھ کے پاسپورٹ تو آج تک نہیں ملے۔ راقم کو مدرسہ بورڈ کی مارکشیٹ کو لے کر ہونے والی پریشانی کی قطعی جانکاری نہیں تھی۔
ایک ہفتے سے زیادہ گزر جانے کے بعد آن لائن اسٹیٹس چیک کرنے پر مسلسل فائل لکھنؤ علاقی پاسپورٹ ہیڈ آفس میں زیر جائزہ دکھا رہا تھا۔ بالآخر یکم فروری کو فیصلہ کیا کہ لکھنؤ جاکر معلومات کریں کہ آخر فائل کیوں رکی ہوئی ہے اور کاروائی کب آگے بڑھنے کی امید ہے۔ لکھنؤ پہنچنے کے بعد پاسپورٹ آفس سے بتایا گیا کہ آپ کی مارکشیٹ مدرسہ بورڈ جانچ کے لیے روانہ کردی گئی ہے وہاں سے فائل آنے کے بعد ہی آپ کا کام شروع کیا جائے گا۔ راقم پاسپورٹ آفس سے سیدھا جواہر بھون حضرت گنج مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کے دفتر روانہ ہوگیا۔ دروازے پر داخلہ پاس جاری کروایا اور پوچھتے ہوئے دفتر کی طرف بڑھا۔ دفتر میں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ عملہ گپ شپ اور چائے نوشی و وقت گزاری میں لگا ہوا ہے۔ کچھ لوگ اِدھر اُدھر فائل الٹ پلٹ رہے تھے۔ بات سننے کی درخواست پر ایک شخص کو اپنی فائل دکھایا، جس نے جواہربھون کی ساتویں منزل کے روم نمبر۱۰۵؍میں جانے کو کہا۔ زینوں سے ہانپتے کانپتے ساتویں منزل پر بورڈ کے کمپیوٹر روم میں پہنچا جہاں تین اہلکار کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ راقم کی فائل دیکھنے کے بعد ایک شخص چونک سا گیا اور گویا ہوا ’’آپ کی فائل تو محض ایک ہفتے پہلے کی ہے، ہمارے یہاں گزشتہ سال جون جولائی کی فائلیں پڑی ہوئی ہیں اور ہم اس کو مکمل کرکے روانہ نہیں کرسکے ہیں، آپ انتظار کریں وقت آنے پر آپ کا کام بھی ہوجائے گا‘‘۔ چھ سات مہینہ تاخیر سن کر میں نے سر پکڑ لیا کہ اب کیا ہوگا۔ وہاں موجود شخص سے بہت ریکویسٹ کیا کہ سر! میری فائل جلدی پاسپورٹ آفس کو بھیج دیں تاکہ میرا کام جلدی ممکن ہوسکے۔ کہنے لگا ’’کم از کم دو مہینہ انتظار تو کرنا ہی پڑے گا۔ بہت ساری فائلوں کی بنڈلیں دکھاتے ہوئے کہا ہم ہر دن صرف یہی کام کر رہے ہیں اور یہ فائلیں پاسپورٹ انکوائری ہی سے متعلق ہیں، آپ جائیں وقت آنے پر آپ کا بھی کام ہوجائے گا‘‘۔ میرے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی اپشن نہیں تھا۔ یہ سست روی اور بورڈ کا رویہ۔ وہاں جا کر حقیقت حال کا اندازہ ہوا کہ آخر مدرسہ بورڈ کی ڈگری سے پاسپورٹ بنوانے والوں کے پاسپورٹ کیوں نہیں بن پارہے ہیں یا سال چھ مہینے کیوں لگ جارہے ہیں۔ وہیں ایک مولانا صاحب سے ملاقات ہوئی جو میری طرح پریشان حال نظر آرہے تھے میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا معاملہ ہے؟ آپ کیوں پریشان نظر آرہے ہیں؟ کہنے لگے بھائی ایک سال پہلے پاسپورٹ اپلائی کیا تھا اور ابھی تک پاسپورٹ نہیں ملا، مدرسہ بورڈ آفس کے چکر لگا رہا ہوں۔
آپ کو بتادیں کہ مدرسہ بورڈ کے ایک ملازم سے میں نے اپنی فائل جلدی نکلوانے کو کہا، بہت منت سماجت پر وہ راضی تو ہوگیا مگر دس دن کا مہلت مانگا اور دس دن ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ۷؍فروری کو اس شخص سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگا آپ کا لیٹر تیار ہوگیا ہے صرف دستخط کروانا باقی ہے ایک دو دن میں پاسپورٹ آفس روانہ کردیا جائے گا۔ مسلسل ایک ہفتے سے یہی سن رہا ہوں لیکن ابھی تک فائل پر دستخط نہیں ہوسکا ہے۔
یہ کہانی صرف میری نہیں بلکہ ہزاروں ایسے لوگوں کی ہے جو مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کی ڈگری سے پاسپورٹ بنوا رہے ہیں کیونکہ ان کی فائلیں بورڈ آفس میں اٹکی ہوئی ہیں اور یہ لوگ موج مستی میں مگن ہیں انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ صرف موٹی موٹی تنخواہیں اٹھاتے ہیں اور جو پریشان حال ہیں یا ان کے دفتر کے چکر لگا رہے ہیں ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ وقت رہتے اپنا کام ختم کرلیں اور پاسپورٹ کی جانچ رجسٹری موصول ہوتے ہی ایک دو دن میں جواب دے دیں تو ان کا کام بھی نہیں بڑھے گا اور متعلقہ شخص کی پریشانی بھی دور ہوجائے گی۔ ذرا سوچیں کہ اس ڈیجیٹلائیزیشن دور میں بھی اردو ادارے کس کسمپرسی میں جی رہے ہیں! ان کے یہاں کی ڈگری آج بھی آف لائن ہیں۔ انکوائری کا جواب دن ہفتہ نہیں بلکہ کئی کئی مہینوں بعد دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کا کام صرف مارکشیٹ کو اپنی فائل سے ملا کر درست رپورٹ دینا ہوتا ہے لیکن اسی میں یہ لوگ چھ سات مہینہ کا طویل عرصہ گزار دیتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ کیوں بورڈ اپنے سندیافتگان کو پریشان کررہا ہے؟ آخر یہ مصیبت کب ختم ہوگی؟ کیا اس کا جواب بورڈ کے پاس ہے؟ کیا مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ بہتری لانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کر رہا ہے؟ راقم جیسے ہزاروں لوگ بورڈ کی سستی کی وجہ سے پریشانی جھیل رہے ہیں، آخر بورڈ ہماری آواز کب سنے گا؟ کب بورڈ اپنے کام کاج میں جلدی کرے گا؟ شاید اس کا صحیح جواب اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ ہی دے سکے۔ یہی حال رہا تو دیکھیں کون سے مہینہ میں! کس تاریخ کو! راقم کا پاسپورٹ ہاتھ لگتا ہے، جب تک یونہی دن گن رہے ہیں۔
٭ ٭ ٭
(نوٹ: یہ تحریر 16/فروری 2022 کی ہے جسے کسی سبب نشر نہیں کیا گیا۔ قارئین کو اس پریشانی کے تئیں آگاہی کے لیے اب نشر کیا جارہا ہے۔ معلوم ہو کہ راقم کا پاسپورٹ پورے چار مہینے بعد 26 مئی 2022 کو ہاتھ آیا ہے)
مدرسہ بورڈ سے بہتر ہے کہ مدارس کے فارغین niosبورڈ سے 10th کا امتحان دے اور اس سے اپنا پاسپورٹ وغیرہ بنائے اور اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو 12th بھی اس بورڈ سے کرکے یونیورسٹی کا رخ کر سکتے ہیں ۔جس میڈیم سے پڑھنا چاہیں یا جس subject کو لینا چاہیں سب available ہے