ڈسکہ، ضلع سیالکوٹ کی ایک اہم تحصیل اور معروف صنعتی شہر ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت اور وجہ تسمیہ کے متعلق دو روایات ہیں:
ڈسکہ شہر مغل بادشاہ شاہ جہاں (1592۔1666ء) کے دور میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا پہلا نام شاہ جہان آباد تھا۔ ریونیو ریکارڈ کے مطابق علاقے کی زمین داس خاندان کی ملکیت تھی، جو بڑا زمیندار خاندان تھا۔ اور اس طرح یہ ’’داس کا‘‘ سے ’’ڈسکہ‘‘ بنا، یعنی انگلش میں اسے “Daska” کہا جانے لگا۔
ایک دوسری روایت کے مطابق ڈسکہ کا نام ’’دہ کوہ‘‘ سے بگڑ کر ڈسکہ بنا ہے۔ ’’دَہ‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب حساب کا دس ہے۔ اور ’’کوہ‘‘ کا مطلب فاصلے کا پیمانہ ہے جو مغل دور میں استعمال ہوتا تھا۔ چوں کہ ڈسکہ شہر گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے دس کوہ پر واقع ہے، اسی لیے اسے ڈسکہ کہا جاتا ہے۔ یہ شہر سرجیکل اور زرعی آلات کی مصنوعات میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ پاکستان میں پہلا ڈیزل انجن بھی اسی شہر میں بنایا گیا تھا۔
ڈسکہ شہر میں مسلکِ اہلِ حدیث کی ابتداء اور ارتقاء کے حوالے سے اسی قدر معلوم ہو سکا ہے کہ پرانا ڈسکہ وڈالہ روڈ پر محلہ چودھریاں میں ساہی فیملی کے لوگ رہتے تھے جن میں ایک شخص کا نام چودھری سکندر خاں (وفات: 1898ء) تھا، اسی شخص نے وہاں پہلی اہلِ حدیث مسجد تعمیر کی۔
مگر جب سکندر خان کا بیٹا نصر اللہ خاں (مشہور قادیانی لیڈر سر ظفر اللہ کا والد) 1904ء میں قادیانی ہو گیا تو یہ مسجد بھی قادیانیوں کی تحویل میں چلی گئی، جس کے بعد ساہی فیملی ہی کے ایک شخص چودھری جلال دین نے اسی محلے میں واقع اپنی رہایش گاہ کے ایک حصے میں اسلامیانِ علاقہ کے لیے الگ مسجد بنا دی جو غالباً مسئلۂ ختمِ نبوت کی بنیاد پر مرزا قادیانی کے حینِ حیات بننے والی پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد کا نام مبارک مسجد ہے جس کی تاسیس 1904ء میں ہوئی۔ یہ اہلِ حدیث مسجد آج بھی اسی نام سے قائم اور آباد ہے۔
اس مسجد کے پہلے خطیب کا نام مولانا نذیر صاحب تھا جن کا تعلق بمبانوالہ سے تھا۔ ان کی وفات کے بعد انہی کے بیٹے مولانا عبد الحی صاحب (وفات: 1972ء) مسجد مبارک میں امام وخطیب مقرر ہوئے جنھوں نے طویل عرصہ یہاں گزارا اور مسلکِ اہلِ حدیث کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔(۱)
1962ء کے لگ بھگ ڈسکہ شہر کے حاجی عبد العزیز صاحب نے، جن کا آبائی علاقہ بیگووالہ (نزد سمبڑیال) تھا اور وہ حضرت حافظ عبد المنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کے فیض یافتگان میں سے تھے، کچہری چوک میں ایک مسجد بنائی جس کا نام مسجد عزیزیہ اہلِ حدیث ہے۔
آج یہی مسجد عزیزیہ ڈسکہ شہر میں اہلِ حدیث کا بڑا مرکز ہے جہاں مولانا محمد حیات محمدی رحمہ اللہ خطیب رہے۔ انھوں نے تقریباً 40 سال کا عرصہ یہاں گزارا اور اندرون شہر اور تحصیل بھر میں مسلک اہلِ حدیث کی اشاعت میں بے مثال کردار ادا کیا۔ ڈسکہ شہر اور اس کے گرد ونواح میں دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے اہلِ حدیث مسلک کی ترویج ہو، یا دور دراز دیہاتوں میں مساجد کا قیام، اس میں کلیدی کردار اسی مردِ درویش کا ہے جنھوں نے انتہائی مشکل حالات میں یہاں مردانہ وار اصلاحی کام کیا اور مخالفین کے طعنوں اور اذیتوں کے باوصف کبھی ہمت نہیں ہاری۔
راقم الحروف کو اسی مسجد عزیزیہ میں حفظِ قرآن کی خاطر تقریباً دو سال (اپریل 1992ء تا دسمبر 1993ء) استادِ گرامی قاری مطیع الرحمان رحمہ اللہ سے پڑھنے اور وہاں مقیم رہنے کا موقع ملا، جس کے دوران میں مولانا حیات محمدی رحمہ اللہ کو قریب سے دیکھنے اور ان کے یومیہ دروس اور جمعہ کے خطبات سے بھی استطاعت بھر مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران میں مولانا محمدی رحمہ اللہ کی شخصیت کے جن روشن پہلوؤں سے آگہی ہوئی اور آج تلک لوحِ قلب پر ان ایام کی خوشگوار یادیں ثبت ہیں، ان میں سے کچھ اہم باتیں پیشِ خدمت ہیں:
(۱)مولانا حیات صاحب کی ڈسکہ آمد اور تقرر، شہر کے مرکزی اور اہم مقام کچہری چوک پر واقع مسجد عزیزیہ میں ایک داعی اور خطیب کے طور پر ہوا تھا، جس کا انھوں نے خوب حق ادا کیا۔
وہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد مسجد میں قرآنی ترتیب سے درسِ قرآن ارشاد فرماتے جس میں انھوں نے کئی مرتبہ قرآنِ کریم کی تکمیل کی۔ اس میں اہم بات یہ تھی کہ اتنی ذمے داریوں اور مصروفیات کے باوجود وہ صبح کے درس میں ناغہ نہیں ہونے دیتے تھے، حالانکہ اکثر وہ رات کو شہر اور قرب وجوار کے دیہاتوں میں ہونے والے جلسوں میں بھی جاتے اور رات دیر سے لوٹا کرتے تھے۔
کیوں کہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ان کی زندگی میں شہر یا تحصیل بھر کا ہر اہلِ حدیث جلسہ انہی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا کرتا تھا، اور پھر وہ ان تبلیغی جلسوں میں برائے نام شرکت نہیں کرتے تھے کہ حاضری لگوانے گئے اور چلے آئے، بلکہ وہ شروع سے لے کر آخر تک جلسے میں شریک رہا کرتے اور اس کی مکمل نگرانی کرتے، جیسے کوئی باغبان اپنے پودوں کی رکھوالی کے لیے ہمہ تن متوجہ رہتا اور اس کی حفاظت کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔
اور یہ بات حقیقت ہے کہ اس علاقے میں چونکہ انھوں نے ان مساجد اور تبلیغی جلسوں کی بنیاد خود ہی رکھی تھی، اس لیے کسی جگہ مسجد اہلِ حدیث کا کوئی معاملہ ہوتا یا جلسے کی اجازت یا اہتمام سے متعلق کوئی کام ہوتا، لوگوں کی خواہش اور ضرورت کے مطابق ہمیشہ اسے پوری تندہی اور فکر مندی سے انجام دیا کرتے تھے، اسی وجہ سے سارے علاقے حتی کہ دیہاتوں میں بھی حاملینِ مسلک اہلِ حدیث انھیں ایک شفیق باپ اور سرپرست کے طور پر مانا کرتے، اور یہی سمجھتے تھے کہ ہمارے جملہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مولانا محمدی رحمہ اللہ کے پاس جا کر ہی ہونا ہے۔
(۲)مولانا محمدی رحمہ اللہ صاحب کا خطبہ جمعہ بھی بڑی اہمیت اور دعوتی لحاظ سے غیر معمولی اثرات کا حامل تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسجد عزیزیہ ڈسکہ شہر کے کچہری چوک جیسے مرکزی مقام پر واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچہری (عدالتیں) اور لاری اڈا تھا، (اب یہ دونوں چیزیں یہاں سے شہر کے باہر منتقل ہو چکی ہیں) جس کی وجہ سے شہر کے ججز، وکلاء اور شہریوں کے علاوہ مسافر حضرات بھی بڑی تعداد میں جمعہ یہیں ادا کرتے اور مسجد کے تمام ہال اور منزلیں بھری ہوتی تھیں۔ چونکہ یہ سرکاری ایریا بھی تھا اور افسران وملازمین بھی جمعہ میں حاضر ہوتے، اس لیے مولانا حیات صاحب کی رائے کو شہر میں عوامی و سرکاری دونوں سطح پر بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ آپ ڈسکہ شہر کی تمام چھوٹی بڑی سرکاری وغیر سرکاری مشترکہ کمیٹیوں اور تنظیموں کے ذمے دار بھی رہے اور پوری جراَت کے ساتھ اپنے مسلک کی نمایندگی کیا کرتے تھے۔
(۳)مولانا محمدی رحمہ اللہ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے مسجد میں دعوت وخطابت کی ذمے داری تو بڑی عمدگی سے نبھائی، مگر ہمارے عام خطباء اور ائمۂ مساجد کی طرح انھوں نے خود کو مسجد کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ باہر بھی عام لوگوں حتی کہ بازاروں، دفاتر اور دیہاتوں تک تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے ان کے دور میں توحید وسنت کی اس قدر اشاعت ہوئی کہ اس سے پہلے یہاں اس کی مثال نہیں ملتی، اسی وجہ سے ان کے عہد میں بہت بڑی تعداد میں لوگ سنت وحدیث پر عمل پیرا ہوئے۔
یہاں اس تلخ حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ آج ہماری دعوت بہت محدود ہو چکی اور اس کے اثرات بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں، کیوں کہ ہم نے دعوتِ دین کا وہ نبوی طریقہ ہی ترک کر دیا ہے جس میں خود ہر جگہ جا کر معاشرے میں ہر سطح کے لوگوں تک دعوتی پیغام پہنچایا جاتا ہے جو ہمارے اسلاف کا منہج تھا اور اسی کی بدولت ان کے دعوتی اثرات لا محدود تھے۔
(۴)ڈسکہ میں مولانا محمدی رحمہ اللہ کے اثرات اور پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ ہم نے خود یہ منظر دیکھا ہوا ہے کہ لوگ ہمہ وقت ان کے پاس اپنے مسائل لے کر حاضر ہوا کرتے اور ان سے تعاون کے خواستگار ہوتے۔ اور یہ سلسلہ فجر کی نماز سے لے کر سارا دن جاری رہتا۔
مولانا کی یہ عادت تھی کہ جب وہ گھر ہوتے، کافی فاصلہ ہونے کے باوجود، وہ تمام نمازیں مسجد عزیزیہ ہی میں ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی لیے کبھی فجر بعد درسِ قرآن کے اختتام پر ہم دیکھتے کہ لوگ ملنے آئے ہوئے ہیں، یہی منظر ظہر اور عصر کے بعد ہوتا۔ یوں مولانا حیات صاحب سارا دن اس طرح مصروف رہتے کہ کبھی کسی سائل کے فتوے کا جواب لکھ رہے ہیں، بسا اوقات کسی شخص کی درخواست پر اس کے لیے سفارشی لیٹر تیار کر رہے ہیں یا کسی تنازع پر ثالث بن کر ان کا تصفیہ کروا رہے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ لوگ وقت بے وقت مسجد یا گھر جا کر آپ کو اپنے کام کے لیے سرکاری دفاتر یا کسی جگہ ساتھ جانے کی درخواست کرتے تو بلاتامل ان کے ساتھ جاتے اور مقدور بھر ان کا کام کروانے کی کوشش کرتے۔
ایک مرتبہ تحصیل ڈسکہ کے گاؤں جامکے چیمہ کے اہلِ حدیث عالم مولانا قمر منیر عدیل پر مخالفین نے توہینِ رسالت کا پرچہ کروا دیا جس پر مولانا محمدی رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اس مقدمے کی خاطر جب ضرورت پڑتی تھانے اور کچہری میں ان کے ساتھ جاتے، پولیس افسران اور وکلاء سے ملتے، تا وقتیکہ ان کا کیس ختم نہیں ہوا، چین سے نہیں بیٹھے۔
(۵)مولانا حیات صاحب 1965ء میں جب ڈسکہ تشریف لائے تو اس وقت وہاں صرف دو اہلِ حدیث مساجد تھیں، مگر ان کی وفات تک شہر اور آس پاس کے دیہاتوں میں دسیوں اہلِ حدیث مساجد قائم ہو چکی تھیں۔ اور بلاشبہہ ان کی زندگی میں ڈسکہ شہر یا دور دراز دیہاتوں میں قائم ہونے والی ہر اہلِ حدیث مسجد میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا تعاون شامل ہوتا تھا۔ جب کبھی کسی جگہ اہلِ حدیث مسجد کے قیام میں مخالفین رکاوٹ ڈالتے یا بات تھانے کچہری تک پہنچ جاتی تو اس کے تحفظ کی خاطر ہر ممکنہ کوشش کرتے اور مقامی لوگوں کا بھرپور ساتھ دیتے، اور یہی عمر بھر ان کا وتیرہ رہا، جس کے کئی شواہد اور متعدد واقعات آپ کو زیرِ نظر کتاب میں بھی پڑھنے کو ملیں گے۔
کہتے ہیں: ’’مَنْ عَاشَ عَلَی شَيْئٍ مَاتَ عَلَیْہِ‘‘ یعنی انسان جس طرح زندگی گزارتا ہے، اس کی وفات بھی اسی طرزِ عمل پر ہوتی ہے۔ مولانا محمدی رحمہ اللہ پر بھی یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ جیسے وہ زندگی بھر دعوتِ دین اور مساجد کے دفاع وقیام کے لیے کوشاں رہے، مرضِ وفات سے قبل بھی وہ ڈسکہ کے نواحی گاؤں بھانوکے چیمہ میں نو تعمیر شدہ مسجد اہلِ حدیث کے تحفظ کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے، کیوں کہ وہاں مخالفین مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال رہے تھے اور مولانا اس وجہ سے بڑی عدالتی چارہ جوئی کر رہے تھے جس کا ان کی صحت پر بھی کافی اثر پڑا اور وہ بیمار ہو گئے۔ رحمہ اللّٰہ وغفر لہ
(۶)مولانا محمدی رحمہ اللہ ڈسکہ شہر میں اہلِ حدیث مسلک کی ایک موثر آواز تو تھے ہی، عوامی اور سرکاری طور بھی آپ کی شخصیت کو بڑا بلند مقام حاصل تھا۔ جب الیکشن کا موقع آتا مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواران آپ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو، مگر مولانا چونکہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے وابستہ تھے اور عمر بھر ڈسکہ شہر کے امیر بھی رہے، اس لیے آپ مسلم لیگ کے امیدواروں کی نہ صرف حمایت کرتے، بلکہ ان کی درخواست پر شہر اور دیہاتوں میں بھی لوگوں کو ان کا ساتھ دینے کی تلقین کرتے اور انتخابی جلسوں میں شرکت کرتے جس کا ان امیدواروں کو خاطر خواہ فائدہ ہوتا اور ایم۔ این۔ اے اور ایم۔ پی۔ اے حضرات ان کے شکر گزار ہوتے۔
میں نے خود یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا حیات صاحب نمازِ ظہر کے بعد مسجد ہی میں تشریف فرما تھے کہ مسلم لیگ ن کا نامور ایم۔ این۔ اے افتخار الحسن عرف ظاہرے شاہ مولانا کو سلام کرنے حاضر ہوا اور بیٹھ کر ان کے پاؤں دابنے لگا۔
مگر مولانا نے کبھی ان تعلقات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ ان مراسم کو بھی وہ مسلکِ اہلِ حدیث اور اس کے حاملین کی منفعت کے لیے کام میں لایا کرتے تھے۔
(۷)مولانا حیات صاحب کی بلند مرتبت شخصیت میں سادگی، انکساری، تواضع اور فروتنی جیسی عمدہ صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ بڑی نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آتے، ہٹو بچو کے مرض سے کوسوں دور تھے، کبھی کسی جگہ خود کو نمایاں کرتے نہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسی بات کرتے جس سے انتشار پھیلے اور گروہ بندی کی صورت پیدا ہو۔
آپ کے پاس آنے والا کوئی امیر ہوتا یا غریب، چھوٹا ہوتا یا بڑا، کامل توجہ سے اس کی بات سنتے اور ان میں کوئی فرق نہیں کیا کرتے تھے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا کہ عمر میں کوئی چھوٹا عالم یا طالبِ علم پاس بیٹھا ہوتا تو دینی مسائل میں اس کی رائے بھی پوچھتے اور اسے وزن دیتے۔ اگر کسی کم عمر عالمِ دین نے بھی دلیل سے بات کی جو ان کے موقف کے خلاف ہوتی تو اپنی رائے چھوڑ دیتے اور دوسرے کا موقف تسلیم کر لیتے۔ اس بات کا مشاہدہ تو کئی بار ہم نے خود بھی کیا کہ درسِ نظامی کے دوران میں جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ ہماری تعلیمی دلچسپی کے پیشِ نظر ہمارے ساتھ زیادہ تر شرعی مسائل ہی پر گفتگو کرتے اور غور سے سنتے کہ ہمارے پاس اپنے موقف کے دلائل کیا ہیں۔
مولانا محمدی رحمہ اللہ ایک مثالی اور بھرپور دعوتی واصلاحی زندگی گزار کر مئی 2005ء میں راہیِ ملک بقا ہوئے۔ بلاشبہہ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور دینی مساعی اس بات کی متقاضی تھیں کہ ان کی سیرت وکردار اور خدمات کو احاطہ تحریر میں لایا جاتا، تاکہ ایک تو ڈسکہ میں اہلِ حدیث دعوت اور اس کے نتائج کی تاریخ محفوظ ہو جاتی، دوسرا انھیں پڑھ کر نو آموز طلبہ اور دعوت کے میدان میں مصروف علماء سبق حاصل کرتے اور اپنی دعوتی زندگی میں ان سے راہنمائی لیتے۔
مگر افسوس کہ اس طرف اب تک کسی نے توجہ نہیں دی اور ڈسکہ شہر اور اس کے اطراف کی دعوتی اور تاریخی معلومات پردۂ خفا میں رہیں، جنھیں اب ہمارے عزیز دوست اور معروف قلم کار مولانا غلام مصطفی فاروق صاحب نے بڑی جاں فشانی سے مرتب کیا ہے اور ’’متاعِ حیات‘‘ (مولانا محمد حیات محمدی کے احوال وآثار) کے نام سے قارئین کے سامنے ایک تاریخی دستاویز پیش کی ہے۔ جزاہ اللّٰہ خیراً وبارک فیہ
مولانا فاروق صاحب کا تعلق ڈسکہ کے ایک نواحی گاؤں ریحان چیمہ سے ہے۔ آپ جامعہ محمدیہ اور جامعہ اسلامیہ گوجرانولہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طویل عرصہ متحدہ عرب امارات کے ادارہ اوقاف میں دعوتی کام میں مصروف رہے اور اب واپس آکر اپنے علاقے ہی میں مقیم اور درس وخطابت کی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ اسی دوران میں انھوں نے مختلف دعوتی اور معاشرتی موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں جن کی تعداد 18 ہے۔
مولانا غلام مصطفی صاحب نے اپنی کتاب ’’متاعِ حیات‘‘ میں مولانا محمد حیات محمدی رحمہ اللہ کے احوال وآثار اور ان کی دینی خدمات پر بڑی جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ان کی شخصیت اور خدمات کے ہر پہلو کو خوب محنت کے ساتھ منقح کیا ہے۔
کتاب کے مندرجات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تصنیف میں مولانا فاروق صاحب نے بڑی محنت اور تگ ودو کی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں، رسائل وجرائد کو کھنگالا اور اپنی ذاتی یاد داشتوں کو مرتب کیا۔
یہ مولانا فاروق صاحب کی خوش قسمتی رہی کہ جس شخصیت پر انھوں نے قلم اُٹھایا، ان کی صحبتیں بھی انھیں میسر رہیں، ان سے ملاقاتوں اور مجلسوں میں بہت کچھ انھیں دیکھنے کا موقع ملا، اور چونکہ ابھی مولانا محمدی رحمہ اللہ کی وفات پر 20 سال کا عرصہ ہی گزرا ہے، ان کے رفقاء اور مستفیدین بھی موجود ہیں جن سے مولانا فاروق صاحب نے خوب استفادہ کیا اور تمام معلومات کو صحت واستناد کے ساتھ جمع کیا۔
یہ کتاب 28 ابواب پر مشتمل ہے جن میں مولانا کی ولادت سے وفات تک ان کی شخصیت، خاندان، حصولِ علم، اساتذہ، دعوتی وجماعتی زندگی، اخلاق وعادات، رفقاء اور تصنیفات سے متعلق بڑی تفصیل سے معلومات جمع کی گئی ہیں اور حقیقت بات یہ کہ مولانا فاروق صاحب نے مولانا محمدی رحمہ اللہ سے رشتۂ وفا کا حق ادا کر دیا ہے اور ان کے متعلق اس قدر معلومات جمع کر دی ہیں کہ ان میں کوئی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ کتاب کے مندرجات کی ترتیب، زبان وبیان اور موضوعات کی تبویب میں کچھ بہتری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو امید ہے اگلے اِڈیشن میں کر دی جائے گی۔
بہر حال اللہ تعالیٰ اس کاوش اور سعیِ جمیل پر مولانا فاروق صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اسے ان کی حسنات میں شامل فرما کر صدقہ جاریہ اور اُخروی فلاح کا ذریعہ بنائے۔
یہاں میں مولانا محمد حیات محمدی رحمہ اللہ کے موجودہ رفقاء، جماعتی ساتھیوں اور متاثرین و مستفیدین کی توجہ بھی اس طرف مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا فاروق صاحب نے تو سالہا سال کی محنت سے یہ تاریخی مرقع آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر دیا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ حضرات اس کی اشاعت اور ترویج میں اپنا فرض بھی نبھائیں، اس کتاب کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنی جماعت کے رفقاء کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیں، تاکہ اس کا نفع عام ہو سکے اور جس مقصد کی خاطر یہ کام کیا گیا ہے وہ بھی حاصل ہو سکے۔ واللّٰہ الموفق
حواشی:
(۱)سطورِ بالا میں مذکور یہ تاریخی معلومات مسجد مبارک اہلِ حدیث ڈسکہ کے امام محترم حافظ محمد آصف صاحب سے بالمشافہہ ملاقات میں حاصل ہوئیں۔ جزاہ اللّٰہ خیراً وبارک فیہ
آپ کے تبصرے