سماج انسان کی ایک ضرورت ہے جس کے سہارے وہ اکثر بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی، بہت کچھ سیکھتا بھی ہے اور سکھلاتا بھی۔
میں جب اس سماج کو ایک درسگاہ کی نظر سے دیکھتا ہوں تو جہاں جہاں تک نظر جاتی ہے کام کی باتیں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔
موجودہ دور میں ہم اپنے آس پاس کے سماج کو زیادہ تر دو ذرائع سےدیکھتے ہیں:
ایک اپنی کھلی آنکھوں سے، اپنے آس پاس،روزانہ ملنے ملانے والے اپنے اور پرائے، گھر آنگن، بستی محلہ، مسجد بازار، لوگوں کے جھگڑے اور خوشیاں، ان سب سے انسان کا بڑا گہرا ذہنی رشتہ قائم رہتا ہے۔
دوسرا ذریعہ سوشل میڈیا ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں کی پوسٹ – چاہے خود کی لکھی ہو یا دوسروں کی لکھی آگے بڑھائی ہو – ان پوسٹوں کے موضوعات، ان کا لب و لہجہ، ان کا طرز فکر ، ان کے سطور اور بین السطور، لفظوں کے نشتر اور لہجوں کی کاٹ، مختصر یا مطول تبصرے، بسا اوقات لوگوں کی خاموشیاں۔۔۔ یہ خود بھی سماج کا ایک آئینہ ہیں بلکہ ان کا منظرنامہ کھلی آنکھوں دیکھے مناظر اور مشاہدہ سے زیادہ وسیع ہے۔
میں جب سوشل میڈیا کی بظاہر مختصر اور بباطن وسیع و عریض دنیا کو دیکھتا ہوں، سنتا ہوں ،پڑھتا ہوں تو جہاں بہت ہی تھوڑی مفید چیزیں ملتی ہیں وہیں بے شمار عجائب کا دیدار ہوتا ہے، بھانت بھانت کے لوگ اور ہر کسی کی اپنی لن ترانیاں۔۔۔
سوشل میڈیا پر حاصل ہونے والے تجربات و احساسات کو ضبطِ تحریر میں لانا قریب قریب ناممکن ہے۔
تاہم ایک پہلو ایسا ہے جس کا احساس شدت سے ہوتا ہے ۔ وہ ہے ذہنی کثافت کا، ایک دُھند سی ہے جو دماغ کے آسمان پر چھائی رہتی ہے، ایک بوجھل پن ہے جس کا احساس اکثر ہوتا ہے، بسا اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ ہمارا دماغ نہیں کوڑا دان ہے جس میں لوگ بہت کچھ پھینک جاتے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کبھی گھر سے نکل کر بازار گھوم کر آتے ہیں تو اس قدر جسمانی تھکان اور ذہنی پراگندگی کا شکار نہیں ہوتے جس قدر واٹس اپ کی تحریروں، فیس بک کی پوسٹوں، واٹس اپ اورفیس بک کی ویڈیو، فیس بک اور یوٹیوب کے کمنٹ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع میں دن رات کے اکثر حصہ میں الجھے ہمارے ذہن کو ہوتی ہے ، ہمارا ذہن غیر محسوس تھکان سے دوچار ہوتا ہے۔
آپ محسوس کریں تو ہم نے اپنے ذہن کو ایک قاتل حسینہ کی تحویل میں دے دیا ہے جسے سوشل میڈیاکہا جاتا ہے ، ہمارے ذہن اس حسین قیدخانہ کے قیدی ہیں جس کا نہ کوئی داروغہ ہے نہ کوئی سپاہی، پھر بھی ہم اس قیدخانہ کے قیدی ہیں۔
زمانہ جاہلیت کے ایک بدو سے کسی نے پوچھا کہ تم شراب کیوں نہیں پیتے؟ اس نے کہا:
لا أشرب ما يشرب عقلي(میں وہ چیز نہیں پیوں گا جو میری عقل کو پی جائے)
ہم اس بدویانہ فطری سادگی تک کو بچا نہیں سکے ہیں۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اس کثافت کے نتیجے میں ایک پراگندہ ذہن لیا ہوا کوئی انسان اپنے اندر یکسوئی کیسے برقرار رکھ سکتا ہے، اور بغیر یکسوئی کے دنیا کا کوئی بھی انسان اپنا کام یا ذمہ داری کیسے کما حقہ نبھا سکتا ہے؟
انسان کو دی گئی عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، اسی سے انسان دراصل انسان ہے، فکر و تدبر کی ریاضت اس کی دھار کو صیقل کرتی ہے اور اس عقل کا معتدل استعمال ایک انسان کی متوازن شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، لہذا اس عقل کو ملنے والی غذا اور اس عقل کے متحرک اور فعال رہنے کے لیے ایک کھلی فضا اس کی ضرورت ہیں۔
اس لیے خود کی عقل کا تحفظ ایک شرعی،عقلی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔
شریعت اسلامیہ میں انسانی عقل کو ختم کردینے والی شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے تو ان تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے جن کے استعمال سے انسان اپنی عقل کھو بیٹھے چاہے وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔
كل مسكر حرام(ہر نشہ آور چیز حرام ہے)[متفق عليه]
ما أسكر كثيره فقليله حرام(جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے)[أحمد :وصححه الألباني]
حفظ الضروريات الخمسة کے نام سے انسان کی جن پانچ بنیادی چیزوں کے تحفظ کو تشریع اسلامی کا مقصد قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک انسانی عقل کا تحفظ بھی ہے۔
انسانی عقل، شریعت اسلامیہ کی نظر میں اس کے تحفظ کی اہمیت اور ماحول و معاشرہ سے اس عقل پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق مذکورہ حقائق اور ان سے جڑے نتائج کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ درآنے والی یہ ذہنی کثافت شرعا کیا حکم رکھتی ہے؟
ذہن کو ماؤف کردینے والی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کمزور کردینے والی، غور وفکر کی رفتار کو دھیمی کردینے والی بلکہ دماغ کو تھکادینے والی اور جمود و تعطل کی ایک کیفیت طاری کردینے والی یہ ذہنی کثافت آج کے دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
شرعی و سماجی دونوں بنیادوں پر اس کا مضر اور نقصاندہ ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں %31 فیصد سڑک حادثات کی وجہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل کا استعمال اور اس میں انہماک ہے۔ موبائل کی وجہ سے سڑک حادثات کا شکار ہونے والے راہ گیروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
ہمارے پاس ان ظاہری حوادث کا تو ایک تخمینہ ہے ان کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے اعداد و شمار کی شکل میں ایک پیمانہ ہے ۔ تاہم ان چھوٹے بڑے حادثات کو اور متنوع نقصانات کو کیسے ناپا جائے جو اس ذہنی کثافت کے مرہونِ منت ہیں؟
وہ حوادث جو اکثر ایک ہی انسان کے ساتھ بار بار پیش آتے ہیں۔
مطالعہ روح کی غذا ہے اور کتابیں عقل انسانی کی سرسبز وشاداب چراگاہ، سوشل میڈیا نے لوگوں کو بالخصوص طلبہ کو ایک طرف اس روحانی غذا سے محروم کردیاہے، بہت تھوڑی سی غذا ان میں سے کسی ذریعہ سے کبھی ملتی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے ان وسائل نے انسان کے ذہن و دماغ کو دھویں کی طرح کثافت سے ایسے بھردیا ہے کہ عقل وخرد کا دم گھٹ رہا ہے مگر کچھ اس طرح کہ اس کا احساس و ادراک بھی بہت ساروں کو نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے حرام اور ناجائز استعمال کو ایک طرف رکھیے کہ اس کاحکمِ شرعی تو واضح ہے۔اس کے مروجہ مباح استعمال کے سلسلے میں ذرا غور کیجیے اور دیکھیے کہ شرعا اس کا حکم کیا ہوسکتا ہے؟
اہل علم کے نزدیک مباحات کا استعمال بھی جب حد اعتدال سے تجاوز کرجائے تو وہ سم قاتل سے کم نہیں اور شرعا حرام یا کم از کم مکروہ ہے۔
کیونکہ مباحات کے استعمال میں حد سے زیادہ پھیل جانا اسراف کی ایک شکل ہے، اور اسراف حرام یا کم از کم مکروہ ہے۔
اہل علم نے اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے:الإسراف:صرف الشيء فيما ينبغي زائداً على ما ينبغي(اسراف یہ ہے کہ ایک چیز کا استعمال صحیح جگہ پر کیا جائے تاہم حد سے زیادہ کیا جائے)[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:۲/۲۴۳]
موبائل کا حد سے زیادہ استعمال اور اس کے نتیجہ میں یہ ذہنی کثافت ہمیں مسلسل کھارہی ہے، ایک آگ ہے جو ہمارے دامن کو لگ چکی ہے، ایک دلدل ہے جس میں دھیرے دھیرے ہم دھنستے جارہے ہیں۔
اس حقیقت کو ہم جس قدر سمجھ لیں اسی قدر اچھا ہے کہ سوشل میڈیا سے جڑے ان مباحات میں اس قدر توسع اور حد اعتدال سے تجاوز کے ہم متحمل نہیں ہیں۔
امام ابن جوزی سے کسی نے پوچھا: أيجوز أن أفسح لنفسي في مباح الملاهي
(کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں لہو و لعب کے مباح ذرائع میں زیادہ توسع اختیار کروں؟)
تو ابن جوزی – رحمہ اللہ – نے جواب دیا :عند نفسك من الغفلة ما يكفيها
تمھارے اپنے نفس میں غفلت کا اتنا مادہ ہے جو اس کے لیے کافی ہے (نفس کی اس غفلت کے ساتھ مزید لہو و لعب میں توسع اختیار کرنے اور نفس کو غفلت کی وادیوں میں بھٹکنے دینے کے تم متحمل نہیں ہو سکتے)۔ [سلسلة علو الهمة للمقدم:۴/ ۲]
مضمون بہت اچھا ہے.
تدارک کے طریقے بھی بتائیں..
بغیر سوشل میڈیا کے زندگی کا تصور ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے.
سوشل میڈیا ایک چاقو کے مانند ہے جس کا صحیح اور مختصر استعمال ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا.
ان شاء اللہ