صابر گھر کا بڑا بیٹا تھا۔ اس سے چھوٹے تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ والد دن رات محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلاتے، گھر کا بڑا ہونے کے ناطے صابر کے کندھوں پر کئی ذمہ داریاں تھیں۔ ابو کا ہاتھ بٹانے کے لیے بہت کم عمر میں اسے گاؤں سے شہرجانا پڑا۔ کئی دنوں تک دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک مناسب جگہ نوکری مل گئی۔ اپنا روکھا سوکھا کھاکر گزر بسر کر لیتا اور تنخواہ کی اکثر رقم گھر بھیج دیا کرتا تاکہ والد کو کچھ راحت مل سکے۔ چند سالوں بعد والد کی طبیعت کافی خراب ہوگئی، اسے گاؤں جانا پڑا اور اسی بیماری میں اس کے والد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
والد کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد صابر پر مزید بوجھ بڑھ گیا اور پھر اس نے بڑے شہر کا رخ کیا، شب و روز تیزی سے گزرنے لگے، والدہ کافی بیمار رہنے لگی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہنوں کی شادی کا وقت قریب آگیا۔ اضافی وقت میں صابر نے دوسرا کام تلاش کرلیا زندگی کچھ بہتر گزرنے لگی، لیکن اضافی کام کی وجہ سے اس کا پچھلا کام متاثر ہونے لگا، کیونکہ نہ اسے صحیح سے نیند مل پاتی اور نہ ہی دیانت داری اور محنت و لگن کے ساتھ وہ پچھلا کام کرپاتا جس کے سبب اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، والدہ کے علاج اور بہنوں کی شادی کے انتظامات کرتے کرتے کافی مقروض ہوچکا تھا، کافی اداس رہنے لگا نہ کسی سے بات کرتا نہ ملتا جلتا۔ دھیرے دھیرے ڈپریشن کا شکار ہوگیا، ہمیشہ اسی فکر میں ڈوبا رہتا کہ اب کیسے والدہ کا علاج ہوگا؟ کیسے بہنوں کی شادی کروں گا؟ کیسے بھائیوں کی پڑھائی لکھائی کا بندوبست کروں گا؟ اور کیسے سارا قرض ادا کروں گا؟
۔۔۔
اللہ تعالٰی سورۂ بقرہ آیت نمبر 153 میں ارشاد فرماتا ہے:
يٰاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا استَعِينُوا بِالصَّبرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِينَ
(اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے)
نیز آیت 155 میں ارشاد ہے :
وَلَـنَبلُوَنَّكُم بِشَىءٍ مِّنَ الخَـوفِ وَالجُـوعِ وَنَقصٍ مِّنَ الاَموَالِ وَالاَنفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِينَ
(اور ہم کسی نہ کسی طرح تمھاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے)
سورۂ انبیاء آیت نمبر 85 میں انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
وَاِسمٰعِيلَ وَاِدرِيسَ وَذَا الكِفلِ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِينَ
(اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل، (علیہم السلام)یہ سب صابر لوگ تھے)
اللہ رب العالمین سورۂ زمر آیت نمبر 10 میں فرماتا ہے :
قُل يٰعِبَادِ الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُم لِلَّذِينَ اَحسَنُوا فِى هٰذِهِ الدُّنيَا حَسَنَةٌ وَاَرضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُونَ اَجرَهُم بِغَيرِ حِسَابٍ
(کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو!اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشاده ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے)
صحیح بخاری :5641 میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ، وَلَا حُزْنٍ، وَلَا أَذًى، وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ
(مسلمان جب بھی کسی پریشانی،بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے)
حضرت ایوب علیہ السلام کا اپنی بیماری پر صبر کرنا
حضرت یعقوب کا حضرت یوسف کی جدائی پر صبر کرنا
اور پیارے نبی ﷺ کا اپنے محبوب شہر مکہ سے بچھڑ جانے پر صبر کرنا
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺکے ساتھ تمام صحابہ کا بغیر عمرہ ادا کیے ہوئے مدینہ واپس آجانا اور صرف آٹھ سال کی مدت میں اسی مکہ میں دوبارہ فاتح بن کر داخل ہونا یہ سب صبر ہی کا نتیجہ تھا۔
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، صبر سے بہت سی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں بہت سے مصائب کا حل مل جاتا ہے اور بہت سی پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔
۔۔۔
کاش! صابر’صبر‘سے کام لیتا، در و الم مصائب و مشکلات کی اس گھڑی میں اللہ کی طرف رجوع کرتا، اللہ سے اپنا رشتہ اور مضبوط کرتا تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دیتا جیسا کہ سورۂ طلاق آیت نمبر 2 میں اللہ کا فرمان ہے :جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستے پیدا کردیتا ہے۔
لیکن صابر نے تمام مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لیے وہ راستہ اختیار کرلیا جس کی وجہ سے اس کی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوگیا جب صابر کے گھر والوں کو یہ اطلاع ملی کہ صابر نے خودکشی کرلی۔
آپ کے تبصرے