کبھی کبھی دو لفظوں سے مل کر کوئی ایسی ترکیب وجود میں آ جاتی ہے جو مرور ایام کے ساتھ ایک لفظ کے مماثل ہوجاتی ہے۔ ایسی ہی ترکیبوں میں ایک ’قومی آواز‘ بھی ہے۔ ان دونوں لفظوں ’قومی‘ اور ’آواز‘سے کون ناواقف ہوگا۔ لیکن جب ہم’قومی آواز‘ بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں لفظ ایک ہی ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا انفرادی وجود ہی نہیں۔ اس ترکیب کو ایسا اعتبار حاصل ہوا کہ اردو صحافت کی دنیا میں ایک شناخت اور سگنیچر کی حیثیت اختیار کرگئی۔
’قومی آواز‘ در اصل ایک روزنامہ اخبار تھا۔ (یہ جملہ اس نئی نسل کے لیے ہے جو سوشل میڈیا کی پیداوار ہے۔ ورنہ اردو دنیا اس نام سے بخوبی واقف ہے)۱۹۴۵ء میں جواہر لعل نہرو نے اسے جاری کیا تھا۔ دہلی ، لکھنو،ممبئی، پٹنہ اور سری نگر سے بیک وقت شائع ہوا کرتا تھا۔ مگراب یہ مرحوم ہوچکا ہے۔ اس اخبار نے اردوکی روزنامہ صحافت کو ایک اعتبار اور وقار عطا کرکے اسے انگریزی صحافت کے شانہ بشانہ لا کھڑا کرنے کا کردار ادا کیا۔اس اخبار سے ہمیشہ کئی بڑے بڑے صحافی وابستہ رہے۔ ہندی اور اردو کے بڑے بڑے نام اس میں لکھنا اور چھپنا باعث اعزاز سمجھتے تھے۔ یہ اخبار اردو صحافت کی ایک معتبر تاریخ اورمستند آواز سے عبارت تھا۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اپنی خدمات انجام دے کراب یہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔اس اخبار سے وابستہ صحافیوں میں سے ایک سہیل انجم نے اس کی تاریخ اور اس سے جڑی ہوئی یادوں کے بارے میں حال ہی میں ’جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ یہ کتاب مجھے کل ہی موصول ہوئی ہے۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست سے ایک سو پینتیس صفحات تک پڑھ گیا اور اس کے بعد دوسری نشست میں پوری کتاب پڑھ گیا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب کتنی دلچسپ ہوگی۔خاص طور سے ان لوگوں کے لیے یہ کتاب بہت دلچسپ ہے جو قومی آوازکے قاری رہے ہیں۔ جو اس کے مدیروں،صحافیوں، اس میں لکھنے والے قلمکاروں، کاتبوں یا اس سے وابستہ حضرات سے واقف ہیں۔
در اصل میں بھی بچپن ہی سے قومی آواز سے بحیثیت قاری وابستہ رہا۔ جیسا کہ سہیل انجم نے ذکر کیا ہے ہمارے والد شروع سے قومی آواز کے قاری رہے ہیں۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ لکھنؤ ایڈیشن کے ضمیموں کو خاص طور سے حفاظت سے رکھ لیا کرتے تھے۔ ان میں سے کئی قدیم ضمیموں کوآج بھی میں نے حفاظت سے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ان ضمیموں میں ایسے عمدہ اور معیاری مضامین شائع ہوتے تھے جوفی زمانہ بہت سارے نام نہاد Peer reviewed اور اعلی قسم کے تحقیقی جرنلوں میں بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔میں جب دہلی آیا تو قومی آواز کا دہلی ایڈیشن ابھی بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ اعلی قسم کے مضامین اس میں شائع ہوتے تھے۔ اس میں شائع ہونے والے مراسلات سے رائے عامہ کے تعین اور اس کوجاننے، پہچاننے میں بڑی مدد ملتی تھی۔۱۹۹۷ء میں حج کے دوران جب منی میں آتشزدگی کا سانحہ پیش آیاتو قومی آواز میں سعودی حکومت پر بے تیکھے مضامین شائع کیے گئے۔ اس وقت میں سعودی عرب سے پڑھ کر ہندوستان واپس آچکا تھا۔ میں نے حج کا فریضہ بھی ادا کیا تھا اور سعودی حکومت کے حج سے متعلق انتظام وانصرام کو بچشم خویش دیکھا بھی تھا۔ سعودی حکومت کی تنقید میں انور علی انجینئر کا ایک تیکھا مضمون قومی آواز میں شائع ہواتھا جس کے جواب میں میں نے ’منی میں آتشزدگی کا حادثہ، ذمے دار کون؟؟‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس وقت سہیل انجم صاحب قومی آواز سے وابستہ تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان یہ ہے۔ میں چاہتاہوں کہ مضمون قومی آواز میں شائع ہوجائے۔ انھوں نے میری بات سن کر ان سنی کردی۔ انھوں نے سوچا ہوگا یہ کیا لکھے گا؟ میں نے کہا۔ مضمون دیکھ تو لیجیے۔ بہر حال انھوں نے مضمون پڑھا تو اپنے ساتھ لے گئے۔ دو چار روز کے بعد اس مضمون کی پہلی قسط قومی آواز کے تیسرے صفحے یعنی ادارتی صفحے پر شائع ہوئی۔ اس کے بعد اس کی دوسری قسط بھی شائع ہوئی۔اس سے مجھے بے حد حوصلہ ملا۔ اس کے کچھ روز بعد انھوں نے محمد احمد صاحب کے مکتبے سے شائع شدہ بدر الزماں کیرانوی کی کتاب ’جدید عربی ایسے بولیے‘ کا ایک نسخہ دیا اور کہا کہ اس پرتبصرہ کردو۔ لیکن یہ دھیان رہے کہ تبصرے کے وقت زیادہ تر مثبت باتیں ہی لکھی جاتی ہیں۔ کتاب کی خوبیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس پر تبصرہ کرکے انھیں دے دیا وہ بھی ‘تبصرۂ کتب‘ کے گوشے میں شائع ہوا۔ اس کے بعد استاد محترم پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب کی ایک کتاب ’سیرت نبوی کے مستند مآخذ، ابن سعد کی روایت‘ نامی کتاب پر بھی تبصرہ کیا جسے’تبصرۂ کتب‘ کے گوشے میں شائع کیاگیا۔ اس کے علاوہ میں نے کئی مراسلے بھی لکھے جو قومی آواز میں شائع ہوئے۔ آئی کے گجرال صاحب جب وزیر اعظم ہوئے اور چھبیس جنوری کے موقع سے انھیں لال قلعے سے خطاب کرنا تھا تو اس مناسبت سے میں نے ایک مراسلہ لکھا جس کا عنوان تھا ’گجرال جی کچھ کرجائیے‘ اس میں گجرال کمیٹی کی سفارشات کے حوالے سے درخواست کی گئی تھی کہ اس مناسبت سے اردو کے لیے کوئی خاص اعلان سامنے آجائے تو بہتر ہو۔ اس طرح قومی آواز سے میرا بھی بحیثیت قاری اور قلمکار ایک تعلق رہا۔ جس کی وجہ سے میں نے زیر نظر کتاب پہلی فرصت میں پڑھ ڈالی۔
یہ کتاب قومی آواز کی صحافتی تاریخ کی جامع دستاویز ہے۔ قومی آواز سے وابستہ اڈیٹران، صحافیوں اور کاتبوں کا اس میں بڑے دلنشیں انداز میں ذکر کیاگیا ہے۔قومی آواز سے وابستہ کئی صحافی حضرات کا نام میں نے سنا بھی تھا۔ انھیں پڑھتا بھی تھا۔رحمت اللہ فاروقی صاحب جیسے کئی صحافیوں سے ملاقات بھی تھی۔ کئی کاتب حضرات سے بھی میں واقف تھا۔ ان تمام حضرات کے ذکر نے اس کتاب کو ایک دلچسپ مرقعے میں بدل دیا ہے۔ رحمت اللہ فاروقی صاحب کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے۔کاتب عبد الحق صاحب کا بھی خصوصی ذکر اس کتاب میں ہے۔ میری کتاب ’جدید عربی ادب‘ ۲۰۰۵ ء میں جب شائع ہوئی اور اسے میں نے عبد الحق صاحب کو دکھلایا تو انھوں نے کتاب دیکھنے کے بجائے ’جدید عربی ادب‘ کی کتابت کو غور سے دیکھنے کے بعد کہنے لگے۔عربی میں ’عر‘ کو ایسے نہیں ایسے لکھنا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے کاتب ہونے کے ناطے انھوں نے یہ تبصرہ کرکے اپنے پیشے سے انصاف کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقیقی معنے میں کاتب تھے۔
یہ کتاب پڑھ کر قاری کونہ صرف اردو صحافت کی تاریخ کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ اسے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اردو اخبار کیسے نکلتے تھے؟ اخبار کے لیے خبریں کہاں سے آتی تھیں؟خبروں کاانگریزی سے اردو میں ترجمہ کیسے کیا جاتا تھا؟سرخی کیسے لگائی جاتی تھی؟ اداریہ کیسے لکھا جاتا تھا؟ اخبار کو سیٹ کیسے کیا جاتا تھا؟ کاتب حضرات دوران کتابت کیا گل کھلاتے تھے؟ یا انگریزی سے خبروں کا ترجمہ کرنے والے کبھی کبھی کس طرح کی ہمالیاں غلطیوں کا ارتکاب کربیٹھتے تھے؟اس میں کیسے کیسے صفحات شامل ہوتے تھے؟ صحافتی زبان کیسی ہوتی تھی؟اخبار تیار کیسے ہوتا تھا؟ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں، سیاست یا سماج پر اثر انداز ہونے میں یہ اردو اخبار کس طرح اپنے اثرات مرتب کرتے تھے؟انگریزی اور اردو صحافت میں کیا فرق ہے؟گویا یہ کتاب اردو صحافت کی تاریخ کی ایک خوب صورت دستاویزبن کر سامنے آئی ہے۔
اس کتاب میں سہیل انجم نے بڑے دلچسپ اسلوب میں قومی آواز کی تاریخ کو اظہر من الشمس کیا ہے۔ کتاب پڑھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہ جاتا کہ قومی آواز صرف ایک اخبار نہیں تھا جس کا کام خبریں شائع کرنا تھا بلکہ قومی آواز جدید اردو صحافت کا علمبردار تھا۔ قومی آواز ایک اخبار نہیں تھا بلکہ اردو صحافت اور صحافیوں کی تربیت گاہ بھی تھا۔اردو زبان کا محافظ تھا۔ قومی آوازنے ہمیشہ زبان کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ نئی نئی اصطلاحات وضع کیں۔مفرس اور معرب الفاظ سے پہلو تہی کرکے ایسے الفاظ وضع کرنے پر اور ان کے استعمال پر زور دیا جو اردو کے اپنی ساخت کے ہوں۔ زبانیں ہمیشہ وقت کے ساتھ ترقی کرتی رہتی ہیں۔ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ چنانچہ انگریزی کے چلن کے ساتھ ساتھ اشتراکیت یا اشتمالیت جیسے گاڑھے لفظوں کی جگہ سوشلزم اور کمیونزم جیسے الفاظ کے استعمال پر زور دیاگیا۔ قومی آواز نے املا کا بھی خاص دھیان رکھابلکہ قومی آواز نے املا کے نئے قواعد وضع کیے۔ حیات اللہ انصاری کا خیال تھا کہ اردو کے املا کو اگر آسان نہ کیاگیا تو زبان خطرے میں پڑجائے گی۔ لہذا اعلی کی جگہ اعلا، مولینا کی جگہ مولانا، علماء کی جگہ علما، ہندوستان کی جگہ ہندستان، رومانوی کی جگہ رومانی، برطانوی کی جگہ برطانی، طوطی کی جگہ توتی لکھنے کا اہتمام کیا گیا۔ اضافتوں سے گریز کیاگیا۔اقوام متحدہ کی جگہ متحدہ اقوام لکھا جانے لگا۔ ایڈیٹر کو اڈیٹر، غنڈہ کی جگہ گنڈہ، غپ شپ کی جگہ گپ شپ جیسے الفاظ کو مروج کرنے کی کوشش کی گئی۔بڑی شخصیات کے ساتھ بلاوجہ کے القاب وآداب کے استعمال سے احتراز کیاگیا۔صحافت میں بامحاورہ زبان کے استعمال پر زور دیاگیا۔ عام فہم،سلیس اور رواں زبان کے استعمال پر زور دیاگیا۔املا کے حوالے سے قومی آواز اور حیات اللہ انصاری کی کوششوں کو سراہا گیا۔ کئی اردو روزناموں اوررسائل نے ان کے اسلوب کو اپنایا بلکہ مشہور ماہر لسانیات رشید حسن خاں نے بھی ان کی تائید میں اپنی کتاب اردو املا مرتب کی۔
قومی آواز کے تمام ایڈیشنوں کی تاریخ اور ان کے ایڈیٹروں پر مضامین کے ساتھ ساتھ یہ کتاب خاص طور سے قومی آواز کے دہلی ایڈیشن، اس کے دفتر، اس کے صحافی حضرات اور اس کے کاتبوں کے بارے میں بڑے دل چسپ انداز میں اظہار خیال کیاگیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ سہیل انجم ایک شریف انسان ہیں۔ انھوں نے زندگی میں بہت محنت اور کدوکاوش کرکے اردوو صحافت میں ایک مقام حاصل کیا۔
میرا خیال ہے اردو صحافت کی تاریخ یا قومی آواز سے سروکار رکھنے والے لوگوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف قومی آواز کی صوری ومعنوی حیثیتوں پر نظر ڈالی گئی ہے بلکہ اس سے اردو صحافت کے تدریجی ارتقا کے سفر پر بھی غائرانہ نظر پڑتی ہے۔ جو لوگ قومی آواز کے قاری رہ چکے ہیں۔ اس کے صحافیوں یا اس سے وابستہ لوگوں سے واقف ہیں انھیں یہ کتاب پڑھ کر بہت لطف آئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب سہیل انجم کی مقبول ترین کتابو ں میں شمار کی جائے گی بلکہ یونیورسٹیوں کے صحافتی نصاب میں بھی شامل کی جائے گی۔
آپ کے تبصرے