مولانا علی حسین سلفی کی وفات کا سانحہ معمولی نہیں تھا، چند لفظوں کا پیغام ‘شیخ علی حسین سلفی نہیں رہے’ صاعقہ بن کر گرا دل کی دنیا میں تہلکہ مچا گیا، ہوش و حواس گم ہوگئے، کسے خبر تھی کہ وہ اس طرح چٹ پٹ آنا فانا رخصت ہوجائیں گے۔ ان کے جانے کی خبر سن کر گھنٹوں یہی سوچتا رہا کہ جو مخلص عالم تھے وہ اس دنیائے دنی سے ناطہ توڑ رہے ہیں، ہم سے دسیوں سال بعد جو علما دنیا میں آئے موت کے پنجوں نے انھیں اس طرح اچک لیا کہ ان کے چاہنے والے ہاتھ ملتے رہ گئے، پھر سوچا کہ یہ دنیا تو راہ سفر ہے کوئی پہلے جائے یا کوئی بعد میں سب کی منزل دار القرار ہے۔
مولانا علی حسین میرے گہرے دوست ہی نہیں ہم راز اور مخلص خیرخواہ تھے، بے شمار خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، میں انھیں جامعہ کے ان اساتذہ میں سمجھتا ہوں جنھوں نے اپنی علمی صلاحیتوں اور اعلی انسانی اقدار کے بل بوتے اپنی شخصیت کو اس قدر محترم بنادیا تھا کہ ان کا ہر عقیدت مند خواہ وہ استاد ہو یا طالب علم یا عام شخص ہو ان کی قربت کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا تھا، ان کا فیضان محبت اس قدر فراواں تھا کہ ان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یہی سمجھتا کہ مولانا ہم سے سب سے زیادہ قریب تھے، میں بھی ان کا ادنی سا عقیدت مند تھا، بعض دوست انھیں میرے پیر جی بھی کہتے، اہل حدیثوں میں پیروں کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ محض ان کی دین داری اور صالحیت کی وجہ سے اپنے محبت بھرے جذبے کا اظہار تھا۔
جامعہ میں ان کا تعلیمی دور تھا اور میں تدریس کی دنیا میں آچکا تھا، میں ثانویہ تک کے درجات پڑھاتا، وہ اعلی کلاس کے طالب علم تھے، فضیلت اور عالم میں طلبا کی تعداد زیادہ تھی۔ اس وقت کا ایک واقعہ ضرور یاد آرہا ہے جو شناسائی کی وجہ بنا۔ کلاس سے جب طلبا باہر نکلتے تو اپنی شخصیت اور لباس کی وجہ سے وہ الگ تھلگ نظر آتے، قد ان کا متوسط اور صحت مند تھا، رنگت گوری اور آنکھیں بہت چمکدار تھیں، دور ہی سے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہ شخص بے حد ذہین و فطین ہے، کلی دار بغیر چاک کے اتنا لمبا کرتا کہ پاجامہ چھپ جائے، اس طرح کا لمبا کرتا مولانا سے قبل میں نے مولانا عبد السلام بستوی رحمہ اللہ اور مولانا مصلح الدین رحمہ اللہ کو دیکھا تھا، ایک بار میں نے پوچھ ہی لیا: مولانا آپ کے کرتے کی لمبائی سے کنفیوزن میں پڑجاتا ہوں کہ کسی نئے استاد کی تقرری ہوئی ہے کیا؟ شناسائی کا آغاز یہی گفتگو تھی، فراغت کے بعد آپ جامعہ سے وابستہ ہوگئے۔
قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری، صلاحیت کو پرکھنے میں استاد محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کو کمال حاصل تھا، نہ جانے کتنی سیپیوں کو انھوں نے گوہر آبدار بنا دیا، اس نگینے کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جو پہلے سے ہی تابدار تھا، مولانا علی حسین ان کی رہنمائی اور ماتحتی میں تصنیف و تالیف کا کام کرنے لگے، اس وقت مجھ سے کوئی خاص تعلق نہ تھا، کبھی لائبریری جاتا تو ان کو پروف ریڈنگ کرتے ہوئے یا کسی کتاب کے مطالعہ میں غرق پاتا۔ غالبا ۱۹۸۴ میں انھیں کچھ گھنٹیاں بھی پڑھانے کے لیے مل گئیں، اس میدان میں آئے تو لگا کہ اللہ نے آپ کو تدریس ہی کے لیے بنایا ہے، پچھلی تین دہائیوں میں دیکھا کہ ان کے لیے ہر فن، ہر کتاب بازیچۂ اطفال تھی، بخاری شریف سے متوسطہ اولی تک جو بھی کتاب دی جاتی یکساں محنت اور عرق ریزی سے پڑھاتے، کم سخن اور کم گو تھے، دھیمے دھیمے لہجے میں بات کرتے اور دھیمے لہجے ہی میں پڑھاتے۔ میں نے کبھی کسی لڑکے کی زبان سے نہیں سنا کہ میں مولانا کی تدریس سے مطمئن نہیں ہوں، جو بھی کتاب پڑھاتے اس کا حق ادا کردیتے، تدریس کی کتابیں بدلتی رہتیں، آپ نے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ مجھے فلاں نہیں فلاں کتاب دی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا کو ایک بار مجموعة من النظم والنثر پڑھانے کے لیے دی گئی، میں خود کو مجموعہ پڑھانے کا اکسپرٹ سمجھتا تھا، میں نے سوچا کہ ادب کا معاملہ ہے کسی دن مولانا کو مجھ سے ضرور رجوع کرنا پڑے گا، انتظار ہی کرتا رہا سال ختم ہونے کے قریب آگیا، صبر نہ ہوسکا، پوچھ لیا کہ کہیں پڑھانے میں دقت تو نہیں ہورہی ہے؟مسکرا کر کہنے لگے: دقت کیسی؟ مجموعہ تو بہت آسان ہے، مجموعہ پڑھانے کے دوران جن مقامات پر مجھے پریشانی ہوئی تھی، لگے ہاتھوں مولانا سے ان کے متعلق پوچھ لیا، آپ نے صرفی، نحوی اور لغوی تشریحات اس طرح کیں کہ میری الجھنیں رفع ہوگئیں۔
میں نے سلفیہ کے اساتذہ میں تدریس کے معاملے میں مولانا محمد حنیف چمپارنی اور مولانا علی حسین سلفی کا علم بہت ٹھوس پایا، جب تک مولانا عبد المعید صاحب زندہ تھے، جہاں کہیں کوئی عبارت سمجھ میں نہ آتی میں ان سے رجوع کرتا، ان کی وفات کے بعد مولانا صفی الرحمان مبارک پوری کی خدمت میں حاضر ہوتا، وہ ۱۹۸۷ میں سعودیہ چلے گئے تو مجھے فکر ہوئی کہ اب کس کو اپنا استاد بناؤں، خاص طور سے نحو کے مسائل میں پریشانیاں ضرور آتیں، میری نظر مولانا علی حسین پر پڑی، پڑھائی میں وہ مجھ سے بہت جونیئر تھے، اسی وجہ سے میرا طرز تخاطب بھی اسی انداز کا ہوتا۔ ایک دن کہنے لگے فاروقی صاحب میں آپ کا ہم عمر ہوں میں ایک مدرسہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا ہوں، جب بھی نحو کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا، زبانی بتاتے اور نہ صرف حوالہ کافیہ کا دیتے بلکہ عبارت بھی سنا دیتے، ھدایة النحو اور كافيه تو جیسے رٹے ہوئے تھے۔ بے تکلفی، دوستانہ تعلقات کے ساتھ میں نے انھیں اپنا استاد بھی مان لیا تھا، میں نے ہمیشہ ثانویہ اور عالم اول تک کی کتابیں پڑھائی تھیں۔ ڈاکٹر جاوید اعظم رحمہ اللہ جامعہ کے صدر بنے تو ان کا اصرار ہوا کہ فضیلت سال ثالث کی ایک گھنٹی میں پڑھاؤں، کتابیں غالبا بدایة المجتهد، تاريخ التشريع الاسلامي اور فقہ السیرة تھیں، یہ کتابیں مولانا پہلے پڑھا چکے تھے، میں نے خاص طور سے بدایہ میں ان سے مدد لی یہ ان کی عنایت تھی کہ پورے سال انھوں نے میرے پرزے اڑنے نہ دیے۔
غالبا ۲۰۱۴ میں اچانک آپ کی سماعت شدید متاثر ہوگئی، شوگر کا تھوڑا بہت اثر کانوں پر پہلے ہی سے تھا، لیکن یکبارگی سنائی دینا بند ہوگیا تو آپ پریشان ہوگئے، غالبا تعلیمی سال کا آغاز تھا، متوسطہ ثانیہ کی چند گھنٹیوں پر آپ کو اکتفا کرنا پڑا، دو تین ہفتوں کے بعد ماشاء اللہ آپ صحت یاب ہوگئے، آپ کی سماعت واپس آگئی، معلوم ہوا کہ کولر کے سامنے سوگئے تھے، ٹھنڈک لگ جانے کی وجہ سے سماعت پر اثر پڑا تھا۔
مولانا کی صلاحیتیں کثیر الجہات تھیں، تدریس کے میدان کے ماہر شہسوار تھے، تصنیف و تالیف کے شعبے میں بھی آپ نے نام کمایا، بلکہ عملی زندگی کا آغاز ہی تصنیف و تالیف سے کیا، آپ کی صرف ایک کتاب ‘فتح المغیث بشرح الفیة الحديث للسخاوي پانچ جلدوں میں’ دسیوں تصانیف پر بھاری ہے، مولانا نے تحقیق کی عملی تربیت کسی ادارے سے حاصل نہیں کی تھی نہ ان کے زمانے میں تحقیق و تخریج نصاب کا حصہ تھا، یہ ملکہ خداداد ہے اللہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ ان کی اس شاہکار تصنیف کی عظمت کا اعتراف عرب و عجم کے اہل علم نے کیا، آج کے زمانے میں کسی کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہونا اور ان کا ہاتھوں ہاتھ نکل جانا بڑی بات ہے، مولانا عربی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے تھے، تدریسی مشغولیات اور شعبۂ افتا کی ذمہ داریاں بڑھیں تو تصنیف و تالیف کے لیے فرصت نکالنا مشکل امر تھا۔
مولانا کا ایک اہم کارنامہ رقیہ (شرعی دم) کے ذریعہ دعوت و ارشاد، تبلیغ و اصلاح تھا، اگرچہ کچھ اساتذہ کی نظر میں یہ ایک معیوب کام تھا لیکن مولانا نے ان کی کبھی پرواہ نہیں کی، اس رقیہ کے ذریعے آپ مسلم سماج سے جڑے ہوئے تھے ہر مسلک کے لوگ آپ کو بلاتے اور دم کراتے، مریض کو شفا مل جاتی۔ اللہ نے آپ کی دعاؤں میں غضب کی شفا دی تھی، لمبی چوڑی دعائیں نہ پڑھتے کچھ ہلکے سے دظائف دم کر دیتے، مریض ٹھیک ہوجاتا، رقیہ کی وجہ سے مسلمانوں کے ہر طبقے میں آپ کی مقبولیت تھی، نہ کسی سے آپ بحث و مباحثہ کرتے نہ مناظرہ کرتے بہت ہی نرمی سے شرک و بدعت اور تعویذ گنڈوں کی حقیقت اور اس کے نتائج سے باخبر کرتے کئی لوگ سیدھے راستے پر آگئے۔ ایک گھرانے کے لوگ اہل حدیث بھی ہوگئے۔ میرے بچے بھی بیمار ہوتے تو طبی علاج سے پہلے مولانا سے دم کراتا،۲۰۰۶ میں میری اہلیہ کو ہڈیوں کا کینسر ہوگیا، اکثر و بیشتر مولانا گھر آکر دم کرتے، مولانا نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا، میراحوصلہ بڑھاتے رہے، ہمارے پڑوس میں وہ خالد سلمان بن عبدالرؤف کے یہاں ٹیوشن پڑھاتے اور وہیں سے گھر آجاتے، باتیں کرتے ساتھ میں کھانا کھاتے، بھیلو پورہ تک ہم دونوں ساتھ جاتے، رکشہ کا کرایہ میں دینا چاہتا تو فورا روک دیتے اور کہتے مجھے خالد صاحب کے یہاں سے رکشہ کا کرایہ ملتا ہے۔ کبھی کبھی دلی میں اپنی تعلیم اور رہائش کے بارے میں بتاتے کہ میری وہ طالب علمی کا دور بڑا مشکل تھا، سلفیہ میں بھی مولانا کے سامنے بہت سی الجھنیں اور مالی پریشانیاں آئیں مگر نہ ان کے ماتھے پر شکن آئی، نہ ان کی مصروفیات میں فرق آیا، کثیر العیال تھے، کھانے پینے، لباس اور تعلیم کا لمبا خرچ تھا، سلفیہ کے مشاہرے کے معیار سے سبھی واقف ہیں، مولانا نے تنخواہ میں اضافہ وغیرہ کے لیے کبھی زبان نہیں کھولی، اضافی آمدنی کے لیے دو تین ٹیوشن کرلیے، فرصت کم ہوئی تو وہ بھی کم کردیا۔
میری اہلیہ کے انتقال پر آپ میرے پورے گھر والوں کی ہمت دلاتے رہے، دو موتیں ایک ساتھ ہوئی تھیں اہلیہ اور میری دس ماہ کی نواسی پانچ دس منٹ کے فرق سے دنیا سے رخصت ہوئیں، اس موقع پر مولانا ہمارے بچوں اور بچیوں کو تسلی دلاسہ دیتے رہے، ساتھ میں پریوا نرائن پور گئے جنازہ کی نماز بھی آپ نے ہی پڑھائی۔
مولانا نے ایک مثالی عالم کی زندگی گزاری، تحمل، برداشت، صلح جوئی، سادگی، خوش اخلاقی اور دین داری کے ایسے پیکر اب کہاں ملتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
دل سے دل تک جانے والی تحریر، خلوص و محبت لفظ لفظ سے عیاں، اندازِ تحریر دلکش! اللہ تعالیٰ مولانا رحمہ اللہ کی بشری لغزشوں سے درگزر کرے، اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور حشر صالحین کے ساتھ کرے، آمین یا رب العالمین!
رب العالمین مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا کرے نیز پسماندگان اور دیگر اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق دے آمین
أسكنه الله الفردوس الأعلى و صب على ذويه الصبر والسلوان آمين يارب العالمين
اللہ کرے یوں ہی رہے جاری قلم استاد کا ★ فیض و نوازش طالبانِ علم پر دائم رہے