دکتور وسیم محمدی حفظہ اللہ اپنی علمی، ادبی، تجزیاتی اور فاضلانہ اسلوب نگارش کے لیے جانے جاتے ہیں،آپ کی تحریریں اگرچہ لمبی ہوتی ہیں لیکن نظر پڑتے ہی قاری اخیر تک بے اختیار بہتا چلا جاتا ہے،علم کے ساتھ زبان کی لطافت قاری کو جکڑ لیتی ہے،آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس پر دل و دماغ کی رگوں کو اس طرح نچوڑتے ہیں کہ صفحۂ قرطاس پر عقل و دانش کے لعل و گہر پھیل جاتے ہیں،ان کی تحریروں کے علمی معیار کو دیکھ کر ان کی وسعت مطالعہ میں نظر کھوجاتی ہے،ان کے اسلوب کی رعنائی ذوق ادب کو سیراب کرتی ہے،الفاظ اور محاوروں کی رنگا رنگی اور سلیقگی مشق پیہم کی غماز ہوتی ہے،نادر حوالوں کی گہما گہمی اور علمی نکتہ آفرینیوں کی ہما ہمی ہوتی ہے،خشک مضامین کو بھی اسلوب کی دلفریبی پرکیف بنا دیتی ہے،تحریر کی شگفتگی،رعنائی،سلاست،گداز اور جاذبیت دامن دل کو کھینچتی ہے۔
ان تمام قلمی محاسن کے باوصف آتش دانِ فکر کی تمازت کتاب کی پوری فضا میں رچی بسی ہوتی ہے، ذہن رسا جس طرح تجزیے کی گہرائیوں میں اتر کر نتائج نکال کر لاتا ہے وہ منظر بڑا حیران کن ہوتا ہے۔
آپ کے یہاں موضوع کی ندرتِ انتخاب میں بلا کی فقاہت پائی جاتی ہے،فقط عنوان ہی اس قدر گہرائی و ہمہ گیریت لیے ہوتا ہے کہ تحریر کا فکری ماحصل اپنی تمام تر علمی و نظری پہنائیوں کے ساتھ ایک نکتے پر مرکوز ہوجاتا ہے،آپ کی منتشر تحریریں اب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آرہی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہیں۔
اس وقت آپ کی معرکۃ الآراء کتاب “سنگ گراں”علمی و دینی حلقوں میں چرچے کا وشے ہے،اب تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں مگر یہ کتاب سبسے پہلے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے طبع ہوئی اور مفت تقسیم کی گئی ،امیر محترم فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ کا گراں قدر پیش لفظ ہے،مدیر فری لانسر اور پختہ کار قلمکار ابو المیزان رحمانی کے مقدمہ نے موضوع کی کشش کو اور بڑھا دیا ہے،کتاب دیدہ زیب،خوبصورت ٹائٹل اور معیاری کاغذ سے مزین ہے،اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ ظاہر حال پر پڑے دبیز پردوں کو چاک کر کے حقیقی منظر پیش کرتی ہے اور ضمیر تائید کا نعرہ بلند کیے بغیر نہیں رہتا،جب سے پڑھا ہے تبصرے کے لیے فارغ وقت کا منتظر رہا اور فرصت ملتے ہی سمند قلم کو ایڑ لگا دیا ہے۔
کتاب “سنگ گراں”مسئلۂ فلسطین پر ایک دستاویز اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے جو آپ کو اس قضیے کے محیر العقول گوشے اور تہ در تہ حقائق تک پہنچاتی ہے، یہ کتاب بین الاقوامی دوغلی سیاست کو بے نقاب کرنے کے ساتھ یہودی ذہن کی خباثت، رافضیت کی خون آشام فطرت، اخوانیوں کی سفالت اور سلفیوں کے ایک ایسے ٹولے کے فکر و عمل کی کہانی بیان کرتی ہے جو اس قضیے میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اخوانیوں کی زبان بول رہے ہیں اور حماس و ایران کو فلسطین کا اصل خیر خواہ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں،ان کو یہ نہیں معلوم کہ یہی دونوں اصل میں قضیۂ فلسطین کے حل میں سب سے بڑا روڑا ہیں،مگر کمال مہارت سے اپنے اصل کردار پر سیاست، مکر و کید اور پر فریب بیانیوں کا ملمع چڑھایا ہوا ہے۔فاضل مصنف نے مکر و دغا کے اس کھیل کو طشت از بام کیا ہے،آپ لکھتے ہیں:
“دراصل مکرو فریب کا یہ وہی کھیل ہے جس کی بنیاد یہودیوں اور صلیبیوں نے رکھی ہے اور اب وہی کھیل رافضیوں کے ساتھ ساتھ اخوانی تحریکی مودودی اور ان کے بعد دانستہ نادانستہ سلفیوں میں موجود دانشور اور سہولت کار طبقہ کھیل رہا ہے، مقصد ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے کھلے دشمن کو ڈھال بنا کر چھپے دشمنوں پر پردہ ڈالنا اور اپنی ہوائے نفس کو سرٹیفائی کرنے کے لیے کسی متفق علیہ چیز کا سہارا لینا”(سنگ گراں: ص 60)
مسئلۂ فلسطین کو سمجھنے کے لیے رافضیت اور اخوانیت کو بہ تمام و کمال سمجھنا ہوگا اور ان کے خفیہ مقاصد کو جاننا ہوگا،اس لیے صاحب تحریر نے رافضیت اور اخوانیت پر دلائل کی روشنی میں کھل کر بات کی ہے اور ہوش ربا انکشافات کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔کتاب میں چند لفظوں میں رافضیت کا جو تعارف آپ نے پیش کیا ہے وہ کئی صفحات کا نچوڑ اور ماضی کے تلخ تجربات کا ایک جامع عنوان ہے، دیکھیے آپ کیا کہتے ہیں:
“ایک بات ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کرنی ہوگی کہ رافضی اسلام اور مسلمانوں کے وجود کے دشمن ہیں، یہ کبھی اسلام کے مخلص نہیں ہو سکتے،اسلام کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے ان کی عداوت یہود و نصاری سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہے اسی لیے ان کے تئیں سلف صالحین کا موقف دو ٹوک اور بے لچک رہا ہے”(سنگ گراں: ص 66)
یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ صدیوں کی شہادت منہ کھولے کھڑی ہے،شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو ان کو مجسم شر اور غارت گر انسانیت قرار دیا ہے اور ان سے بہت زیادہ تحذیر کی ہے،ان کے بارے میں آپ کے اقوال بہت زیادہ تشویش ناک ہیں،کیونکہ انھوں نے روافض کی فطرت کو بہت قریب اور باریکی سے دیکھا تھا اور اس سے اپنی تحریروں میں آگاہ فرمایا تھا،مصنف نے تفصیل سے روافض کی اسلام دشمنی کو اجاگر کیا ہے اور حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔
فلسطین کا دوسرا دوست نما دشمن حماس ہے جو اخوانیوں کا فلسطین میں جنگجو دستہ اور ان کے مفادات کا محافظ ہے،اخوانی کس کارگہ فکر کا پروردہ گروہ ہے؟اس کے عالم وجود میں آنے کے محرکات کیا ہیں؟ان کے نام نہاد بانیوں کا فکری و منہجی خد وخال کیا ہے؟ آپ نے ان کے آغاز وجود سے لے کر اب تک ان کے افکارو نظریات،عزائم،ترجیحات اور کارستانیوں پر ٹھوس حوالوں سے گفتگو کی ہے،الفاظ اور جملوں میں اخوانی نفسیات کا پورا ایکسرے لے کر بتادیا ہے کہ ان کا اصلی چہرہ کیا ہے؟لکھتے ہیں:
“اخوانیت باطل افکار و نظریات کا ایک ایسا سیور لائن ہے جس میں کئی گمراہ فرقوں کے گندے افکار کی نالیاں آکر گرتی ہیں،یہ ساری گندگیاں آپس میں مل کر ایک الگ ہی قسم کا فلیور لے لیتی ہیں۔اس کی بھبھکتی سڑاند جو دراصل انواع و اقسام کی گندگیوں کا مجموعہ ہے جسم و جان اور فکر و شعور کے لیے انتہائی مہلک اور جان لیوا ہوتی ہے۔اس کی بدبو کے ایک جھونکے سے اچھے بھلے صحت مند افراد کے فکر و شعور کے مسامات مسدود ہونے لگتے ہیں”(سنگ گراں: ص 22)
اس وقت یہی لوگ فلسطین کی قسمت کے بلا شرکت غیرے مالک بنے بیٹھے ہیں اور فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں،حالات شاہد ہیں کہ یہ لوگ گذرتے دن رات کے ساتھ یکطرفہ طور پر فلسطین کو گہری تاریکی میں دھکیل رہے ہیں اور انسانی تباہی کا عالمی ریکارڈ بنا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ فلسطین آج کیوں لہو لہان ہے؟کیوں خون کی دھار بہہ رہی ہے اور کب تک اسی طرح بہتی رہے گی؟کیوں آہوں اور چیخوں کا فلک شگاف شور تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے؟کیوں آبادیاں کھنڈروں میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں؟کیوں زخم ناسور بن گیا ہے اور مسیحاؤں کی مسیحائی نے زخم کو مزید گہرا کیا ہے؟ان چبھتے سوالات کے جوابات یہ کتاب مدلل طریقے سے دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ جو مسیحا بنے پھرتے ہیں وہی اصل میں قاتل ہیں،جو اپنے تئیں امت کے نجات دہندہ باور کراتے ہیں وہ حقیقت میں ملت فروش اور فلسطین کے سودا گر ہیں۔
حماس اسرائیل سے فلسطین کے لیے جنگ لڑرہا ہے اور ایران درپردہ اس کی مدد کررہا ہے۔برسہا برس سے یہ جنگ چل رہی ہے،اس جنگ نے فلسطین کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے،صرف نسل کشی ہوئی ہے،صرف تخریب و فساد کی نئی نئی داستان رقم ہوئی ہے،ایران نے اسلحے فراہم کیے،ہتھیار بہم پہنچائے اور ہر ہتھیار کی قیمت اہل سنت مسلمانوں کی لاشوں کی شکل میں وصول کی،پھلجڑی نما راکٹ ایران کے ہوتے اور جوابی میزائل اسرائیل کے ہوتے تھے اور جان و مال کی تباہی فلسطین کی ہوتی تھی،بس واسطے کا مقدس کام حماس کرتا رہا،طرفہ یہ کہ اخوانیوں کا یہ ٹولہ بھی اپنے حصے کا مال غنیمت وصولنے میں کبھی پیچھے نہیں رہا،صاحب کتاب کے اس اقتباس کو پڑھیے اور سوچئے کہ کس طرح مظلوم محافظوں کے رحم و کرم پر اپنے آشیانے کو آگ کےحوالے کرتے رہے ہیں،لکھتے ہیں:
“یہ فلسطین اور غزہ کے ان سوداگروں کے غم میں گھلے جا رہے ہیں جو دشمنان اسلام کے اشاروں پر مسئلۂ فلسطین کا سودا کرتے رہے۔ فلسطینی قضیہ کے ہر ممکنہ حل کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ فلسطین سے حقیقی محبت کرنے والوں کے ہر منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سعی مذموم کرتے رہے اور آج ہزاروں اہل غزہ کو قتل اور لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کروا کر شہداء کی لسٹ میں سب سے پہلے اپنا نام درج کروا رہے ہیں۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بر صغیر کے اخوانی تحریکی ، مودودی اور سہولت کار انھیں دھڑا دھڑ جنت کی سرٹیفکیٹ بھی دے رہے ہیں۔ جتنے سرٹیفکیٹ انھوں نے ان سوداگروں کو بانٹے ہیں اتنے تو خود اہل غزہ کے حصے میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔”(سنگ گراں: ص 46)
اخوانیوں کے لیے مسئلۂ فلسطین ایک منافع بخش تجارت ہے،اپنی شبستان عیش کی رونق کے لیے ایک مادی سہارا ہے،حملہ اور ہمہ جہت تباہی کے بعد باز آبادکاری کے لیے آنے والے چندوں کی کشش کے سامنے فلسطینیوں کی لٹی پٹی زندگی کا درد ہلکا ہوجاتا ہے۔یہود گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتا ہے اور ایران قدیم مجوسی سلطنت کی بازیابی کے لیے خفیہ پلان کے مطابق چل رہا ہے،حماس اپنے حقیر مفادات کے لیے فلسطین کی آزادی کے نام پر اسلام دشمنوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے اور سارے نتائج فلسطین کے خلاف اور ایران و اسرائیل کے حق میں برآمد ہورہے ہیں،اس کے باوجود آنکھوں پر بندھی پٹی اتر نہیں رہی ہے اور پیہم چوٹوں کے بعد بھی انہی روافض سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں جن کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا تھا،اپنی زمام ان کے ہاتھ میں دینے کا مطلب ہے بکریوں کے ریوڑ بھیڑیے کی نگرانی میں دے دیے جائیں۔
اس پورے معاملے میں سعودی عرب کا کردارمخلصانہ اور ہمدردانہ رہا ہے،وہ بے لوث طریقے سے اب تک فلسطین کی مدد کررہا ہے،ان کی اشک شوئی کررہا ہے،مدد میں سب سے زیادہ پیش پیش رہا ہے، جس کی بے انتہا قربانیاں ہیں،جو فلسطین کا پائیدار حل چاہتا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی پیمانے پر منظم انداز میں کوشاں ہے،مگر وہ سب سے زیادہ لعن طعن کا شکار بنا ہوا ہے۔ساری بربادیوں کا ٹھیکرا اس کےسر پھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،فاضل مصنف نے سعودی عرب کی مخلصانہ کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ بات کہی ہے اور یہی سچ بھی ہے،لکھتے ہیں:
“نتیجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی اس قدر مخلصانہ جہود ہمہ جہت مساعی اور بے نظیر خدمات کے باوجود ابھی بھی حال یہ ہے کہ جس ایران نے محض گزشتہ 15 سالوں میں تقریبا دو کروڑ سنیوں کو قتل اور بے گھر کیا ہے،وہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے ہاں اسلام اور مسلمانوں کا مخلص بنا ہوا ہے اور سعودی عرب جس نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی بے نظیر خدمات انجام دی ہیں وہ مجرم بنا ہوا ہے۔”(سنگ گراں: ص 47)
ان اسلام دشمن گروہوں کے مشکوک کردار پر بات کرو تو بہت سے ظاہر فریب حوالوں کے ذریعے ان کے اخلاص کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے،اسلاممخالف طاقتوں کے خلاف ان کی بعض کوششوں کو منظر عام پر لایا جاتا ہے،اور ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب یہ اندر سے ملے ہوئے ہیں تو ان کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور عسکری کارروائی کیا معنی رکھتی ہے؟در اصل یہی وہ دھوکہ ہے جس سے اکثر لوگ رافضیوں کے دام تزویر میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور اخوانیت و رافضیت کو معصوم سمجھ بیٹھتے ہیں۔
آج نفاق سیاست کا دوسرا نام ہے،کبھی کبھار ظاہر کا بھرم رکھنے اور باطن کے فریب کو مزید چھپانے کے لیے اپنے مقصد کے خلاف چھوٹی موٹی کارروائی کرلی جاتی ہے،بڑے فائدے کے لیے چھوٹا نقصان برداشت کرلینے میں کیا حرج ہے؟فاضل مصنف نے اس شبہے کا بہت خوبصورت جواب دیا ہے،لکھتے ہیں:
“مصالح کی عارضی جنگ اور مفادات کی وقتی لڑائی کا حتمی مقاصد اور دائمی مصالح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا بلکہ اکثر جھڑپیں تو محض مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر باقاعدہ پلان کے تحت وجود میں لائی جاتی ہیں۔”(سنگ گراں: ص73)
آپ نے اس معاملے میں بعض سلفیوں کے طرز عمل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ دوسرے مسائل کی طرح اس مسئلے میں وہ اکابر علماء کی وضاحتوں سے چشم پوشی کرکے اپنے سطحی اندازوں پر تکیہ کرتے ہیں،فلسطین کے مسئلہ میں یہ ان زہریلے اثرات سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں جو رافضی و اخوانی میڈیا کا پیدا کردہ ہے،ادھر چند سالوں سے یہ طبقہ اکابر علماء اہل حدیث کے لیے سردرد بنا ہوا ہے،یہ طبقہ سلفی دعوت کے خلاف دانستہ نا دانستہ “سنگ گراں” بن کر ظاہر ہوا ہے،اکابر علماء کے موقف کو پرکاہ کی بھی اہمیت نہیں دیتا ہے،اخوانی و تحریکی لٹریچر کا یہ جان لیوا سحر ہے جو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے،یہ بعض نام نہاد لکھاریوں کی نظر میں دانشور بننے کی ناکام کوشش ہے اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم دقیانوس نہیں بلکہ ہماری سوچ کی سوئی کہیں کہیں آپ سے مل جاتی ہے،ہم کو ان پر قیاس نہ کرو،یہ مرعوبیت اور فکری غلامی کا مرض ہے جو کتاب و سنت کے چشمۂ صافی اور علماء حق سے دوری کا نتیجہ ہے۔چند سالوں سے یہ پورے شان ترفع کے ساتھ چند مسائل میں سلفی موقف کے خلاف اپنی خودساختہ سوچ کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنے ادب و انشا کے زور پر خام ذہنوں کو اپنے دام میں گرفتار کررہے ہیں۔یہ ٹولہ بھی بعض مواقع پر شدت اور انتہاپسندی پر اتر آتا ہے،بگڑتی صورت حال میں بے رحم و سفاک بن جاتا ہے،ان کی قلمی جارحیت سے موقر علماء کے گریبان محفوظ نہیں ہیں،خبط عظمت کےحد درجہ شکار ہیں،ہم چنی دیگرے نیست کا عارضہ لاحق ہے،آپ نے اس کتاب میں ان کا پورا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے،لکھتے ہیں:
“سلفیوں میں موجود یہ طبقہ جو اخوانیت تحریکیت اور دیگر اہل بدعت کے افکار کو سلفیوں میں قابل ہضم بنا رہا ہے، ہم اسے سہولت کار کہیں یا نیم تحریکی اخونچی کہیں یا سلفی دانشور، اس کا کردار نہایت سنگین اور عمل نہایت مردود ہے۔ اس طبقے نے سلفیت کی دیوار چین میں سندھ لگائی ہے اور اہل حدیثیت کے قلعہ میں نقب لگا کر وہ کام کر رہا ہے جس کا برصغیر کی سلفی تاریخ میں پہلے کبھی تصور نہ تھا۔”(سنگ گراں :ص 30)
اب ذرا ٹھہر کر کتاب کی زبانی محاسن پر بھی بات کرلیتے ہیں،فاضل مصنف عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی ہیں،عربی زبان پر قدرت کے ساتھ اردو میں قدرت کلام کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔کتاب کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے جیسے ہم ادبی سطوت اور فکری عظمت کے ہمرکاب ہوں،قدم قدم پر ادب، بلاغت، تعبیر، انشاء،مجاز،استعارہ،تشبیہ اور بدیع کے نوع بہ نوع پھول کھلے ہوئے ہیں۔آپ کا اسلوب بتاتا ہے کہ ایک عالم دین تعبیر و بیان کی راہ چلتا ہے تو لب و رخسار اور جام و سبو کی خیالی چراگاہ سے اوپر اٹھ کر وحی کی خوشبو میں قلم کو بھگو دیتا ہے اور نصوص کو لطیف پیرایہ بیان میں اس طرح برتتا ہے کہ ایک روحانی سماں باندھ دیتا ہے،یقین نہ آئے کتاب کھولیے اور اس اقتباس کو مزے لے لے کر پڑھیے؛
“انھیں خوف ہے کہ اگر ان کی فکر کے صنم کدوں میں نصب یہ بت ہی منہ کے بل گر گئے تو بھلا کس کی پرستش ان کے باطل افکار و فاسد نظریات کو توانائی بخشے گی، اس لیے جوں ہی کوئی توحید پرست اپنا قلم اٹھا کر (وَتَٱللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَٰمَكُم) کہتے ہوئے ان کے صنم کدوں کا رخ کرتا ہے، ہوائے نفس کے سارے پجاری (حَرِّقُوۡهُ وَانْصُرُوۡۤا اٰلِهَتَكُمۡ) کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کو خاک اور خاکستر کرنے کے لیے اس پر پل پڑتے ہیں اور اپنے ان بتوں کے دفاع میں ساری توانائی صرف کر دیتے ہیں۔”(سنگ گراں: ص38)
زبان پر غیرمعمولی قدرت کے بغیر یہ ملوکانہ اسلوب کس کو میسر آتا ہے؟مشق و تمرین میں بہت زور مارنا پڑتا ہے تب جاکر موئے قلم اس طرح لفظوں کے گل کرتی اور بلاغت کے آسمان کو چھوتی ہے،ٹھہریے نہیں! بلکہ آگے بڑھیے،اگر قلم کا دوٹوک لہجہ، بےساختگی، سلاست، روانی اور لفظوں و جملوں کا منہ زور بہاؤ دیکھنا ہے تو اس اقتباس سے گربہ قدم گذریے، لطف نہ آئے تو مرے لفظوں کو کسی کوڑے دان میں ڈال دیجیے،اخوانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
“توحید کے تئیں ان کا واضح تساہل، شرک اکبر سے چشم پوشی، صوفیت سے حد درجہ متاثر اور بدعت و خرافات میں ملوث ہونا،ولاء و براء جیسے بنیادی عقیدے میں ڈھیلا پن، انتہائی بغیض قسم کی حزبیت، رفض و خروج کا عقیدہ، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر بے جا تنقید، اولیائےامور کی غلطیوں کے پیچھے لگنا، ان کا تتبع اور تشہیر کرنا،حکام کے خلاف لوگوں کو اکسانا اور بغاوت پر ابھارنا،مظاہروں پراکسانا اور فساد مچانا، اعتزالی فکر اور عقلانیت، نصوص کی تحریف اور باطل تاویل، باطل پرستوں کے ساتھ انتہائی درجے کی نرمی جبکہ موحدین اور منہج سلف پر چلنے والوں سے شدید نفرت اور بغض و عداوت قابل ذکر ہیں۔”(سنگ گراں: ص 18)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران مع اخوان باعتبار نقصان مسلمانوں کے لیے کسی فتنۂ تاتار سے کم نہیں ہے،اب تک کا خونیں منظر نامہ یہی نتیجہ برآمد کرتا ہے۔فلسطین کے احوال کو برسوں سے اخوانی اور شیعی میڈیا کی زبان سے سننے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو آج تک آپ سنتے آرہے ہیں،بلکہ پردے کے پیچھے کا منظر بہت خوفناک ہے۔اس کتاب نے مسئلۂ فلسطین کا سچ آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔
یہ کتاب وقت کی ضرورت اور ضمیر کی آواز ہے۔کتاب میں حقائق کی جلوہ نمائی کے ساتھ مصنف کا درد اور خلوص بھی امڈ امڈ کر آتا ہے،لہجے کا درجۂ حرارت بتاتا ہے کہ کسی کا سلگتا ہوا دل اور ابلتا ہوا خون غیرت کامحرک بنا ہے،یہ برسوں کی ٹیسیں ہیں جو لفظوں کا پیرہن لے کر منظر عام پر آئی ہیں۔غزہ کا خون آشام منظر کسی بھی غیور سلفی کا وجود لہو لہان کرنے کے لیے کافی ہے۔
مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
کتاب کے جملہ محاسن کے اعتراف کے ساتھ عرض ہے کہ مرکزی موضوع کے ساتھ جا بجا ذیلی عناوین کا بند و بست ہوتا تو لطف دوبالا ہوجاتا،اس سے مبحث کا تنوع اور افادیت دوچند ہوجاتی تاہم اس سےکتاب کے علمی و فکری عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔مناسب تھا کہ مسئلہ فلسطین میں یہود کی طرح نصاریٰ کے منافقانہ کردار کو بھی ذرا تفصیل سے بتایا جاتا اور واضح کیا جاتا کہ اس چوطرفہ ساز باز کے کانٹوں میں الجھی ہوئی روح فلسطین کس طرح تار تار ہورہی ہے؟یہ منظر بھی سامنے آتا تو مقدمہ اضافی قوت کے ساتھ اہل انصاف کی بارگاہ میں پیش ہوتا،مگر شاید یہ بحث مصنف کے تجویز کردہ عنوان “سنگ گراں” کے لیے بہت دور کی کوڑی ہوجاتی ۔
بہر کیف کوشش لائق صد تحسین و ستائش ہے،یہ فرض کفایہ ہے جو جماعت کی طرف سے آپ نے ادا کیا ہے،فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔اس کتاب کی دینی و فکری اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے عام کیا جائے،خاص طور پر وہ لوگ ضرور پڑھیں جو سوشل میڈیا پر اس موضوع کو پڑھتے رہے ہیں تاکہ سفید پوش منافقوں کے چہرے کا نقاب الٹ جائے اور لہولہان فلسطین کا اصل مجرم سامنے آجائے۔
محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
اقبال



آپ کے تبصرے