بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

ایم اے فاروقی تذکرہ

پیاروں کی محفل ہی ایسی ہوتی ہے کہ کوئی ایک اٹھ جائے تو محفل میں چپ سی لگ جاتی ہے، گذشتہ دو تین سالوں میں اتنے علما رخصت ہوئے کہ چمنستان علم سونا سونا نظر آنے لگا، مولانا محمد مدنی استاد جامعہ سلفیہ کا چٹ پٹ دنیا سے جانا ان کے تمام احباب کے لیے صاعقہ سے کم نہ تھا۔

رمضان کا آخری عشرہ ، تیئیسواں روزہ تھا، ایک شب قدر گزرچکی تھی دوسری آنے والی تھی، اپریل کی پندرہویں تاریخ تھی، سن دوہزار تیئیس غالبا سنیچر کا دن تھا، دس بجے کے قریب میری بیٹی نے جگا کر بھرائی ہوئی آواز میں بتلایا کہ ابو ابھی ابھی محمد چچا کا انتقال ہوگیا، پہلے میں نے سمجھا میرا واہمہ ہے یا نیند کے خمار میں ہوں ،آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا یہ کیا کہہ رہی ہو، اس نے بتایا میری سہیلی کا فون آیا تھا، فوراکئی لوگوں کو فون لگایا، دل کسی طرح نہیں مان رہا تھا، بس یہی تمنا تھی کہ کاش کہ خبر جھوٹی ہو،لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، جتنی سانسیں کاتب تقدیر نے لکھ دی تھیں وہ پوری ہو چکی تھیں، آنے والی آچکی تھی اور جانے والا جاچکا تھا،آنا فانا کی موتیں بڑی الم ناک ہوتی ہیں، مولانا محمد چلتے پھرتے اس طرح رخصت ہوئے کہ سحری بھی کھائی، کچھ بے چینی ضرور تھی، قرآن مجید کی تلاوت بھی کی، جب تک گھر والے ڈاکٹر کو بلاتے وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ دوا علاج کا وقت ہی نہ ملا، مغرب بعدان کے جنازہ کی نماز نگینہ مسجد ریوڑی تالاب کے بازو والے میدان میں ادا کی گئی، نماز جنازہ آپ کے بھتیجے حافظ عبد الرحیم نے پڑھائی، جنازے میں ہجوم اور ازدحام سے عامۃ الناس میں ان کی مقبولیت کااندازہ لگایا جا سکتا تھا، نگینہ مسجد سے تھوڑا آگے آپ اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے، مٹی دینے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا، مجھ کو میرے کچھ تلامذہ نے یہ کہہ کرقبرستان کے باہر ایک اسکوٹر پر بٹھا دیاکہ بھیڑ کم ہو تو ہم لوگ آپ کو اندر لے چلتے ہیں، دل و دماغ پر صدمے کی چادر اوڑھے یہی سوچتا رہا کہ آہ ! آج ایک اور دوست ہم سے بچھڑ گیا، ایسا دوست جو زندگی بھر قدم قدم پر میرے لیے سہارابنا رہا، جس کے احسانات کو میں شمار نہیں کر سکتا، جس نے ہر نازک موڑ پر میرا دفاع کیا، اب کسے درد دل سنائیں گے، اور کون درد کا درماں بنے گا۔

سوچ کا سلسلہ اچانک دوسری سمت مڑگیا،آج ان کا جنازہ اٹھا ہے، ممکن ہے کل میرا اٹھے، یا کوئی اور دوست رخصت ہوجائے ،ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں جب بھی کو ئی اپنا جاتا ہے، یا کسی جنازے کو کاندھا دیتے ہیں، ہمیں دنیا کی ناپائیداری ، زیست کی بے ثباتی، فنا اور بقا کے مسئلے سب کچھ یاد آنے لگتے ہیں،لیکن ہمارے یہ تاثرات بڑے عارضی ہوتے ہیں، قبرستان سے ہٹتے ہی بھول جاتے ہیں کہ ہم کو بھی اسی مٹی میں ملنا ہے، اسی مٹی کا بچھونا ہوگا، اسی مٹی کا اوڑھنا ہوگا اور پھر ہم بھی مٹی ہوجائیں گے، ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں یہ جنازہ ہمارا تو نہیں تھا، ابھی تو ہماری زندگی باقی ہے، ابھی تو ہم تن درست ہیں ، ہمیں کوئی بیماری نہیں ہے، ابھی تو ہمیں زندگی کے بڑے مسائل نپٹانے ہیں، سوچوں کا سلسلہ اس وقت منقطع ہوا جب کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کرکہا اب قبرستان میں لوگ کم ہوگئے، اب مٹی دے سکتے ہیں، الوداع اے دوست!ہم زندہ لوگ یہیں تک آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں، آگے کا سفر آپ کو اکیلے ہی طے کرنا ہے، آہ!

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیاخوب!قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

آج بھی تیئیسواں روزہ ہے، دیکھتے دیکھتے ہی ان کی وفات پر ایک سال گزر گیا، اس ایک سال میں کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا کہ ان کی یاد نہ آئی ہو، جب بھی ان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہا، جذبات و احسات کے اظہار کے لیے الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے، ان کے ساتھ جڑی ہوئی تمام یادیں بکھر سی جاتیں ، کیا کروں جو دل کے قریب ہوتے ہیں ان کے بارے میں لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں

ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

سال بھر بعد بڑی کوشش سے ہمت جٹائی کہ ان کی زندگی کے کچھ گوشوں سے متعلق لکھوں ۔

سبک دوشی کے بعدمیں جب بھی شاد عباسی کے گھر جاتا تو ان کے گھر پر ضرور دستک دیتا دونوں کا گھر ملا ہوا ہے، اگر وہ موجود ہوتے تو گھنٹہ دو گھنٹے ان کی بیٹھک میں بیٹھتا، دکھ سکھ کی باتیں ہوتیں ، سلفیہ کی روئداد سناتے، کھانے کا وقت ہوتا توبغیر کھائے ہوئے نہ جانے دیتے، میں تکلف کرتا تو کہتے ابے گھبرا نہیں مٹر کی دال نہیں پکی ہے، تیری پسند کی مونگ کی دال پکی ہے، وہ جانتے تھے کہ مٹر کی دال مجھے پسند نہیں ہے، ان کی وفات کے بعدکئی بار شاد صاحب کے گھر جانا ہوا، ان کے گھر سےنکلتے ہی میرا رخ مولانا محمد کے مکان کی طرف غیر شعوری طور پر ہوجاتا، پھر یاد آتا کہ وہ شخصیت تو دنیا ہی سے چلی گئی جس کے لیے میں اس گھر کارخ کرتا تھا۔

مولانا محمد بنارسی کا سانحۂ ارتحال کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، وہ جامعہ سلفیہ کے بزرگ اور مقبول ترین استاد تھے، احباب کے لیے ایک قیمتی نگینہ تھے، اہل علم کے حلقہ میں امتیازی شان رکھتے تھے۔ ان کے جانے سے ایسا لگا کہ جیسے سلفیہ کی ساری رونقیں ماند پڑگئی ہوں، جیسے بہتی ہوئی ندی کا پانی اچانک سوکھ گیا ہو، جیسے کسی نے چھتنار شجر کوکاٹ دیا ہو، جیسے دل کی دھڑکنیں ٹھہرگئی ہوں، جیسے کسی نے میرا جگر تیز آری سے چیر دیا ہو،جیسے رات کا پچھلا پہر ہو اور ہر طرف سناٹے اتر آئے ہوں، جیسے سہاگن کا سہاگ اجڑ گیا ہو، جیسے ہماری سب سے قیمتی چیز کھو گئی ہو، جیسے غم و اندوہ کی بدلیوں نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔

لمبا قد ،جسم نہ فربہی مائل اور نہ ہی بہت زیادہ دبلے پتلے، داڑھی چھدری، آنکھیں بڑی بڑی ذہانت کی غمازی کرتی ہوئی ،لباس میں سادگی ،گفتگو کا انداز اور لب و لہجہ دھیما دھیما کبھی کبھی ظرافت کا پہلو لیے ہوئے، ظرافت میں بھی ایسا لطیف انداز کہ غور کرنے پر سمجھ میں آئے۔ یاروں کے یار، بہی خواہ، مخلص ، حق گو ، دینی غیرت سے سرشار ،متدین، فرائض کے ساتھ نوافل کا کثرت سے اہتمام کرنے والے ،مثالی استاد، طلبہ کے لیے باپ کی طرح شفیق اور مہربان، خوش اخلاق ، خوش اطوار، شیریں بیان ، یار باش ، سادہ مزاج ان کے بارے میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

(شاد عظیم آبادی)

مجھ سے عمر میں تقریبا تین سال چھوٹے تھے۱۹۵۵ کی پیدائش تھی، مدن پورہ کے مشہور خاندان فرنگی خاندان سے آپ کاتعلق تھا،والد عبد القیوم صاحب تعلیم یافتہ تھے، ہم نے سنا ہے کہ وہ فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے،قانون کے ماہر تھے،مدن پورہ کے لوگ اپنے قانونی معاملات میں ان سےمشورے لیتے تھے،جامعہ سلفیہ قائم ہوا تو اس کے قانونی مفادات کی نگرانی آپ ہی کرتے تھے، ان کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلائیں، سفید پوش تھے، آبائی پیشہ بنکاری تھا، اتنی وسعت تو نہیں تھی کہ چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو اعلی تعلیم دلاسکتے لیکن چھوٹے بیٹے کو دین کی راہ پر لگادیا، بیٹے نے بھی مایوس نہیں کیا، محنتی تھے، پڑھنے لکھنے میں اچھے تھے، سب سے بڑی بات کہ حصول علم کا شوق بہت زیادہ تھا، عالم بنے اور ایسے عالم بنے کہ جس پر زمانہ فخر کرے، اللہ نے والد کی اس نیک خواہش کو پوری کی،ان کے علم کی چمک دمک کو اپنی زندگی میں دیکھ لیا، اس کے بعد توعلم نے آپ کے گھر میں ڈیرہ ڈال لیا ماشاء اللہ تین پوتے احسن صدیقی ، احمد سعید ، فضالہ عالم دین بنے ، دو پوتےعبد الرحیم اور حنظلہ حافظ قرآن بنے اور ایک پوتی نائلہ بنت محمد عالمہ بنی۔

مولانا محمد نے پرائمری اور ثانویہ ثانیہ تک کی تعلیم جامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس میں حاصل کی۔ ۱۹۷۲ میں جامعہ سلفیہ کے عالم اول میں داخل ہوئے، اس وقت میں فضیلت اول کا طالب علم تھا، ۱۹۷۶ میں عالمیت کیا اور ۱۹۷۸ میں فضیلت کی سند سے سرفراز ہوئے، فراغت کے بعد مولانا محمد اور مولانا یونس جامعہ رحمانیہ کے عربی شعبے میں اعزازی طور پر پڑھانے لگے، میں بھی ۱۹۷۷ یا ۱۹۷۸ میں رحمانیہ کے عربی شعبہ آگیا تھا، طالب علمی کے دور میں وہ مجھ سے کافی جونیئر تھے، اس لیے ان سے علیک سلیک تک ہی شناسائی تھی، لیکن ساتھ میں جب پڑھانے لگے تو یہ شناسائی بے تکلفانہ دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

رحمانیہ کے دوران تدریس مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والوں کی فہرست بنی تو اس میں مولانا محمد،مولانا یونس اور مولانا سعید میسور کا بھی نام تھا،فراغت کے پانچ چھ سال بعد جب میں طالب علمی کے دور سے نکل چکا تھا، مجھے بھی یاد کرلیا گیا اور کہا گیا تم بھی اپنے کاغذات جمع کردو، اس وقت میں اپنی راہ بدل چکا تھا، رحمانیہ میں تدریس کے ساتھ بنارس ہندو یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر سے بی اے کررہا تھا، اسی لیے شش و پنج میں پڑگیا،احباب اور سینئر ساتھیوں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔

کاغذات کی تصدیق اور نوٹری کرانے کے لیے دلی جانا تھا، میں، مولانا محمد، مولانا محمد یونس، مولانا سعید میسور اور چند اور طلبہ جن کے نام یادداشت سے محو ہوگئے، دلی کے لیے روانہ ہوئے، ہم لوگوں کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ دلی گھوم لیں گے، ہم سب ریاض العلوم میں اترے، مولانا ابوالکلام مدیر ترجمان ریاض العلوم ہی میں رہائش پذیر تھے، میرے چند مضامین ترجمان میں چھپ چکے تھے، وہ غائبانہ متعارف تھے، ان کی کوشش سے ہم لوگوں کو ایک کمرہ ریاض العلوم میں مل گیا، ہمارے دوست کفایت اللہ اس وقت کانپور میں تھے، جیسے ہی ان کو معلوم ہوا کہ دوستوں کا پورا گروپ دلی میں ہے، وہ بھی دلی آگئے۔

ہم لوگ فجر بعد جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دو بسکٹ اور ایک گلاس دودھ والی چائے پیتے، گیارہ بجے گلی قاسم جان میں بانچ روپئے والی بریانی کھاتے اور پھر دلی کے تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے نکل پڑتے، لال قلعہ، پرانا قلعہ ،جامع مسجد، چاندنی چوک، ہمایوں کا مقبرہ، میوزیم، قطب مینار غرضیکہ گھومنے والی کوئی جگہ نہیں چھوڑی، یقین جانیے ہم لوگوں نے ان سب مقامات کا سفر پیدل کیا، قرول باغ میں مولانا محمد کے ایک دوست رہتے تھے جو ان کے پڑوسی بھی تھے، نام شائد مختار تھا، ان سے ملنے کے لیے بس سے گئے، دلی سے نکلے تو آگرہ پہنچ گئے، اسٹیشن کے پاس ایک ہوٹل میں قیام کیا، تاج محل، اکبر کا مقبرہ، نورجہاں کے والد غیاث الدین کا مقبرہ دیکھا، یہ مقبرہ بھی جمنا کنارے ہے اور بہت خوب صورت ہے،سنا تھا کہ بارش کے بعد تاج محل دھل دھلا جاتا ہے اور چاندنی راتوں میں اس کے پتھر چھوٹی چھوٹی چنگاریوں کی طرح چمکتے ہیں، یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم اور مولانا محمد رات کو دس بجے دوبارہ تاج محل پہنچ گئے آگرہ گھوم کر ہم لوگ فتح پور سیکری بلند دروازہ اور اکبر کا قلعہ دیکھنے گئے، لوٹ کر پھر آگرہ واپس آئے اور وہاں سے ہم لوگ بنارس کے لیےروانہ ہوگئے، یہ ہم دوستوں کا یاد گار سیاحتی سفر تھا، اس کے بعد کوئی ایسا سیاحتی سفر ممکن نہیں ہوسکا۔

کچھ دنوں کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ پانے والے خوش نصیبوں کی فہرست آگئی، یہ کل انیس لڑکے تھے، لیکن افسوس کہ ان میں میرا نام نہیں تھا، میں تشنہ ہی رہ گیا مجھے ملا تو سر چشمۂ سراب ملا، عرصۂ دراز کے بعد معلوم ہوا کہ میرے کاغذات تو سلفیہ ہی میں رہ گئے تھے۔

قریبی دوستوں میں مولانا یونس، مولانا محمد ،مولانا احسن جمیل اور مولانا سعید میسور تھے، چھٹیوں میں آتے تو ان لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں، مولانا محمد سے زیادہ تر باگڑبلی کی مسجد میں عصر یا مغرب کی نماز کے بعد یا ان کے گھر پر ملاقات ہوتی، ۱۹۸۳ کے آخر میں یہ لوگ مدینہ سے فارغ ہوکر آئے، مولانا یونس کی تقرری جامعہ سلفیہ میں ہوئی مجھے امید کیا بلکہ یقین تھا کہ مولانا محمد کا تعاقد بھی سلفیہ میں ہوگا، لیکن یہ ہیرا مدرسہ فیض عام کے حصے میں آیا، تدریسی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بنارس اور مئو ان کے لیے گھر آنگن بن گیا، ہفتہ پندرہ روز میں بنارس کا چکر لگاتے، ازدواجی بندھنوں میں بندھنے کے بعد مئو میں کرایہ پر مکان لے لیا اور فیملی کو لے کر رہنے لگے، وہ مئو میں رہتے لیکن ان کا دل بنارس ہی میں لگا رہتا، ہم احباب کہتے یار کوئی صورت لگاؤ کہ تمھارا تبادلہ سلفیہ میں ہوجائے تو لطف آجائے، بہر حال ہر کام کا وقت مقرر ہوتا ہے، آٹھ سال انھوں نے مئو میں گزار دیے ، فیض عام میں اپنی صلاحیت اور محنت سے آپ نے اپنا سکہ جمالیا، مفتی حبیب الرحمان آپ کو بہت مانتے، موقع بموقع رہنمائی بھی کرتے، والدین، ایک بڑے بھائی ذکر الرحمان اور ایک بہن جن کی شادی نہیں ہوسکی تھی، سب مولانا کے ساتھ رہتے، مئو میں رہتے تو ان کی دیکھ بھال میں دقت ہوتی، بالآخر اللہ نے رحم کیا، ۱۹۹۲ میں آپ کا تبادلہ سلفیہ جامعہ سلفیہ میں بحیثیت استاد ہوگیا، سب سے زیادہ خوشی آپ کے قریبی دوستوں کوہوئی، سلفیہ آپ کے لیے غیر مانوس نہیں تھا، آٹھ سالوں میں بڑی چھوٹی ہر کتاب پڑھانے کا خوب تجربہ ہوچکا تھا، اچھا پڑھاتے، طلبہ کو مطمئن کرنا جانتے تھے، اس کے باوجود آپ کو اس وقت تک اطمینان نہ ہوتا،جب تک یہ معلوم نہ کر لیتے کہ بچے آپ کی تدریس سے پوری طرح مطمئن ہیں کہ نہیں ،آپ سلفیہ آئے تو پوری زندگی سلفیہ کے لیے وقف کردی، زندگی کا معمول باگڑ بلی کی مسجد، گھر اور سلفیہ تک محدود ہوکر رہ گیا، باگڑبلی کی مسجد میں کبھی کبھار خطبہ دیتے، خطبے میں شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی کا رنگ جھلکتا، اسی مسجد میں عصر اور مغرب کےمستقل امام تھے، عشا کی امامت غالبا مولانا سعید میسور کے ذمہ تھی، بقیہ اوقات کے ائمہ میں سے کوئی موجود نہ رہتا تو اس کی بھی نیابت کردیتے، آواز میں سوز تھانماز میں قرآن پڑھتے تو یہی جی چاہتا، پڑھتے ہی رہیں۔

یہاں آنے کے بعد لوگوں کو یہ علم ہوا کہ آپ کے اندر ادارتی اور نظم و نسق کی صلاحیتیں غضب کی ہیں، تدریس کے میدان میں آپ اپنا سکہ پہلے ہی جما چکے تھے،ادارۃ الامتحانات کا شعبہ آپ کے سپرد کیا گیا، سبھی جانتے ہیں کہ یہ شعبہ بے حد حساس ہے اس کے لیے بے حد امانت دار ، ذمہ دار، منصف مزاج اور محنتی شخص ہونا چاہیے ، مولانا محمد میں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں ، آپ نے اس کے لیے پانچ چھ ایسے اساتذہ کی کمیٹی تشکیل کی، جو ذمہ دار ہونے کے ساتھ ہم خیال اور بے تکلف ہوں، مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے اس کمیٹی میں مولانا یونس، مولانا سعید میسور، مولانا عزیزالرحمان، مولانا عبد الکبیر اور یہ خاکسار تھا، مجھے وہ زبردستی گھسیٹ لائے تھے، میں لا ابالی ذمہ داریوں سے ہمیشہ بھاگتا تھا، بہر حال مولانا محمد جیسے مخلص دوست کی خواہش ٹالی نہیں جاسکتی تھے، میں نے اس شرط پر ہامی بھری کہ جب تک آپ رہیں گے، میں رہوں گا، آپ ہٹے تو میں بھی ہٹ جاؤں گا، ۲۰۰۵ میں وہ مستعفی ہوئے تو میں نےبھی الگ ہونا چاہا، انھوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ میں بحیثیت مدیر مستعفی ہوا ہوں، کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرتا رہوں گا، ادارۃ الامتحانات کے علاوہ تعلیمی کمیٹی اور شعبۂ الحاق مدارس کے بھی وہ سرگرم اور فعال رکن تھے، سال کے آغاز میں ٹائم ٹیبل وہی بناتے تھے، یہ بڑا مشکل کام تھا، ہر مدرس اپنی مرضی کی گھنٹی چاہتا تھا، کوئی کہتا ہماری تیسری گھنٹی خالی ہونا چاہیے کوئی کہتا ہماری پانچویں خالی چاہیے ، کبھی گھنٹیاں ٹکرا جاتیں، سب کی خواہش پوری کرنا ایک مشکل امر تھا، یہ مولانا محمد تھے، جو دماغ سوزی کرتے اور سب کو خوش کردیتے، میں چوں کہ جامعہ کی باونڈری سے باہر تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر رہتا تھا، وہ ہمیشہ میرا خیال رکھتے اور ناشتہ سے پہلے کی میری گھنٹیاں خالی رکھتے۔

وقت اور اصول کے پابند ایسے لوگ ہم نے بہت کم دیکھے ہیں، پرچے وقت پر تیار کراتے، ہر ایک پرچہ کے بنڈل کو سیل کر کے الماری میں رکھ دیتے، امتحان مسجد ، قاعۃ المحاضرات، دارالحدیث اور ضرورت پڑنے پر کمرے میں کرائے جاتے، نگراں اساتذہ کی جگہ بدلتی رہتی، ہر امتحان گاہ اور ہردن کا الگ بنڈل ہوتا، یہ سب کچھ اپنے معاونین کو لے کر وقت پر کرتے، رول نمبر تپائیوں پر چسپاں کرواتے، حاضری کا جو قانون بنادیا گیا تھا اس کےمطابق عمل کرتے اور اس میں کوئی رعایت نہ کرتے، رزلٹ ملنے کے بعد اگر کوئی لڑکا اپنے نمبرات سے مطمئن نہ ہوتا تو وہ مولانا سےبغیر جھجھک کہہ دیتا وہ اسے کاپی دکھاتے، ضرورت محسوس کرتے تو امتحانی کاپی متعلق مدرس سے دوبارہ چیک کرواتے مقصد یہ ہوتا کہ طالب علم یہ نہ محسوس کرے کہ اس کی حق تلفی ہوئی ہے ، امتحانی کاپیاں خود وقت پر جانچ کر جمع کرتے اور دوسرے اساتذہ سے بھی یہی امید رکھتے کہ وہ متعین وقت پر کاپیاں آفس میں جمع کردیں۔

کتنے سال تک وہ شعبۂ امتحانات کے مدیر رہے یہ تو یاد نہیں ہے لیکن یہ جانتا ہوں جس خوش اسلوبی سے آپ نے یہ نظام چلایا وہ جامعہ کی تاریخ کاسنہری باب ہے، لڑکوں پر وہ ہمیشہ مہربان رہے، ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ جو طالب جامعہ میں آگیا ہے وہ علم سے آراستہ ہوکر نکلے، اگر اس کے لیےکوئی رکاوٹ ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش کرتے،کوئی مالی مسئلہ ہوتا تو چپکے سے اس کی اس طرح مدد کرتے کہ کسی دوسرے کو خبر نہ ہوتی ، اگر کسی طالب علم پر قانون شکنی کا الزام ہو تا اور وہ بے قصور ہوتا تو اس کے لیےسپر بن جاتے، آپ کے پچاسوں ایسے شاگرد ہیں جن کے کیریر سنورنے کا ذریعہ آپ تھے، آج وہ جہاں بھی ہوں گے مولانا کے لیے یقینا ان کے دلوں سے دعائیں نکلتی ہوں گی۔

جامعہ میں جب بھی کوئی بڑی کانفرنس یا بڑا جلسہ ہوتا، طعام کا انتظام اور مہمانوں کی ضیافت کی ذمہ داری مولانا محمد اور مولانا سعید میسور کے سپرد کی جاتی، آپ دونوں اپنے معاونین اور منتخب طلبہ کو لے کر یہ کام خوش اسلوبی کے ساتھ اس طرح کرتے کہ کبھی کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ برسبیل تذکرہ آپ کی اصول پسندی سے متعلق ایک واقعہ ذکر کردوں جامعہ میں ایک دو روزہ کانفرنس تھی، انتظامیہ نے کھانے کے لیے ٹوکن سسٹم بنادیا تھا، مہمانوں کو دفتر استقبالیہ سے ٹوکن فراہم کردیے جاتے، طعام گاہ کے انچارج مولانا محمد تھے، پہلی منزل میں پچھم جانب کورویڈر سے راستہ بنادیا گیا تھا، راستے میں بیریر لگا تھا،مولانا کو حکم تھا ٹوکن کے بغیر کسی کو طعام گاہ میں نہ جانے دیں، اتفاق سےکچھ بڑی شخصیات آگئیں، ان کے پاس ٹوکن نہیں تھے، مولانا محمد نے نہایت عزت واحترام کے ساتھ ان سے کہا ہمیں حکم ہے کہ بغیر ٹوکن کے کسی کو اندر نہ جانے دوں، آپ لوگ چند منٹ رکیں، ان کے لیے فورا ٹوکن منگوائے اور پھر احترام سے ان کو اندر لے گئے۔

آپ کے اوصاف اور خوبیوں کو لفظوں میں سمیٹنا بڑا مشکل ہے، میر نے کہا تھا:

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

مولانا محمد بھی ایسے ہی انسان تھے، اس قحط الرجال کے دور میں وہ مغتنمات میں سے تھے، حق گو تھے، بات غلط یا مضحکہ خیز ہوتی وہ چپ نہ رہتے، اور حق بات برملا کہہ دیتے،اس بارے میں نہ وہ لومۃ لائم کی پرواہ کرتے، نہ یہ دیکھتے کہ مخاطب کی شخصیت چھوٹی ہے یا بڑی، اگر کوئی انھیں درشت یا تلخ مزاج سجھتا تو سمجھا کرے:

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

تملق، چاپلوسی، ریا و نمود، شہرت سے کوسوں دور رہے، مزاج میں سادگی اور قناعت تھی، خودداری میں آپ اپنی مثال تھے، احسان کرنا جانتے تھے، احسان لینا گوارہ نہ تھا، مالی اعتبار سے بہت زیادہ فارغ البال نہیں تھے، صرف مشاہرہ پر گزر بسر تھی، اس کے باوجود ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے، اگر کسی نے قرض مانگا تو کبھی انکار نہیں کیا، میں جب گھر کی تعمیر کروارہا تھا اس وقت ان کا یہ جملہ کبھی نہیں بھول سکتا غالبا مولانا یونس سے کہا تھا جنھیں ہم لوگ محبت سے مرشد کہتے ہیں، “یار مرشد استاد کا گھر بن رہا ہے کام رکنے نہ پائے”دس ہزار کی خطیر رقم خود دینے آئے جسے میں نے ان کی بیٹی کی شادی کے موقع پر واپس کیا، کبھی کوئی پریشانی آئی تو نہ کسی کے سامنے اظہار کیا نہ ماتھے پر شکن آئی، مجھے یاد ہے ان کی اہلیہ سخت علیل تھیں، مہنگے مہنگے انجکشن لگ رہے تھے، تنخواہ کے علاوہ کوئی اور آمدنی کا ذریعہ نہیں تھا، مگر سب کچھ جھیل لے گئے، الحمد للہ وہ صحت یاب ہوگئیں، غم کے ماحول میں بھی وہ ہنسنا جانتے تھے، آپ کی والدہ کا انتقال ہوا، بھاگا بھاگا تعزیت کے لیے گیا، وہ گلی کے باہر کھڑے تھے، دوست کی ماں کا انتقال ہوا تھا، چہرے پر غم طاری کرکے ان کے بازو میں کھڑا ہوگیا، کہنے لگے:میری ماں فوت ہوئی ہیں تیرا تھوبڑا کیوں لٹکا ہوا ہے؟ در اصل یہ کہہ کر وہ دل کا بوجھ ہلکا کر نا چاہتے تھے، ۲۰۱۲ میں میری اہلیہ کا انتقال ہوا تو مہینوں اس کے اثر سے نکل نہیں پایا، ایک دن انھوں نے میرا موبائل چھینا اور اس میں اہلیہ کی جتنی تصویریں تھیں یہ کہہ کرسب ڈیلیٹ کردیں کہ اب نہ تو تصویریں دیکھے گا نہ روئے گا، دوستی کا جو رشتہ ہوتا ہے وہ شائد خون کے رشتے سے زیادہ پائیدار ہوتا ہے، ایک واقعہ کاذکرتا چلوں ان کی لڑکی کی شادی تھی، مجھے دعوت دینا بھول گئے، شادی بیاہ کی مصروفیت میں بھول چوک ہوجاتی ہے، ایسا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ دانستہ مجھے دعوت نہ دیں، غالبا مرشد نے پوچھا کہ استاد نہیں آئے کیا، تب انھیں یاد آیا، فورا فون لگایا، میں فون رسیو کرنے کے بجائے بن بلائے ان کے گھر پہنچ گیا، گلے لگا کر بے تحاشا رونے لگے۔

میری پانی کی موٹر خراب ہوگئی تھی ، میں نے ان سے ذکر کردیا گرمی کی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں وہ پلاس اور ٹسٹر لے کر پہنچ گئے، تار جل گیا تھا دو منٹ میں ٹھیک کر کے چلتے بنے، میں نے بہت روکا کہ تیز دھوپ ہے دو گھڑی دم تو لے لو لیکن وہ کہاں سننے والے تھے، آخری عمر میں وہ بہت زیادہ رقیق القلب ہوگئے تھے، بات کرتے کرتے اچانک رو پڑتے، سبک دوشی کے بعد میرا سلفیہ جانا بہت کم ہوگیا تھاکبھی کبھار ان سے فجر بعد ملاقات ہوتی وہ ٹہلنے نکلتے، میں بھی تھوڑی سی چہل قدمی کرلیتا، مولانا اسعد اعظمی کو اللہ سلامت رکھے جب میں بنارس میں ہوتا تو، وہ چند دوستوں کو شام کے کھانے پر بلا لیتے محفل جم جاتی جس میں میرے علاوہ مولانا محمد، مولانا معین الدین سلفی ، مولانا عبد الکبیر اور مولانا مستقیم سلفی ہوتے، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ہم اور مولانا محمد گپ شپ کرتے ہوئے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہوجاتے، بنارس کے حالیہ قیام کے دوران انھوں نے بلایا، مولانا معین الدین تھے، مولانا عبد الکبیر تھے، مگر محفل کی روح مولانا محمد نہیں تھے، ہم سب ان کی یاد میں کھوئے رہے،یوں تو سارے اساتذہ سے ان کے خوش گوار تعلقات تھے،مگرمولانا یونس ان کے بچپن کے ساتھی اور دوست تھے، مولانا عبد الکبیر سلفیہ آئے تو ان سے کافی قربت ہوگئی، ان دونوں کے علاوہ مولانا اسعد اعظمی اور مولانا معین الدین سلفی ان کے قریبی دوستوں میں تھےانتقال سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے میں اپنی پان کی مخصوص دکان پر بیٹھا ہوا تھا، دور ہی سے انھوں نے دیکھ لیا نزدیک آکر کہنے لگے بوڑھے ہوگئے لیکن آوارگی نہیں گئی، میں نے کہا بڈھا اپنی عادت کہاں سے چھوڑ سکتا ہے، ہم دونوں میں اسی قسم کے جملوں کے تبادلے ہوتے تھے، وہ شوالے میں کہیں مدعو تھے، رکشہ پر کم ہی بیٹھتے تھے، اکیلے ہوتے تو پیدل ہی چلتے، اس دن انھوں نے بتایا کہ چلتا ہوں تو سینے میں ہلکا سا درد کا احساس ہوتا ہے، یہ ہماری ان کی آخری ملاقات تھی۔

مولانا محمد کو ڈیڑھ دو ماہ سے لے کر چھ سات ماہ تک کے ننھے منے بچے بہت پسند تھے، پاس پڑوس رشتہ داروں کے بچے منگالیتے ، بچہ بازو میں سویا رہتا اور وہ مزے سے مطالعہ کرتے رہتے، میرا چھوٹا بچہ جب دو تین مہینے کا تھا، اکثر و بیشتر اسےمنگا لیتے اور گھنٹوں کھلاتے رہتے، آج ماشاء اللہ ان کے نواسے، نواسیوں اور پوتے سے گھر گلزار ہے تو وہ خود دنیا سے چلے گئے۔ اللہ رب العالمین ان کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو در گذر کرے، انھیں اعلی علیین میں جگہ دے۔ آمین

ایم اے فاروقی

۲۳/ رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ

آپ کے تبصرے

3000