زندگی

حمود حسن فضل حق مبارکپوری متفرقات

زندگی کا فلسفہ جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل، سہل انگاروں کے لیے یہ ایک حسین خواب ہے لیکن انھیں نہیں معلوم کہ نیند ٹوٹنے پر یہ خواب ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خواب ہی تو ہے جس کی تعبیر ممات ارضی ہے جو فنا کی مثیل ہے، وہ بے پروا اسی خواب کے سحر میں سرگرداں رہتے ہیں، افسانوی زندگی کا لباس زیب تن کرکے حقیقتوں سے دامن بچاتے رہتے ہیں، انھیں فانی زیست میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات فرضی کردار آفرینیوں کے معمولی آثار لگتے ہیں، وہ رند بَلا نوش کے مانند اپنے اوسان شراب کے نالوں میں بہا کر ایک الگ ہی دنیا میں سبک خرام ہوتے ہیں۔ مقصدیت کی دریدہ پیکری کے سبب زندگی کی باگ ڈور ایک ایسی سمت میں ہوتی ہے جس کے راستے نہایت طویل اور سپاٹ ہوتے ہیں اور وہ راہ منزل کی معدومیت کا ماتم کرتی ہے، گزر گاہوں میں عیش و طرب کے بے شمار سرسبزو شاداب درخت ہوتے ہیں جنھیں وہ خواہشات کی کلہاڑی سے کاٹتے ہوئے اور ثمر بار ہوتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، ضرورتوں کے چاہ سے سیراب ہوکر مرادوں کے سائے میں قیام کرتے ہیں، آسائشوں کو اپنی چادر میں سمیٹ کر پیہم برق رو ہوتے ہیں، وہ پریشانی کے عالم میں بھی مادیت کی روایت سے انحراف نہیں کرتے، انھیں سکون کی تلاش تو ہوتی ہے مگر سرمدیت سے گھبراتے ہیں، وقتی تسکین پر وہ بڑی آسانی سے قناعت کرلیتے ہیں، روحانیت کی چادر انھیں غبار آلود لگتی ہے، وہ اطلس و کمخاب میں بنی ہوئی چمکدار چادر کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کے جسم پر بھلی معلوم ہو اور اسے دیکھ کر لوگ ان کے حسن انتخاب کی تعریف کریں جبکہ وہ خود داخلی کیفیات کی کشمکش سے جنگ کررہے ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک فلسفئہ حیات ایک ایسی کتاب ہے جس پر محض خواہشات کا قلم چلتا ہے، اس کتاب کا انتساب ان آرزؤوں کے نام ہوتا ہے جو کبھی قیامت تک فنا کے گھاٹ نہیں اتر سکتیں، اس کتاب کا ہر جملہ برہنگی اور آزادی کی ایسی رزم گاہ ہوتا ہے جس میں ہوس کیشوں کی تیغ زنی ہوتی ہے ، ہر سطر رقاصہ کی وہ پازیب ہوتی ہے جس کی چمک میں بلا کی کشش ہوتی ہے، ہر حرف تمناؤں کا ایسا جانور ہوتا ہے جس پر حصول بالجبر کی چھریاں چلتی ہیں۔ در اصل اس کتاب کا مؤلف ایک ایسا خوابیدہ قلم کار ہوتا ہے جس کے قلم میں غفلت کی روشنائی بھری ہوتی ہے اور ذہن و دماغ کا مکتبہ حقیقی اور روحانی کتابوں سے خالی ہوتا ہے۔

‌مگر کیا فلسفہ حیات اتنا ہی آسان ہے کہ فصل بہار سمجھ کر گزار دیا جایے، نفس کے پر فریب خوابوں کو ابدیت کے غلاف سے ڈھانک کر خود نفس کو ہی حقیقت کے نام پر بیچ دیا جایے، ممات ارضی فنا کی مثیل نہیں ہوسکتی اگر چہ زندگی بے انتہا حزن و ملال اور بے شمار آزمائشوں کی کشمکش سے دوچار ہے، ممات ارضی تو دوام و بقا اور ابدیت کا پیش خیمہ ہے گناہ گاروں کے لیے بھی اور نیکو کاروں کے لیے بھی، مگر خیر انجام ابدیت کی پر کیف لذت تو محض ان پاکباز نفوس کے لیے ہے جن کے افکار کی سطح پر زندگی سائے کی طرح ہمیشہ تیرتی رہتی ہے، وہ خواب میں بھی غافل نہیں ہوتے، ان کی زندگی مطمئن اور آسودہ تو ہوتی ہے مگر خاموش اور ساکت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا آتش شوق سرد پڑتا ہے، وہ کبھی بھلائی کے مرغزاروں میں قیام کرتے ہیں، کبھی نیکیوں کے دریاؤں کے کنارے خیمہ زن ہوتے ہیں۔ کبھی پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ کے روحانی اصولوں کو ٹٹولتے ہیں اور اپنے آپ سے راسخیت کی دلیل مانگتے ہیں، کبھی آسمانوں کی طرف دیکھ کر عہدوں اور رفعتوں کی زنجیر توڑ پھینکتے ہیں، کبھی تہہ زمین جھانک کر مال و منال پر خاک اڑا دیتے ہیں، در اصل وہ خود مضبوط نہیں ہوتے کہ وہ تو کمزور و ناتواں پیدا کیے گئے ہیں بلکہ یہ ان کا ایمان و یقین ہے جو انھیں ہر گام ایک ایسی منزل کی طرف لے جاتا ہے جس پر کامیابی کی مہر لگی ہے، اور انھیں ایسی روحانی طاقت عطا کرتا ہے جس میں عزم و حوصلے کی بے لوث آمیزش ہے۔ وہ دنیا میں خامل الذکر تو ہوتے ہیں مگر آسمانوں میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، ان کی آنکھوں میں سکوت کا ایک دریا موجزن ہوتا ہے جو رات کے آخری پہر دہاڑیں مارتا ہے اور وہ اپنی روح کو آیتوں اور دعاؤں کے موتی نما آنسوؤں سے یکسر صاف و شفاف کردیتے ہیں۔وہ سوتے نہیں کہ انھیں ہمیشہ باقی رہنے والی عظمتوں کی تسخیر کا شوق ہوتا ہے۔وہ راز حیات کے اکتشاف کی کوشش میں ہمیشہ بے قرار رہتے ہیں کہ زندگی کے مفہوم و مقصود کو پالیں اور ان کا ہر پہلو سورج کی کرنوں کی طرح شفاف ہو جائے۔

‌ واقعہ یہ ہے کہ زندگی کا مفہوم بہت مشکل ہے مگر اس مشکل مفہوم کو سمجھ لینے کے بعد سعادت کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں اور یاسیت خیر کے مزاج میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ ہاں مگر زندگی ایک خواب ہی تو ہے جسے ہر انسان دیکھتا ہے، اور اپنے مطابق اس خواب کی تعبیر ڈھونڈتا ہے، کوئی اس تعبیر کو انتہا سمجھ کر خوف مرگ سے خواب کی نغمہ زنی میں مسحور ہوجاتا ہے، اور کوئی اس تعبیر کو ابدیت کا پیش خیمہ سمجھ کر خواب سے دستکش ہو جاتا ہے مگر تعبیر ضرور پالیتا ہے جو اس خوابیدہ روح کو حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000